پاکستان میں فرقہ وارانہ دھشت گردی نے ایسی خطرناک صورتحال اختیار کرلی ہے کہ پاکستان کے محب وطن حلقے بتدریج اپنے وطن کے مستقبل سے مایوس ھوتے جارھے ہیں ۔
سیاسی و مذھبی حلقوں کے ساتھ ساتھ اب سیکوریٹی کے ادارے بھی اس مایوسی میں شامل ھوگئے ہیں عوام کے ایک حلقے کی عدلیہ سے امید تھی لیکن ایسا محسوس ھوتا ہے کہ وہ امید بھی دم توڑتی نظر آرھی ہے پاکستان کے سب سے بڑے شھر اور اقتصادی مرکز کراچی میں عباس ٹاؤن کے حالیہ واقعہ نے ھر باشعور شخص کو بری طرح جھنجھوڑ کر رکھ دیا ۔ کوئی علماء ، کوئي سیاستدانوں اور کوئی پاکستان کے ان فیصلہ کرنے والے اداروں کو مورد الزام ٹھہرا رھے ہیں جنھوں نے ماضی اور حال میں امریکہ کے ایڈونچر میں شامل ھوکر مذھبی قوتوں کو اپنے اھداف کے لئے استعمال کیا اور اب یہ قوتیں ان کے ھاتھوں سے نکل چکی ہیں دوسری طرف ایک حلقہ یہ بھی کھتا ہے کہ انتھا پسند قوتوں کی نظریاتی تربیت ایسے انتھاپسندوں کے ھاتھ میں چلی گئی ہے جو نہ اسلام کو مانتے ہیں نہ ان کے سامنے انسانیت کی کوئی اقدار ہیں سب سے تکلیف دہ بات یہ ہے کہ یہ انتھاپسند قوتیں اندرونی اور بیرونی اشاروں پر اسلام کے نام پر قتل و غارت کا بازار گرم کئے ھوئے ہیں ۔
شروع میں یہ کھا جاتا تھا کہ اگر تمام مسالک کے علماء مل کر مشترکہ پلیٹ فارم سے مسلمانوں کے قتل عام کے خلاف اور خود کش حملوں کے حرام ھونے کے حوالے سے فتوی جاری کردیں گے تو بے گناہ مسلمان عام شھریوں کا پاکستان میں قتل عام بند ھوجائیگا لیکن تازہ ترین صورتحال سے اندازہ ھوتا ہے کہ اب یہ مسئلہ فتووں سے بھی حل ھونے والا نھیں ہے پاکستان کے شیعہ سنی علماء نے کئی بار شیعہ مسلمانوں اور عام شھریوں کے خلاف خود کش حملوں کو حرام قرار دے کر بھی دیکھ لیا ہے لیکن فرقہ وارانہ دھشت گردی کا سلسلہ بدستور جاری ہے اور آئے روز مسلمانوں کو خاک و خوں میں غلطاں کیا جارھا ہے۔
حال ھی میں پاکستان کے معروف علماء من جملہ شیخ الحدیث سلیم اللہ خان ، وفاق المدارس العربیہ کے سربراہ مفتی محمد رفیع عثمانی اور جامعہ دارالعوام کے وائس پرنسپل ڈاکٹر عبدالرؤف نے ایک مشترکہ اعلامیہ میں کھاہے کہ بے گناہ چاھے وہ سنی ھو یا شیعہ حتی غیر مسلم بھی ھو اس کا قتل انسانیت کا قتل ہے اس بیان میں عوام سے اپیل کی گئی ہے کہ پاکستان کی تمام سیاسی و مذھبی تنظیموں اور انجمنوں کو اتحاد و وحدت کے ذریعے تفرقہ اور اختلافات کے خلاف اٹھ کھڑا ھونا چاھیئے اور حکومت اور انٹیلی جنس کے اداروں پر دباؤ ڈالنا چاھیئے کہ وہ دھشت گردوں کو جڑ سے ختم کرنے کے لئے موثر اقدامات کریں ۔