کراچی پاکستان کی اقتصادی شھہ رگ ہے، اسے پاکستان کا سب سے بڑا شھر ھونے کا اعزاز حاصل ہے
اور یہ کراچی ھی ہے جس میں پاکستان کی ھر کمیونٹی، علاقہ و مذھب سے تعلق رکھنے والے لوگ زندگی گزار رھے ہیں۔ شائد یھی وجوھات ہیں کہ کراچی کو منی پاکستان بھی کھا جاتا ہے۔ ایک وقت تھا کہ پاکستان کے ھر شھر و گاؤں سے لوگ روزگار کیلئے کراچی کا رُخ کرتے تھے اور اس شھر کی خصوصیت بھی یہ تھی کہ یہ ھر آنے والے کو خندہ پیشانی سے قبول کرتا تھا اور اپنے اندر سمو لیتا تھا۔ یہ جاذبیت اس قدر پُرکشش ھوتی تھی کہ دوسرے خطے و علاقائی کلچر سے وابستہ ھونے کے باوجود یھاں آنے والے اس شھر کے کلچر اور تھذیب میں رَچ بس جاتے تھے۔ کراچی کی راتیں جاگتی تھیں، لھذا رات گئے تک یھاں مختلف علاقوں و معاشروں کی روایات کے اسیر یھاں دیر تک کھلے رھنے والے ھوٹلوں و چائے خانوں میں محفلیں گرماتے نظر آتے تھے۔
آج کراچی کا سارا حسن و جمال ماند پڑگیا ہے۔ اس کی جاگتی راتیں اندھیروں میں بدل دی گئی ہیں، اس کے روشن دن ختم نہ ھونے والی تاریکی کا سماں پیش کر رھے ہیں، یھاں سے اپنائیت نے ھجرت کرلی ہے، اس شھر سے برداشت کا مادہ رُوٹھ سا گیا ہے۔ اس شھر کی کشش اور جاذبیت نے کھیں اور بسیرا کرلیا ہے۔ یوں لگتا ہے کہ ہر شئے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے۔ کراچی اب کرچی کرچی ھوگیا ہے۔ کراچی کو کرچی کرچی کس نے کیا ہے؟ اس شھر کی جگمگاھٹ اور اس کے باسیوں کی مسکراھٹ چھیننے والا کون ہے؟ محبتوں کو نفرتوں میں بدلنے اور برداشت کی چتا کو آگ لگانے والا کون ہے؟ آج کراچی جس صورتحال سے دوچار ہے یہ دوچار برسوں کی بات نھیں، یہ تین دھائیوں سے مسلسل تباھی و بربادی کی طرف بڑھتا بڑھتا اپنے منطقی انجام تک جا پھنچا ہے۔
آج جب ملک پر مسلم لیگ نون اپنا تیسرا دور حکومت چلار ھی ہے تو اسے سب سے پھلے دھشت گردی کے سب سے گھمبیر مسئلہ سے نمٹنا پڑ رھا ہے۔ دھشت گردی جو ھر کام کی راہ میں رکاوٹ ہے، جو ترقی کا پھیہ جام کر دیتی ہے، جو آگے بڑھنے سے روک دیتی ہے، جو امن و سکون غارت کر دیتی ہے، جو اعتماد اور یقین کو چھین لیتی ہے جو اُمید کو توڑ دیتی ہے۔ گذشتہ تین دھائیوں سے پورے ملک کو بالعموم اور کراچی کو بالخصوص جکڑے ھوئے ہے۔ دھشت گردی کا سایہ اس قدر گھرا اور طویل ھوگیا ہے کہ اب اسے پاکستان کے ساتھ لازم ملزوم سمجھا جانے لگا ہے۔ حکمران ایک بار پھر کھہ رھے ہیں کہ آج اگر اس سے چھٹکارا حاصل نہ کیا گیا تو پھر تاریخ ھمیں کبھی معاف نھیں کرے گے۔
3 ستمبر کو کراچی کے گورنر ھاؤس میں نو منتخب وزیراعظم میاں نواز شریف کی زیر صدارت کراچی کے مسائل کے حل کیلئے آل پارٹیز کانفرنس منعقد ھوئی۔ اس APC میں شھر کے مختلف سیاسی و مذھبی گروھوں اور جماعتوں کے علاوہ تاجران بھی شریک ھوئے۔ تاجران شھر میں بڑھتے ھوئے جرائم، امن و امان کی بدترین صورتحال، ھڑتالوں، جلسوں، جلوسوں، توڑ پھوڑ، لوٹ مار اور سب سے بڑھ کر اغواء برائے تاوان و بھتہ خوری سے سخت پریشان ہیں۔ وزیراعظم کے سامنے پھٹ پڑے۔ انھوں نے پولیس پر عدم اعتماد کا اظھار کیا، وزیراعلٰی و گورنر کی برطرفی اور فوجی عدالتوں کے قیام کا مطالبہ کیا گیا۔ کراچی کی APC میں تمام جماعتوں اور تنظیموں سے صلاح و مشورہ اور آراء لی گئیں اور یہ کھا گیا کہ کراچی کے حالات قتل و غارت، بھتہ خوری، طالبانائزیشن، لوٹ مار، قبضہ گروپنگ، لینڈ مافیا اور بڑھتی ھوئی بدامنی تقاضا کرتے ہیں کہ شھر میں ٹارگٹڈ آپریشن کیا جائے۔
وزیراعظم نواز شریف نے بھی کھا کہ دھشت گردی کے خاتمہ کیلئے طاقت استعمال کرنا پڑے گی۔ اس میں ناکامی کا کوئی آپشن نھیں، ھم تمام پارٹیوں کا مینڈیٹ تسلیم کرتے ہیں، موجودہ بدامنی میں سرمایہ کاری نھیں ھوسکتی، ترقی کیلئے امن لانا ھوگا۔ انھوں نے اس موقع پر کھا کہ کراچی کے غیر معمولی حالات کے پیش نظر غیر معمولی اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ اس مقصد کیلئے اگر قوانین میں تبدیلی بھی کرنا پڑے تو کریں گے۔ کراچی میں تمام مذھبی و سیاسی جماعتوں کے ساتھ ھم آھنگی کے بعد 4 ستمبر کو وفاقی کابینہ کا اجلاس ھوا، جس میں یہ فیصلہ کیا گیا کہ رینجرز کی زیر قیادت ٹارگٹ آپریشن کیا جائے۔ رینجرز کو مکمل اختیارات دیئے گئے۔ فیصلہ کیا گیا کہ چار کمیٹیاں ھونگی۔ ڈی جی رینجرز مرکزی آپریشنل کمیٹی کے سربراہ ھونگے، آپریشن کو موثر بنانے کیلئے پولیس کی استعداد کار کو بھر بنانے پر زور دیا گیا۔ اس مقصد کیلئے جدید سامان خریدنے کی منظوری دی گئی۔ جس میں 25000 ھزار بلٹ پروف جیکٹس، 20 ھزار بلٹ پروف ھلمٹ، 5 ھزار حفاظتی دستانے، 5 ھزار جدید مشین گنیں، جدید اسکینرز، ھائی رینج کیمرے اور دیگر ضروری سامان خریدنے کی منظوری دی گئی۔ اجلاس میں یہ فیصلہ بھی کیا گیا کہ شھر میں 700 سے زائد حفاظتی چوکیاں بنائی جائیں گی۔ رینجرز کو کراچی کے 5 تھانوں کا مکمل کنٹرول دیا گیا۔
کراچی میں ھونے والی دھشت گردی، فرقہ وارانہ قتل و غارت، بھتہ خوری، لوٹ مار، ڈکیتیوں، قبضہ گروپنگ، ٹارگٹ کلنگ اور بم دھماکوں میں مختلف گروپس اور جماعتوں سے وابستہ دھشت گرد ملوث پائے گئے ہیں۔ ایک زمانہ تھا یھاں صرف MQM کا نام چلتا تھا، اب دھشت و وحشت کی علامت لیاری گینگ وار سے وابستہ گینگسٹرز بھی اپنا ایک نام رکھتے ہیں جبکہ پورے ملک کی طرح یھاں طالبان نے بھی ڈیرے جمائے ھوئے ہیں۔ طالبان، لیاری گینگ وار اور دیگر کئی گروھوں کے پیچھے انڈین و اسرائیلی خفیہ ایجنسیوں کا ھاتھ بھی ہے، طالبان کے مضبوط ھونے کی وجہ یھاں پر پختونوں کی بڑی آبادیاں ہیں۔ قبائلی علاقہ جات جھاں افواج پاکستان دھشت گردوں کے خلاف آپریشن کر رھی ہیں اور مسلسل ان سے برسرپیکار ہیں، وھاں سے بھاگنے والے دھشت گردوں نے کراچی، لاھور اور ملک کے دیگر شہروں میں نہ صرف پناہ لے رکھی ہے، بلکہ یہ دھشت گرد ملک بھر میں اس طرح اپنے تخریبی مقاصد کیلئے نیٹ ورک بنانے میں بھی کامیاب ھوچکے ہیں۔ کراچی میں ان کو آسانی سے اپنی آبادیوں اور بستیوں میں رھائشیں بھی مل جاتی ہیں اور ان کو چھپانے والے بھی آسانی سے دستیاب ھوجاتے ہیں۔
طالبان جو کئی گروھوں کا مجموعہ بن چکے ہیں، بذات خود القاعدہ سے وابستہ ہیں، ان میں مختلف مذھبی گروہ بالخصوص فرقہ وارانہ سوچ و فکر کے حاملان کی جڑیں زیادہ مضبوط ہیں۔ لشکر جھنگوی کے نام سے جن کارروائیوں کو تسلیم کیا جاتا ہے، دراصل یہ کوئی الگ تنظیم نھیں ہے بلکہ القاعدہ میں جو لوگ مکتب تشیع کے خلاف برسرپیکار ہیں انھیں یہ نام دے دیا گیا ہے۔ آپ اس کو اس طرح سوچ سکتے ہیں کہ سپاہ صحابہ، طالبان، لشکر جھنگوی، حرکت الجھاد اسلامی، جیش محمد، حرکت المجاھدین، جند اللہ، جنود الحفصہ، غازی فورس ایسے ندی نالے ہیں جو القاعدہ میں جاکر گرتے ہیں۔ القاعدہ پر اب عالمی سطح پر تکفیریت پسندوں کا غلبہ ہے۔ عراق، شام، بحرین، لبنان، یمن اور مشرق وسطٰی کے حالات کے باعث القاعدہ اب ایک تکفیری و فرقہ وارانہ گروہ بن چکا ہے، جس کا اسلام کے آفاقی و الٰھی جھادی پیغام سے دور کا بھی واسطہ نھیں ہے۔ یہ لوگ اب اپنے ایجنڈے کو آگے بڑھانے کیلئے ھر ناجائز ہتھکنڈے کو استعمال کرتے ہیں، ایسے ناجائز ھتھکنڈے جن سے نبی مرسل حضرت محمد(ص) نے سخت سے سخت حالات میں بھی منع فرمایا اور کبھی بھی اپنی زندگی میں لڑی جانے والی جنگوں میں ایسے ناجائز و غیر شرعی اقدمات کی اجازت نہ دی۔
کراچی میں موجود یہ دھشتگرد گروپس مختلف اوقات میں اپنی موجودگی کا احساس دلاتے رھتے ہیں۔ مختلف علاقوں میں مختلف گروہ اپنا اثر رکھتے ہیں اور الگ الگ حکومتیں چلا رھے ہیں۔ ایک دوسرے کے علاقے میں داخل ھونے کا مطلب موت سے کھیلنا ہوتا ہے۔ لیاری اولڈ سٹی ایریا، اورنگی ٹاؤن، سائٹ، پاک کالونی، منگھو پیر، قائد آباد، کٹی پھاڑی، گلستان جوھر، الآصف اسکوائر اور کئی دیگر علاقوں میں جرائم پیشہ، فرقہ وارانہ، لینڈ مافیا، قبضہ گروپ اور دیگر کالعدم گروہوں کا راج ہے۔ لیاری میں گینگ وار نے نہ صرف پورے کراچی کو ھلا کر رکھا ھوا ہے بلکہ اس کے منفی اثرات ملک کے دیگر علاقوں پر بھی دیکھے جا رھے ہیں۔ آپریشن کا فیصلہ سامنے آنے کے بعد بھت سے جرائم پیشہ، ٹارگٹ کلرز اور کالعدم گروھوں کے اراکین محفوظ پناہ گاھوں کی طرف رُخ کئے ھوئے ہیں۔ یہ محفوظ پناہ گاھیں ساؤتھ افریقہ، دبئی، ابوظھبی اور پاکستان کے اندر بھی ھوسکتی ہیں۔ لیاری گینگ وار اور کالعدم فرقہ پرست دھشتگردوں کے کئی اراکین کو خفیہ اداروں نے لاھور، مری اور اندرون سندھ کے کئی شھروں سے بھی گرفتار کیا ہے، جبکہ یہ بات بھی کسی سے ڈھکی چھپی نھیں کہ ھمارے خفیہ اداروں اور پولیس نے بھی ٹارگٹ کلرز (شوٹر) بھرتی کئے ھوئے ہیں، جو اس ساری گیم کا حصہ ھوتے ہیں۔ فورسز ان کو مناسب مواقع پر استعمال کرتی ہیں اور جب مشکل وقت آرھا ھو تو انھیں حفاظتی نکتہ نظر سے جیل یاترا پر بھیج دیا جاتا ہے۔
جب سے آپریشن شروع ھوا ہے روزانہ کی بنیاد پر یہ خبریں آرھی ہیں کہ آج اتنے بھتہ خور پکڑے گئے، آج فلاں ٹارگٹ کلر پکڑا گیا، آج فلاں کالعدم گروہ کے دھشتگردوں کو گرفتار کرلیا گیا، آج فلاں علاقے میں رینجرز کا چھاپہ، اسلحہ، گولہ و بارود کی بڑی مقدار پکڑی گئی۔ یہ خبریں یقیناً اس حوالے سے حوصلہ افزاء ہیں کہ ملک دشمنوں، امن کے غارت گروں اور معصوموں کو خون میں نھلانے والوں کو قانون کے کٹھہرے میں لانا ازحد ضروری ہے اور معاشرے کو ان کے شر سے بچانے کی پوری سنجیدگی سے کوششیں ھونی چاھیں، مگر کیا یہ کافی ہے؟ کیا گذشتہ 30 سال کا گند اس طرح کے ڈھیلے ڈھالے آپریشن سے صاف ھوجائے گا؟ کیا کراچی میں ٹارگٹ آپریشن سے مقاصد کا حصول ممکن ہے؟ ماضی میں بھی حکومت اس طرح کی گرفتاریاں کرتی رھی ہے، لیاری میں بھی اس طرح کے کئی آپریشن ھوئے ہیں، ان کے نتائج اور اب کی بار نتیجہ کیسے مختلف ھوگا اس بارے شکوک و شبھات اور تجزیئے کیے جا رھے ہیں۔
ماضی میں اس طرح ھوتا آیا ہے کہ اگر کسی گروپ یا جماعت سے وابستہ کسی ٹارگٹ کلر، کسی بھتہ خور، کسی قاتل، کسی لٹیرے کو گرفتار کیا جاتا تھا تو اس کے سرپرست حکومت کی اینٹ سے اینٹ بجا دینے کی باتیں کرنے لگتے تھے، احتجاج ھو جاتا تھا، تھانوں کا گھیراؤ کیا جاتا تھا، اور پھر کسی نہ کسی طرف سے پریشر چل جاتا تھا، جس کے نتیجہ میں ملزم "شب بسری" سے پھلے ھی اپنے گھر یا محفوظ مقام پر پھنچ جاتا تھا۔ آیا اب ایسا ھی ھو رھا ہے یا صورتحال یکسر مختلف ہے۔ اس پھلو پر روشنی ڈالنے کیلئے MQM کے سابق MPA ندیم ھاشمی کی گرفتاری اور بھرپور احتجاج و دھمکیوں کے بعد رھائی کو سامنے رکھا جائے۔
جیسا کہ ھم نے کھا ہے کہ اس شھر کی تباھی میں کسی ایک گروپ کا ھاتھ نھیں مگر جو لوگ شھر کراچی کی 85 فیصد نمائندگی کے دعویدار ہیں اور بلاشبہ ان کا سکہ چلتا ہے۔ اپنے علاقوں میں امن و امان کی ذمہ داری ان پر عائد نھیں ھوتی۔؟ دھشتگردی و ٹارگٹ کلنگ کو روکنے کی ذمہ داری ان کے کاندھوں پر بھی عائد ھوتی ہے، بھتہ خوری و لوٹ مار، دن دیھاڑے بنک ڈکیتیوں اور راہ چلتے لوگوں کو نقدی و قیمتی سامان سے محروم کر دینے والے نیٹ ورکس کیخلاف اقدامات اُٹھانا ان کے حصہ میں بھی آتا ہے۔ مگر ایسا نھیں ھوا اور نہ ھی ھوگا، یہ لوگ تو گذشتہ تمام حکومتوں میں وزارتیں، نظامتیں اور سفارتیں سمیٹتے دیکھے گئے ہیں۔ انھیں تو بس اپنے حصے سے غرض ھوتی ہے، یہ حصہ فطرہ، قربانی کے گائے و بکرے کی کھال یا پھر دکانداروں و کاروباری حضرات سے بھتہ کی صورت میں ھوتا ہے۔ اگر کوئی نہ دے تو پھر اس کا نتیجہ بم دھماکہ، ٹارگٹ کلنگ اور اغواء برائے تاوان کی صورت میں بھی سامنے آسکتا ہے۔
یھاں بھتہ نہ دینے کی صورت میں مارکیٹوں کو جلا کر خاکستر کر دیا جاتا ہے، پھر کس کی مجال ہے کہ حکم کی سرتابی کرے۔ اب تو حالت یہ ھوگئی ہے کہ کراچی میں بنک مینجروں کو بھی پرچیاں دی جاتی ہیں کہ اتنا بھتہ دے دو ورنہ۔۔۔۔! اس خوف و وحشت میں جینا یقیناً دشوار اور زندگی گزارنا ممکن دکھائی نھیں دیتا۔ دو کروڑ سے زائد آبادی کے اس شھر میں مجرموں، دھشت گردوں، بھتہ خوروں، بدمعاشوں، قاتلوں، رھزنوں، لٹیروں، ملکی و غیر ملکی خفیہ قوتوں کے ایجنٹوں کے رھنے کیلئے بنگلے بھی ہیں اور بلند و بالا عمارتوں میں فلیٹس بھی۔ مدارس کا وسیع جال بھی اور خانقاھوں کے سائے میں رات اور دن گزارنے کے مراکز بھی۔ اگر کسی کی نیند خراب ہے، کسی پر خوف و وحشت کا سایہ ہے تو وہ شریف اور بے ضرر انسان ہیں جو کسی تخریبی سرگرمی میں حصہ دار نھیں بنتے جو کسی کو تکلیف و آزار نھیں پھنچا سکتے، ایسے ھی لوگوں کیلئے مشکلات ہیں، ایسے ھی لوگوں پر خوف و وحشت کے سائے تنے ہیں۔
اس وقت اگرچہ رینجرز کی سرکردگی میں آپریشن جاری ہے، مگر ابھی تک اس آپریشن کے کسی اقدام (Step) کو غیر معمولی قرار نھیں دیا جاسکتا اور نہ ھی کسی کام کو خاطر خواہ کامیابی سے تعبیر کیا جاسکتا ہے۔ نیٹو کے 19 ھزار غائب ھونے والے کنٹینرز کے قصہ کو امریکی سفارت خانے کے وضاحتی تردیدی بیان کے بعد خاموش کرا دیا گیا ہے۔ اب تو ایسا لگتا ہے کہ جیسے یہ کوئی مسئلہ ھی نھیں تھا۔ یاد رھے کہ افغانستان سے واپس جانے والے نیٹو کے اسلحہ سے بھرے 19 ھزار کنٹینرز کے غائب ھونے کی خبریں زبان زد عام و خاص تھیں اور سپریم کورٹ نے بھی اس پر نوٹس لے رکھا ہے۔ یہ اسلحہ سے بھرے کنٹینرز کھاں تقسیم ھوگئے، اس بارے خدشات پائے جاتے ھی کہ یہ دھشت گردوں، تخریب کاروں اور مسلح جماعتوں کے ھاتھ لگ گیا ہے، جسے جان بوجھ کر گم کیا گیا ہے اور امریکی وضاحتی و تردیدی بیان سے یہ محسوس بھی ھوتا ہے کہ اس اسلحہ کے گم ھوجانے کا انھیں کوئی دکھ یا رنج نھیں اور نہ ھی وہ اسے نقصان سمجھ رھے ہیں، بلکہ یہ وہ انوسٹمنٹ ہے جس سے انھوں نے پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کا سامان کرنا ہے، تاکہ ایٹمی اسلامی مملکت ان کے سامنے کشکول گدائی لیئے مارے مارے پھرتی نظر آئے اور اس کے اندر عزت و غیرت نام کا مادہ ھمیشہ کیلئے نابود ھوجائے۔ امریکہ کی تردید کہ ھمارا کوئی کنٹینر غائب نھیں ھوا ہے کے بعد کون کھہ سکتا ہے کہ ایسا ھوا ہے۔ جب مدعی ھی صاف انکاری ھو کہ اس کا کوئی نقصان نھیں ھوا، پھر کوئی دوسرا یا تیسرا کیسے کھہ سکتا ہے کہ نقصان ھوا ہے۔؟
کراچی ایک انٹرنیشنل شھر ہے، اس میں برسرپیکار دھشت گرد گروھوں، تخریب کاروں، شدت پسندوں، فرقہ وارانہ جماعتوں اور نام نھاد جھادی گروپوں کے پس پردہ نیز بھتہ مافیا اور قبضہ گروپنگ ہر ایک کی پشت پر مقامی سرپرستوں کے علاوہ عالمی قوتوں اور پاکستان دشمن ممالک کی خفیہ ایجنسیوں کا ملوث نہ ھونا محض الزام نھیں، حالات و واقعات اور کارروائیوں سے ثابت شدہ ہے۔ اس بارے ھمارے خفیہ ادارے بھی اچھی طرح آگاہ ہیں۔ جب سپریم کورٹ میں کراچی بدامنی کیس میں یہ بات سامنے آسکتی ہے کہ یھاں کے ٹارگٹ کلرز اور دھشتگرد اسرائیلی اسلحہ استعمال کر رھے ہیں اور کئی ایک لوگوں سے ایسا اسلحہ برآمد بھی کیا گیا ہے تو پھر اس بات کو کیسے رد کیا جاسکتا ہے کہ اسرائیلی خفیہ ایجنسی موساد یھاں ملوث نھیں۔ موساد، CIA اور را مشترکہ طور پر بھی یہ کام کرتے ہیں۔
کراچی آپریشن میں تیزی و گرمی اس لئے بھی دکھائی نھیں دے رھی کہ یہ ایسے وقت میں شروع کیا گیا ہے جب پاکستان کے کسی دوسرے خطے میں ملک دشمن، دھشت گردوں کے ساتھ مفاھمت کا عمل شروع کیا گیا ہے اور سینکڑوں افراد کے قاتلوں کو پھانسیوں کے پھندوں سے امن مذاکرات کے تاوان کی نظر کیا گیا ہے اور فورسز و عوام کے مختلف طبقات میں اس حوالے سے مایوسی و بددلی نے جنم لیا ہے یہ کیسے ممکن ہے کہ حکمران ایک علاقے میں دھشتگردوں کو بغیر سفید جھنڈا لھرائے معافیاں دے رھی ھو اور دوسری طرف ان کے خلاف آپریشن کا تاثر دے رھی ھو۔ لہٰذا ممکن نھیں کہ یہ آپریشن اپنے منطقی انجام تک پھنچے اور کراچی کے عوام سکھ کا سانس لیں۔ ملک کی معیشت اپنی اصل پٹڑی پر چل پڑے، ایسا فی الحال دکھائی نھیں دیتا۔ ویسے بھی آپ دیکھیں کہ جس شھر میں دھشتگردوں، بھتہ خوروں، فرقہ پرست کالعدم گروھوں کے خلاف آپریشن ھو رھا ھو، وھاں سے انھیں ڈر و خوف کے مارے بھاگ جانا چاھیے، جبکہ ایسے ماحول میں جب رینجرز، ایجنسیاں اور پولیس اپنا پورا زور لگائے ھوئے ہیں، شیعیان علی(ع) کا خون ھر روز بھایا جا رھا ہے۔ دھشتگرد اپنا پیغام دے رھے ہیں کہ آپریشن ھلکا ھو یا زور دار، ھم اپنا کام جاری رکھیں گے، یعنی اھل تشیع قتل ھوتے رھیں گے اور معصوموں کا خون بھتا رھے ۔۔۔۔ کراچی ملک کی اقتصادی شھہ رگ ہے، اس رگ کو یونھی دبایا جائے گا۔