امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام پھلے امام ھیں۔ آپ حضرت ابوطالب کے بیٹے ھیں جو بنی ھاشم خاندان کے معتبر فرد تھے اور پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے حقیقی چچا بھی تھے جنھوں نے پیغمبرصلی اللہ علیہ و آلہ سلم کو اپنی زیر سرپرستی لے کر اپنے گھر میں جگہ دی اور ان کی دیکہ بھال اور پرورش کی تھی۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی بعثت کے بعد وہ جب تک زندہ رھے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی حمایت کرتے ھوئے عربی کفار اور خاص کر قریش کے حملوں اور شرارتوں سے آپ کو محفوظ رکھا۔
حضرت علی علیہ السلام(مشھور قول کے مطابق) آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی بعثت سے دس سال پھلے پیدا ھوئے اور ابھی چہ سال کے ھی تھے کہ شھر مکہ اور گرد و نواح میں سخت قحط پڑا۔ اس لئے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خواھش کے مطابق آپ اپنے آبائی گھر سے اپنے چچا زاد بھائی رسول خداصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے گھر تشریف لے گئے اور آپ کی براہ راست سرپرستی میں پرورش پاتے رھے۔
چند سال بعد پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو خدائے تعالیٰ کی طرف سے نبوت عطا ھوئی اور پھلی بار غار حرا میں آپ پر آسمانی وحی نازل ھوئی۔ آپ غار حرا سے شھر اور گھر کی طرف تشریف لے جا رھے تھے ۔حضرت علی علیہ السلام سے تمام واقعہ بیان کیا تو حضرت علی علیہ السلام فوراً آپ پر ایمان لے آئے۔
اس کے بعد پھر جب پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنے نزدیکی رشتہ داروں کو جمع کرکے دین مبین کی دعوت دی تو اس وقت پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص سب سے پھلے میری دعوت دین قبول کرے گا، وھی میرا خلیفہ، وصی اور وزیر ھوگا۔“جو شخص سب سے پھلے اپنی جگہ سے اٹھا اور بآواز بلند ایمان لایا وہ حضرت علی علیہ السلام ھی تھے۔ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے بھی ان کے ایمان کو قبول کر لیا اور ان کے بارے میں اپنے وعدے پورے کئے۔( ارشاد مفید ، ینابیع المودة)
اس لحاظ سے حضرت علی علیہ السلام پھلے شخص ھیں جنھوں نے اسلام قبول کیا اور پیغمبر اکرمصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر ایمان لائے اور سب سے پھلے شخص ھیں جنھوں نے ھر گز خدائے وحدہ لاشریک کے علاوہ کسی اور کی پرستش اور عبادت نھیں کی۔
حضرت علی علیہ السلام ھمیشہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ساتھ ساتھ رھتے تھے۔ یھاں تک کہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے مکہ سے مدینہ ھجرت فرمائی۔ اس رات بھی جبکہ کفار مکہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے مکان کو گھیرے میں لے رکھا تھا اور پختہ ارادہ کئے ھوئے تھے کہ رات کے آخری حصے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے گھر میں داخل ھو کر آپ کو بستر مبارک پر ھیقتل کر دیں گے تو حضرت علی علیہ السلام آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بستر مبارک پر سو گئے اور آپ گھر سے نکل کر مدینہ کی طرف روانہ ھوگئے پھرمولائے کائنات بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی وصیت کے مطابق لوگوں کی امانتیں ان کے مالکوں کو واپس لوٹا کر اپنی والدہ ماجدہ، پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی بیٹی (حضرت فاطمہ سلام اللہ علیھا) اور گھر کی دوسری عورتوں کو ساتھ لے کر مدینہ روانہ ھوگئے۔
مدینہ منورہ میں بھی آپ ھمیشہ پیغمبر خداصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ساتھ رھے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کبھی بھی علی کو اپنے سے جدا نھیں کرتے تھے ۔ اپنی پیاری بیٹی حضرت فاطمہ سلام اللہ علیھاکی شادی آپ نے ان کے ساتھ کردی تھی اور ایسے ھی جب آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اپنے اصحاب کے درمیان دوستی اور برادری کا معاھدہ کرتے تو حضرت علی کو اپنا بھائی کھہ کر پکارا کرتے تھے۔
حضرت علی علیہ السلام نے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی تمام جنگوں میں شرکت کی اور ھر جنگ میں حاضر رھے سوائے جنگ تبوک کے کیونکہ اس وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ان کو مدینہ میں اپنی جگہ قائم مقام کے طور پر مقرر فرمایا تھا۔ لھذا حضرت علی علیہ السلام نہ تو کبھی کسی جنگ میں پیچھے رھے اور نہ ھی کبھی کسی دشمن سے شکست کھائی اور نہ ھی کسی کام میں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی مخالفت کی۔ جیسا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا کہ علی ھر گز حق سے جدا نھیں ھے، اور حق علی سے جدا نھیں ھے۔( ینابیع المودة ، غایت المرام)
پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی رحلت کے وقت آپ کی عمرتیتیس سال کی تھی اگر چہ آپ تمام فضائل دینی میں سے سب سے بڑھ کر تھے اور تمام اصحاب کے درمیان ممتاز تھے پھربھی اس بھانے سے کہ آپ جوان ھیں اورپیغمبراکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے زمانے میں چونکہ جنگوں میں سب سے بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے اور سب سے آگے ھوتے تھے ، ان جنگوں میں خونریزی کی وجہ سے لوگ آپ کے مخالف اور دشمن ھو گئے تھے، آپ کو خلافت سے الگ کر دیا گیا اور اس طرح آپ عمومی کاموں میں حصہ نہ لے سکے اور گھر میں گوشہ نشین ھو کر اشخاص کی تربیت کرنے لگے۔ آپ پچیس سال تک یعنی پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی رحلت کے بعد تین خلفاء کی خلافت کے زمانے میں حکومت اور خلافت سے بالکل الگ تھلگ رھے تھے اور خلیفہ سوم کے قتل کے بعد عوام نے آپ کو خلیفہ منتخب کرکے آپ کے ھاتھ پر بیعت کی تھی۔
حضرت علی علیہ السلام اپنے زمانۂ خلافت میں جو تقریباً چار سال نو مھینے جاری رھا، پیغمبر اکرمصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی سیرت اور روش پر عمل پیرا رھے۔ آپ نے اپنی خلافت کو ایک تحریک یا انقلاب میں تبدیل کردیا اور اس کے ساتھ اصلاحات بھی شروع کیں لیکن چونکہ یہ اصلاحات بعض مفاد پرست لوگوں کے نقصان میں تھیں اس لئے بعض اصحاب پیغمبرنے جن میں آگے آگے حضرت عائشہ، طلحہ، زبیر، اور معاویہ تھے، خلیفہ سوم کے خون کو بھانہ بنا کر آپ کی مخالفت پر کمر بستہ ھوگئے اور اس طرح انھوں نے شورش، بغاوت اور نافرمانی شروع کردی۔
حضرت علی علیہ السلام نے اس فتنے کو فرو کرنے کے لئے ام المومنین عائشہ ،طلحہ اورزبیر کے ساتھ بصرہ کے نزدیک جنگ کی جو -------”جنگ جمل“کے نام سے مشھورھے۔ایک دوسری جنگ معاویہ کے ساتھ عراق اورشام کی سرحد پر لڑی جس کو ”جنگِ صفین“کھا جاتا ھے ۔ یہ جنگ ڈیڑھ سال تک جاری رھی۔اسی طرح ایک اور جنگ نھروان کے علاقے میں خوارج کے ساتھ کی جس کو”جنگِ نھروان“کھتے ھیں۔آپ کے زمانۂ خلافت میں زیادہ وقت داخلی شورشوں اور فتنوں کو فرو کرنے میں گزرا۔تھوڑے ھی عرصے بعدماہ رمضان کی انیس تاریخ کی صبح ۴۰ئھجری مسجد کوفہ میں نماز پڑھتے ھوئے شکشت خوردہ خوارج ابن ملجم کے ھاتھوں آپ کے سر پرکاری زخم لگا اور آپ اکیس ماہ رمضان کی رات شھادت پاگئے۔
امیرالمومنین حضرت علی علیہ السلام ،تاریخی شھادت اوردوست و دشمن کے اعتراف و قول کے مطابق انسانی کمالات میں بالکل بے عیب تھے ۔ اسی طرح فضائل اسلامی میں بھی آپ پیغمبر اکرم کی تربیت کا بھترین نمونہ تھے۔
آپ کی شخصیت کے بارے میں جو بحثیں ھوئی ھیں اور ان کے متعلق سنّی اور شیعہ حضرات اور دنیا کے محققین نے جس قدر کتابیں لکھی ھیں، اتنی کسی اور شخصیت کے بارے میں نھیں لکھی گئی ھیں۔
حضرت علی علیہ السلام علم و دانش میں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے اصحاب اور تمام مسلمانوں میں سب سے دانا اور عقلمند تھے۔ آپ پھلے مسلمان ھیں جنھوں نے اپنے علمی بیانات میں آزاد عقلی استدلال اور دلیل و برھان کا راستہ کھولا اور معارف اسلامی میں فلسفیانہ بحث کو جاری کیانیز قرآن کریم کے باطن کے متعلق موضوعات کا بیان فرمایا۔ ان سب کے علاوہ قرآنی الفاظ کی حفاظت کے لئے آپ نے عربی زبان میں ایک گرامر بھی لکھی۔ آپ فن تقریر میں بھی اعلیٰ پایہ کی شخصیت رکھتے تھے۔ حضرت علی علیہ السلام شجاعت اور بھادری میں ضرب المثل تھے۔ ان تمام جنگوں میں جو پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے زمانے میں یا آپ کے بعد لڑی گئیں آپ نے سب میں شرکت کی اور کبھی خوف و وحشت اور اضطراب آپ کے نزدیک بھی پھٹکنے نہ پائے اگر چہ بارھا ان واقعات و حوادث سے جو جنگ احد، جنگ حنین، جنگ خیبر اور جنگ خندق میں پیش آئے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے اصحاب پر خوف و ھراس طاری ھو گیا تھا یا ان میں سے بعض منتشر اور فرار ھو گئے تھے لیکن اس کے با وجود آپ نے کبھی دشمن کو پیٹھ نھیں دکھائی اور کبھی ایسا بھی نھیں ھوا کہ کفار اور جنگی ناموروں میں سے کوئی آپ کے ساتھ مقابلہ کرے اور زندہ بچ جائے۔ اسی طرح بھادری اور شجاعت کے باوجود آپ(ع) کسی کمزور کو قتل نھیں کرتے تھے اور میدان جنگ سے بھاگ جانے والوں کا پیچھا نھیں کرتے تھے اور نہ ھی شبخون مارتے اور نہ ھی دشمن کے لئے پانی بند کرتے تھے۔
یہ امر تاریخی حقائق میں سے ھے کہ حضرت علی (ع) نے جنگ خیبر میں ایک زبردست حملہ کیا اور قلعے کے دروازے کے حلقے میں ھاتھ ڈال کر ایک جھٹکے کے ساتھ قلعے کا دروازہ اکھاڑ کر دور پھینک دیا تھا۔
اسی طرح فتح مکہ کے دن جب پیغمبر اکرم نے بتوں کو توڑ دینے کا حکم صادر فرمایا تھا تو بت ”ھبل“ جو مکہ کے سب سے بڑے بتوں میں شمار ھوتا تھا، بھت بھاری اور بڑے پتھر سے بنا ھوا تھا اور کعبے کے عین اوپر نصب کیا گیا تھا حضرت علی علیہ السلام پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے حکم سے آپ کے کندھوں پر پاؤں رکہ کر کعبہ کی چھت پر چڑھ کر بت ھبل کو وھاں سے اکھاڑ کر نیچے پھینک دیا تھا۔
حضرت علی علیہ السلام دینی تقویٰ اور خدا تعالیٰ کی عبادت میں بھی یگانہ روزگار تھے۔ جو لوگ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے پاس آکر حضرت علی (ع) کی تندی اور سختی کی شکایت کیا کرتے تھے، آپ ان سے فرماتے کہ علی (ع) کا گلہ نہ کرو اور نہ ھی ان کو ملامت اور سرزنش کرو کیونکہ وہ خدا کا عاشق ھے۔( مناقب آل ابی طالب ، مناقب خوارزمی)
ابودرداء صحابی نے ایک دفعہ حضرت علی (ع) کی لاش کو مدینے کے ایک نخلستان میں دیکھا کہ لکڑی کی طرح خشک پڑی ھوئی ھے ۔وہ آپ کے گھر اطلاع دینے آئے اور آپ کی بیوی (حضرت فاطمہ زھراسلام اللہ علیھا جو پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی پیاری بیٹی تھی) کہ ساتھ افسوس اور تعزیت کا اظھار کیا اور ان کے شوھر کی وفات کی خبر دی۔ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی بیٹی نے فرمایا: میرے چچا کا بیٹا مرا نھیں ھے بلکہ عبادت کے دوران خوف خدا سے اس پر غشی کی حالت طاری ھو گئی ھے اور اکثر ایسا ھوتا رھتا ھے۔
حضرت علی علیہ السلام کی اپنے ماتحتوں کے ساتھ مھربانی، غریب اور بیکس لوگوں کے ساتھ ھمدردی، غریبوں اور فقیروں کے ساتھ کرم و سخاوت کی داستانیں زبان زد خاص و عام ھیں۔ آپ کے ھاتھ جو کچھ بھی آتا تھا اس کو خدا کی راہ میں غریبوں اور بیکس لوگوں کے درمیان تقسیم کردیتے تھے اورخود بڑی تنگی میں بھت ھی سادہ زندگی گزارتے تھے۔ آپ کھیتی باڑی کو بے حد پسند کرتے تھے لیکن جس زمین کو آباد کرتے اس کو غریبوں اور فقیروں کے لئے وقف کردیتے تھے۔ آپ کی وقف شدہ ملکیت کو ”وقف علی“ کھا جاتا ھے۔ آپ کے آخری زمانے میں اس وقف شدہ ملکیت سے اچھی خاصی آمدنی ھوتی تھی جو تقریباً چوبیس ھزار دینار (سونے کا سکہ) سالانہ تھی۔