دنیا کی سب سے زیادہ صاحب ثروت، سب سے زیادہ آمرانہ اور استبدادی نظام حکومت یعنی سعودی عرب ـ جو دنیائے عرب کی قیادت کا
مدعی بھی ہے اور انسان کے لئے کسی حق کا قائل نھیں ہے اور اب صھیونیت کا ھاتھ بٹانے کے لئے ایران کے مقابلے پر اتر آیا ہے اور صھیونی ریاست کو تحفظ فراھم کرنے کے لئے اپنے تمام تر وسائل ایران کے خلاف بروئے کار لا رھا ہے اور اس کے لئے اس نے حتی کہ عربوں اور مسلمانوں کے ناقابل اعتماد دشمن صھیونی ریاست کے ساتھ اپنا اتحاد بھی برملا کردیا ہے ـ ایران کو مشترکہ دشمن سمجھ کر ریاض اور تل ابیب کے درمیان ناقابل خدشہ رابطہ برقرار کرچکا ہے۔
اس میں کوئی شک نھیں ہے کہ یھودی ریاست کے ساتھ آل سعود کے تعلقات یکطرفہ ہیں ورنہ صھیونی یھودی کسی صورت میں بھی کسی عرب کے دوست نھیں بن سکتے اور آل سعود در حقیقت غاصب صھیونی ریاست کو بچا کر اپنے بچاؤ کی تدبیر کررھے ہیں جس کے لئے اس نے ایران کو مشترکہ دشمن کے طور پر متعارف کرایا ہے اور اب گویا ان کے درمیان تزویری اتحاد قائم ھونے لگا ہے۔
اس رپورٹ میں آل سعود اور آل صھیون کے درمیان سیاسی، عسکری اور معاشی تعلقات کا جائزہ لیا جائے گا۔
صھیونی ـ سعودی مشترکہ اھداف
"آل سعود کے رجعت پسند حکام صھیونیوں کے مفاد میں قدم اٹھا رھے ہیں"۔ یہ عبارت آج کل عالمی ذرائع میں ایک رائج عبارت ہے اور آپ اس کو کسی بھی اخبار یا ویب سائٹ پر پڑھ سکتے ہیں اور کسی بھی چینل سے سن سکتے ہیں۔
اطالوی اخبار "کورئیرے دیلاسیرا" خطے میں اسرائیل کی نیابت میں آل سعود کی جنگ پسندیوں کی طرف اشارہ کرتے ھوئے لکھتا ہے: ریاض نے اھل تشیع کو نقصان پھنچانے کے لئے حتی شام پر عالمی جنگ مسلط کرنے کی کوشش کی کیونکہ بشار الاسد شیعہ ہیں۔ آل سعود نے گستاخی کی انتھا کرتے ھوئے امریکہ کو پیشکش کی کہ وہ شام پر حملہ کرے تو سعودی عرب جنگ کے تمام اخراجات برداشت کرنے کے لئے تیار ہے!
بندر بن سلطان، ریاض اور تل ابیب کے درمیان واسطہ ہے
عالمی دھشت گرد تنظیموں کا سربراہ بدنام زمانہ "بندر بن سلطان" کو عالمی ذرائع ابلاغ بخوبی جانتے ہیں۔ وہ سعودی انٹیلجنس ایجنسی کا سربراہ ہے اور شام اور عراق سمیت علاقے میں جھاں بھی جنگ کے شعلے بھڑکتے ہیں یا کھیں کوئی دھشت گردانہ کاروائی ھوتی ہے وھاں آپ کو بندر بن سلطان کا نقش پا واضح طور پر دکھائی دے گا۔
بندر بن سلطان 22 سال تک واشنگٹن میں سعودی سفیر تھا، بش خاندان سے اس کے تعلقات کی سطح بیان کرنے کے لئے یھی کھنا کافی ھوگا کہ اس کو بندر بش بھی کھا جاتا ہے۔ اس نے کئی بار خفیہ طور پر مقبوضہ فلسطین ابیب کا دورہ کرکے یھودی ریاست کے حکام سے ملاقاتیں کی ہیں؛ اردن اور یورپی ممالک میں بھی صھیونی حکام سے اس کی ملاقاتوں کا سلسلہ مسلسل جاری رھتا ہے۔ وہ اس وقت اردن ھی میں مقیم ہے اور حال ھی میں اس نے یھودی ریاست کی خفیہ ایجنسی موساد کے سربراہ تامیر پاردو سے بھی ملاقات کی ہے۔ اس ملاقات میں ایران کا مسئلہ اور خاص طور پر ایران اور بڑی طاقتوں کے درمیان جنیوا مذاکرات موضوع بحث رھے۔
ایک تجزیہ نگار نے پریس ٹی وی کو بتایا کہ جنیوا کہ پچھلے دور کے مذاکرات آل سعود اور صھیونی ریاست کی مداخلت کی وجہ سے نتیجہ خیز ثابت نھیں ھوئے تھے اور یہ کہ بندر بن سلطان نے نے یورپی سفارتکاروں سے کھا ہے کہ اگر مغربی ممالک ایران پر حملہ کرنے کے لئے تیار ھوجائیں تو سعودی عرب امریکہ کے ساتھ اپنے تعلقات کا رخ اسرائیل کی طرف پلٹ دے گا۔
بندر نے گذشتہ ستمبر میں امریکہ کے شام پر حملے کا امکان ختم ھونے اور ایران کے ساتھ ایک میز پر بیٹھ کر مذاکرات کے لئے واشنگٹن کی آمادگی کے بعد کھا تھا کہ اب وہ واشنگٹن کے ساتھ تعلقات میں اھم تبدیلی کو مد نظر رکھے گا۔
خلیج فارس کی عرب ریاستوں اور یھودی ریاست کے تعلقات
صھیونی اخبار "ذمارکر" نے حال ھی میں عرب ریاستوں کے ساتھ اسرائیل کے خفیہ تعلقات کو فاش کردیا ہے اور ان ریاستوں بالخصوص سعودی حکومت کے ساتھ معاشی تعاون کا پردہ فاش کرتے ھوئے لکھا ہے کہ اس وقت بھت سی اسرائیلی کمپنیاں اپنی مصنوعات سعودی عرب کو برآمد کررھی ہیں۔
اس اخبار نے لکھا ہے: اسرائیل سے سعودی عرب برآمد ھونے والی مصنوعات فنیاتی ہیں اور یہ کمپنیاں امریکی کمپنیوں کی آڑ میں اور ریاض اور واشنگٹن کے درمیان گھرے دوستانہ تعلقات سے فائدہ اٹھا کر اپنی مصنوعات سعودی عرب برآمد کررھی ہیں جن میں رابنٹیکس کمپنی کا بلٹ پروف لباس بھی شامل ہے۔
صھیونی اخبار یدیعوت آحارونوت اپنی ایک رپورٹ میں لکھتا ہے کہ اسرائیل کی بارہ کمپنیاں اپنی مصنوعات سعودی عرب کو برآمد کرتی ہیں جن میں میڈیکل اوزار، کیمیاویں کھادیں، معدنی مواد اور مختلف قسم کی مشینیں شامل ہیں۔
اس اخبار کے مطابق فنیاتی یا ٹیکنالوجیکل مصنوعات اور عسکری مصنوعات کے علاوہ پلاسٹک مصنوعات بھی وہ مصنوعات ہیں جنھوں نے اسرائیل اور خلیج فارس کی ریاستوں ـ بالخصوص سعودی عرب ـ کے درمیان وسیع تجارتی تعاون کے لئے راستہ ھموار کردیا ہے۔ کیونکہ پلاسٹک مصنوعات کا خام مواد پولی ایتھیلین (POLYETHYLENE) اور پروپیلین (Polypropylene) ہے جو تیل ھی سے حاصل ھوتا ہے اور یہ مواد سعودی عرب سے ایک ثالث ملک کے ذریعے اسرائیل پھنچتا ہے اور یھودی ریاست کے حکام بخوبی جانتے ہیں کہ یہ مواد سعودی عرب میں ھی تیار ھوتا ہے اور وہ اس کو پلاسٹک مصنوعات بنانے میں استعمال کرکے ان مصنوعات کو سعودی عرب لوٹاتے ہیں اور سعودی بھی جانتے ہیں کہ یہ مصنوعات کھاں سے آتی ہیں اور ان کا خام مواد کھاں تیار ھوتا ہے۔
ذمارکر انقرہ میں سابق اسرائیلی سفیر "لیون لیئال" کے حوالے سے لکھتا ہے: اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ خلیج فارس کی عرب ریاستیں اسرائیل کی تجارتی سرگرمیوں کے لئے بہت زيادہ مناسب منڈی فراہم کرتی ہیں اور ان ریاستوں میں برآمدہ مصنوعات سے ملنے والا منافع بھی بہت عظیم ہے۔
اس اخبار کے مطابق خلیج فارس کی ریاستیں صہیونی ریاست کی سیکورٹی مصنوعات کے بہت شوقین ہیں اور داخلی سلامتی کے لئے استعمال ہونے والی مصنوعات اسرائیل سے درآمد کرنے پر تاکید کرتی ہیں؛ کئی ریاستیں تیل کے کنوؤں کے تحفظ کے لئے اسرائیلی ٹیکنالوجی استعمال کرتی ہیں اور حتی کہ ان میں سے ایک ریاست نے تو ان آلات کے استعمال کے لئے یہودی ریاست سے ماہرین بھی بھرتی کردیئے ہیں۔
اسی رپورٹ کے مطابق صہیونی ریاست اس وقت میڈیکل اوزار، زرعی شعبے میں بروئے کار لائی جانے والی مصنوعات اور پانی سے متعلق اوزار و آلات ان ریاستوں میں برآمد کررہی ہے۔
ذمارکر سوئٹزرلیند میں مقیم ایک صہیونی "ناوا ماشیح" ـ جو خلیج فارس کی ریاستوں اور یہودی ریاست کے درمیان تجارتی واسطے کا کردار ادا کررہا ہے ـ کے حوالے سے لکھتا ہے: گوکہ عرب ریاستوں کے ساتھ تجارت کو نشیب و فراز کا سامنا ہے لیکن اس وقت دنیا کی سطح پر ریاض، دبئی، ابوظہبی اور قطر اسرائیلی تاجروں کے لئے بہترین اور منافع بخش ترین منڈیاں ہیں۔
یہودی ریاست کے سعودی دورے
مغربی ذرائع ابلاغ کی عادت ہے کہ وہ کبھی کبھی سعودی ـ یہودی تعلقات کی طرف خصوصی توجہ دینا شروع کرتے ہیں۔ جون 2008 میں صہیونی اخبار یدیعوت آحارونوت کے ایک نامہ نگار نے سعودی عرب کا دورہ کیا اور 15 جنوری کو اس اخبار کے صفحۂ اول پر اعلان کیا کہ اخبار کا نامہ نگار "ارولی ازولائے" جارج بش جونئیر کے ہمراہ سعودی عرب میں داخل ہوا ہے۔ اخبار نے سعودی عرب میں اس شخص کی بعض تصاویر بھی شائع کیں۔
ازولائے اپنے اس سفر کے بارے میں کہتا ہے: ہم جب ریاض کے بین الاقوامی ہوائی اڈے پہنچے تو سعودی وزارت اطلاعات کے نمائندے نے مجھے اخبار نویسی کا کارڈ تھما دیا اور میں نے ریاض میں اپنے اخبار کے لئے "وقتی دفتر!" کا افتتاح کیا۔
اس نامہ نگار نے کہا: میں جب اپنے اخبار کے دفتر پہنچا تو مجھے یہ دیکھ کر حیرت ہوئی کہ اس پر انگریزي زبان کا ایک بورڈ لگا ہوا تھا: Office Of the newspaper "Yediot Ahronot"
وہ لکھتا ہے کہ یہ تمام اقدامات سعودی حکومت کی منظوری سے انجام پائے تھے؛ ایک صہیونی اخبار نویس کے ریاض پہنچنے کی خبر نے سب کو متجسس کردیا تھا جس کی وجہ سے سعودی سرکاری ٹیلی ویژن کے تین نمائندے میرے پاس پنہچے اور مجھے ایک براہ راست سیاسی پروگرام کے لئے مدعو کیا اور میں نے ان کی دعوت قبول کرکے ٹیلی ویژن کے لائیو پروگرام میں شرکت کی اور یوں سعودی سرکاری ٹی وی پر ایک صہیونی نامہ نگار کی شرکت سے ایک پروگرام نشر ہوا۔ اور میں جس ہوٹل میں ٹہرا تھا وہاں سعودی وزارت اطلاعات کے نمائندے نے مجھ سے ملاقات کی اور کہا "ہمیں امید ہے کہ اس دفعہ اسرائیل اور تمام عرب ممالک کے درمیان امن و آشتی بحال ہوجائے"۔
ازولائے نام لئے بغیر لکھتا ہے: ایک سعودی اہلکار [صبرا و شتیلا کے قصائی] ایریل شیرون کی صحت کے بارے میں بہت زیادہ فکرمند تھا اور مسلسل اس کی صحت کے بارے میں پوچھتا رہتا تھا اور کہتا تھا کہ اسرائیلی ذرائع ابلاغ ایریل شیرون کی صحت کے بارے میں کیوں کچھ نہيں لکھتے؟
ازولائے لکھتا ہے کہ اس سال (2013) میں بھی میں اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل بان کی مون کے ہمراہ سعودی عرب کے دورے پر گیا تھا لیکن اس بار سب کچھ خفیہ نہ تھا بلکہ معمول کے مطابق تھا اور سعودی حکام کے ساتھ میری ملاقاتیں سب کے سامنے ہوٹل کی لابی میں، اور میرے اخبار کے "وقتی دفتر!" [جس کا افتتاح 2008 میں ہوا تھا] میں ہوئیں؛ سنہ 2008 میں مجھے ایک اسرائیلی اخبار نویس کی حیثیت سے خدشہ تھا کہ کہیں سعودی باشندے مجھے اذیت نہ پہنچائیں لیکن اس بار ایسا کچھ محسوس نہيں ہورہا تھا۔
صہیونی اخبار نویس کہتا ہے: 2008 میں مجھے سعودی اہلکاروں نے سکھایا تھا کہ میں ہوٹل سے باہر نکلتے وقت سر پر کوئی رومال ڈالا کروں! میں نے ایسا ہی کیا اور ریاض میں خوب گھوما پھرا اور وہاں کے مشاہدات اور مسموعات نیز تاثرات کو اکٹھا کرلیا جن میں یہ بات بھی شامل تھی کہ سعودی باشندے امریکی صدر کے دورے کے سلسلے میں آل سعود کی طرف سے شدید انتظامی اقدامات اور گھٹن کی فضا سے ناراض تھے۔ مجھے ہوٹل اور ریسٹورنٹ میں بڑی تکلیف ہورہی تھی جہاں مجھے کسی عورت کے ساتھ بیٹھنے کی اجازت نہيں دی جارہی تھی اور مجھے مک ڈانلڈ ریسٹورنٹ بھی ترک کرنا پڑا جہاں باپردہ عورتیں بڑي دشواری سے سینڈوچ کھا رہی تھیں۔
یہ جنوری کی باتیں ہیں اور مارچ کے مہینے میں عالمی ذرائع ابلاغ نے انکشاف کیا کہ وہابیت اور آل سعود کے مفتی اعظم عبدالعزیز آل الشیخ نے صہیونی رابیوں کو "مذہبی آشتی کانفرنس" میں مدعو کیا جو ریاض میں منعقد ہورہی تھی۔
عجب یہ ہے کہ آل سعود کا یہ درباری مفتی تمام مسلمانوں کو کافر سمجھتا ہے لیکن صہیونی ـ یہودی رابیوں کو مذہبی آشتی کانفرنس میں شرکت کی دعوت دیتا ہے!!!
ان ذرائع نے انکشاف کیا کہ عبدالعزیز آل الشیخ نے "عرب ـ صہیونی فرینڈشپ تنظیم" کے نمائندے "آہارون عفرونی" کو فون کیا اور اس کو ریاض آنے کی دعوت دی۔
اپریل 2012، میں صہیونی اخبار ہا آرتص نے لکھا: سعودی عرب اسرائیل کے لئے ایک دشمن سے ایک دوست میں تبدیل ہوگیا ہے اور دوطرفہ مذاکرات علاقے میں سفارتی مفاہمت کا راستہ ہموار کرسکتے ہیں۔
ہاآرتص نے اس رپورٹ میں سعودی وزير دفاع کے دورہ امریکہ اور صدر اوباما سے اس کی ملاقات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے لکھا: اس ملاقات میں ایران، بحرین میں جاری تناؤ اور خلیج فارس میں امریکی بحری قوت پر بات چیت ہوئی۔
ہاآرتص کے مطابق امریکہ کی مسلسل کوشش رہی ہے کہ سعودی سیکورٹی اداروں کے ساتھ اپنے تعلقات کو فروغ دے؛ یہ ایسا ملک ہے جہاں تین افراد حکومت کرتے ہیں۔ 2 کروڑ ستر لاکھ کے اس ملک میں 55 لاکھ غیر ملکی رہتے ہیں جبکہ سعودی نوجوانوں کے درمیان بےروزگاری کی شرح 30 فیصد تک پہنچی ہے۔
ہاآرتص نے مزید لکھا: اس صورت حال میں سعودی صہیونی تعلقات کا فروغ وہی چیز ہے جس کی اسرائیل کو ضرورت ہے اور سعودیوں کو بھی اسرائیل کے ساتھ مصالحت کے درپے ہونا چاہئے تاکہ عالم عرب میں اپنا اثر و رسوخ بڑھا سکے۔ سعودی بادشاہ نے باضابطہ طور پر صہیونی صدر شیمون پیرز کو خراج عقیدت پیش کیا ہے اور فلسطین اور اسرائیل کو مصالحت کی ترغیب دلائی ہے۔
اخبار نے دعوی کیا ہے: سعودی عرب اور اسرائیل کو اپنے تعلقات اس لئے بھی مضبوط بنانے چاہئے کہ ان دونوں کا ایک مشترکہ دشمن ہے جس کا نام ایران ہے!
ریاض ـ تل ابیب خفیہ تعلقات
گلوبل پوسٹ کی ویب سائٹ نے اسرائیل اور سعودی عرب کے درمیان مشترکہ نقاط کی طرف اشارہ کرتے ہوئے لکھا ہے:
گو کہ سعودی عرب اور اسرائیل کے درمیان بنیادی اختلافات موجود ہیں لیکن:
دونوں حکومتیں دنیا کی بدترین حکومتیں ہیں؛
دونوں میں جمہوریت کی قدروں کی پامالی یکسان ہیں؛
دونوں انسانی حقوق کی پامالی کے حوالے سے بدنام ترین ہیں؛
اسرائیل فلسطین میں جنگی جرائم کا مرتکب ہورہا ہے اور سعودی عرب بحرین اور شام میں جنگی جرائم کا ارتکاب کررہا ہے۔
اس سال اکتوبر میں صہیونی ٹیلی ویژن کے چینل 2 نے اعلان کیا کہ اعلی صہیونی سیکورٹی اہلکاروں نے "خلیج فارس کی ایک حکومت" کے ایک اعلی اہلکار سے ملاقات کی ہے۔ اس نے اس شخص کا نام نہيں بتایا لیکن بعد میں اسی چینل نے انکشاف کیا کہ مذکورہ شحص بندر بن سلطان ہے جو سعودی عرب اور اسرائیل کے تعلقات کی بحالی کا ذمہ دار ہے اور وہ علاقے کے مسائل میں بھی سعودی اقدامات کو صہیونی ریاست سے ہمآہنگ کرتا ہے، شام کے مخالفین کو ہتھیار فراہم کرنے میں اسرائیل کے ساتھ تعاون کرتا ہے اور ایران کے مخالف محاذ کے خلاف اقدامات میں صہیونی ریاست کا ہاتھ بٹاتا ہے۔
کہا جاتا ہے کہ یہ ملاقات بیت المقدس (یا صہیونیوں کے بقول یروشلم) میں ہوئی اور ایران اور شام کے خلاف ہونے والے اقدامات پر بات چیت ہوئی۔
اس حقیقت کو مد نظر رکھتے ہوئے کہا جاسکتا ہے کہ سعودیوں کا پیسہ، امریکہ کا اسلحہ اور صہیونیوں کی سازشوں نے ایک شیطانی مثلث تشکیل دی ہے۔
گلوبل پوسٹ کے مطابق اسرائیل اور سعودی عرب "عجیب حلیف" ہیں۔ اسرائیل ایک سیکولر صہیونی ریاست ہے جبکہ آل سعود کی حکومت ایک انتہا پسند وہابی حکومت ہے۔
اہل تشیع اور بشار الاسد کے ساتھ آل سعود کی عداوت اور دوسری طرف سے اسرائیل کے ایران مخالف اقدامات نے سعودی عرب اور اسرائیل کو عملی طور پر ایک محاذ میں لاکھڑا کیا ہے۔
دونوں ریاستیں اسلامی بیداری کی خونی دشمن ہیں اور اسلامی بیداری کی لہر کے حوالے سے اپنے اقتدار کے لئے فکرمند اور اسلامی بیداری سے خائف ہیں۔
ہا آرتص نے اپریل 2012 کی رپورٹ میں سعودی عرب اور اسرائیل کے درمیان دوستی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے سعودی و صہیونی خفیہ تعلقات کا انکشاف کیا ہے اور لکھا ہے: سعودی وزیر دفاع سلمان گذشتہ ہفتے امریکی وزیر دفاع لیون پینٹا کا مہمان تھا اور ایک غیرمعمولی اقدام کے طور پر صدر اوباما کی ملاقات کے لئے بھی گیا اور ایران، خلیج فارس میں امریکی بحری بیڑے، انقلاب بحرین اور خلیج فارس میں امریکی بحری قوت کے بارے میں بات چیت ہوئی۔
اس رپورٹ کے آخر میں زور دیا گیا ہے کہ سعودی عرب اور اسرائیل کے درمیان خفیہ تعلقات قائم ہیں۔
آل سعود اور آل صہیون کا پس پردہ تعاون اور وہابی تکفیریوں کے لئے لمحہ فکریہ
سعودی حکام شام اور ایران کو شدید ترین نقصان پہنچانے کے لئے اسرائیل کے ساتھ تعاون کررہا ہے اور اس سلسلے میں سلفی انتہا پسندوں اور تکفیری وہابیوں کو بھرپور انداز میں استعمال کررہا ہے۔
فلسطینی جریدے المنار نے فرانسیسی اخبار پلینٹ نو فاؤلانس (Planet Nu Faolanc) کے حوالے سے رپورٹ دیتے ہوئے شام کے خلاف برسرپیکار تکفیری دہشت گردوں کو مدد پہنچانے کے لئے سعودی صہیونی تعاون کی طرف اشارہ کیا ہے اور لکھا ہے: ظاہر ہے کہ انتہا پسند سلفی مسئلہ شام میں پوری طرح ملوث ہیں اور شام کے خلاف لڑنے والوں میں سب سے بڑی تعداد ان ہی کی ہے اور اسرائیل پیچھے سے امریکہ کے تعاون سے، اس جنگ کی باگ ڈور اپنے ہاتھ میں لئے ہوئے ہے۔
المنار مزید لکھتا ہے: سعودی عرب اور اسرائیل کے شام میں مشترکہ اہداف ہیں اور دونوں شامی عوام کے خوفزدہ کرکے حکومت سے دور کرنے کے لئے تکفیری سلفیوں کو وسیع سطح پر استعمال کررہے ہیں۔
فرانسیسی اخبار مزید لکھتا ہے: "یہودی ـ عیسائی صہیونی ـ وہابی اتحاد" مشرق وسطی میں امریکی ـ اسرائیلی مفادات کے لئے سرگرم عمل "سلفی تکفیری وہابی" انتہا پسندوں کو وسیع سطح پر استعمال اور انہيں مالی و عسکری امداد فراہم کررہا ہے۔
المنار کے مطابق سعودی عرب اور اسرائیل بظاہر ایک دوسرے کے دشمن ہیں لیکن جو بھی کرتے ہیں ایک دوسرے کی ہمآہنگی کے ساتھ کرتے ہیں بطور خاص جب مسئلے کا تعلق ایران یا اس کے حلیف شام سے ہو۔
ایران کے خلاف صہیونی سعودی تعاون کی حقیقت کیا ہے؟
اخبار الشرق الاوسط کی ویب سائٹ "پانوراما" نے ایران ـ مغرب مفاہمت کے خلاف سعودی ـ صہیونی تعاون کا جائزہ لیتے ہوئے شاکر کسرائی کے قلم سے لکھا ہے: جنیوا میں ایران اور بڑی طاقتوں کے درمیان مذاکرات کے پہلے دور میں جب فریقین مذاکرات کو کامیاب بنانے میں کامیاب نظر آنے لگے اور بعض اطلاعات سے تصدیق ہوئی کہ ایران اور بڑی طاقتوں کے درمیان مفاہمت نامے پر دستخط ہوسکتے ہیں تو سب سے پہلے سعودی اور یہودی ریاستوں نے اس مفاہمت کو ہدف تنقید بنایا؛ یہودی ریاست کے وزير اعظم بنیامین نیتن یاہو نے مغربی ممالک کو دھمکی اور انہیں خبردار کیا کہ کسی صورت میں بھی ایران کے ساتھ کسی سمجھوتے پر دستخط نہ کریں اور آل سعود نے واشنگٹن سے احتجاج کیا اور دھمکی دی کہ اگر ایران کے ساتھ کوئی سمجھوتہ ہوا تو سعودی حکومت امریکہ کے ساتھ اپنے تعلقات پر نظر ثانی کرے گی۔
اس رپورٹ کے مطابق ایران اور ایران کے ساتھ بڑی طاقتوں کی مفاہمت کی مخالفت میں سعودی ـ یہودی موقف یکسان ہے۔ اسرائیلی اخبارات نے کہا ہے کہ سعودی عرب اور اسرائیل نے ایران کو نقصان پہنچانے کے لئے اتحاد تشکیل دیا ہے اور عین ممکن ہے کہ اسرائیلی طیارے سعودی حکام کی منظوری سے اس ملک کی فضائی حدود استعمال کرکے ایران پر حملہ کردیں!
کسرائیل مزید لکھتا ہے: 27 ستمبر 2013 کو صہیونی ریاست کے دارالحکومت تل ابیب میں خلیج فارس کی تمام ریاستوں کے خفیہ اداروں کے سربراہان نے یہودی ریاست کے وزیر اعظم نیتن یاہو اور موساد کے سربراہ کے ساتھ خفیہ ملاقاتیں کیں اور عرب انٹیلجنس سربراہان کا سربراہ بندر بن سلطان تھا۔ یہ ملاقات اپنی نوعیت کے لحاظ سے پہلی ملاقات نہ تھی بلکہ اس سے پہلے بھی خلیجی ریاستوں نیز مغربی ممالک میں اس طرح کی ملاقاتیں ہوتی رہی ہیں اور ان ملاقاتوں میں آزادی اور جمہوریت کی خواہاں عوامی تحریکوں کو کچلنے کی ترکیبیوں پر بحث و تمحیص ہوئی ہے۔
ادھر لندن سے شائع ہونے والے اخبار القدس العربی نے فاش کیا ہے کہ صہیونی ریاست کی خفیہ ایجنسی موساد کے ایک وفد نے متعدد عرب ممالک کا دورہ کیا ہے اور ان ممالک کے حکام کے ساتھ ملاقاتوں میں ایران کے سلسلے میں خلیج فارس کی عرب ریاستوں کی پالیسیوں، مصر میں اخوان المسلمین کا انسداد کرنے اور بحرین اور مصر میں عوامی مظاہروں کو اپنے ہاتھ میں لینے اور انہیں اپنے مفاد میں استعمال کرنے کی روشوں کو زیر بحث لایا گیا ہے۔
القدس العربی کے مطابق سنہ 2007 میں واشنگٹن میں "مشرق قریب انسٹٹیوٹ" کے ایک اجلاس کے موقع پر ایک سعودی وزیر یہودی ریاست کے اعلی اہلکاروں سے ملاقات کی اور ان سے ایران کے خلاف ایک سیاسی و سیکورٹی اتحاد قائم کرنے کی درخواست کی!۔
لمحہ فکریہ ہے ان لوگوں کے لئے جو شیعیان آل رسول(ص) کو یہودیت سے قربت کا طعنہ دیتے ہیں؛ انہیں جان لینا چاہئے تھا اور جان لینا چاہئے کہ وہابیت اور یہودیت ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں اور اگر وہ شیعیان آل رسول(ص) پر اپنے وہم و گمان سے الزآم لگا رہے تھے تو اب وہ دیکھ لیں کہ وہابی اور یہودی اتحاد کافی پرانا ہے اور یہ دونوں اسلام کے دشمن ہیں۔