www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

رھبر معظم کی موجودگی میں حضرت امام خمینی (رہ ) کے حرم میں ان کی چوبیسویں برسی کی مناسبت سے ملک بھر سے لاکھوں مؤمن

 اور انقلابی عوام کا عظیم الشان اجتماع منعقد ھوا اور ایرانی عوام نے ایک بار پھر رھبر کبیر انقلاب اسلامی کے ساتھ اپنی وفاداری، باھمی اتحاد و یکجھتی ، قوم و حکام کی سرافرازی کا شاندار نمونہ پیش کیا اور اپنے مرحوم اور عزيز رھنما کے ساتھ ایک بار پھر تجدید عھد کیا۔
رھبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی امام خامنہ ای(مد ظلہ) نے حضرت امام خمینی (رہ) کے حرم میں منعقد ھونے والے اس عظیم الشان اور بے مثال اجتماع سے خطاب میں حضرت امام خمینی (رہ) کے اللہ تعالی، عوام اور خود اعتمادی پرگھرے اعتقاد و یقین کو انقلاب اسلامی کی کامیابی، استمرار اور مقتدرانہ پیشرفت کا باعث قراردیا اور انتخابات کے سلسلے میں صدارتی امیدواروں اور عوام کو اھم سفارشات کرتے ھوئے فرمایا: اللہ تعالی کی مدد و نصرت سے ایرانی قوم آئندہ دس دنوں میں ولولہ انگیز رزم و جھاد کا مظاھرہ کرے گي اور 24 خرداد مطابق 14 جون کے امتحان میں سرافراز، سربلند اور کامیاب ھوجائےگی۔
رھبر معظم انقلاب اسلامی نے 15 خرداد سن 1342 ھجری شمسی کے عوامی قیام کو ایران کی تاریخ میں بھت ھی اھم قراردیتے ھوئے فرمایا: حضرت امام خمینی (رہ) کی 13 خرداد 1343 ھجری شمسی میں تقریر اور پھر ان کی حراست کے بعد تھران، قم اور ملک کے بعض دیگر شھروں میں عظيم عوامی موج اور لھر پیدا ھوگئی اور عوام نے شاھی حکومت کے سامنے علماء اور مراجع کے ساتھ اپنے گھرے رابطے کا شاندار نمونہ پیش کیا۔
رھبر معظم انقلاب اسلامی نے عوام اور علماء کے باھمی رابطے کو عوامی تحریک کی پیشرفت اور سرانجام تحریک کی کامیابی کا ضامن قراردیتے ھوئے فرمایا:جب عوام میدان میں وارد ھوتے ہیں اور ان کے احساسات، جذبات اور افکار کسی تحریک کی پشتپناہی کرتے ہیں تو وہ تحریک جاری رھتے ھوئے کامیابی سے ھمکنار ھوجاتی ہے۔
رھبر معظم انقلاب اسلامی نے 15 خرداد سن 1342 ھجری شمسی کے واقعہ میں طاغوت کے ظلم و ستم اور اس کی بے رحمی و سنگدلی کے نمایاں ھونے کی طرف اشارہ کرتے ھوئے فرمایا: اس واقعہ پر عالمی اداروں اور انسانی حقوق کے علمبرداروں کی خاموشی اھم نکات میں شامل تھی عالمی اداروں نے اس واقعہ کے بارے میں کبھی کوئی اعتراض نھیں کیا۔
رھبر معظم انقلاب اسلامی نے تاکید کرتے ھوئے فرمایا: ان تمام مشکلات اور مسائل کے باوجود حضرت امام خمینی (رہ) عوام کے تعاون اور پشتپناھی سے ایک عظيم معنوی، آسمانی، تاریخی اور عالمی راھنما بن گئے۔
رھبر معظم انقلاب اسلامی نے حضرت امام خمینی (رہ) کے تین اھم اعتقادات کی طرف اشارہ کرتے ھوئے فرمایا: اللہ تعالی پر اعتقاد، عوام پر اعتقاد اور اپنے عزم و ارادے پر اعتقاد، یہ تینوں اعتقاد امام خمینی (رہ) کے اندر واقعی معنی میں موجود تھے ان کے تمام فیصلوں اور ارادوں یہ تینوں اعتقادات نمایاں طور پر موجود تھے۔
رھبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: حضرت امام خمینی (رہ) اپنے دل کی گھرائی سے عوام کے ساتھ گفتگو کرتے تھے اور عوام بھی ان کی بات پر دل و جان سے لبیک کھتے تھے،میدان میں حاضر ھوتے تھے اور استقامت و پائداری کا مظاھرہ کرتے تھے جس کی وجہ سے یہ تحریک بتدریج کامیابی کی طرف بڑھی اور سرانجام کسی ملک کی مدد اور تعاون کے بغیر کامیابی سے ھمکنار ھوگئی۔
رھبر معظم انقلاب اسلامی نے حضرت امام خمینی (رہ) کے اللہ تعالی پر اعتقاد، عوام پر اعتقاد اور خود اعتمادی کی تینوں قسموں کی تشریح کرتے ھوئے فرمایا: حضرت امام خمینی (رہ) کا اللہ تعالی پر مضبوط اور مستحکم اعتقاد اور انھیں اللہ تعالی کے وعدوں پر مکمل یقین تھا لھذا اسی لئے وہ ھرکام اور ھر قدم صرف اور صرف اللہ تعالی کے لئے اٹھاتے تھے۔

رھبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: حضرت امام خمینی (رہ) کا قوم پر بھی گھرا اعتقاد اور اعتماد تھا اور ان کا اس بات پر یقین تھا کہ اگر ایرانی قوم کو لائق اور شائستہ رھنما مل جائیں تو وہ سورج کے مانند ھر میدان میں درخشاں رھے گی۔
رھبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: حضرت امام خمینی (رہ) کی نظر میں قوم سب سے زیادہ عزیز تھی اور قوم کے دشمن سب سے زيادہ منفور تھے اور یہ اعتقاد و یقین ان سامراجی طاقتوں کے مقابلے میں استقامت و پائداری کا بنیادی سبب تھا جو ایرانی قوم کے ساتھ دشمنی رکھتی تھیں۔
رھبر معظم انقلاب اسلامی نے حضرت امام خمینی (رہ) کی تیسری خصوصیت خود اعتمادی کی طرف اشارہ کرتے ھوئے فرمایا: حضرت امام خمینی (رہ) نے "ھم کرسکتے ہیں" کے نعرے کو عوام کے اندر زندہ کیا اور قوم کے اندر موجود ذاتی صلاحیتوں اور توانائیوں کو مختلف میدانوں میں نمایاں اور اجاگرکیا۔
رھبر معظم انقلاب اسلامی نے پھلوی ظالم و ستمگرحکومت، انقلاب و دفاع مقدس کے دوران اور عالمی ستمگر طاقتوں کے مقابلے میں حضرت امام خمینی (رہ) کی شجاعانہ رفتارکی طرف اشارہ کرتے ھوئے فرمایا: شجاعت، قاطعیت اورخود اعتمادی کی خصوصیات حضرت امام خمینی (رہ) کی رفتار، گفتار اور فیصلوں میں نمایاں طور پرموجود تھیں جو بتدریج قوم میں منتقل ھوئیں جنھوں نے اس قوم کو استقامت، پائداری اور بصیرت کے نمونہ میں تبدیل کردیا۔
رھبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: اسی خوداعتمادی اور شجاعت کے نتیجے میں حضرت امام خمینی (رہ) اپنی پربرکت زندگی کے آخری لمحات تک ذرہ برابر افسردہ خاطر نھیں ھوئے اور حضرت امام خمینی (رہ) کی زندگی کے آخری بیانات تحریک کے اوائل کے بیانات سے قوی تر اور مضبوط تر تھے۔
رھبر معظم انقلاب اسلامی نے حضرت امام خمینی(رہ) کے نعرے " ھم کرسکتے ہیں" پر قوم کے اعتماد کے نتائج کی تشریح کرتے ھوئے فرمایا: ایرانی قوم نے خود اعتمادی ، اللہ تعالی پر توکل اور امید کے سائے میں ستمشاھی دور کی مایوسی اور ناامیدی کو دور کردیا اور قوم نے مختلف میدانوں میں قابل فخر ترقیات کے ذریعہ خود کو پیشرفت اور سربلندی کی علامت میں تبدیل کردیا ہے۔
رھبر معظم انقلاب اسلامی نے امریکہ و برطانیہ سے ایران کی شرم آور وابستگی سے نجات، خیانتکار، شھوت انگیز اور فاسد حکمرانوں کی جگہ قومی نمائندوں کے انتخاب، ایران کو پسماندہ ممالک کی صف سے نکال کر ترقی یافتہ ممالک کی صف میں کھڑا کرنے اور ایران کی سائنسی، طبی، اور تعمیری شعبوں میں قابل تعریف اور قابل قدر ترقیات کو اس عظیم تحریک کے برکات قرار دیا جس تحریک کوحضرت امام خمینی (رہ) نے اللہ تعالی پر اعتقاد، عوام پر اعتماد اور خود اعتمادی کی بدولت عوام کے اندر پیدا کیا۔
رھبر معظم انقلاب اسلامی نے حالیہ تین عشروں میں حاصل ھونے والی ترقیات پر غرور نہ کرنے کے سلسلے میں تاکید کرتے ھوئے فرمایا: اگر ھم اپنے آپ کو طاغوتی دور کے ایران سے موازنہ کریں تو یہ افتخارات مشاھدہ ھوں گے لیکن اگر ھم مطلوب اسلامی ایران سے موازنہ کریں تو یقینی طور پر ابھی ھمیں عزت، اخلاق، معنویت اور ایمان والے ایران تک پھنچنے کے لئے طویل راستہ طے کرنا باقی ہے جو مطلوب اسلامی ایران ہے۔
رھبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: حضرت امام خمینی (رہ) کے انھی تین اعتقادات کی روشنی میں یہ طویل راستہ طے کیا جاسکتا ہے اور ایرانی قوم اپنے جوانوں کی توانائیوں اور حضرت امام خمینی (رہ) کے ان تین اعتقادات کی بدولت مطلوب اسلامی ایران کی بلند و بالا چوٹیوں تک پھنچنے کی بھر پور صلاحیت رکھتی ہے۔

رھبر معظم انقلاب اسلامی نے ایرانی قوم کے مستقبل کو امید افزا قراردیتے ھوئے فرمایا: ایرانی قوم کے پاس روڈ میپ بھی موجود ہے جو حضرت امام خمینی (رہ) کے اصولوں پر مشتمل ہے۔
رھبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا:حضرت امام خمینی (رہ) کے اصول ان کی تقریروں اور وصیت نامہ میں تدوین شدہ طور پر موجود ہیں یہ وھی اصول ہیں جن کی بدولت ایران کی پسماندہ قوم، پیشرفتہ، ترقی یافتہ، سربلند اور مستقل قوم میں تبدیل ھوگئی۔
رھبر معظم انقلاب اسلامی نے ایک نکتہ کی یادآوری کرتے ھوئے فرمایا: جو لوگ حضرت امام خمینی (رہ) کا نام زبان پر لاتے ہیں اور ان کے نام سے تمسک کرتے ہیں انھیں امام خمینی (رہ) کے اصولوں اور ان کے روڈ میپ پر بھی اعتقاد اور توجہ کرنی چاھیے کیونکہ حضرت امام (رہ) کی حقیقت کا ادراک صرف ان کے اصولوں اور روڈ میپ پر عمل کرنے کے ذریعہ ھی حاصل ھوسکتا ہے۔
رھبر معظم انقلاب اسلامی نے مختلف شعبوں بالخصوص اندرونی سیاست کے بارے میں حضرت امام خمینی (رہ) کے اصول کی تشریح کرتے ھوئے فرمایا: عوام کی آراء پر تکیہ، قوم میں باھمی اتحاد و یکجھتی، حکمرانوں کے عوامی ھونے اور اشرافی گری سے دور رھنے، قومی مفادات پر حکام کی توجہ اور ملک کی ھمہ گیر ترقی و پیشرفت کے لئے تلاش و کوشش امام (رہ) کے اصول میں شامل ہیں۔
رھبر معظم انقلاب اسلامی نے خارجہ پالیسی کے بارے میں حضرت امام خمینی (رہ) کے اصول کی طرف اشارہ کرتے ھوئے فرمایا: تسلط پسند طاقتوں کی پالیسیوں کے مقابلے میں استقامت،مسلمان قوموں کے ساتھ اخوت و برادری،ایرانی قوم کے دشمن ممالک کے علاوہ باقی تمام ممالک کے ساتھ مساوی روابط ، فلسطین کی آزادی کے لئے تلاش و کوشش، اسرائیل کے ساتھ مقابلہ، ظالموں کے مقابلے میں مظلوموں کی حمایت حضرت امام خمینی (رہ) کی خارجہ پالیسی کے اصولوں میں شامل ہیں۔
رھبر معظم انقلاب اسلامی نے ثقافت کے بارے میں بھی حضرت امام (رہ) کی پالیسی کی طرف اشارہ کرتے ھوئے فرمایا: مغربی مالک کی غلط ثقافت سے دوری، تحجر و جمود سے دوری، دین سے تمسک کے سلسلے میں ریا کاری سے دوری،اسلامی اخلاق و احکام کا بھر پور دفاع اور معاشرے میں فساد و فحشا کو فروغ دینے والوں کے ساتھ مقابلہ ایسے امور ہیں جو حضرت امام (رہ) کے ثقافتی اصولوں میں شامل ہیں۔
حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے صدارتی انتخابات کے سلسلے میں سیاسی کارنامہ انجام دینے اور ان انتخابات میں عوام کی بھر پور شرکت کو سب سے اھم قرار دیا اور فرمایا کہ آٹھ امیدواروں میں سے جس کو بھی جو ووٹ ڈالا جائے گا وہ پھلے مرحلے میں اسلامی جمھوریہ کے حق میں اور انتخابات کے انتظامات پر اعتماد کا ووٹ ہے۔
رھبر معظم انقلاب نے ایران میں انتخابی عمل کے سلسلے میں قانون کی بالادستی پر تاکید کرتے ھوئے فرمایا: اسلامی جمھوریہ میں واحد چیز جس کو انتخابات میں بالادستی حاصل ہے وہ قانون ھی ہے۔ قانون کے مطابق ھی بعض افراد آگے آ سکتے ہیں اور بعض پیچھے رہ جاتے ہیں اور جو افراد امیدواروں کی اھلیت کے بارے میں فیصلہ کرتے ہیں ان کا انتخاب بھی قانون کے مطابق کیا جاتا ہے۔
رھبر انقلاب اسلامی نے انتخابات کو اسلامی نظام کے خلاف ایک خطرے میں تبدیل کرنے پر مبنی دشمنوں کی کوششوں کی جانب اشارہ کیا اور فرمایا کہ ملت ایران خدائے تعالی کی توفیق، انتخابات میں اپنی بھر پور شرکت اور اپنے عزم راسخ کے ساتھ ان تمام حربوں اور سازشوں کا منھ توڑ جواب دے گی۔
 

Add comment


Security code
Refresh