آج کی سائنس یہ کھتی ھے :
”انسان کا اصل وجود ایک خَلیہ " Cell "]جسم کا مختصر ترین حصہ]سے هوا ھے اوریھی ایک خلیہ"Cell" ھر مخلوق کی بنیاد ھے اورھر خلیہ ایک باریک پردہ میں لپٹا هوا هوتا ھے (جو غیر جاندار هوتا ھے) اور یھی پردہ، خلیہ کی شکل وصورت کو محدود کرتا ھے، پھر اس پردہ کے اندر سے خلیہ کا احاطہ کرلیتا ھے ایک اور جاندار پردہ، جو نھایت صاف و شفاف اور رقیق هوتا ھے اور یھی وہ پردہ ھے جو خلیہ میں دوسرے جزئیات کو داخل هونے کی اجازت دیتا ھے اور بعض جزئیات کو اس سے خارج هونے کا حکم دیتا ھے۔
اس کے بعد اس میں مختلف قسم کے لاکھوں کیمیاوی "Chemistry"(کیمسٹری) اجزاء پائے جاتے ھیں لیکن یہ اجزاء بھت ھی محدود هوتے ھیں ، چنانچہ ان میں سے بعض تو اتنے نازک هوتے ھیں کہ صرف دوذرّوں والے هوتے ھیں (جیسے کھانے کا نمک) اور بعض تین ذرووں والے هوتے ھیں (جیسے پانی کے اجزاء) اور بعض چار، پانچ، دس، سو اور ھزار اجزاء والے هوتے ھیں جبکہ بعض لاکھوں ذرات سے تشکیل پاتے ھیں (جیسے پروٹن "Proten" اور وراثتی "Geneticcs"اجزاء)
اسی طرح ھزاروں قسم کے اجزاء کا سلسلہ جاری رھتا ھے جن میں سے انسانی حیات کے لئے بعض قسم کے اجزاء پیدا هوتے ھیں اور بعض ختم هوجاتے ھیں اور یہ سب ایک دقیق کیمیاوی مشین کے ذریعہ فعالیت جاری رکھتے ھیں جن کے سامنے انسانی فکردنگ رہ جاتی ھے۔
آج کے اس ترقی یافتہ دور میں بھی ھم اس بات پر قادر نھیں ھیں کہ پروٹن کا ایک چھوٹا سا جز بھی بنالیں،جبکہ خود خلیہ کے اندر چندسیکنڈ کے اندر بن جاتا ھے۔
اور صرف پروٹن ھی نھیں ھیں بلکہ کیمیاوی مختلف عملیات ھیں جو بھت زیادہ دقیق ، نظام دقیق خلیہ اور اس کی ھیئت کے قانون کے زیر نظر جاری هوتی ھے ، اور اسی کو خلیہ کا کیمیاوی ادارہ کھا جاتا ھے۔
اسی خلیہ اوراس پر حاکم ادارہ کے اندر بھت سے اھم امور تشکیل پاتے ھیں۔ چنانچہ اس خلیہ میں دو جزء پائے جاتے ھیں جو دونوں اس کی زندگی میں بھت قیمتی جزء هوتے ھیں جن کے نام درج ذیل ھیں:
پھلا : حامض ھے، جس کو ”حامض ڈی اوکسی ریبو نیوکلیک“ "Deoxy Ribonuclec acid"کھا جاتا ھے جس کا مخفف "h.d,n"هوتا ھے۔
دوسرا: حامض اس کو ”حامض ریبو نیو کلیک “ "Ribonuclec Acid "کھا جاتا ھے اوراس کا مخفف ”ح۔ر۔ن“ "h.r.n"هوتا ھے۔
لیکن ”ح۔ ڈ ۔ ن“ ، ” ح۔ر۔ن“سے بھت زیادہ شباھت رکھتا ھے صرف تھوڑا سا فرق ھے لیکن یہ کیمیاوی فرق ھی عالم خلیہ "Cells"میں اصل ھے مثلاً وراثتی "Geneticcs" اجزاء میں ”ح۔ ڈ ۔ ن“ھی اصل ھے اور ”ح۔ر۔ن“کا درجہ اس سے کم ھے۔
لہٰذا خلیہ کی زندگی اسی طریقہ ”ح۔ ڈ ۔ ن“ھی کی وجہ سے یہ اجزاء بڑھتے ھیں اور ان ھی کی وجہ سے اصل کے مطابق شکل وصورت بنتی ھے چنانچہ اس کے تحت کروڑوں سال سے انسان کی شکل وصورت اسی طریقہ پر هوتی ھے اور اس میں کوئی تبدیلی نھیں آتی، اسی طریقہ سے گدھا اور مینڈھک میں بھی ھیں کہ وہ اسی طرح کی شکل وصورت رکھتے ھیں اورا نھیں اپنے اپنے خلیوں کی بنا پر انسان بنتا ھے ، گدھا اور مینڈھک بنتا ھے اورھر مخلوق کی تمام صفات انھیں ”ح۔ ڈ ۔ ن“کی بنا پر بنتی ھیں۔
اور یھی ”ح۔ ڈ ۔ ن“ ”ح۔ ر۔ ن“کو دوسرے اجزاء کے بنانے کے لئے معین کرتے ھیں تاکہ چھوٹے چھوٹے وہ اجزاء جن پر فعالیت کرنا اس ”ح۔ ڈ ۔ ن“کی شایان شان نھیں ھے ان ”ح۔ر۔ن“ فعالیت انجام دیں اور یہ ”ح۔ ر ۔ ن“چھوٹے چھوٹے اجزاء پر حکومت کرتے ھیں یھاں تک کہ ان اجزاء کی تعداد اس قدر زیادہ هوجاتی ھیں جو معمہ کی شکل بن جاتی ھے۔
چنانچہ اس ایک خلیہ"Cell" کی ترکیب وترتیب سے انسان بنتا ھے اور انھیں سے انسان کے تمام اعضاء وجوارح بنتے ھیں اس کی وجہ سے بعض انسان پستہ قد اور بعض دیگر لوگ بلند قد هوتے ھیں بعض کالے اور بعض گورے هوتے ھیں، در حقیقت انسان کی حیات اسی خلیہ کی بنا پر هوتی ھے،جبکہ آج کا سائنس اس ترکیب کو کشف کرسکتا ھے اس کی حرکت کا مقایسہ کرسکتا ھے اور اس کے مادہ کی تحلیل اور طریقہ تقسیم کو معلوم کرسکتا ھے لیکن اس میں چھپے حیاتی اسرار کو جاننے والے ماھرین بھی اس بات کا اعتراف کرتے ھیں کہ یہ کام صرف اور صرف خداوندعالم کی ذات کا ھے۔
چنانچہ شکم مادر میں جو بچہ هوتا ھے کس طرح اپنی غذا حاصل کرتا ھے، کس طرح سانس لیتا ھے اور کس طرح اپنی حاجت کو پورا کرتا ھے ،کس طرح اپنے اندر موجود اضافی چیزوں کو باھر نکالتا ھے اور کس طرح اپنی ماں کے شکم سے جڑا هوتا ھے جس کی وجہ سے وہ غذا حاصل کرکے اپنی آخری منزل تک پهونچتا ھے، کیونکہ بچہ کی غذا اس تک پهونچنے سے پھلے کس طرح تیار هوتی ھے اور اس تک پهونچتی ھے یا جو غذا اس کے لئے باعث اذیت هوتی ھے کون سی چیز اس تک پهونچنے میں مانع هوتی ھے؟!
اور جب حمل (بچہ) اپنی آخری منزل پر پهونچ جاتا ھے تو پھر وہ کثیر غدد (رحم مادر)سے جدا هوجاتا ھے کیونکہ وہ غدد مختلف اغراض کے لئے هوتے ھیں ان میں سے بعض تو وہ هوتے ھیں جن کی وجہ سے رحم کھلتا اوربند هوتا ھے ان میں ھی سے بعض وہ هوتے ھیں جن کی وجہ سے بچہ پیر پھیلاسکتا ھے اور انھیں میں سے بعض وہ هوتے ھیں جن کی وجہ سے بچہ کی پیدائش طبیعی طور پر هونے میں مدد ملتی ھے۔
اور چونکہ پستان بھی ایک غدہ ھے اور جب حمل پورا هوجاتا ھے تو پھر اس میں دودھ پیدا هوجاتا ھے جو ھلکے زرد رنگ کا هوتا ھے اور واقعاً یہ عجیب چیز ھے کہ یہ دودھ ایسے کیمیاوی اجزا سے بنتا ھے جو بچے کو بھت سی بیماریوں سے بچاتا ھے لیکن یہ ولادت کے بعد ھی پیدا هوتا ھے اور واقعاً نظام قدرت کس قدر عظیم ھے کہ پستان مادر میں ھر روز اس دودھ میں اضافہ هوتا رھتا ھے اور اس دودھ کے اجزاء میں تبدیلی هوتی رھتی ھے کیونکہ شروع میں یہ پانی کی طرح هوتا ھے جس میں اجزاء رشد اور شکر کم هوتی ھے لیکن (بچہ کی ضرورت کے تحت) اس میں اجزاء رشد ونمو ، شکر اور چربی بڑھتی رھتی ھے۔
اور جب بچہ بڑا هوجاتا ھے تواس کے منھ میں دانت نکلنا شروع هوتے ھیں کیونکہ اس وقت بچہ کچھ کھانا کھاسکتا ھے چنانچہ انھیں دانتوں کو خدا کی نشانیوں میں شمار کیا جاتا ھے اور یہ بھی مختلف طریقہ کے هوتے ھیں کچھ کھانا کاٹنے کے لئے هوتے ھیں تو کچھ چبانے کے لئے اور ان میں چھوٹے بڑے بھی هوتے ھیں تاکہ کھانے کو اچھی طرح چبایا جاسکے، اگرچہ بعض ماھرین نے انسان کے مصنوعی دانت بنالئے ھیں یا دانتوں میں تبدیلی کے طریقے بنالئے ھیں لیکن وہ بھی خدا کی قدرت کا اقرار کرتے هوئے کھتے ھیں کہ انسان کے اصلی دانت ھی طبیعی نظام کو مکمل کرسکتے ھیں اگرچہ انھوں نے طبیعی دانتوں کی طرح مصنوعی دانت بنالئے ھیں ۔
اسی طرح جب بچہ کا دودھ چھڑایا جاتا ھے اور وہ کھانا کھانا شروع کردیتا ھے تو خداوندعالم کی بھت سی نشانیاں ظاھر هونے لگتی ھیں کیونکہ ھم دیکھتے ھیں کہ انسان کے اندر کتنی عجیب خلقت ھے جو انسان کی زندگی کو محفوظ کرتی ھے، مثلاً انسان کے منھ میں تین راستہ هوتے ھیں ایک ناک والا، ایک سانس والا اور ایک حلق والا راستہ هوتا ھے۔
چنانچہ آج کا علم طب کھتا ھے کہ اگرکچھ گرد وغبار سانس والے راستہ سے جانا چاھے تو وہ خود بخود رک جاتا ھے اس طرح سانس والے راستہ سے غذا بھی نھیں جاسکتی جبکہ یہ سب راستے ایک دوسرے سے ملے هوئے هوتے ھیں اور اگر غبار کا ایک ذرہ بھی (کھانے پینے کی چیزیں تو دور کی بات ھے) سانس والی نالی میں پهونچ جائے تو انسان فوراً مر جائے گا اور اس کام کے لئے ”چھوٹی زبان“ کا کردار عجیب وغریب ھے جو کھانے کے راستہ سے صرف غذائی چیزوں ھی کو جانے دیتی ھے اور اس زبان کی خلقت کتنی عجیب ھے کہ دن میں سیکڑوں مرتبہ انسان کھاتاپیتا ھے لیکن کبھی بھی یہ زبان غلطی نھیں کرتی بلکہ غذا کو اپنے مخصوص راستہ ھی سے اندرجانے دیتی ھے۔
اس کے بعد اس غذا کے ھاضمہ کی بات آتی ھے تو واقعاً کتنے منظم اور دقیق لحاظ سے یہ کھانا ھضم هوتا ھے کیونکہ ایک خاص مشین کی دقیق فعالیت کے ذریعہ کھانا ھضم هوتا ھے جو اس بات کی بھترین دلیل ھے کہ اس بھترین نظام کو خلق کرنے والی اللہ کی ذات ھے۔
کیونکہ انسان دن بھر مختلف چیزیں کھاتا ھے چاھے وہ بہنے والی هوں یا منجمد (جمی هوئی)، سخت هوں یا نرم، ھلکی هو ں یا بھاری، کڑوی وتیز هوں یا میٹھی، ٹھنڈی هوں یا گرم یہ سب کی سب صرف ایک ھی چیز اور ایک ھی طریقہ سے ھضم هوتی ھیں کیونکہ اس غذا پر ایک ترش (کڑوے) قسم کے غدہ سے کچھ رس نکلتا ھے جو اس غذا کو ھضم کرتا ھے او راگر یہ رس ذرا بھی کم هوجائے تو غذا ھضم نھیں هوگی اور اگر تھوڑا بھی زیادہ هوجائے تو انسان کا جسم جلنے لگے او رپورے بدن میں سوزش هونے لگے۔
اور جس وقت غذا منھ میں رکھی جاتی ھے تو ھاضمہ سسٹم کا پھلا کام شروع هوجاتا ھے کیونکہ یہ غذا لعاب دھن سے مخلوط هوتی ھے اور لعاب لعابی غدود سے نکلتا ھے جو کھانے کوھضم کرنے کا پھلا مرحلہ هوتا ھے کیونکہ جس طرح یہ لعاب کڑوی ، تیز اور تکلیف دہ چیزوں کے اثر کو ختم کرنے میں اصلی عامل ھے، اور اسی کی وجہ سے کھانے کے درجہ حرارت کو کم کیا جاتا ھے اور ٹھنڈی چیزوں کی ٹھنڈک کو کم کیا جاتا ھے چاھے وہ برف ھی کیوں نہ هو،بھرحال جب یہ غذا دھن میں اپنے لعاب کے ذریعہ خوب چباکر مھین کرلی جاتی ھے تووہ پھر وہ آھستہ آھستہ حلق تک پهونچتی ھے اس کے بعد آنتوں کے ذریعہ معدہ تک پهونچتی ھے، اور یہ معدہ ”کلور وڈریک حامض“ جدا کرتا ھے، کیونکہ یہ کلور معدہ سے خاص نسبت رکھتا ھے اور اس کی نسبت ھزار میں چار یا پانچ هوتی ھے، اور اگر اس حامض کلورکی نسبت زیادہ هوجائے تو پھر پورا نظام معدہ جل اٹھے گا،چنانچہ یھی کلور حامض مختلف اجزا میں جدا هونے کے بعد کھانے کو اچھے طریقہ سے ھضم کردیتا ھے، لہٰذا یہ آنتوں کا عصارہ اور عصارہ ٴ زردنیز ”بنکریاس“ وغیرہ یہ تمام عصارات اس غذا سے ملائمت رکھتے ھیں۔
اسی طرح آج کی سائنس یہ بھی کھتی ھے کہ وہ پانی جو معدہ اور آنتوں سے نکلتا ھے اس طرح وہ پانی جو ان کے پردوں میں هوتا ھے یہ دونوں ان اھم عاملوں میں سے ھیں جو مختلف قسم کے مکروب"Microbe سے لڑتے ھیں کیونکہ جب یہ عصارات (پانی) نکلتے ھیں تو دوسرے قسم کے پانی ان دونوں کے درمیان حائل هوجاتے ھیں اور ایک دوسرے سے ملنے نھیں دیتے یھاں تک وہ فضلہ کے ساتھ انسان سے خارج هوجاتے ھیں۔
چنانچہ ابھی چند سال پھلے تک یہ بات معلوم نھیں تھی کہ ان ”صمّاء غدوں“ (بھرے غدوں) کاکیا کام ھے۔
اورکیمیاوی چھوٹے عامل جسم کی ضروری ترکیبات کو پورا کرتے اور ان کے کروڑوں اجزاء هوتے ھیں، اور اگر ان میں سے کوئی ایک جزء بھی ناکارہ هوجائے تو انسان کا پورا جسم متاثر هوجاتا ھے کیونکہ ان غدوں سے نکلنے والا پانی جو ایک دوسرے کی تکمیل کا باعث هوتا ھے ،چنانچہ ان میں ذرا سا بھی اختلال، انسان کے لئے خطرہٴ جان بن جاتا ھے۔
اور واقعاً یہ بھی عجیب بات ھے کہ آج کا سائنس اس نتیجہ پر پهونچ چکا ھے کہ انسان کے جسم میں موجود انتڑیاں ساڑھے چھ میٹر کی هوتی ھیں او ران کے اندر دو طرح کی حرکت هوتی ھے:
۱۔ ”حرکت خلط“ جس کے ذریعہ کھانے کو اچھی طرح باریک کیا جاتا ھے اور آنتوں میں موجود مختلف قسم کے عصارات سے وہ کھانا بالکل ھضم هوجاتا ھے۔
۲۔ ھضم شدہ کھانے کو جسم کے مختلف اعضاء تک پهونچانا اور آنتوں میں جس وقت کھانا ھضم هوتا ھے تویہ کھانا دوحصوں میں تقسیم هوجاتا ھے ھضم شدہ کھانا (غذائیت) اور غلاظت، لہٰذا اس حرکت کی بنا پر انسان کے جسم سے صرف غلاظت باھر نکلتی ھے جس کے باقی رھنے سے کوئی فائدہ نھیں هوتا (بلکہ نقصان هوجاتا ھے)
اسی انسان کے جسم میں ان پیچیدہ مختلف کیمیاوی مادوں کے علاوہ دوسرے” میکروب “ "Microbe"، جراثیم"Virus" اور باکٹریا "Bacteria" بھی هوتے ھیں جیسا کہ ماھرین علم کا کھنا ھے کہ اگر میکروب اور جراثیم میں کسی قسم کا کوئی اضافہ هوجائے یا ان میں سے کوئی اپنا کام کم کرنے لگے یا ان کا تناسب کم وزیاد هوجائے تو انسان ھلاک هوجاتا ھے۔
اور یھی غدّے اور ان سے نکلنے والا مختلف قسم کا پانی ھی آٹومیٹک طریقہ سے کھانے کو مشکل سے آسان ، سخت سے نرم اور نقصان دہ سے فائدہ مند بنادیتے ھیں چنانچہ ماھرین علم نے معدہ کے اندر ان میکروب اور جراثیم کی تعداد ایک مربع سینٹی میٹر(C.M) میں ایک لاکھ بتائی ھے ۔
اسی طرح ھمارے پورے جسم پرجو کھال هوتی ھے اس کے اندرایسے سوراخ هوتے ھیں جن کے ذریعہ بدن سے فاضل پانی (پسینہ) نکلتا ھے لیکن قدرت کانظام دیکھئے کہ اس کھال کے سوراخوں سے باھر کا پانی اندر نھیں جاتا اور چونکہ فضا میں موجود جراثیم جب اس کھال کے اوپر حملہ آور هوتے ھیں تو یھی کھال ان کو مار ڈالتی ھے اور جب بیرونی جراثیم اس کھال پر غلبہ پانا چاھتے ھیں اور منطقہ جلدکو اکھاڑپھینکنا چاھتے ھیں تو یھاں پر ایک جنگ کا دور شروع هوجاتا ھے اور اس جگہ نگھبان جراثیم جو جلد کی حفاظت کی خاطر پائے جاتے ھیں وہ جلدی سے اس جنگ کے موقع پر حاضر هوجاتے ھیں اور اپنے دشمن کے اردگرد ایک مضبوط حصار بنادیتے ھیں اس کے بعد یاتویہ ان باھری جراثیم کو جسم سے دور کرنے میں کامیاب هوجاتے ھیں یا پھر ھمارے جسم کا نگھبان جراثیمی گروہ حملات کی تاب نہ لاکر موت کے گھاٹ اترجاتا ھے لیکن فوراً اس کے بعد جسم کا نگھبان دوسراگروہ حاضر هوجاتا ھے اور وہ بھی بیرونی جراثیم سے مقابلہ کرنا شروع کردیتا ھے اور جب یہ گروہ بھی تاب مقاومت کھوبیٹھتا ھے تو پھر تیسرا گروہ آتا ھے اسی طریقہ سے یکے بعد دیگرے بیرونی جراثیم سے مقابلہ کرنے کے لئے جسم کے نگھبان گروہ آتے رھتے ھیں یھاں تک کہ یہ نگھبان گروہ بیرونی جراثیم کوشکست دینے میں کامیاب هوجاتے ھیں، اور یہ جسم کے نگھبان گروہ خون کے ذرات هوتے ھیں ، جن کی تعداد تقریباً تیس ہزار بلین"Billion" (30,000,000,000,000,000,) هوتی ھے جس میں کچھ ذرے سفید هوتے ھیں اور کچھ سرخ۔
چنانچہ جب آپ کھال کے اوپر کسی سرخ پھنسی کو دیکھیں کہ جس کے اندر پیپ پیدا هوچکا ھے تو سمجھ لیں کہ وہ گروہ جوجسم کی حفاظت کے لئے مامور تھا وہ اپنے دشمن سے مقابلہ کرنے میں مرجاتا ھے کیونکہ یہ اپنے وظیفہ کی ادائیگی میں مارا گیا ھے اور یہ پھنسی کے اندر جو سرخی ھے یہ خون کے وھی ذرات ھیں جو اپنے خارجی دشمن کے سامنے ناکام هونے کی صورت میں پھنسی کی شکل میں پیدا هوگئے ھیں۔
اسی طرح اگر ھم کھال پر تھوڑی سی دقت کریں تب ھمیں اس کی عجیب خلقت کا احساس هوگا کیونکہ جب انسان اس خلقت پر توجہ کرتا ھے تو یھی انسان کا سب سے بڑا عضو دکھائی دیتا ھے چنانچہ ایک متوسط قامت انسان کی کھال تقریبا تین ھزار بوصہ (دو میٹر) هوتی ھے اور ایک مربع بوصہ میں دسیوں چربی کے غدے اور سیکڑوں عرق کے غدے اور سیکڑوں عصبی خلیے "Cells" هوتے ھیں جن میں چند هوائی دانہ هوتے ھیں اور ملیونوں خلیے هوتے ھیں۔
اور اس کھال کی ملائمت اور لطافت کے بارے میں اگر ھم بات کریں تو اس کو ھماری آنکھیں جس طریقہ سے دیکھ رھی ھیں در حقیقت یہ کھال ویسی نھیں ھے بلکہ اگر اس کو میکرواسکوپ"Maicroscope" کے ذریعہ دیکھیں تو یہ کھال اس سے کھیں زیادہ فرق رکھتی ھے جیسا کہ ھم دیکھتے ھیں، چنانچہ جب ھم اس میکرواسکوپ کے ذریعہ دیکھیں گے تو اس کے اندربھت سے ابھاراور بہت سے گڑھے نظر آئیں گے جیسے بال کی جڑوں کے سوراخ، جن کے اندر سے روغن نکلتا ھے تاکہ ھماری کھال کی سطح کو چربی مل سکے، اور انھیں جڑوں کے ذریعہ پسینہ نکلتا ھے اور یہ پسینہ وہ سسٹم ھے کہ جب درجہ حرارت شدید هوتا ھے تو جلد کو شدت گرمی سے محفوظ رکھتا ھے۔
اسی طرح اگر آپ کھال کے باھری حصہ کو میکرواسکوپ کے ذریعہ مشاھدہ کریں تو اس میں واضح طور پر ان اسباب کو دیکھیں گے جن کی وجہ سے کوئی چیز باھر نکلتی ھے، جس طرح پھاڑوں، پتھروں وغیرہ میں هوتے ھیں۔
اسی طرح ھمارے جسم کی کھال کجھلانے یا دھونے سے بعض چیزیں خارج هوتی ھیں، اور اس کھال سے بعض مواد کے خارج هونے کا نتیجہ یہ هوتا ھے کہ اس کھال پر ایک باریک پردہ پیدا هوتا ھے جس کو ھم اپنی آنکھوں سے دیکھتے ھیں لیکن اگر اس کو میکرواسکوپ کے ذریعہ دیکھیں تو گویا بھت سے مردہ خلیے ھیں جو اپنی اصلی حالت کو کھوبیٹھے ھیں، چنانچہ ھر روز اسی طرح ھماری کھال پر ھزاروں باریک باریک پردہ بدلتے رھتے ھیں ،لیکن اگر یھی مردہ کھال تبدیل نہ هو تو انسان کی صورت مسخ شدہ حیوان کی طرح دکھائی دے، لہٰذا ان مردہ خلیوں اورمردہ کھال کے لئے ضروری ھے کہ یہ تبدیل اور تعویض هوتی رھے، تاکہ ان مردہ کھال کی جگہ نئی کھال آجائے، اور یہ سلسلہ اس زندگی میں چلتا رھتا ھے ، بھر کیف ھر جسم کے لئے اسی طرح کی کھال کا بدلتے رھنا ضروری ھے گویا یہ خلیوں کا ایک طبقہ هوتا ھے، جبکہ کھال کے اندر سے ان کی غذا ان تک پهونچتی رھتی ھے تاکہ دن میں لاکھوں خلیے بنتے رھیں اور مردہ هوکر باھر نکلتے رھیں۔
اسی طرح ھمیں انسان کے جسم کے بارے میں بھی توجہ کرنی چاھئے !کیونکہ اسی انسان کے کان کے ایک جز میں ایسا سلسلہ هوتا ھے جو چار ھزارباریک اور ایک دوسرے سے بندھے هوئے قوس(کمان) سے بنتا ھے، جو حجم اور شکل وصورت کے لحاظ سے ایک عظیم نظام کی نشاندھی کرتا ھے۔
چنانچہ ان کو دیکھ کر یہ کھا جاسکتا ھے کہ گویا یہ ایک آلہ ٴ موزیک ھے کیونکہ ان ھی کے ذریعہ انسان کی سنی هوئی باتیں عقل تک پهونچتی ھیں ، چاھے وہ معمولی آواز هو یا بجلی کی آواز سبھی کوعقل انسانی سمجھ لیتی ھے کہ یہ کس چیز کی آواز ھے۔
اسی طرح انسان میں عجیب وغریب گذشتہ چیزوں کے علاوہ دوسری چیزیں بھی موجود ھیں جیسے قوت سامعہ (کان)، قوت باصرہ، (آنکھ) قوت شامہ (ناک) اور انسانی ذوق، انسان کی ھڈیاں، رگیں، غدے، عضلات ونظام حرارت وغیرہ۔
المختصر یہ کہ طرح انسانی وجود میں ھزاروں دلیلیں موجود ھیں جو اس بات پر دلالت کرتی ھیں کہ انسانی جسم کا یہ نظام ایک اتفاق نھیں ھے اور نہ ھی اتفاقی طور پر پیدا هوگیا ھے اور نہ ھی ”بے جان مادہ“ کی حرکت کا نتیجہ ھے (جیسا کہ بعض لوگ کھتے ھیں)۔
ھم اس سلسلے کی اپنی بحث کے اختتام پر سائنس کے کشف شدہ نتیجہ پر ختم کرتے ھیں جو کھتا ھے کہ انسان کے جسم میں ایک عجیب وغریب سسٹم ھے جس کو ”کروموسوماٹ“ "Chromosomic" کھا جاتا ھے۔
کیونکہ ”کروموسوماٹ“ بھت ھی دقیق اور باریک ریشہ هوتا ھے جس کی تشکیل ایسے ذرات کرتے ھیں جن پر ایک باریک پردہ هوتا ھے اور وہ اپنے اطراف کی تمام چیزوں سے جدا ومحفوظ رھتا ھے، گویا یہ باریک ریشہ اپنے اس مقصد کے تحت اپنا پورا کام بغیر کسی رکاوٹ کے انجام دیتا رھتا ھے، لیکن یہ باریک پردہ دوسرے کیمیاوی مرکبات سے مل کر بغیر کسی رکاوٹ کے رشد ونموکرتے ھیں،جو”سیٹوپلازم“ "Cytoplasm"سے اس باریک پردہ کی طرف مندفع هوتے ھیں، تاکہ ان کیمیاوی مرکبات کے ذریعہ ”کروموسوماٹ“ سے اجزاء تشکیل پائیں، اور زندگی کے مورد نیاز عناصر کی تخلیق هوسکے۔
کیونکہ کروموسوماٹ کی ترکیب "D.N.A"کے اجزاء سے هوتی ھے جس کو ” وراثتی "Geneticcs"“ اجزاء بھی کھا جاتا ھے،اس کی وجہ سے انسان لمبا اور ناٹا هوتا ھے اور اسی کی بنا پر انسان کے جسم، آنکھ اور بالوں کا رنگ تشکیل پاتا ھے اور ان تمام سے بالا تر انسان کی آدمیت تشکیل پاتی ھے اور انھیں وراثتی اجزاء کی بناپر گھوڑے سے گھوڑا ھی پیدا هوتا ھے اوربندر سے بندر، چنانچہ اسی کے باعث ھر مخلوق اپنی خاص شکل وصورت پر پیدا هوتی ھے اور کروڑوں سالوں سے ھر مخلوق اپنی گذشتہ صنف کے مشابہ پیدا هوتی ھے، چنانچہ کبھی آپ نے یہ نہ دیکھا هوگا کہ کسی انسان سے گدھا متولد هوا هو، یا کسی گدھے سے بندر پیدا هوا هو؟! اور کسی درخت سے پھولوں کی جگہ پرندے پیدا هوئے هوں؟!!۔
کیونکہ یہ تمام صفات "D.N.A"کی بناپر هوتے ھیں۔
اوران ”جزیٴ“(اجزاء)کی تشکیل کا طریقہ کار بھت ھی عمدہ اور بھترین ھے ،اور یہ گول قسم کے هوتے ھیں اور باھم ملے ذرات سے مل کر کبھی تو ”ریبوز“ نامی سوگر "Sugar"پیدا هوتی ھے ، جس کا پتہ ماھرین آج تک نھیں لگاپائے کہ کھاں سے آتی ھے اورکیسے پیدا هوتی ھے، اور ریبوز”فاسفیٹ“"Phoohate" کے ذرات سے مرتبط ھے،اور یہ عمل کروڑوں مرتبہ تکرار هوتا ھے فاسفیٹ اور شوگر کے درمیان،اور اس کا ھمیشہ ایسے عمل کرتے رھنا ضروری ھے۔
چنانچہ اس شکل کے درجات کیمیاوی ماھرین کے تعریف سے کھیں زیادہ قیمتی ھیں، جو چار قوانین کے تحت تشکیل پاتے ھیں:
۱۔”آڈنین“۔
۲۔”ثمین“۔
۳۔”غوانین“
۴۔”سیٹوسین“
یھاں پرسوال یہ پیدا هوتا ھے کہ ان میں کا پھلا تیسرے سے یاچوتھے سے کیوں نھیں بدلتا؟ اور کون ھے جو اس میں مانع ھے؟
لہٰذا اس کے منع میں دوران ھندسہ ، دوری اور زاویہ مانع هوتے ھیں کیونکہ ان میں سے ھرایک کے لئے محدودیت ھے جو ان میں سے دوسرے کے علاوہ صرف ایک میں حلول کرتا ھے۔
اور شاید یہ عظمت اور خوبصورتی کے بھترین عکاس ھیں جو ان عملیات میں جو ایک نئے جز کے بنانے کے وقت آپ مشاھدہ کریں، چنانچہ یہ دائرہ نما شکل اپنے اطراف میں ملیونوں الٹے چکر لگاتی رھتی ھے جو آخر میں ایک بغیر بنی رسی نما بن جاتی ھے ، چنانچہ آج کا سائنس ابھی تک اس بات کو کشف کرنے سے عاجز ھے کہ اس میں ایسی طاقت کھاں سے آئی ؟!
اسی طرح کسی قادر کی قدرت کے ذریعہ اس چیز میں دو شگاف هوجاتے ھیں وہ بھی اس طرح جیسے کسی آری سے دوٹکڑے کردئے گئے هوں، اور ملیونوں مرتبہ یہ شگاف پیدا هوتا ھے تب جاکے کھیں اس ذرہ کی پیدائش هوتی ھے، اور پھر اس پردہ کی طرف سے جزئیات کے اندر یا شوگر، فوسفات، آڈینین، ثیمین، غوانین اور سیٹوسین کے اندر داخل هوتا ھے ، اور یہ تمام سوائے فوسفات کے علاوہ جادوئی طریقہ سے بن جاتے ھیں اس کے بعد اپنی شکل کے اطراف میں گھومنے لگتے ھیں، جبکہ ان میں سے بعض تو اس شکل کے دوسری (بیرونی) طرف گھومتے ھیں جن کی وجہ سے شوگر اور فوسفات بنتے ھیں اور ان سب سے مل کر اس کے دوبڑے جزء بنتے ھیں ، اور اس کے بعد ان عملیات کی دس کروڑبار تکرار هوتی ھے تب جاکے ایک شکل بنتی ھے اور پھر دسیوں کروڑ بار یہ عملیات جاری هوتے ھیں اسی طریقہ سے اس کی شکلیں بنتی جاتی ھیں تاکہ پروٹن کے ذرات تشکیل پائیں۔
جبکہ D.N.A. کے اجزاء انسان سے مخصوص نھیں ھیں بلکہ یہ تمام زندہ چیزوں کے مکروب سے لے کر حشرات اورھاتھی وغیرہ میں بھی پائے جاتے ھیں اور یھی اساسی اوربنیادی اجزاء ھیں جن کی بنا پرحیات مکمل هوتی ھے۔
حالانکہ علم کیمیاء نے اس بات کی وضاحت کی ھے کہ وہ قواعد جن کی بنا پر تمام چیزوں میں جو لازمی اجزاء هوتے ھیں تو وہ تمام کائنات میں ان کی ترکیب میں اختلاف نھیں هوتا، تو پھر سوال یہ پیدا هوتا ھے کہ یہ تمام کائنات کی چیزیں ایک دوسرے سے الگ کیوں ھیں؟!!
چنانچہ بعض ماھرین نے اس اختلاف کی وجہ یہ بتائی ھے کہ D.N.A.کے اجزاء کی مقدار اور گذشتہ چار قواعد کی بنا پر ان تمام چیزوں میں اختلاف پایا جاتا ھے۔
لیکن کسی بھی ماھر نے کوئی ایسی مطمئن بات نھیں بتائی جس کوانسان قبول کرسکے۔
کیونکہ جن ماھرین نے حیات کے اسرار کے بارے میں بہت سی کتابیں لکھیں ھیں ان سب میں ”شاید“ ، ”بالفرض“ ،”بسااوقات“ جیسے الفاظ استعمال کئے ھیں مثلاً شاید اس کی وجہ یہ ھے ،بالفرض اس کی وجہ یہ هو، جو اس بات پر بھترین دلیل ھے کہ وہ ابھی تک حیاتی اسرار سے پردہ نھیں اٹھاپائے ھیں۔
کیونکہ اس شکل میں کروموساٹ هوتے ھیں اور کروموساٹ ژین اور وراثتی اجزاء بنتے ھیں ، اور یہ وراثتی اجزاء D.N.A.کے اجزاء سے بنتے ھیں اور یہ D.N.A.جزئیات سے بنتے ھیں اور یہ جزئیات چھوٹے چھوٹے ذرات سے بنتے ھیں، گویا یہ ایک ایسی عمارت ھے جس کے اندر ایک کمرہ اس کمرہ میں ایک اور کمرہ اور اس کمرہ میں ایک اور کمرہ۔۔۔۔۔۔
قارئین کرام ! آئے قرآن مجید کی ان آیات کا مطالعہ کرتے ھیں جن میں خداوندعالم کے وجود کو بیان کیا گیا ھے کیونکہ درج ذیل آیات میں حیوانات کی خلقت اور دوسرے دقیق نظام کو بیان کیا گیا ھے جن کے مطالعہ کے بعد انسان کو یہ یقین هوجاتا ھے کہ حساب شدہ نظام یونھی اتفاقی طور پر پیدا نھیں هوا۔
ارشاد خداوندی هوتا ھے:
"وَاللَّـهُ خَلَقَ كُلَّ دَابَّةٍ مِّن مَّاءٍ فَمِنْهُم مَّن يَمْشِي عَلَىٰ بَطْنِهِ وَمِنْهُم مَّن يَمْشِي عَلَىٰ رِجْلَيْنِ وَمِنْهُم مَّن يَمْشِي عَلَىٰ أَرْبَعٍ ۚ يَخْلُقُ اللَّـهُ مَا يَشَاءُ ۔۔۔"(۱)
اور اللہ ھی نے زمین پر چلنے والے ھر جاندار کو (ایک خاص) پانی سے پیدا کیا ہے تو ان میں سے کوئی پیٹ کے بل چلتا ہے۔ اور کوئی دو ٹانگوں پر چلتا ہے اور کوئی چار ٹانگوں پر۔ اللہ جو چاھتا ہے پیدا کرتا ہے۔۔۔۔
"وَمِنَ النَّاسِ وَالدَّوَابِّ وَالْأَنْعَامِ مُخْتَلِفٌ أَلْوَانُهُ كَذَٰلِكَ۔۔۔"(۲)
اور اسی طرح آدمیوں اور جانوروں اور چار پایوں کی بھی رنگتیں طرح طرح کی ھیں۔
"وَمَا مِن دَابَّةٍ فِي الْأَرْضِ وَلَا طَائِرٍ يَطِيرُ بِجَنَاحَيْهِ إِلَّا أُمَمٌ أَمْثَالُكُم۔۔۔"(۳)
زمین میں جو چلنے پھرنے والا (حیوان) یا اپنے دونوں پروں سے اڑنے والا پرندہ ھے ان کی بھی تمھاری طرح جماعتیں ھیں۔
"أَوَلَمْ يَرَوْا إِلَى الطَّيْرِ فَوْقَهُمْ صَافَّاتٍ وَيَقْبِضْنَ ۚ مَا يُمْسِكُهُنَّ إِلَّا الرَّحْمَـٰنُ ۚ إِنَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ بَصِيرٌ"(۴)
کیا یہ لوگ اپنے اوپر پرندوں کو نھیں دیکھتے جو پروں کو پھیلائے ھوئے (اڑتے ہیں) اور وہ (کبھی ان کو) سمیٹ بھی لیتے ہیں انھیں (خدا ئے) رحمٰن کے سوا اور کوئی (فضا میں) تھامے ھوئے نھیں ہے بےشک وہ ھر چیز کو دیکھ رھا ہے۔
"وَالْأَنْعَامَ خَلَقَهَا ۗ لَكُمْ فِيهَا دِفْءٌ وَمَنَافِعُ وَمِنْهَا تَأْكُلُونَ ۔ وَلَكُمْ فِيهَا جَمَالٌ حِينَ تُرِيحُونَ وَحِينَ تَسْرَحُونَ ۔وَتَحْمِلُ أَثْقَالَكُمْ إِلَىٰ بَلَدٍ لَّمْ تَكُونُوا بَالِغِيهِ إِلَّا بِشِقِّ الْأَنفُسِ ۚ إِنَّ رَبَّكُمْ لَرَءُوفٌ رَّحِيمٌ ۔ وَالْخَيْلَ وَالْبِغَالَ وَالْحَمِيرَ لِتَرْكَبُوهَا وَزِينَةً ۚ وَيَخْلُقُ مَا لَا تَعْلَمُونَ"۔(۵)
اور اسی نے تمھارے لئے چوپائے پیدا کئے جن میں تمھارے لئے گرم لباس بھی ہے اور دوسرے فائدے بھی اور انھی سے بعض کا تم گوشت کھاتے ھو۔ اور ان (چوپاؤں) میں تمھارے لئے زیب و زینت بھی ہے جب شام کو واپس لاتے ھو اور صبح جب (چراگاہ کی طرف) لے جاتے ھو (اس وقت ان کا منظر کیسا خوش آئند ھوتا ہے)۔ اور یہ (جانور) تمھارے بوجھوں کو اٹھاتے ہیں۔ اور ان (دور دراز) شھروں تک پھنچاتے ہیں جن تک تم بڑی جانکاھی کے بغیر نھیں پھنچ سکتے تھے بے شک تمھارا پروردگار تمھارا شفیق و بڑا مھربان ہے۔ اور اس نے گھوڑے، خچر اور گدھے پیدا کئے تاکہ تم ان پر سوار ھو اور اپنے لئے انھیں زینت بناؤ اور خدا وہ کچھ پیدا کرتا ہے (اور کرے گا) جو تم نھیں جانتے۔
حوالہ جات:
۱۔ سورہ نور آیت ۴۵۔
۲۔ سورہ فاطر آیت ۲۸۔
۳۔ سورہ انعام آیت ۳۸۔
۴۔ سورہ ملک آیت ۱۹۔
۵۔ سورہ نحل آیات ۵ تا ۸۔