لندن سے نکلنے والے اخبار" شرق الاوسط" کے سعودی عرب میں موجود نمائندے کے مطابق سعودی عرب کے بادشاہ عبداللہ کے ڈاکٹروں کے مطابق
ان کے دل، گردوں اور پھیپڑوں نے کام کرنا چھوڑ دیا تھا اور اس کے بعد ان کو وینٹی لیٹر پر منتقل کر دیا گیا تھا مگر سر توڑ کوششوں کے باوجود انکی صحت بحال نھیں ھوئی اور وہ اب مصنوعی سانسیں لے رھے ہیں۔
ذرائع کے مطابق شاہ عبداللہ اب عوامی اجتماعات اور سرکاری میٹنگز میں دکھائی نھیں دے رھے اور انکی جگہ موجودہ ولی عھد حکومتی معاملات نمٹا رھے ہیں۔
شرق الاوسط نام اخبار نے گذشتہ چند مھینوں کے دوران دوسری مرتبہ سعودی بادشاہ کے مرنے کی اطلاع دی ہے۔ سعودی عرب کے بادشاہ کی عمر نواسی برس سے زائد ہے اور سعودی ولی عھد اٹھتر برس کے ہیں اور دونوں مختلف امراض میں مبتلا ہیں۔ - بوڑھے شھزادوں کا گروہ روايتي طور پر چاھتا ہے کہ وليعھد ان ميں سے منتخب کيا جائے جبکہ عبدالعزيز کے پوتوں کي خواھش ہے کہ وليعھد انھیں میں سے منتخب ھو- سعودی عرب میں حساس وزارت خانے اور عھدے عبدالعزیز کے بیٹوں کے قبضے میں ہیں جو عام طور سے اسی برس کے ہیں اور انھیں مختلف طرح کے عارضے لاحق ہیں۔
بعض حلقوں کا کھنا ہے کہ سعود الفیصل، مقرن بن عبدالعزیز اور قومی سلامتی کے سربراہ اس وقت ملک کی باگ ڈور سنبھالے ھوئے ہیں۔
آل سعود خاندان ميں زبردست رسہ کشي جاري ہےبعض تجزیہ کاروں نے اقتدار کي رسہ کشي کے خوني جھڑپوں ميں تبديل ھوجانے کے بارے ميں تشويش کا اظھار کرتے ھوئے کھا ہے کہ ھوسکتا ہے کہ اقتداري جنگ خوني جھڑپوں ميں تبديل ھوجائے-
اطلاعات ہیں کہ سعودی عرب کے بادشاہ کی خرابی صحت کی خبروں کے سامنے آنے کےبعد سعودی عرب کے شاھی خاندان میں اقتدار کی جنگ شروع ھوچکی ہے۔سعودی عرب کے بارے میں تجزیہ کرنے والے غیر جانبدار حلقوں کا کھنا ہے کہ سعودی عرب میں ایک عوامی انقلاب کے لئے زمین مکمل تیار ہے اور سعودی عرب کی صورتحال ان ممالک سے کھیں زيادہ خراب ہے، جن ممالک میں تبدیلیاں رونما ھو چکی ہیں۔ آل سعود کی ڈکٹیٹر حکومت اس مشکل سے نکلنے کے لئے ھاتھ پاؤں مار رھی ہے اور اس نے اس انقلاب اور تبدیلی کو اپنی سرحدوں سے باھر رکھنے کے لئے بحرین میں کھلی مداخلت کا ارتکاب کیا ہے اور وھاں کی عوامی تحریک کو دبانے کے لئے ھزاروں فوجی بھیجنے سے بھی دریغ نھیں کیا۔
امریکہ کی انٹلجنس ایجنسیوں کے مطابق سعودی عرب میں خونی بغاوتیں ھوسکتی ہیں۔فلسطین کے اخبار المنار کے مطابق امریکی حکومت کو یہ تشویش لاحق ھوچکی ہے کہ سعودی عرب کے حالات نھایت خطرناک موڑلے سکتے ہیں جن سے امریکہ کے مفادات کو شدید خطرات لاحق ھوسکتے ہیں۔ امریکہ کو اس بات کی بھی تشویش لاحق ہےکہ بغاوتوں سے علاقے کے ملکوں کو ٹکڑے ٹکڑے کرنے میں امریکہ کی سازشوں میں سعودی عرب کی معاونت بھی متاثر ھوسکتی ہے۔
واشنگٹن کے حکام کو ایسی متعدد انٹلجنس رپورٹیں پیش کی گئي ہیں جن میں کھا گيا ہےکہ سعودی عرب میں خونی بغاوتوں کا بھرپور امکان پایاجاتا ہے۔
امریکہ کبھی ڈوبتی کشتی پر سوار نھیں ھوتا۔ امریکہ نے سعودی عرب کو گذشتہ چند سالوں میں لبنان، ایران اور اب شام کے حوالے سے بری طرح استعمال کیا ہے کہ اب اسکے استعمال کی ميعاد بھی گزر گئی ہے اور اگر امریکہ کو یقین ھوگیا کہ آل سعود کی حکومت کے دن گنے جاچکے ہیں تو وہ سعودی شیخوں کے متبادل کے تلاش شروع کر دے گا۔
واضح رھے کہ "اشراق الاوسط" نام اخبار نے گذشتہ چند مھینوں کے دوران دوسری مرتبہ سعودی بادشاہ کے مرنے کی اطلاع دی ہے۔