حج بھترین موقعہ
دین اسلام نے مسلمانوں کے اجتماع کو کافی اھمیت دی ھے ۔یھاں تک کہ اس دین مبین نے امت مسلمہ کو جماعت واجتماع کی طرف رغبت دلانے کی خاطر باجماعت ادا ھونے والے اعمال و فرائض میں بے انتھا ثواب قرار دیا ھے ۔جو ثواب واجب نمازوں کوبا جماعت ادا کرنے میں قرار دیا گیا ھے اتنا ثواب فرادیٰ نماز کو حاصل نھیں ھے جیسا کہ احادیث میں واردھوا ھے کہ اگر نماز جماعت میں نمازیوں کی تعداد دس افراد سے زیادہ ھوگی تو اس کاثواب خداوند عالم کے علاوہ کسی کے علم میں نھیں ھے ۔(۱۵)اسی طرح اگر یہ نماز عام مسجد میں قائم ھو تو اس کا ثواب اور بھی زےادہ ھے اور اگر وہ مسجد، جامع مسجدھو تو اس کے ثواب کی انتھا نھیں ھے۔اسی طرح اسلام نے دیگر اعمال و عبادات میں بھی مسلمان کی وحدت اور ان کے اجتماع کو بھت اھمیت دی ھے۔
لیکن کیا اسلام کایہ حسین قانون صرف معنوی حکمت کا حامل ھے؟نھیں ھرگز نھیں !ھم اسے ایک معنوی پھلو کا نام دیکر محدود نھیں بنا سکتے اسلئے کہ اگر خدا کو اس قدر ثواب دینا تھا تو وہ گھر میں پڑھی جانے والی فرادیٰ نماز میں بھی یہ ثواب قرار دے سکتا تھا ۔اس کے خزانے میں کوئی کمی نھیں ھے لیکن اجتماعی اعمال وافعال میں اس قدر ثواب کے موجود ھونے کا مطلب یہ ھے کہ اس میں معنوی پھلو کے علاوہ بھی کوئی اھم پھلو ھے جو براہ راست اس اجتماع سے مربوط ھوتا ھے اور وہ ھے اسلام کا سیاسی پھلو یعنی ایسے اجتماعات کا ھدف یہ ھے کہ امت مسلمہ عالم اسلام کے حالات سے آگاہ ھوتی رھے اور اسلام ومسلمین کی چارہ جوئی میں مصروف رھے۔
اس بات کا کافی حد تک امکان پایا جاتا ھے کہ دین اسلام نے جماعت میں فرادیٰ کی بنسبت زیادہ ثواب رکھا ھے تاکہ اھل خاندان اور پڑوسی ایک جگہ جمع ھوںاور ایک دوسرے کے ا حوال سے آگاہ ھوں۔ مسجد میں پڑھی جانے والی نماز جماعت کا ثواب گھر میں پڑھی جانے والی نماز جماعت کے ثواب سے زیادہ قرار دیا گیا ھے تاکہ ایک محلہ اور ایک گاوٴں کے مسلمان ایک دوسرے کے احوال سے با خبر ھوں اور در پیش مشکلات کے بارے میں غور وفکر کرنے پر مجبور ھوں ،اسی طرح نماز جمعہ کا ایک فلسفہ یہ ھے کہ قرب و جوار اور اکناف و اطراف کے مسلمان ایک مقام پر اکٹھا ھوں اور اپنی مشکلات کے بارے میں چارہ اندیشی کریں ،اسی سلسلے کو برقرار رکھتے ھوئے اسلام نے پوری دنیا میں پھیلے ھوئے فرزندان توحید کو ایک مقام پر جمع کرنا چاھا تو حج کو واجب کر دیا *تاکہ مسلمانان عالم پوری دنیائے اسلام کے حالات سے باخبر ھوں ،تبادلہ خیال کریں ،اسلام اور مسلمین کو مشکلات کی دلدل سے نکالیں اور توحید کے زیر سایہ آکر اتحاد کا پرچم بلند کریں۔
لشکر اسلام کا یہ عظیم اجتماع دشمنان اسلام کی تمام کوششوں کو نقش بر آب کرکے پیروان دین مبین کو کائنات ھستی میں دوبارہ سر بلندی عطا کر سکتا ھے مگر ضرورت ھے وحدت و اتحاد، نظم وانسجام ، عزم راسخ اور قلب محکم کی ۔اسی لئے تو اسلام محمدی ھر موحد کو آواز دے رھا ھے:
جھان رنگ و خو کو چھوڑ کر ملت میں گم ھو جا
نہ ایرانی رھے باقی نہ تورانی نہ افغانی(علامہ اقبال)