شیعہ مذھب اور شیعہ دانشور جیسا کہ شروع سے ھی فلسفی تفکر کی پیدائش میں ایک اھم عنصر رھے ھیں ، اس قسم کے تفکر کی پیشرفت اور علوم نقلی کی ترویج میں بھی اھم رکن تھے
اور ان علوم کی ترقی کے لئے ھمیشہ کوشش کیا کرتے تھے کیونکہ اگر چہ ابن رشد کی وفات سے اھلسنت کے اکثر لوگوں میں فلسفہ ختم ھو گیا تھا مگر شیعوں کے درمیان ختم نھیں ھوا تھا ۔ اس کے تھوڑے عرصے بعد بعض مشھور فلسفہ دان مثلاً خواجہ نصیر الدین طوسی ، میر داماد اور صدر المتاھلین پیدا ھوئے جو یکے بعد دیگرے فلسفہ کی تعلیم اور تحریر کے لئے بھت زیادہ کوشش کرتے رھے ھیں ۔
اس طرح تمام عقلی علوم میں بعض دانشور مثلاً خواجہ نصیر الدین طوسی اور بیر جندی وغیرہ پیدا ھوئے ۔
یہ سب علوم اور خصوصاً فلسفۂ الٰھی شیعوں کی انتھک کوششوں کی وجہ سے بھت زیادہ ترقی کر گیا جیسا کہ خواجہ نصیر الدین طوسی ، شمس الدین ترکہ ، میرداماد اور صدر المتاھلین کی کتابوں کے مطالعے اورگزشتہ دانشمندوں کی کتب کے ساتھ مقابلہ کرنے سے واضح ھو جاتا ھے ۔
شیعوں میں فلسفہ کیوں باقی رہ گیا ؟
کیونکہ شیعوں میں فلسفی اور عقلی تفکر کی پیدائش میں اھم ترین اور موثر ترین عنصر علمی ذخائر اور خزانے تھے ۔ اور یہ تفکر شیعوں کے ذریعے سے ھی دوسروں کے درمیان پیدا ھوا جو شیعوں کے اماموں اور پیشواؤں سے یادگار کے طور پر باقی رہ گیا تھا ۔ اس طرز تفکر کی بقاء میں اھم اور موثر عنصر شیعوں کے درمیان وہ علمی ذخائر ھیں جن کو شیعہ احترام اور عزت کی نگاہ سے دیکھتے ھیں ، اور اس مطلب کی وضاحت کے لئے کافی ھے کہ اھلبیت علیھم السلام کے علمی ذخائر کا فلسفے کی کتابوں کے ساتھ مقابلہ کریں جو کہ ھر زمانے میں لکھی گئی ھیں ، کیونکہ اس طرح ھمیں صاف طور پر نظر آجائے گا کہ دن بدن فلسفہ مذکورہ علمی ذخائر کے بھت نزدیک آتا جا رھا تھا ۔ یھاں تک کہ گیارھویں صدی ھجری میں تقریباً ان دونوں ( اھلبیت علیھم السلام کی علمی کتابوں اور فلسفہ کی کتابوں ) نے مطابقت پیدا کر لی ھے اور ان کے درمیان سوائے تعبیر اور تشریح کے کوئی فاصلہ نہ رھا ۔