موساد کے سابق سربراہ نے اسرائیل کے سلسلے میں آل سعود کی پالیسیوں کی تعریف کرتے ھوئے کھا: سعودیوں نے کبھی بھی فلسطینی
عربوں کی کوئی مالی مدد نھیں کی اور کبھی بھی ان کو ھتھیار نھیں دیئے۔
یھودی ریاست کے جاسوسی ادارے موساد کے سابق سربراہ "افرائم ھلیفی" نے کھا: ھماری عادت ہے کہ سعودی عرب کو اپنا جانی دشمن تصور کریں اور سمجھتے رھیں کہ سعودی خاندان سرزمین حجاز یا فلسطین پر اسرائیلیوں کے قدم تک رکھنے کے خلاف ہے لیکن ایسا ھرگز نھیں ہے بلکہ حقیقت یہ ہے کہ سعودیوں نے کبھی بھی فلسطینیوں کو مالی یا عسکری امداد فراھم نھیں کی۔
افرائم نے اپنے اس دعوے کے ثبوت کے طور پر "میخائیل کھانوف" کے ڈاکٹریٹ کے رسالے "سعودی عرب اور فلسطین میں کشمکش" کا حوالہ دیا اور کھا: اس کتاب میں 1930 اور 1940 کے عشروں سے لے کر آج تک فلسطینی یھودیوں کے سلسلے میں آل سعود کی حقیقی پالیسیوں کے بارے میں وافر مواد موجود ہے اور کھانوف نے اس کتاب کے ایک باب بعنوان "یھود اور صھیونیت کے سلسلے میں سعودیوں کی روش، نفرت سے قبولیت تک" میں لکھا ہے: یہ بات عجیب نھیں ہے کہ ڈیویڈ بن گورین اور موشے شیرتوک نے 1930 کے عشرے میں لندن میں بعض مشیروں سے ملاقات کی مذاکرات کے لئے بیھودی کوششیں کیں؛ بن گورین نے مصری بادشاہ کے مشیر حافظ وھبہ نیز سعودی بادشاہ ملک سعود سے کھا کہ صرف آل سعود کے بادشاہ اس بات پر قادر ہیں کہ عربوں اور یھودیوں کے درمیان تاریخ مصالحت میں مؤثر کردار ادا کریں۔۔۔ یھی بات بن گورین نے وھبہ سے بھی کھہ دی ۔
افرائم ھلیفی نے آل سعود کی پالیسیوں کو سراھتے ھوئے کھا: فلسطین کا مسئلہ حل کرنے کے سلسلے میں آل سعود کے پیش کردہ منصوبے میں فلسطین سے نکالے جانے والے فلسطینیوں کو فلسطین واپسی کا حق نھیں دیا گیا ہے اور یھی اسرائیل کا مطالبہ بھی ہے۔
ھلیفی نے کھا: میں اس حقیقت سے بخوبی آگاہ ھوں کہ سعودی ولیعھد سلمان بن عبدالعزیز فلسطینیوں کی قومی کوششوں اور تحریکوں کو علاقائی استحکام کے لئے ایک خطرہ سمجھتے ہیں اور سعودی بادشاہ عبداللہ بن عبدالعزیز بھی کوشش کررھے ہیں کہ فلسطین کا مسئلہ ھمیشہ کے لئے ختم ھوجائے اور اسرائیل کو تسلیم کیا جائے اور یھودی ریاست بھی یھی تو چاھتی ہے۔