www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

 حج الٰھی: انسانی قدروں کی تعیین کا بھترین عامل

زمانہٴ اھل بیت کی رسم یہ تھی کہ لوگ حج سے فارغ ھونے کے بعد "منیٰ" میں جمع ھوتے تھے اور اپنے قومی و نسلی خصوصیات و افتخارات بیان کرتے تھے۔ عھد جاھلی کی قدروں کی بنیاد پر نظم و نثر کے قالب میں اپنے بزرگوں کا ذکر کرتے تھے اور ان پر فخر کرتے تھے ، لیکن اسلام میں حج کے نظام نے ان جاھلانہ باتوں کو ختم کرکے الٰھی قدروں کا نظام بیان کیا اور لوگوں کو اس کی طرف ھدایت کی۔

"پس جب تم عرفات سے چل پڑو تو مشعر الحرام کے نزدیک خدا کا ذکر کرو اور اس کا تذکرہ کرو کہ اس نے کس طرح تمھاری ھدایت کی اگر چہ تم اس سے پھلے گمراھوں میں سے تھے۔ پھر جھاں سے لوگ چل پڑیں تم بھی چل پڑو اور خدا سے مغفرت کی دعا مانگو، بے شک خدا بڑا بخشنے ولا اور مھربان ھے۔ پھر جب حج کے اعمال بجالا چکو تو اس طرح خدا کا ذکر کرو جیسے تم اپنے باپ داداؤں کا ذکر کرتے ھو بلکہ اس سے بھی بڑہ کر خدا کو یاد کرو۔ پس بعض لوگ ایسے ھیں جو کھتے ھیں، اے پالنے والے ھمیں دنیا میں جو دینا ھے دے دے، پھر آخرت میں ان کے لئے کوئی حصہ نھیں ھے اور بعض ایسے ھیں جو کھتے ھیں، خداوندا ھمیں دنیا میں نعمت اور آخرت میں اجر و ثواب عطا فرما اور دوزخ کی آگ سے بچا"(۱۴)

ان آیات میں حاجیوں اور منیٰ کے مھمانون کی باھم گفتگو کا محور خدا کی نعمت،اس کی ھدایت،ما ضی کی گمراھی سے نجات اور ھدایت کے حصول پر خدا کے ذکر کو قرار دیاگیا ھے الله کے نام اور اس کی یاد کو اپنے بزرگوں کے نام اور ان کی یاد سے زیادہ شدید قرار دیا گیا ھے۔ خدا کی یاد جس طرح کثرت و فراوانی کے ساتھ متصف کی گئی۔

یوں ھی اسے شدت کے ساتھ یاد بھی کیا گیا ھے لھذا خداوند عالم نے فرمایا کہ جس طرح تم اپنے بزرگوں کی یاد میں مشغول ھو یوں ھی بلکہ اس سے زیادہ اپنے خدا کو یاد کرو۔

حرم اور سرزمین حج میں احرام کے بغیر داخل ھونا جائز نھیں

جس طرح دنیا کے مسلمانوں کا قبلہ ، سچے موحدوں کا مرکز طواف ، وہ تنھا گھر جس کی طرف رخ کرنا عبادت میں ضروری ھے اور واجبی عبادتوں میں جس کی طرف سے منہ پھیرنا جائز نھیں مکہ ھی میں ھے جسے کعبہ کھتے ھیں۔

یوں ھی حرم اور سر زمین حج کی بھی ایک خصوصیت ھے جو روئے زمین پر کسی اور علاقہ کو حاصل نھیں اور وہ یہ ھے کہ احرام باندھے اور لبیک کھے بغیر اور میقات سے احرام کے ساتھ گزرے بغیر حرم اور اس کے دائرہ میں داخل ھی نھیں ھوا جاسکتا۔ یہ حکم صرف موسم حج کے دنوں سے مخصوص نھیں ھے بلکہ پورے سال کے دوران جب بھی کوئی اس سرزمین پر وارد ھونا چاھے اسے احرام باندہ کراورلبیک کھہ کر کوئے معبود میں قدم رکھنا ھوگا، کعبہ کے گرد طواف کرنا ھوگا، صفا و مروہ کے درمیان سعی ، جو الٰھی شعائر میں سے ھے، انجام دینی ھوگی اس کے بعد وہ احرام اتار سکتا ھے تا کہ جو کام محرم ( احرام باندھنے والے) کے لئے جائز نہ تھے اور اسے نماز گزاروں کے مانند ان سے پرھیز ضروری تھا اب اس کے لئے جائز ھوجائیں۔ یھی وجہ ھے کہ حرم کے حدود اور مکہ کے دائرے میں غیر مسلم افراد کا داخلہ جائز نھیں ھے، کیونکہ غیر محرم افراد کا داخلہ حرم میں منع ھے اور غیر مسلم احرام اور لبیک کی فضیلت سے محروم ھیں۔ وہ غیر اسلامی ھونے کی حالت میں احرام باندکر توحید کے علاقہ،اولین زیادگاہ وحی اور مرکز نزول قرآن میں داخل ھونے کا حق نھیں رکھتے ۔ یہ معنوی خصوصیت فقط حج کی سرزمین اور حرم کے دائرہ کو حاصل ھے، اور کرہ زمین پر کسی بھی جگہ کو یہ امتیاز حاصل نھیں ھے۔

حج و عمرہ کے احرام کا زمانہ آزمائش اور تربیت کا سب سے اھم زمانہ

حج اور طواف ،خاص عبادتوں کے سلسلے کے ایک منظم مجموعہ کا نام ھے جس میں سے ھر ایک اپنی جگہ اھم ھے۔ جس طر ح نماز میں تکبیرة الاحرام کے ساتھ بھت سے کام جو عبادت کی روح سے سازگار نھیں اور نمازگزار پر حرام ھوجاتے ھیں، سلام پھیر تے ھی وہ ساری پابندیاں ختم ھوجاتی ھیں اور جیسے روزہ کی نیت کے ساتھ صبح ھوتے ھی بھت سے کام  جو عبادت کی روح اور الٰھی آزمائش کے لئے مناسب نھیں روزہ دار پر حرام اور شام ھوتے ھی پھر حلال ھوجاتے ھیں، یوں ھی حج و عمرہ میں احرام باندھنے اور لبیک کھنے کے ساتھ ھی بھت سے ایسے امور جنکا تعبدی پھلو قوی تھا اور جن کے الٰھی آزمائش ھونے میں کوئی کلام نھیں تھا انسان پرحرام ھوجاتے ھیں اور احرام کا دور محض ایک تعبد اور امتحان کی شکل میں ڈھل جاتا ھے پھر اعمال حج کے انجام پانے اور مراسم تحلیل کی ادائیگی کے بعد احرام کھل جاتا ھے اور انسان ان پابندیوں سے آزاد ھو جاتا ھے۔ الٰھی امتحان کا ایک نمونہ شکار کے دوران پابندیوں سے بخوبی واضح ھے کیونکہ ایک طرف صحرائی جانوروں کا شکار محرم پر حرام ھے " لا تقتلو ا الصید و انتم حرم"(۱۵) دوسری طرف صحرائی ھرن، کبوتر و غیرہ اور دوسرے غیر دریائی جانور اس کے تیر رس اور دستر س میں بھی نظر آتے ھیں، تاکہ یہ بات واضح ھوسکے کون الٰھی امتحان میں پورا اترتا ھے اور کون اس الٰھی فریضہ کی انجام دھی سے محروم ھوجاتا ھے:

"لیبلونّکم الله بشیٴٍ من الصید تنالہ ایدیکم و رماحکم "(۱۶)

تربیت کا یہ دور اسلامی معاشرہ میں ایسا موٴثر واقع ھوا کہ جو لوگ توحش اور جاھلیت کے زمانہ میں سوسمار تک کھانے سے نھیں چوکتے اور اس کے شکار کے لئے ایک دوسرے پر بازی لے جاتے تھے، اب حکم خدا سے صحرائی ھرن کو بھی نظر انداز کر دیتے ھیں اور اسلامی تھذیب کے دائرہ میں حکم وحی کے تحت اپنی تمام خواھشات پر قابو پائے ھوئے ھیں۔ احرام کا قیمتی دور انسان کو انسان کامل بنانے میں کیسی بنیادی تاثیر رکھتا ھے اس کا خوش گوار نتیجہ حج کے آئینہ میں ایک معتقدو با ایمان معاشرہ کی شکل میں بخوبی دیکھا جا سکتا ھے۔

حج میں اور اس کے مختلف مقامات پر دعا

اگر چہ زندگی کے تمام حالات میں دعا کی جاسکتی ھے لیکن حج کے پر ثمر ایام میں حرم کے مختلف مقامات پر خداوند عالم کی بارگاہ میں دعا ایک خاص شکوہ اور بڑی تاثیر رکھتی ھے۔ قرآن کریم خود دعا کی اھمیت و حرمت کا اس قدر قائل ھے کہ اس کی تاثیر جلد اور قطعی طور پر قبول ھونے کے سلسلہ میں ایک مختصر سی آیت کے اندر سات مرتبہ خود خدائے متعال اپنی زبانی حکایت فرماتا ھے:

"۱۔ و اذا ساٴلک عبادی عنّی ۔۲۔فانّی ۔۳۔قریب اجیب ۔۴۔دعوة الداع اذا دعان ۔۵۔ فلیستجیبوا لی۔ ۶۔و لیوٴمنوا بی۔۷۔لعلّھم یرشدون " (۱۷)

اور چونکہ دعا صاف اور پاک باطن سے قبول ھوتی ھے نیز احرام اور آزاد وپاک کعبہ کا قصد باطن کی طھارت و صفائی میں بڑا اثر رکھتا ھے لھذا حج اور حرم کے مختلف مقامات پر دعا کے بھترین اثرات مرتب ھوں گے اسی لئے حج کے تمام اعمال کے سلسلہ میں خاص حکم  دیا گیا ھے۔ ان میں سب سے اھم عرفات کے صحرا میں دنیا کے کونے کونے سے سمٹ کر آنے والے انسانوں ، مشعر کے عاشقوں اور کوئے منیٰ کے مشتاقوں کے ھمراہ پڑھی جانے والی دعائے عرفہ وہ سب سے بھترین دعا جو حج و زیارت کعبہ کے سیاسی عبادی پھلو کو بخوبی بیان کرتی ھے وہ اھل معرفت کے مشھور عارف کوچہٴ  شھود و شھادت کے سید الشھداء پاکیزہ وآزاد انسانوں کے سردار حضرت امام حسین ابن علی علیھما السلام کی دعا عرفہ ھے، کیونکہ حضرت نے اس دعا میں جھاں کفر سے جھاد کرنے ، طاغوت کا قلع قمع کرنے ، نیز دلیری و جوانمردی اور ظالموں کی سرکوبی کا حکم دیا ھے وھیں اسلامی و دینی حکومت کی قدر و ستائش اور الٰھی ولایت کے ظھور کا ذکر کیا ھے۔ ساتھ ھی ذات خداوند قدوس کی تجلی، اس کی ھمہ گیر جلوہ گری، اس کے نور کے پرتو میں تمام ماسوا الله کے چھپ جانے ، اس کی معرفت خود اس کے ذریعہ حاصل کرنے غیر الله کو ھیچ جاننے اس کے غیر کو اس کی معرفت کرانے کی ذات کو عین شھود اور دلیلوں سے بے نیاز جاننے کا ذکر فرمایا ھے۔

Add comment


Security code
Refresh