ابو الولید مسلم اس کا شامی اور عربی نام تھا اور اس نے شام میں 378 سے زائد ایسے مسلمانوں کا سر اس لئے قلم کیا تھا جن کی سوچ
اس سے مختلف تھی۔ بعض ویب سائٹوں نے رپورٹ دی ہے کہ گویا یہ درندہ صفت چیچن دھشت گرد لاذقیہ کے نواح میں مارا گیا ہے۔
ابو ولید مسلم الشيشانی ـ جس نے 378 شامی باشندوں کو ذبح کیا تھا ـ لاذقیہ کے نواح میں سرکاری افواج کے ساتھ جھڑپوں میں مارا گیا ہے۔
یہ چیچن دھشت گرد اپنے دوسرے ھم وطنوں کی طرح درندگی اور خونخواری کے حوالے سے بدنام تھا اور انسانوں کے گلے کاٹنے کے حوالے سے سب پر سبقت لے گیا تھا۔ یہ شخص مئی 2012 میں ترکی کی خفیہ ایجنسی کی مدد سے ترکی کے راستے شام پھنچایا گیا تھا اور دھشت گرد ٹولے جبھۃالنصرہ کا رکن تھا جو ان دنوں آل سعود کی حمایت یافتہ ٹولے "داعش" کے ساتھ نبرد آزما ہے اور کھا جاتا ہے کہ یہ ٹولہ بھی داعش کی طرح القاعدہ سے وابستہ ہے اگرچہ بعض شواھد بتاتے ہیں کہ یہ ٹولہ اخوان المسلمین سے وابستہ ہے اور ترکی کی اخوانی حکومت کی طرف سے اس کی امداد و حمایت اس دعوے کی دلیل قرار دی گئی ہے کہ یہ ٹولہ اخوانی جماعتوں سے وابستہ ہے۔
ایک شامی ویب سائٹ نے لکھا ہے کہ تقریبا 3000 ھزار چیچن دھشت گرد لاذقیہ کے نواحی علاقوں میں چھپے ھوئے ہيں جو جھڑپوں کے وقت دوسرے ممالک سے آئے ھوئے دھشت گردوں کو شامی افواج کے خلاف لڑاتے ہيں اور پھر ان کے لئے فاتحہ خوانی کرتے ہیں لیکن خود براہ راست جھڑپوں میں شرکت نھيں کرتے اور جھاں بھی انھیں مجبور ھوکر لڑنا پڑتا ہے وھاں انھيں بھاری جانی نقصان اور شکست سے دوچار ھونا پڑتا ہے۔
یہ شخص درندگی کے حوالے سے بدنام چیچن دھشت گردوں کے درمیان سب سے زيادہ وحشی سمجھا جاتا تھا اور جھاں بھی کسی بےچارے شامی باشندے کا سر کاٹنے کا فیصلہ کیا جاتا تھا ابو ولید مسلم کو بلایا جاتا تھا اور وہ افراد کا سر کاٹ کر ان کے بےجان جسم کے اوپر رکھ لیتا تھا۔
کھا گیا ہے یہ درندہ اور خونخوار چیچن دھشت گرد بعض وقت دسیوں کلومیٹر کا فاصلہ طے کرکے شامیوں کے سر قلم کرنے کے لئے پھنچا کرتا تھا۔
اس شخص کی ھلاکت کی خبریں مختلف ویب سائٹس سے موصول ھوئی ہیں جن میں [جيش الانقاذ السوري] نامی ویب سائٹ شامل ہے۔