اسلامی جمھوریۂ ایران اور گروپ پانچ جمع ایک کے درمیان ماھرین کی سطح پر جاری مذاکرات جنیوا میں آج تیسرے دن بھی جاری رھے ۔
ایران اور گروپ پانچ جمع ایک یعنی امریکہ ، روس ، چین ، فرانس ، جرمنی اور برطانیہ کے درمیان مذاکرات " جنیوا سمجھوتے پر عملدرآمد کے سلسلے میں ، جمعرات کو شروع ھوئے تھے جبکہ کھا یہ جارھا تھا کہ یہ مذاکرات جمعے کو ختم ھو جائیں گے تاھم سنیچر کو بھی جاری رھے ۔
اس سے قبل ایران اور گروپ پانچ جمع ایک کے ماھرین نے جنیوا سمجھوتے کے بعد گذشتہ ھفتے ویانا میں اپنے پھلے مذاکرات کا انعقاد کیا تاھم امریکہ کی جانب سے نئی پابندیاں لگائے جانے کے سبب، ایرانی وفد نے اس اجلاس کا واک آؤٹ کردیا ۔ اوریہ اجلاس ناتمام رہ گياتھا ۔
اسلامی جمھوریۂ ایران کے وزراء خارجہ اور گروپ پانچ جمع ایک کے ممالک کے درمیان پانچ روزہ مذاکرات کے بعد 24 نومبر کو ایک سمجھوتہ طے پایا تھا کہ جس کی رو سے ایران اور مغربی ممالک کے درمیان یہ طے پایا ہے کہ ماھرین کے اجلاس ميں اس معاھدے کی شقوں کا جائزہ لیا جائے لیکن ایسے میں جب کہ ایران اور گروپ پانچ جمع ایک کے ماھرین گذشتہ ھفتے ویانا ميں جنیوا سمجھوتے کے سلسلے میں پھلا قدم اٹھائے جانے اور اس پر عملدرآمد کے بارے میں فیصلہ کررھے تھے کہ ایران کے خلاف نئی پابندیاں عائد کئے جانے کے امریکی حکومت کے فیصلے کے بعد یہ اجلاس رک گيا ۔
گیارہ دسمبر کو امریکی وزارت خزانہ کے توسط سے جاری کئے جانے والے بیان کے بیان کے مطابق ، ایران کی متعدد کمپنیوں اور شخصیات پر ، اپنے ملک کے ایٹمی پروگرام کی حمایت کے سبب پابندی عائد کر دی گئی ہے۔
اسلامی جمھوریۂ ایران کہ جس نے گروپ پانچ جمع ایک کے ساتھ مذاکرات کو صاف و شفاف اور ٹھوس طریقے سے شروع کیا ہے ، امریکہ کی خلاف ورزی کے بعد ماھرانہ مذاکرات سے واک آؤٹ کیا اور اپنے مذاکراتی فریقوں کے خلاف احتجاج کیا ہے ۔
امریکی وزیر خارجہ جان کیری کے ساتھ ایران کے وزیر خارجہ محمد جواد ظریف کی ٹیلیفونی گفتگو میں بھی ، امریکہ کی نئی پابندیوں پر تھران نے اپنی ناراضگي کا اظھار کیا لیکن 17 دسمبر کو ایران کے نائب وزیر خارجہ عباس عراقچی کے ساتھ ایک اجلاس ميں یورپی یونین کی خارجہ پالیسی کی سربراہ کیتھرین اشٹون کی جانب سے یہ اطمئنان دلائے جانے کے بعد کہ مذاکرات کے تمام فریق خاص طور پرامریکہ اپنے وعدوں کے پابند ہیں ، ماھرانہ مذاکرات جاری رھنے کو ایجنڈے میں قرار دیا گيا ۔
جنیوا میں ماھرین کے مذاکرات کا نیا دور پھلے اجلاس سے زیادہ مثبت ماحول میں انجام پارھا ہے اور تیسرے دن بھی مذاکرات جاری رھنے سے کسی نتیجے کے حصول کی امید بڑھ گئی ہے ۔
گذشتہ روز اوباما نے ایرانیوں کو اعتماد میں لینے کے لئے ایٹمی مذاکرات جاری رکھنے کو ضروری جانا اور کھا کہ نامناسب پابندیوں کے ذریعے مذاکرات میں پیشرفت کا عمل نھيں روکنا چاھئے ۔
اوباما کا اشارہ ان بعض امریکی سینیٹروں کے حالیہ اقدام کی جانب ہے جو ایران کے خلاف پابندی کے نئے منصوبے کا بل منظور کئے جانے کی بات کررھے ہیں ۔
اس بل میں ایران کی تیل برآمدات اور ایرانی صنعت کو آئندہ ایک سال کے لئے نشانہ بنایا گیا ہے اور ایران پر ممکنہ حملے کی صورت میں اسرائیل کی فوجی ، سفارتی اور اقتصادی حمایت کرنے پر تاکید کی گئي ہے ۔
یہ ایک ایسا بل ہے جسے امریکی صدر نے نامناسب بتایا ہے اور امریکی وزارت خارجہ کے ترجمان جی کارنی کے بقول اس بل کی منظوری کی صورت میں اوباما اسے ویٹو کردیں گے ۔ ایسا خیال کیا جارھا ہے کہ جنیوا سمجھوتے کے بارے میں ایران کی سفارتی کوششیں ،کہ جن کی یورپی یونین کے وزراء خارجہ نے حمایت کی تھی، اس بات کا باعث بنی ہیں کہ امریکی حکمراں بھی اس کی حمایت کریں ۔