ایک عرب ویب سائٹ نے ـ بقول اس کے ـ معتبر ذرائع کے حوالے سے لکھا ہے کہ سعودی بادشاہ اگلے ایک سے دو مھینوں کے دوران
بندر بن سلطان کی معزولی سمیت غیرمتوقعہ فیصلے کرنے والے ہیں۔
الحدث نیوز ویب سائٹ نے اس غیر مصدقہ رپورٹ میں کھا ہے کہ ممکن ہے کہ عبداللہ بن عبدالعزیز آل سعود ـ جو علالت میں شدت آنے کے بموجب گذشتہ کئی ھفتوں سے کابینہ کے اجلاس میں شرکت نھیں کرسکے ہیں ـ آنے والے ایک سے دو مھینوں کے دوران اھم معزولیاں اور تقرریاں کریں۔
الحدث نے لکھا ہے: ولیعھد سلمان بن عبدالعزیز الزایمر کے مریض ہیں اور اپنا استعفی بادشاہ کو پیش کرچکے ہیں اور ولیعھدی کا عھدہ چھوڑ کر بیرون ملک علاج کروانا چاھتے ہیں اور اگلے ایک دو ماہ کے دوران بادشاہ ان کا استعفی قبول کرسکتے ہیں۔
قبل ازیں سابق ولیعھد سلطان بن عبدالعزیز اور دوسرے ولیعھد نائف بن عبدالعزیز بادشاھی کا منصب سنبھالنے کے انتظار میں دنیا سے رخصت ھوئے ہیں اور یہ تیسرے ولیعھد ہیں جو ولیعھدی کے دوران بیماری کی وجہ سے انتقال کرنے سے قبل ھی استعفی دے چکے ہیں جو ابھی تک منظور نھيں ھوا ہے تاھم پھلی بار ایک سعودی بادشاہ تیسرے ولیعھد کو بھی اپنے سامنے سے ھٹانے کی پوزیشن میں ہیں۔
الحدث نیوز نے لکھا ہے کہ ولیعھد سلمان بن عبدالعزیز اپنے بیٹے محمد بن سلمان کو وزارت دفاع کا عھدہ دلوانے کی کوشش کررھے ہیں جس کے بعد وہ ملک چھوڑ کر چلے جائیں گے۔
سعودی وزیر دفاع کا قلمدان اس وقت لیعھد سلمان بن عبدالعزیز کے پاس ہے اور ان کے استعفے کے بعد مقرن بن عبدالعزیز علامتی طور پر ولیعھد کا عھدہ سنبھالیں گے؛ یعنی یہ کہ مقرن بادشاہ نھيں بنیں گے بلکہ ایک سال تک یہ عھدہ سنبھالے رھیں گے۔
نیز عبداللہ بن عبدالعزیز ایک فرمان کے تحت اپنے بیٹے متعب بن عبداللہ کو نیشنل گارڈ کے وزير اور سربراہ حکومت کے نائب دوئم کے عنوان سے مقرر کریں گے اور متعب کو ولیعھدی کے منصب سے قریب تر کردے گا۔ اور مقرن بن عبدالعزیز کی برطرفی کے بعد انھیں ولیعھد بنایا جائے گا اور پھر عبداللہ کے انتقال یا کنارہ کشی کی صورت میں متعب ھی سعودی بادشاہ بنیں گے۔
عبداللہ کے باپ عبدالعزیز کی وصیت کے مطابق جب تک ان کے بیٹے زندہ ہیں اس وقت تک تیسری نسل کا کوئی شھزادہ بادشاہ کا عھدہ سنبھالنے کا اھل نھیں ہے تاھم گویا بادشاہ عبداللہ اس روایت کو بھی توڑنا چاھتے ہیں اور بادشاھت کو اپنی اولاد کے سپرد کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
ادھر سعود الفیصل کی برطرفی کا بھی منصوبہ ہے اور بادشاہ انھیں ھٹا کر اپنے بیٹے عبدالعزیز کو وزارت خارجہ کا عھدہ سونپنے کا ارادہ رکھتے ہیں اور یہ تبدیلی ملک میں متعدد دوسری تبدیلیوں کا پیش خیمہ ثابت ھوگی۔
گوکہ حال ھی میں 17 شھزادوں نے بندر بن سلطان کی برطرفی کا مطالبہ کیا ہے لیکن گویا ان کی برطرفی امریکیوں کی ایماء پر سزاکے طور پر، قرار پائی ہے کیونکہ انھوں نے سعودی عرب کے سلسلے میں امریکی پالیسیوں کو کئی مرتبہ دشواری سے دوچار کیا ہے؛ ادھر کھا جاتا ہے کہ اگر بندر بن سلطان شام کے مسئلے میں یا حزب اللہ لبنان کے خلاف، کوئی کامیابی حاصل کرے تو امریکہ شاھی خاندان میں مزید اعلی رتبہ دلوانے کی کوشش کرسکتا ہے اور آل سعود کے شھزادوں کے لئے ایسا کوئی واقعہ ھرگز خوشایند نھیں ہے چنانچہ شھزادوں کی اکثریت بندر کی معزولی کا خیر مقدم کرے گی۔
سعودی شھزادے بندر بن سلطان کو بےاصل و نسب امیر سمجھتے ہیں کیونکہ ان کی ماں "خیزرانہ" ایتھوپیا کی سیاہ فام تھی جو ان کے باپ سلطان بن عبدالعزیز سے نکاح سے قبل ھی بندر پر حاملہ ھوئی تھی چنانچہ سلطان طویل عرصے تک بندر کو اپنا بیٹا تسلیم کرنے پر تیار نہ تھے جس کی وجہ سے آل سعود کے بزرگ بندر سے نفرت کرتے ہیں اور ان کے مکر اور خیانت سے مسلسل خائف رھتے ہیں۔
الحدث نے اپنے ذرائع کا نام تو نھیں لیا ہے لیکن عین ممکن ہے کہ یہ اطلاعات آل سعود کے کسی گھر کے بھیدی نے اس ویب سائٹ کو فراھم کی ھوں کیونکہ اس طرح کی معلومات خاندان آل سعود کے سوا کسی اور سے حاصل ھونا ممکن نھیں ہیں؛ یا پھر تخمینے اور اندازے ہیں۔