www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

 طلوعِ اسلام کے وقت دنیا کی تمام اقوام کے عقائد میں کم و بیش خرفات اور جن و پری و غیرہ کے قصے شامل تھے۔ اس زمانے یونانی اور ساسانی اقوام کا شمار دنیا کی سب سے زیادہ ترقی یافتہ اقوام میں ھوتا تھا۔

 چنانچہ انھی کے قصوں اور کھانیوں کا ان پر غلبہ تھا یہ بھی ناقابل انکار حقیقت ہے کہ جو معاشرہ تھذیب و تمدن اور علم کے اعتبار سے جس قدر پسماندہ ھوگا، اس میں توھمات و خرافات کا اتنا ھی زیادہ رواج ھوگا۔ جزیرہ نما عرب میں توھمات کا عام رواج تھا۔ ان میں سے بھت سے تاریخ نے اپنے سینے میں محفوظ کر رکھے ہیں یھاں بطور مثال چند پیش کیے جاتے ہیں:

ایسی ڈوریوں کو جنھیں کمانوں کی زہ بنانے کے کام میں لایا جاتا تھا لوگ اونٹوں اور گھوڑوں کی گردنوں نیز سروں پر لٹکا دیا کرتے تھے۔ ان کا یہ عقیدہ تھا کہ ایسے ٹوٹکوں سے ان کے جانور بھوت پریت کے اثر سے بچے رھتے ہیں۔ اور انھیں کسی کی بری نظر بھی نھیں لگتی۔ اسی طرح جب دشمن حملہ کرنے کے بعد لوٹ مار کرتا ہے تو ایسے ٹوٹکوں کی وجہ سے ان جانوروں پر ذرا بھی آنچ نھیں آتی۔

خشک سالی کے زمانے میں بارش لانے کی غرض سے جزیرہ نما عرب کے بوڑھے اور کاھن لوگ "سلع" درخت جس کا پھل مزے میں کڑوا ھوتا ہے اور "عشر" نامی پیڑ (جس کی لکڑی جلدی جل جاتی ہے) گایوں کی دموں اور پیروں میں باندھ دیتے اور انھیں پھاڑوں کی چوٹیوں تک ھانک کر لے جاتے۔ اس کے بعد وہ ان لکڑیوں میں آگ لگا دیتے، آگ کے شعلوں کی تاب نہ لاکر ان کی گائیں ادھر ادھر بھاگنے لگتیں اور سرمار مار کر ڈنکارنا شروع کر دیتیں۔ ان کے خیال میں ان گائیوں کے ڈنکارنے اور سرمارنے سے پانی برسنے لگتا تھا۔ ان کا یہ بھی گمان تھا کہ جب ورشا کی دیوی یا جل دیوتا ان گائیوں کو تڑپتا ھوا دیکھیں گے تو ان کی پاکیزگی اور پوترنا کو دھیان میں رکھ کر بادلوں کو جلد برسنے کے لیے بھیج دیں گے۔

وہ مردوں کی قبر کے پاس اونٹ قربان کرتے اور اسے ایک گڑھے میں ڈال دیتے۔ ان کا عقیدہ تھا کہ ان کا یہ اقدام ہے کہ صاحب قبر عزت و احترام کے ساتھ اونٹ پر سوار میدان حشر میں نمایاں ھوگا۔

Add comment


Security code
Refresh