www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

ایران دنیا کے سب سے بڑی اور طاقتور ملک کا حریف بننا چاھتا ہے جبکہ خلیج فارس کی عرب ریاستیں سر در گریباں ہیں

 اور دنیا میں ان کی سرگرمیاں بھت محدود ہیں۔
کویتی اخبار "الجریدہ" نے دنیا اور خطے میں ایران کی زبردست انٹیلجلس اور سیاسی طاقت کی طرف اشارہ کرتے ھوئے ایران کے قومی مفادات کی خاطر ایرانی حکام کے فعال کردار کا جائزہ لیا ہے۔
اخبار الجریدہ میں حسن العیسی نے اپنے مضمون بعنوان "ھم کھاں اور ایران کھاں؟" میں لکھا: ایرانی صدر نے اوباما سے کھا: "Have a nice day" اور اوباما نے کھا "خداحافظ"، اور خلیج فارس کی عرب ریاستوں کو یھی سن کر فکرمند اور پریشان ھونا چاھئے۔ یہ باتیں روحانی کے ساتھ امریکی صدر کے ٹیلی فونک گفتگو میں کھے گئے جو مستقبل میں ایران اور امریکہ کے درمیان تعلقات کی بحالی کی علامت ھوسکتے ہیں؛ چنانچہ عرب ریاستیں پریشان ہیں کیونکہ ان کے خیال میں اب خلیج فارس کے مفادات کا امریکہ جیسا نگھبان ان سے منہ موڑے گا اور شام کے مسائل میں عرب ریاستوں کی ترجیحات اور مخالف مسلح گروھوں کی کامیابی کی ضرورت کے اھمیت نھيں دے گا البتہ شام پر فوجی حملے سے امریکہ کی پسپائی کے وقت بھی امریکی پالیسی میں یہ بات نمایاں تھی۔
دوسری طرف سے شام، عراق اور لبنان میں جنگوں اور فتنوں اور علاقے کے فرقہ پرست ممالک کی نسبت امریکہ کی ممکنہ غیرجانبداری بھی خلیج فارس کی عرب ریاستوں کے حکمرانوں کے لئے تشویش کا سبب بنی ھوئی ہے۔
البتہ ابھی یہ کھنا قبل از وقت ہے کہ ایران اور امریکہ کے تعلقات میں بنے ھوئے برف کے پھاڑ عنقریب پگھل سکتے ہیں کیونکہ بیچ میں اسرائیلی ریاست ہے جو ایران کے لئے سب سے اھم مسئلہ ہے اور ایران بھی اسرائیل کے لئے صرف اس کے جوھری مسئلے کی وجہ سے نھيں ہے بلکہ ایران اس لئے بھی اھم ہے کہ حزب اللہ اور حماس سمیت علاقے میں اسلامی مزاحمت کی تنظیموں کا حامی ہے۔
ایران اور امریکہ کے تعلقات میں دوسری رکاوٹیں بھی ہیں اور ان ممالک کے مفادات ایک دوسرے سے متصادم ہیں۔ ایرانی سابق امریکی صدر روزولٹ کو ایسے فرد کی حیثیت سے جانتے ہیں جس نے اپنے خونی پنجے ملت ایران کے قلب میں گاڑھ لئے ہيں اور ایران میں شھنشاھی نظام کی بنیاد رکھی ہے۔
جنرل سلیمانی کی داستان ـ جنھیں رھبر انقلاب شھید زندہ کا نام دیتے ہیں ـ بھی ایک خیال پردازانہ داستان سے کھیں بالاتر ہے۔ البتہ اس موضوع کو امریکی اخبار نیویارک نے بھی ایک طویل مضمون کا موضوع قرار دیا ہے جس کو "قیادت کا سایہ" کے عنوان سے شائع کیا گیا ہے۔ یہ سایہ یعنی قاسم سلیمانی ایرانی کھیتیوں کے فرزند ہیں جو شاہ کے زمانے میں غربت اور افلاس میں زندگی بسر کررھے تھے؛ اور اسلامی انقلاب کے بعد انھوں نے تیزرفتاری سے نشوونما کے مراحل طے کئے اور انھوں نے جنگ کے دوران بے شمار بسیجی فورسز کو بھرتی کرکے عراق کی بعث حکومت کے خلاف محاذ جنگ روانہ کیا۔ وہ ایسے مرد ہیں جنھوں نے بعض لوگوں کے بقول 1982 میں بیروت میں امریکی میرینز کے خلاف حزب اللہ کے حملے کی منصوبہ بندی کی تھی اور پوری قوت کے ساتھ ڈٹ گئے حتی کہ حزب اللہ کی تشکیل عمل میں آ‏ئی۔ البتہ ان کا کردار صرف امریکیوں یہ امریکی مفادات کو نشانہ بنانے تک محدود نھیں ہے بلکہ بعض اوقات انھوں نے امریکیوں کے ساتھ تعاون بھی کیا۔
حسن العیسی نے اپنے مضمون میں دعوی کیا ہے کہ کہ 11 ستمبر کے واقعے کے بعد ـ جب طالبان پر حملے کے سلسلے میں ایران اور امریکہ کے مفادات مشترک ھوگئے تھے، ایران نے طالبان فورسز کا نقشہ امریکیوں کے حوالے کیا۔
حسن العیسی نے لکھا ہے کہ لبنان میں بھی ان کے خفیہ کردار کے بارے ميں قیاس آرائیاں جاری رھتی ہیں۔
قاسم سلیمانی وھی شخص ہیں جنھوں نے عراق پر امریکی حملے کے بعد اس ملک میں شیعہ اتحاد قائم کیا اور امریکہ کے لئے عرصہ حیات تنگ کردیا جس کے بعد (العیسی کے بقول) نوری المالکی عراقی وزیر اعظم کے طور پر مسلط کئے گئے! کیونکہ امریکیوں نے اپنے دوست ایاد علاوی کے ساتھ غداری کی۔ نیز قاسم سلیمانی وھی ہیں جنہوں نے اپنی فورسز حزب اللہ کی فورسز کے ھمراہ شام کے شھر القصیر میں بھجوادیں تاکہ وہ وھاں مسلح گروپوں کے خلاف لڑیں اور اس اھم اور سوق الجیشی شھر پر کنٹرول حاصل کیا اور مسلح گروپوں کی امداد کے راستوں کو بند کردیا۔
البتہ خفیہ معلوماتی سرگرمیوں کے حوالے سے قاسم سلیمانی کی ذھانت کی مثالیں بھت زیادہ ہیں جنھیں اس مضمون میں نقل کرنا ممکن نھيں ہے۔ وہ یہ سرگرمیاں انجام دیتے ہیں تا کہ ایران اور اپنی قوم کے مفادات کا تحفظ کریں لیکن جو کچھ اس وقت اھم ہے وہ یہ ہے کہ ھمیں جان لینا چاھئے کہ ایران نے اپنی انٹیلجنس ایجنسیوں میں سینکڑوں سلیمانیوں کو پرورش دی ہے جو اس ملک کے تزویری مفادات کا تحفظ کرتے ہیں اور شدید معاشی پابندیوں کے باوجود ایرانی حکام سیاسی میدان میں بھت زيادہ ھوشیار اور ھوشمند ہیں۔ وہ انیسویں صدی عیسوی کے آخر میں برسراقتدار رھنے والے برطانوی وزیر اعظم کی "سیاسی حکمت" کو بروئے کار لائے ھوئے ہیں جس کا کھنا تھا: "دوست اور دشمن ابدی نھیں ہیں بلکہ مفادات دائمی ہیں"۔
چنانچہ ایران کی کوشش ہے کہ دنیا کے سب سے بڑے اور طاقتور ملک کا حریف ھو جبکہ ھم خلیج فارس کے عرب حکام کو دیکھ رھے ہيں جو سردرگریبان، عرب دنیا کے اندر محدود فعالیت کررھے ہیں اور ان فعالیتوں کے لئے مناسب بچے کو گھوارے میں بٹھا چکے ہیں اور اس کو پرورش نھیں دی ہے اور وہ نشوونما نھیں پاسکا ہے اور ان کی خفیہ ایجنسیوں کی زيرکی ایسے خاص خاص افراد تک محدود ہے جن کی سرگرمیاں ٹویٹر کے دائرے سے باھر نھیں ہیں اور اپنے آپ کو فیس بک میں چھوڑ کر بھول آئے ہیں۔ ۔۔۔۔ پس ھم کھاں اور وہ کھاں؟
 

Add comment


Security code
Refresh