www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

کعبہ وامامت اور حج و ولایت کا ربط

اگر چہ کعبہ عالمین کے مسلمانوں کا قبلہ اور جائے طواف ھے اور تمام مسلمان اپنی زندگی اور موت میں اسی کی طرف رخ کرتے ھیں اس کی طرف قصد و ارادہ بھی خدا کی طرف ھجرت ھے کہ اگر ھجرت کی راہ میں موت آجائے تو اسے مھاجر کی جزا ملے گی اور اس کا اجر دینے کا الله نے خود وعدہ فرمایا ھے:

"و من یخرج من بیتہ مھاجراً الیٰ الله و رسولہ ثمّ یدرکہ الموت فقد وقع اجرہ علیٰ الله "(۱۸)

نیز اگر چہ مکہ کی فقھی و سیاسی خصوصیت ثابت ھے جس سے دوسری جگھیں اور شھر محروم ھیں، یوں ھی حج اور اس کے مخفلت مقامات ان خاص سیاسی عبادی پھلووٴں کے حامل ھیں کہ دوسری عبادتوں میں وہ خصوصیات نھیں پائی جاتیں لیکن اس کی یہ تمام خصوصیتں اور اھمیتیں ولایت و امامت کی رھین منّت ھیں یعنی ملکوتی قیادت و رھبری، اعمال ، نیتیں ،دعائیں ،روشن اور واضح نشانیوں کا مشاھدہ حج کے معنوی اسرار سے آگاھی وغیرہ بھی امام معصوم کی تکوینی ولایت کے پر تو میں ھے جس کا حج تمام حجوں کا امام ھے اور امت کے اعمال کے آگے آگے خداوند عالم کی بارگاہ قبول کیطرف صعود کرتا ھے اور دوسروں کے اعمال اس کے پیچھے بلند ھوتے ھیں ۔

معصومین علیھم السلام کی ولایت تکوینی امت کو اعمال کی ھدایت ، اس کے تمام ظاھری و باطنی اعمال کا مشاھدہ اور قیامت میں ان تمام اعمال کی گواھی ایک ایسا حقیقی منصب و مقام ھے جسے نہ قانونی طور سے نصب کرنے کی ضرورت ھے اور نہ غصب کیا جا سکتا ھے۔

یوں ھی حج اور اس کے مختلف مقامات پر سیاسی قیادت و رھبری پوری دنیا سے آئے ھوئے انسانوں کے عظیم اجتماع کو ایک پاک و آزاد محور و مکان کی طرف جھت دینا، دنیا بھر کے مختلف افکار و خیالات سے فائدہ اٹھا نا، آزاد ی و استقلال کے تشنہ کاموں کو سیراب کرنا اور عالمی جبر و استکبار سے انھیں نجات دینا حقیقی معنیٰ میں امام معصوم کی امامت و قیادت کے پرتو میں اور غیبت کے زمانہ میں امام معصوم کے نائبوں کی رھنمائی میں ھی انجام پاتا ھے۔ ھر علاقہ میں شب و روز کی نماز کے لئے نماز جماعت کے عنوان سے اور ھفتہ میں ایک بار نماز جمعہ کے نام پر لوگوں کے اکٹھا ھونے کا راز یہ ھے کہ لوگ جماعت کے چھوٹے چھوٹے علاقائی اجتماع سے نماز جمعہ کے اجتماع اور وھاں سے حج کے عالمی اجتماع میں حرم کی حدود میں اکھٹا ھوں تاکہ قیادت و رھبری اور ایک فکری روش کے ذریعہ توحید کے ارکان مستحکم ھوجائیں اور شرک و الحاد و استکبار کی بنیاددنیا سے اکھڑ جائے مظلوم انسان بڑی طاقتوں کے خداؤں کی پرشتش سے آزاد ھوں ظالموں کا ھاتھ محروموں اور بے کسوں تک نہ پھنچنے پائے، خود سر اور غارتگر افراد مظلوموں کی سرزمین پر قدم نہ رکھنے پائیں۔

ولایت کے بغیر حج، امامت کے بغیر کعبہ کا قصد ، امام کی معرفت کے بغیر میدان عرفات میں حاضری، امامت کی راہ میں فداکاری کے بغیر قربانی، ظاھری و باطنی استکباری شیطان کو خود سے دور بھگائے بغیر رمی جمرہ،امام کی معرفت اور اس کی اطاعت کی کوشش کے بغیر صفاو مروہ کے درمیان سعی بے سود اور لا حاصل ھوگی، کیونکہ اگر چہ حج اسلام کی بنیادی چیزوں میں سے ھے:

"اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر ھے، نماز ، زکوٰة، روزہ،حج اورولایت"۔ (۱۹)

لیکن نماز، روزہ،زکوٰة، اورحج میں سے کوئی بھی ولایت کے مانند اسلام کا محکم و استوار رکن نھیں ھے۔ یھی وجہ ھے کہ ھمارے روائی جامعوں ( احادیث کے مجموعوں) میں آیا ھے کہ خداوند عالم کی طرف سے کوئی بھی دعوت اتنی نھیں دی گئی جتنی ولایت و امامت کی دعوت دی گئی۔

 کیونکہ انسان کامل جو خود اسلام کا عملی نمونہ ھے، اسلام کے تمام پھلوٴوں سے آگاہ اور لوگوں کو اس کی تعلیم دے سکتا ھے، انھیں توحید کی روح یعنی طاغوت کے خلاف آواز اٹھانے اور ااٹھ کھڑے ھونے کے لئے آمادہ کرسکتا ھے۔

وحی کی زبان میں حرم اور کعبہ کا امامت و ولایت سے ربط

"لا اقسم بھذا البلد و انت حلّ بھذا البلد" (۲۰)

جس طرح سے زمانہ اور حساس و تاریخی زمانوں مثلاً وحی و رسالت کے زمانوں کی قسم قرآن میں ذکر ھوئی" و العصر انّ الانسان لفی خسرٍ"(۲۱) یوں ھی اھم تاریخی سر زمینوں کی قسم بھی قرآن میں آئی ھے مثلاً مذکورہ بالا آیت جس میں سرزمین مکہ اور بلد امین کو قسم کے ساتھ یادکیا گیا ھے۔ قرآن کی قسمیں انسانی قسموں کے مانند نھیں ھیں، کیونکہ انسانی قسمیں شھادت اور دلیل کے مقابل ھواکرتی ھیں لیکن قرآن کی قسم خود شھادت و دلیل میں ھے یعنی وہ انسان کو خود دلیل کی ھدایت کرتا ھے ۔ اسی وجہ سے اس نے اس زمین کی قسم کو ایک قید کے ساتھ رکھا ھے اور وہ یہ کہ پیغمبر خدا (ص) اس سرزمین میں ھو،یعنی خداوند عالم اس سرزمین کو قسم سے یاد کرتا ھے اور اس مکہ کی قسم کھاتا ھے جس میں پیغمبر اسلام موجود ھوں۔ ورنہ مکہ پیغمبر (ص) کے بغیر اور کعبہ الٰھی و آسمانی رھبر کے بغیر ایک معمولی زمین اور ایک عام گھر ھے ، جو رفتہ رفتہ مکمل طور پر ایک بتکدہ،بت پرستی کا مرکز، بت پرسروں کا اسیر اور ھوس پرستوں کے جنگل میں گرفتارھوجائے گا یھاں تک کہ کعبہ کا کلید دار"ابو غیتان"کعبہ کی تولیت کی بگڑی طائف میں شراب نو شی کی شب باشی میں دومشک شراب کے عوض بیچ دے اور کعبہ طائف کے شرابیوں کے درمیان شراب و کباب کے عوض خریدا اور بیچاجائے۔

اعمال حج کا اختتام اور کعبہ سے وداع

جس طرح کائنات ھستی کا مبداٴ و خالق خداوندا عالم تھا، اسے تمام کرنے والی اور اختتام تک پھنچانے والی بھی خدا کی ذات ھے " ھو الاوّل و الآخر" (۲۲) یوں ھی کائنات کی تمام موجودات کا آغاز بھی خدا سے ھے اور ان تمام چیزوں کا انجام اور بازگشت بھی اسی کی جانب ھے " انّا للّٰہ و انّا الیہ راجعون' (۲۳) اسی بنا پر ضروری ھے کہ ھر کام جو ایک موحد و خدا پرست انسان انجام دیتا ہ اس کی ابتدا میں خدا کانام اور اس کی انتھا و انجام میں بھی خدا کی یاد اور اس کا ذکر رھے۔ وہ کوئی بھی کام خدا کے نام کے بغیر شروع نہ کرے اور اس کا عمل بھی خدا کی یاد سے الگ نہ ھو۔ عملی زندگی میں اس کے توحید ی اعتقاد اور شھود خدا وند کی طرف اس کی توجہ کا پتہ دیتا ھے۔ اسی لئے قرآن کریم ھمیں حکم دیتا ھے:

"کھو! کہ اے پاکنے والے مجھے جس منزل میں داخل فرما صداقت و خوبی کے ساتھ داخل فرما اور جھاں سے نکال سچائی کے ساتھ اور بھترین انداز میں نکال اور اپنی جانب سے میرے لئے ایک قوی و طاقتور مدد گار قرار دے" (۲۴) یعنی دنیا میں میرا آنا اور یھاں سے جانا، یوں ھی عالم برزخ میں داخل ھونا اور وھاں سے نکل کر قیامت میں پھنچنا نیز ھر کام میں داخل ھونا اور اس سے عھدہ برآھونا سچائی اور بھتری کی بنیاد پر ھو۔ کعبہ کی زیارت اور حج بھی اسی قرآنی اصل و قانون کی بنیاد پر ھے، کیونکہ اس میں وارد ھونا توحید کی بنیاد پر ، صدق نیت کے ساتھ احرام باند کر اور لبیک کھہ کر نیز حج کا خاتمہ اور کعبہ سے وداع بھی توحید اور سچے ارادے کے ساتھ ھونا ضروری اور لازمی ھے۔ اس لئے حضرت ابو الحسن علیہ السلام سے نقل ھے کہ آپ  کعبہ سے وداع کے وقت فرماتے تھے:

"اللّٰھمّ انّی انقلب علی لا الٰہ الّا انت"

پروردگارا میں توحید کی بنیاد پر نیز ھر طرح کے طاغوت اور جھوٹے خدا کی نفی کرتے ھوئے حج اور کعبہ کی زیارت سے واپس ھورھا ھوں“۔

جب حاجی اعمال حج بجالانے کے بعد ھر آلودگی و کثافت سے پاک ھوجاتا ھے تو اس وقت تک ایک نورانی انسان رھے گا جب تک گناھوں سے آلودہ نہ ھو۔ جیسا کہ امام جعفر صادق علیہ السلام  سے روایت ھے:

"الحاج لا یزال علیہ نور الحج ما لم یلم بذنب"(۲۵)

اگر حج کرنے والے نے یہ نورانیت اپنے اندر دیکھی تو سمجھ لے کہ اس کا حج مقبول ھے، ورنہ وہ حج مردود ھے۔

Add comment


Security code
Refresh