www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

کعبہ تقویٰ و پرھیز گاری کی بنیاد

تمام انبیائے الٰھی اس لئے مبعوث ھوئے ھیں کہ توحید کی بلند چوٹی تک شرک کا پرندہ پر نہ مارسکے اور وحدانیت کے مقدس حریم تک شیطان رسائی نہ پاسکے۔

"و لقد بعثنا فی کل امة رسولاً ان اعبدوا الله اجتنبوا الطاغوت" (۱۰)

(اور ھم نے ھر امت میں ایک رسول ضرور بھیجا ھے کہ ( وہ لوگوں سے کھے) الله کی عبادت کرواور طاغوت (بتوں) کی عبادت سے پرھیز کرو)۔

قرآن کریم کعبہ،اس کی زیارت اور حج کو تقویٰ کا محور ا ور طا غوت اور طغیان سے پرھیز کی اساس جانتا ھے۔ خدا وند عالم نے وحی کے ذریعہ جناب ابراھیم علیہ السلام کو اس طرح حج کے مناسک اور اعمال سکھائے:

"وارنا مناسکنا"یک(۱۱)جنکا ثمرہ صرف توحید تھا۔ یھی توحیدی اعمال خاتم الانبیاء حضرت محمد مصطفیٰ (ص) نے اپنی راہ پر چلنے والوں( مسلمانوں )کو تعلیم دئیے اور فرمایا:

"خذوا عنّی مناسککم " مجھ سے اپنے اعمال و مناسک سیکھو۔

نیز زمانہٴ جاھلیت کے تلبیہ ( لبیک کھنے) کہ جو شرک آمیز تھا اور خانہ توحید جو بتکدہ کی صورت اختیار کر چکا تھا، اس کے طواف کو پاکیزگی عطا کی۔ احرام اور لبیک کھنے کو شرک کی آمیزش سے نجات دی اور کعبہ کو بھی بتوں سے پاک کیا۔

زمانہٴ جاھلیت کا تلبیہ جو اس صورت سے ادا ھوتا تھا:

"لبیک لبیک لا شریک لک الّا ھو لک"

یعنی تیراکوئی شریک نھیں ھے مگر وہ شریک جو تیرے لئے اور تیرا ھے۔

اسے محض توحید اور خالص وحدانیت کی شکل میں جلوہ گر کیا۔ چنانچہ اسلام میں تلبیہ کھتے وقت ھر طرح کے شریک کی نفی کرتے ھوئے یوں کھا جاتا ھے:

"لبیک لبیک لا شریک لک لبیک"

یعنی خداوند تیرا ھر گز کوئی شریک نھیں ھے اور نہ ھوگا۔

حج، تقویٰ کا بھترین توشہ اور انسانی کمال کی راہ کا بھترین زاد سفر ھے۔ قربانی جو حج کے اعمال کا ایک حصہ شمار ھوتی ھے اور زمانہٴ جاھلیت میں بھی طویل عرصہ سے ھوتی آرھی ھے، شرک ،کفر، خرافات اور غلط خیالات کی آماجگاہ بن گئی تھی۔ ذبح کے بعد جانور کا خون کعبہ کی دیوار پر ملا جاتا تھا اور گوشت وھاں لٹکایا جاتا تھا۔ اس سلسلہ میں قرآن کریم یہ تقویٰ آمیز رھنمائی کرتا ھے:

"۔۔۔لن ینال الله لحومھاو لا دمائھا و لٰکن ینالہ التقویٰ منکم"(۱۲)

یعنی قربانی کا گوشت اور خون خدا تک نھیں پھنچتا، بلکہ اس عمل کی پاکیزہ روح یعنی گناہ اور گناہ گاروں سے دوری، بدکاروں سے پرھیز، عصیان سے خود کو روکنا، عاصی و ظالم کے خلاف آواز بلند کرنا، طغیان سے اجتناب اور طاغوت کے خلاف جنگ جیسی چیزیں خداوند عالم تک پھنچیں گی۔

بھر حال کعبہ کا حج اور اس کی زیارت، تقویٰ و پرھیز گاری کی محکم و مضبوط اساس نیز ظالم اور ظلموں سے دوری کی بنیاد ھے اور اگر حج و زیارت ایسی نہ ھو تو نہ کعبہ کا حق ادا ھوا ھے، نہ حج کا فریضہ انجام پایا، نہ کعبہ کی زیارت ھوئی اور نہ قرآن کی ملکوتی آواز " و اذن فی النّاس بالحج" کا جواب دیا گیاھے، کیونکہ ھر عمل کی قبولیت کی شرط میں تقویٰ و پریھز گاری ھے اور ھر عمل کی کامل طور پر قبول ھونے کی شرط یہ ھے کہ زندگی کے تمام پھلوؤں میں ھر جھت سے تقویٰ و پرھیز گاری کے ساتھ عمل کیا جائے۔

لھذا اگر حج میں تقویٰ کی رعایت نہ کی جائے تو نہ صرف وہ کامل طور پر قبول نہ ھوگا بلکہ سرے سے قبول ھی نھیں ھوگا اور اگر حج و زیارت میں تقویٰ پیش نظر رھے لیکن دوسرے اعمال میں اس پر عمل نہ کیا جائے تو اس غیر متقی کا حج و زیارت قبولیت کے کمال تک نھیں پھنچ سکتا ۔ چونکہ کعبہ کی بنیاد رکھنے والے (جناب ابراھیم و اسماعیل علیھماالسلام) نے خالص تقویٰ و پرھیز گاری کے ساتھ اسے بنایا اور اپنے تمام وجود کے ساتھ دعا کی"ربّنا تقبّل منّا" ( پالنے والے ھماری طرف سے اسے قبول کر) اس وجہ سے چونکہ کعبہ کا مل قبولیت کے ساتھ بیانا گیا ھے۔ لھذا غیر متقی شخص کا عمل بانی کعبہ جناب ابراھیم علیہ السلام کے مقصد کے مطابق نہ ھوگا۔

حج و طواف ، شرک اور مشرکوں سے اظھار پرھیزکاری کا بھتیرن موقع

اگر چہ ھر عبادت شرک سے دوری اورطاغوت سے اظھار نفرت ھے اور حج و طواف کعبہ بھی جو بمنزلہ نماز ھے یا نماز اس کے ھمراہ ھے ” الطواف بالبیت فانّ فیہ صلوة “۔(۱۳)  لھذا یہ بھی طاغوت سے دوری اور شرک سے نفرت کی حکایت کرتا ھے۔ لیکن چونکہ یہ ایک ایسی مخصوص عبادت ھے جو سیاست کے ھمراہ ھے اور دنیا کے گوناگوں انسانوں کے مختلف طبقوں کے جمع ھونے کا مناسب موقع ھے ، تاکہ دوسری عبادتوں کے مانند اس عبادت کی روح اس عظیم اجتماع میں بخوبی جلوہ گر ھو اور اس خصوصی عبادت کے آثار و نتائج پوری طور سے ظاھرھوں اس کیلئے پیغمبر اسلام(ص) نے وحی الٰھی کے حکم سے اسلامی حکومت کے خطیب و معلن حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام کو مشرکوں سے اظھار برائت کے اعلان کے لئے معین فرمایا تا کہ پوری قاطعیت کے ساتھ توحید کی حد، شرک و الحاد سے جدا ھوجائے اور مسلمانوں کا منظم گروہ کفار کی صف سے علیٰحدہ ھوجائے۔ اسی جھت سے حج کا سیاسی ۔عبادی چھرہ بھی واضح ھوجائے اور حاجی ، اسلامی قرار داد کوسن کر(جس میں شرک سے بیزاری کا اظھار اور مشرکین سے قطع تعلق کا حکم ھے) توحید کی سوغات اپنے ھمراہ لے جائیں۔

Add comment


Security code
Refresh