طالبان کا کھنا ہے اتوار کو پاکستان کے شمالی علاقے میں دس غیر ملکی کوہ پیماؤں سمیت گیارہ افراد کو طالبان ھی کی ایک شاخ نے نشانہ بنایا
ہے۔ ھلاک ھونے والوں میں ایک پاکستانی علی حسین بھی شامل ہے جو شیعہ مسلک سے تعلق رکھتے تھے۔
غیر ملکیوں کے ساتھ موجود پانچ مقامی افراد میں سے علی حسین واحد پاکستانی تھے جنھیں دھشت گردوں نے ھلاک کیا جبکہ سنی مسلک سے تعلق رکھنے والے باقی چار افراد کو چھوڑ دیا۔
اٹھائیس سالہ علی حسین کے خاندان کے افراد اور دوستوں کا کھنا ہے کہ وہ مصروف زندگی گزارتے تھے۔ نانگا پربت اور اس کے اطراف میں کوہ پیمائی کے لیے آنے والوں کے ساتھ کبھی کھبار وہ بحیثیت قلی اور باورچی کام کرتے تھے۔ اتوار کی شب گلگت بلتستان کے علاقے سکردو کے گاؤں میں اُن کی میت پھنچی۔ رشتے داروں کا کھنا ہے کہ علی حسین کے سر اور سینے میں گولیاں ماری گئیں۔علی حسین کے ایک رشتہ دار علی خان کے مطابق علی حسین کی موت سے اُن کا خاندان تباہ ھو گیا ہے۔ ’وہ محنتی تھا۔اچھے پیسے کماتا تھا اور کامیاب تھا۔
علی حسین نے پاکستان کے شمالی علاقے کے مزدوروں کے طریقے کے مطابق زندگی گزارنے لگے۔ وہ سردیوں میں پنجاب کے علاقے میں کھانا پکانے کا کام کرتے اور موسم گرما میں گلگت بلتستان کے علاقے میں 40 دن کوہ پیمائی کے موسم میں بلندیوں تک سامان لے کر جاتے۔
علی حسین کے والدین نے بھت کم عرصے اُن کے تعلیمی اخراجات برداشت کیے۔ انھیں کھیتوں میں والدین کے ساتھ ھاتھ بٹانے کے لیے سکول کو چھوڑنا پڑا۔ لیکن علی حسین نے اپنے پانچ سال کے عمر کے لڑکے کو انگلش میڈیم سکول میں تعلیم دلوانے کے لیے سخت محنت کر رھے تھے۔
علی حسین نے اپنے پسماندگان میں بیوی سمیت، بیٹا اور دو بیٹیاں چھوڑی ہیں۔ اُن کی سب سے چھوٹی بیٹی صرف آٹھ ماہ کی ہے۔
اطلاعات کے مطابق مقامی سکیورٹی فورسز کی وردیوں میں ملبوس مسلح حملہ آوروں کی تعداد کم از کم پندرہ تھی۔ دھشت گردی کا یہ واقع 4200 میٹر کی بلندی پر ھوا ہے۔ تجزیہ کاروں کا کھنا ہے کہ حملہ آور اٹھارہ گھنٹے پیدل یا خچر پر سفر کر کے اس مقام پر پھنچے تھے۔