تیسری صدی ھجری کے آغاز سے شیعوں نے سکون کی سانس لی۔ اس کا پھلا سبب یہ تھا کہ یونانی ، سریانی او ردوسری زبانوں سے بھت زیادہ علمی اور فلسفی کتابیں عربی زبان میں ترجمہ ھوگئی تھیں اورلوگ استدلالی و عقلی علوم کوحاصل کرنے کے لئے جمع ھوگئے تھے ۔
اس کے علاوہ عباسی خلیفہ مامون الرشید خود(۱۹۵تا۲۱۸ھجری قمری )معتزلہ مذھب کاپیرو تھا اورمذھب میں عقلی استدلال کی طرف مائل تھا لھذا اس نے مختلف ادیان اورمذاھب میں لفظی استدلال کے رواج کی عام آزادی دے رکھی تھی ۔ یھی وجہ تھی کہ علماء اور شیعہ متکلمین نے اس آزادی سے پورا پورا فائدہ اٹھایا اورانھوں نے علمی سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ مذھب اھلبیت کی تبلیغ میں بھی کوئی دقیقہ فروگزاشت نہ کیا ۔(۱)
دوسرے یہ کہ خلیفہ مامون الرشید نے سیاسی حالات کے پیش نظر آٹھویں امام حضرت امام رضا علیہ السلام کو اپنا ولی عھد اور جانشین بھی مقررکررکھا تھا جس کے نتیجے میں علوی خاندان اوراھلبیت(ع)کے دوست اورطرفدار ایک حد تک سرکاری عھدیداروں کے ظلم وتشدد سے محفوظ ھوچکے تھے اورکم وبیش آزاد تھے لیکن زیادہ عرصہ نہ گزرا تھا کہ دوبارہ تلوار کی تیز دھار شیعوں کی طرف پھرگئی اوران کے اسلاف کے حالات ان کے لئے بھی پیدا ھوگئے خصوصا ً عباسی خلیفہ متوکل باللہ(۲۳۲تا ۲۴۷ھجری قمری)کے زمانے میں جو حضرت علی(ع)اور آپ کے پیروکاروں سے خصوصی دشمنی رکھتا تھا اوراسی کے حکم سے امام حسین علیہ السلام کا مزار مقدس مٹی میں ملادیا گیاتھا ۔(۲)
حوالہ
۱۔ مختلف التواریخ۔
۲۔ تاریخ ابی الفداء اور دوسری تاریخی کتابیں۔