شاید ھمیشہ سے مختلف قوم و ملت کے درمیان فال نیک اور بد شگونی کا رواج پایا جاتا ہے بعض چیزوں کو "فال نیک"قرار دیتے ہیں جس کو کامیابی کی نشانی اور بعض چیزوں کو "بد شگونی" ناکامی اور شکست کی نشانی سمجھتے تھے،
جبکہ ان چیزوں کا کامیابی اور شکست سے کوئی منطقی تعلق نھیں پایا جاتا،خصوصاً بد شگونی کے سلسلہ میں بھت سی نامعقول اور خرافات قسم کی چیزیں رائج ہیں۔
اگرچہ ان دونوں کا طبیعی اثر نھیں ہے لیکن نفسیاتی اثر ھوسکتا ہے، فالِ نیک انسان کے لئے امید اور تحریک کا باعث ہے اور بدشگونی ناامید اور سستی کا سبب بن سکتی ہے۔
شاید اسی وجہ سے اسلامی روایات میں فالِ نیک سے ممانعت نھیں کی گئی ہے لیکن فالِ بد اور بد شگونی کے لئے شدت سے ممانعت کی گئی ہے، چنانچہ ایک مشھور و معروف حدیث میں پیغمبر اکرم(ص) سے منقول ہے: "تَفَاٴلُوا بِالخَیْرِ تَجِدُوْہُ" (اپنے کاموں میں فال نیک کرو (اور امیدواررھو) تاکہ اس کے انجام تک پھنچ جاؤ) اس حد یث میں اس موضوع کا اثباتی پھلو منعکس ہے، اور خود آنحضرت (ص) ،ائمہ دین علیھم السلام کے حالات میں بھی یہ چیز دیکھنے میں آئی ہے کہ یہ حضرات بعض مسائل کو فال نیک سمجھے تھے ،مثال کے طور پر جب سر زمین "حدیبیہ" میں مسلمان کفار کے مقابل قرارپائے اور "سہیل بن عمرو" کفارمکہ کا نمائندہ بن کر پیغمبر اکرم (ص) کے پاس آیا،جب آنحضرت (ص) اس کے نام سے با خبر ھوئے تو فرمایا: "قدْ سھلَ علیکم اٴمرَکمْ" (یعنی میں "سھیل" کے نام سے تفاٴل کرتا ھوں کہ تمھارا کام سھل اور آسان ھوگا"۔(۱)
چھٹی صدی ھجری کے "دمیری" نامی مشھور و معروف دانشور موٴلف نے اپنی ایک تحریر میں اس بات کی طرف اشارہ کیا ہے کہ پیغمبر اکرم (ص) اس وجہ سے فالِ نیک کیا کرتے تھے کیونکہ جب انسان فضل پروردگار کا امیدوار ھوتا ھے تو راہ خیر میں قدم بڑھاتا ہے لیکن جب رحمت پروردگار کی امید ٹوٹ جاتی ہے تو پھر برے راستہ پر لگ جاتاہے، اور فال بد یا بد شگونی کرنے سے بدگمانی پیدا ھوتی ہے اور انسان بلا اور بدبختی سے خوف زدہ رھتا ہے۔(۲)فال بد یا بد شگونی کے بارے میں اسلامی روایات نے بھت شدت کے ساتھ مذمت کی ہے، جیسا کہ قرآن مجید میں متعدد مقامات پر اس بات کی طرف اشارہ کرتے ھوئے اس کی مذمت کی ہے(۳) ، نیز پیغمبر اکرم (ص) کی ایک حدیث میں بیان ھوا ہے: "الطَّیْرةُ شِرْکٌ"(۴) (بد شگونی کرنا )اور انسان کی زندگی میں اس کو موثر ماننا( ایک طرح سے خدا کے ساتھ شرک ہے)۔
اسی طرح ایک دوسری جگہ بیان ھوا ہے کہ اگر بد شگونی کا کوئی اثر ہے تو وھی نفسیاتی اثر ہے، حضرت امام صادق علیہ السلام نے فرمایا: "بد شگونی کا اثر اسی مقدار میں ہے جتنا تم اس کو قبول کرتے ھو، اگر اس کو کم اھمیت مانو گے تو اس کا اثر کم ھوگا اور اگر اس سلسلہ میں تم بھت معتقد ھوگئے تو اس کا اثر بھی اتنا ھی ھوگا، اور اگر اس کی بالکل پروا نہ کرو تو اس کا بھی کوئی اثر نھیں ہوگا"۔(۵)
اسلامی روایات میں پیغمبر اکرم (ص) سے نقل ھوا ہے کہ بد شگونی سے مقابلہ کرنے کے لئے بھترین راستہ یہ ہے کہ اس پر توجہ نہ کی جائے، چنانچہ پیغمبر اکرم (ص) سے منقول ہے: " تین چیزوں سے کوئی بھی نھیں بچ سکتا، (جنّات کا وسوسہ اکثر لوگوں کے دلوں پر اثر کر جاتا ہے) فال بد یا بد شگونی، حسد اور سوء ظن، اصحاب نے سوال کیا کہ ان سے بچنے کے لئے ھم کیا کریں؟ تو آنحضرت نے فرمایا: جب کوئی تمھارے لئے بد شگونی کرے تو اس پر توجہ نہ کرو، جس وقت تمھارے دل میں حسد پیدا ھو تو اس کے مطابق عمل نہ کرو اور جب تمھارے دل میں کسی کی طرف سے سوء ظن (اوربد گمانی) پیدا ھو تو اس کو نظر انداز کردو"۔
عجیب بات تو یہ ہے کہ یہ فال نیک اور بد شگونی کا موضوع ترقی یافتہ ممالک اور روشن فکر یھاں تک کہ مشھور و معروف نابغہ افراد کے یھاں بھی پایا جاتا ہے، مثال کے طور پر مغربی ممالک میں زینہ کے نیچے سے گزرنا، یا نمکدانی کا گرنا یا تحفہ میں چاقو دینا وغیرہ کو بد شگونی کی علامت سمجھا جاتا ہے!
البتہ فالِ نیک کا مسئلہ کوئی اھم نھیں بلکہ اکثر اوقات اس کا اثر مثبت ھوتا ہے، لیکن بد شگونی سے مقابلہ کرنا چاھئے اور اپنے ذھن سے دور کرنا چاھئے، جس کا بھترین راستہ یہ ہے کہ انسان خداوندعالم پر توکل اور بھر پور بھروسہ رکھے، جیساکہ اسلامی روایات میں اس چیز کی طرف اشارہ بھی کیا گیا ہے۔(۶)
حوالہ:
۱۔المیزان ، جلد ۱۹، ص ۸۶۔
۲۔ سفینة البحار ، جلد دوم، ص ۱۰۲۔
۳۔ مثلاً: سورہٴ یس ، آیت ۱۹، سورہٴ نمل ، آیت ۴۷، سورہٴ اعراف آیت۱۳۱۔
۴ و۵۔ المیزان ، محل بحث آیت کے ذیل میں۔
منبع:۱۱۰ سوال اور جواب ؛ مؤلّف : آٰیۃ اللہ مکارم شیرزای