اردن کے دارالحکومت امان میں امریکی، یورپی اور اردنی فوجی افسران، ایک سعود شھزادے اور دھشت گرد ٹولے "جبھۃالنصرہ" کے سرغنے کا
خفیہ اجلاس ھوا ہے جس میں ممکنہ امریکی حملے کا ساتھ دینے کے لئے تکفیری دھشت گردوں کی تیاری کا جائزہ لیا گیا۔
یہ اجلاس 10 ستمبر کو امان کے شارع الکندی پر واقع فورسیزن ھوٹل میں دو گھنٹے جاری رھا جس میں امریکی، برطانوی اور فرانسیسی فوجی اور انٹیلجنس افسران کے علاوہ سعودی شھزادے اور نائب وزیر دفاع شھزادہ سلمان بن سلطان نیز القاعدہ سے وابستہ بدنام زمانہ دھشت گرد تنظیم جبھۃالنصرہ کے سرغنے ابومحمد الجولانی نے شرکت کی اور شام کے خلاف برسرپیکار دھشت گردوں کی طرف سے ممکنہ امریکی حملے کا ساتھ دینے کے امکانات اور تیاریوں سمیت متعدد مسائل کا جائزہ لیا گیا۔
اس رپورٹ کے مطابق امریکیوں نے الجولانی سے کھا: شام پر حملے کا مقصد ھوائی اڈوں اور میزائل اڈوں سمیت حساس مقامات کو تباہ کرنا ہے؛ اور باقی کام شام کے اندر برسرپیکار تنظیموں کے سپرد ہے۔
اطلاعات کے مطابق شھزادہ سلمان بن سلطان اردن میں قیام پذیر ہیں اور اس ملک میں زیر تربیت دھشت گردوں کے تربیتی کیمپوں کی نگرانی کررھے ہیں۔ اس شھزادے اجلاس کے شرکاء سے کھا: ھم مختلف قسم کے ھتھیار اور گاڑیاں مسلح گروپوں کے لئے فراھم کرسکتے ہیں اور اگر ضرورت پڑی تو سعودی فضائیہ بھی شام کے خلاف امریکی کاروائی میں شرکت کرسکتی ہے تاھم سعودی عرب عمل کے میدان میں حاضر نھيں ھوسکے گا۔
اس اجلاس می جنوبی شام پر خاص توجہ دی گئی اور زور دیا گیا کہ شام کے جنوب میں مسلح گروپوں کو تیار رھنا چاھئے اور اس علاقے سے شام میں دراندازی کا کام بھرصورت کامیابی سے انجام پانا چاھئے۔
اس اجلاس میں امریکہ اور آل سعود نے جبھۃالنصرہ کے سرغنے سے درخواست کی فری سیرین آرمی سمیت دوسرے دھشت گرد ٹولوں کے ساتھ ھمآھنگ ہو اور جولانی نے تعاون کا یقین دلایا اور کھا کہ فری سیرین آرمی کے ساتھ اپنے تنازعات روک لے گا اور اس گروپ کے ساتھ مشترکہ آپریشن روم قائم کرے گا اور درعا، ریف دمشق اور القنیطرہ میں ھونے والی کاروائیوں کے طرح، فری سیرین آرمی کے ساتھ مشترکہ کاروائیاں کرکے شامی افواج کا مقابلہ کرے گا۔
سعودی فریق نے کھا کہ سعودی امر بالمعروف اور نھی عن المنکر پولیس اور دیگر سلفی ـ سعودی اداروں کے توسط سے جبھۃالنصرہ کو ھر قسم کی امداد فراھم کی جائے گی اور نقد رقم دی جائے گی۔
اردن کے دار الحکومت میں امریکیوں اور سعودیوں کے ساتھ الجولانی کی یہ دوسری ملاقات تھی۔