www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

جرمنی کی چانسلر انجیلا مرکل نے امریکی صدر بارک اوبامہ سے ٹیلیفون پر گفتگو کرتے ھوئے ان کی ٹیلیفونی بات چیت، خفیہ طور پر

 سنے جانے کے بارے میں وضاحت طلب کی۔
انجیلا مرکل نے امریکی صدر بارک اوبامہ سے صراحت کے ساتھ کھا ہے کہ ان کی ٹیلیفونی گفتگو سنے جانے کے بارے میں خبریں اگر صحیح ثابت ھوئیں تو برلین کا واشنگٹن سے اعتماد بالکل اٹھ جائیگا۔
اس گفتگو میں بارک اوبامہ نے جرمنی کی چانسلر انجیلا مرکل کو اس بات کا یقین دلایا کہ ایسی کوئی بات صحیح نھیں ہے۔ اس کے باوجود ایسا معلوم ھوتا ہے کہ یہ یقین دھانی جرمن حکام کی تسّلی باعث نھیں بنی ہے جیسا کہ جرمن وزیر داخلہ جینز تشکے نے کھا ہے کہ اس سلسلے میں ابھی دونوں ملکوں کے حکام کے درمیان گفتگو کا عمل جاری ہے تاکہ حقیقت سامنے آسکے۔
جرمن حکومت کے ترجمان اسٹیفن زلبرٹ نے بھی کھا ہے کہ اس حوالے سے امریکی حکام کو مراسلہ ارسال کیا گيا ہے تاکہ باضابطہ طور پر وضاحت طلب کی جاسکے۔
اسنوڈن کے انکشافات سے امریکہ کیلئے اب کافی مسا‏ئل پیدا ھوتے جارھے ہیں جن کی بناء پر امریکہ، اب اپنے ان اتحادیوں میں بھی کہ جنھوں نے جنگوں تک میں واشنگٹن کا ساتھ دیا ہے، غیر معتبر ھوتا جارھا ہے۔
اس سے قبل فرانسیسی اخبار لے مونڈ نے بھی ایسی رپورٹ شایع کی تھی کہ واشنگٹن نے فرانس میں وسیع پیمانے پر جاسوسی کی ہے اور دس دسمبر سنہ دو ھزار بارہ سے آٹھ جنوری سنہ دو ھزار تیرہ کے دوران امریکہ نے سات کروڑ سے زائد میسیجز جمع کئے ہیں۔
البتہ امریکہ نے اس رپورٹ کی بھی تردید کی ہے تاھم امریکہ کے ایک عھدیدار نے اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ ان کا ملک، عوام کی حمایت اور انھیں تحفّظ فراھم کرنے کیلئے پوری دنیا سے اطلاعات جمع کرتا ہے۔
یہ ایسی حالت میں ہے کہ وائٹ ھاؤس کے ترجمان جے کارنی نے صراحت کے ساتھ کھا ہے کہ دیگر ملکوں کی جاسوسی، ایک معمول کا عمل ہے اور اس طرح انھوں نے واشنگٹن کے اقدام کی توجیہ پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔
حالانکہ فرانسیسی حکام اور عوام، اخبار لے مونڈ کے انکشاف اور واشنگٹن کے اس عمل سے کافی برھم نظر آتے ہیں یھی وجہ ہے کہ پیرس میں امریکی سفیر کو وزارت خارجہ طلب کیا گیا اور فرانسیسی وزارت داخلہ نے بھی اس سلسلے میں وضاحت طلب کی ہے اور فرانسیسی صدر نے بھی امریکی صدر بارک اوبامہ سے ٹیلیفون پر گفتگو کرتے ھوئے کھا ہے کہ دوست اور اتحادی ملکوں کے بارے میں واشنگٹن کے اس قسم کے اقدامات، بالکل ناقابل قبول ہیں۔
ادھر اٹلی کی خفیہ نگراں تنظیم نے اسی طرح کا دعوی کیا ہے جس کی بناء پر اس مسئلے کی تحقیقات کیلئے اس ملک میں ایک کمیٹی تشکیل دی گئی ہے۔ چنانچہ یورپی پارلیمان نے بّر اعظم یورپ کے کمیشن سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ امریکی انفارمیشن سیکیورٹی اداروں کو بینکوں کے ڈیٹا کے حوالے سے بالکل کوئی معلومات فراھم نہ کرے۔
 

Add comment


Security code
Refresh