پیغمبراعظم حضرت محمد مصطفی صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کی یگانہ روزگاربیٹی اورقرۃ العین الرسول بعثت کے پانچویں سال ۲۰جمادی الثانی کو اس دنیا ميں تشریف لائیں اورخانہ وحی میں اپنے پدربزرگوارکے دامن تربیت میں پروان چڑھیں اورعلم ومعرفت اورکمال کی اعلی منزلیں بھی آپ کے کمال لازوال کے سامنے ھیچ نظرآئيں ۔
ھجرت کے دوسرے سال آپ ، امیرالمومنین حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام سے رشتہ ازدواج ميں منسلک ھوئيں ۔
رسول اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی لخت جگرنے حضرت علی علیہ السلام کے کاشانہ علم ومعرفت میں بحیثیت ایک زوجہ ذمہ داریوں اورفرائض کا اعلی ترین نمونہ پیش کیا اورایک ماں کی حیثیت سے رھتی دنیاتک لئے ایسی لافانی مثال قائم کی کہ ماں کی آغوش سے اولاد کومعراج عطا ھونے لگی ۔
بانی انقلاب اسلامی حضرت امام خمینی﴿رح﴾ نے کہ جن کا یوم ولادت بھی ۲۰جمادی الثانی ہے اپنے ایک خطاب میں فرمایا کہ اگرکسی دن کویوم نسواں یاپھر روزمادرسے منسوب کرنا ہے تو شھزادی کونین کے یوم ولادت باسعادت سے بھترموقع یا دن اورکون ھوسکتا ہے اسی مناسبت سے آج کے دن اسلامی جمھوریہ ایران سمیت دنیاکے مختلف ممالک میں مسلمان یوم نسواں یا روزمادرمناتے ہيں ۔
شوھراپنی شریک حیات کی زحمتوں اوراسی طرح اولاد اپنی ماؤں کی شفقتوں اوران کی لازوال محبتوں کوخراج تحسین پیش کرنے کے لئے ان کوتحفے اورتحائف پیش کرتے ہيں اوریوں اس مبارک دن کو کوثرولایت کے یوم ولادت کے طورپر ایک خوبصورت معنوی جشن سے معمورکرتے ہيں ۔
رھبر انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای اس دن کی مناسبت سے اپنے ایک خطاب میں فرماتے ہیں :
بسم اللہ الرحمن الرحیم
انا اعطیناک الکوثر ۔ فصل لربک وانحر ۔ ان شانئک ھو الابتر
بشریت حضرت فاطمہ زھرا سلام اللہ علیھا کی احسان مند ہے ، ان کا فیض ، انسانوں سے بھری اس دنیا کے کسی چھوٹے سے گروہ تک ھی محدود نھیں ہے اگر ھم حقیقت پر مبنی اور منطقی نظر سے دیکھیں تو ، ھمیں نظر آئے گا کہ پوری انسانیت پر ان کا احسان ہے یہ کوئی مبالغہ نھيں ہے بلکہ ایک حقیقت ہے ۔ جس طرح سے انسانیت پر اسلام ، قرآن ، انبیائے خدا اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی تعلیمات کا احسان ہے ۔ تاریخ میں ھمیشہ ایسا ھی ھوا ہے ۔ آج بھی ایسی ھی صورت حال ہے اور روز بروز اسلام اور حضرت فاطمہ زھرا سلام اللہ علیھا کی معنویت کا نور زيادہ واضح ھوتا جائے گا اور بشریت اسے زیادہ واضح طور پر محسوس کرے گی ۔
ھمیں خود کو پیغمبر اعظم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے خاندان سے منسوب ھونے کے لائق بنانا چاھئے
ھمارا فرض یہ ہے کہ خود کو اس خاندان سے منسوب کرنے کے لائق بنائيں ۔ البتہ خاندان رسالت ، ان کے اعزاء اور ان کی ولایت میں معروف لوگوں سے منسوب ھونا بھت مشکل کام ہے ۔ زیارت میں ھم پڑھتے ہیں کہ ھم ، آپ کی محبت اور دوستی میں مشھور ہیں ۔ اس سے ھمارا فرض اور زیادہ اھم ھو جاتا ہے ۔ یہ خیر کثیر ، جس کی خوش خبری خداوند عالم نے سورہ کوثر میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو دی اور کھا ہے ، انا اعطیناک الکوثر ، ھم نے تمھیں خیر کثیر عطا کیا تو اس کی تفسیر حضرت فاطمہ زھرا سلام اللہ علیھا ہیں ۔
در اصل وہ ان تمام خیروں و بھلائی کا سرچشمہ ہیں جو روز بہ بروز دین محمدی کے آبشاروں سے ، تمام انسانیت اور تمام خلق خدا کو نصیب ھوتی ہے ۔ بھت سے لوگوں سے اسے چھپانے اور اس سے انکار کی کوشش کی لیکن کامیاب نہ ھو پائے ، واللہ متم نورہ ولو کرہ الکافرون ، اور اللہ تو اپنے نور کو مکمل کرنے والا ہے بھلے ھی کافروں کو برا لگے ، ھمیں خود کو نور کے اس منبع سے قریب کرنا چاھئے ۔ اور نور کے مرکز سے قربت کا لازمہ اور نتیجہ ، نورانی ھونا ہے ۔ ھمیں عمل کے ذریعے ، خالی محبت کے ذریعے ھی نھيں ، نورانی ھونا چاھئے ۔ یہ وہ کام ہے جس کی تاکید ھماری محبت ، ولایت اور ایمان کرتا ہے اور ھم سے اس کا مطالبہ کرتا ہے ۔ اس کام سے ھمیں اس خاندان کا حصہ اور اس سے منسوب ھونا چاھئے ۔
ایسا نھيں ہے کہ علی کے گھر کا قنبر بننا آسان کام ہے ، ایسا نھيں ہے کہ سلمان منا اھل البیت کے منزل تک پھنچنا آسان ہے ، ھم اھل بیت کے پیروکار اور ان سے محبت کرنے والے ، ان سے یہ توقع رکھتے ہيں کہ وہ ھمیں اپنوں میں اور اپنی چوکھٹ پر بیٹھنے والوں میں شمار کریں ، وہ کھیں کہ فلاں ھماری درگاہ کے خاک نشینوں میں سے ہے ۔ ھمارا دل چاھتا ہے کہ اھل بیت ھمارے بارے میں ایسا سوچیں ، لیکن یہ کوئی آسان بات نھيں ہے ۔ یہ صرف دعوا کرنے سے ملنے والی چیز نھيں ہے ۔ اس کے لئے ، عمل ، قربانی و ایثار اور ان کے اتباع کی ضرورت ہے ۔
حضرت فاطمہ زھرا سلام اللہ علیھا نے بڑی مختصر عمر میں بھت سے فضائل حاصل کئے ؟ کس عمر میں ان فضیلتوں کو حاصل کیا ؟ کس عمر میں اتنے عظمتوں تک پھنچ گئیں ؟ بھت چھوٹی عمر میں ، اٹھارہ برس ، بیس برے ، پچیس برس ، روایتیں مختلف ہيں ۔ یہ ساری فضیلتیں یونھی حاصل نھیں ھوتیں ، امتحنک اللہ الذی خلقک قبل ان یخلقک فوجدک لما امتحنک صابرہ ، خداوند عالم نے حضرت فاطمہ زھرا سلام اللہ علیھا کا امتحان لیا ، خداوند عالم کا نظام ، حساب کتاب کے ساتھ ہے ۔ جو کچھ عطا کرتا ہے حساب سے عطا کرتا ہے ۔ اسے اپنی اس خاص کنیز کی قربانیوں و معرفت کا بخوبی علم ہے اسے لئے اس نے انھيں اپنی برکتوں کے سرچشمے سے جوڑ دیا ۔عمل میں حضرت فاطمہ زھرا سلام اللہ علیھا کا پیروکار ھونا چاھئے ، ھمیں اسی راستے پر آگے بڑھنا چاھئے ، چشم پوشی کرنا چاھئے ، قربانی دینا چاھئے ، خدا کی اطاعت کرنی چاھئے ، عبادت کرنی چاھئے ۔
کیا ھم نھيں کھتے کہ انھوں نے اتنی عبادت کی کہ ان کے پیروں میں ورم آ گیا ، اتنی عبادت ! ھمیں بھی خدا کی عبادت کرنی چاھئے ۔ ھمیں بھی خدا کے ذکر کرنا چاھئے ۔ ھمیں بھی اپنے دلوں میں روز بروز خدا کی محبت میں اضافہ کرنا چاھئے کیا ھم یہ نھیں کھتے کہ وہ نقاھت کے عالم میں مسجد گئيں تاکہ اپنا حق واپس لے سکیں ؟ ھمیں بھی ھر حالت میں حق کی واپسی کے لئے کوشش کرنی چاھئے ۔ ھمیں بھی کسی سے ڈرنا نھیں چاھئے۔
کیا ھم یہ نھیں کھتے کہ وہ ، تن تنھا اپنے زمانے کے اس بڑے سماج کے سامنے کھڑی ھو گئيں ؟ ھمیں انھی کی طرح جیسا کہ ان کے شوھر نے ان کے بارے میں کھا کہ وہ ھدایت کے لئے ساتھیوں کی کم تعداد سے نھيں ڈرتی تھیں ھمیں بھی اپنی کم تعداد کی وجہ سے ظلم و سامراج سے خوفزدہ نھیں ھونا چاھئے ھمیں اپنی کوشش جاری رکھنی چاھئے ۔
کیا ھم یہ نھیں کھتے کہ انھوں نے ایسا کام کیا کہ ان کے اور ان کے شوھر اور بچوں کے بارے میں سورہ دھر نازل ھوا ؟ غریبوں کے لئے قربانی و ایثار ، بھوکی رہ کر ؟ و یوثرون علی انفسھم ولو کان بھم خصاصہ ، ھمیں بھی یھی کرنا چاھئے ۔ یہ کیسے ھو سکتا ہے کہ ھم حضرت فاطمہ زھرا سلام اللہ علیھا کی محبت کا دم بھريں ، ان کی محبت کا دم بھریں جنھوں نے بھوکے کا پیٹ بھرنے کے لئے ، اپنے چھیتوں ، حسن و حسین اور ان کے والد کے ھاتھوں سے لقمہ لے کر فقیر کو دے دیا ، ایک دن نھيں ، دو دن نھیں ، تین دن !
کیا ھم نھيں کھتے کہ ھم ایسی شخصیت کے پیروکار ہيں ؟ لیکن ھم نہ صرف یہ کہ اپنا لقمہ کسی حاحت مند کو نھيں دیتے ، بلکہ اگر ھمارا بس چلے تو کسی غریب کا لقمہ بھی چھین لیں ! یہ کافی اور دیگر کتابوں میں جو روایت ہے شیعوں کی علامتوں کے بارے میں ، اس کا مطلب یھی ہے ۔ یعنی شیعہ کو ایسا ھی کرنا چاھئے ۔
ھمیں اپنی زندگی میں ان کی زندگی کی جھلک لانی چاھئے بھلے یہ جھلک بھت ھی ھلکی ھی کیوں نہ ھو ۔ ھم کھاں اور بزرگ شخصیتیں کھاں ؟ ھم کھاں اور وہ بارگاہ کھاں ؟ ظاھر ہے ھم تو ان کے مقام کے قریب پھٹکنے کی سوچ بھی نھيں سکتے لیکن ھمیں خود کو ان کے جیسا ظاھر کرنے کی کوشش کرنی چاھئے ۔
ھم ان اھل بیت کی زندگی کی مخالف سمت میں تو نھيں بڑھ سکتے وہ بھی اس دعوے کے ساتھ کہ ھم تو اھل بیت کے چاھنے والے ہيں ۔ کیا یہ ھو سکتا ہے ؟
مثال کے طور پر کوئي امام خمینی رحمت اللہ علیہ کے زمانے میں ، اس قوم کے دشمنوں میں سے کہ جن کے بارے میں امام خمینی ( رح) ھمیشہ گفتگو کیا کرتے تھے ، کسی کا اتباع کرتا ، تو کیا وہ یہ کہہ سکتا تھا کہ امام خمینی کا پیروکار ہے ؟ اگر کوئي ایسی بات کرتا تو کیا آپ لوگ ھنستے نھیں؟ یھی صورت حال اھل بیت کے معاملے میں ہے ۔
تڑک بھڑک اور عیش و عشرت کے ساتھ حضرت فاطمہ زھرا سلام اللہ علیھا کا پیروکارنھيں بنا جا سکتا ھمیں اپنی اھلیت و صلاحیت کو ثابت کرنا ھوگا ۔
کیا ھم نھيں کھتے کہ ان کا جھیز ایسی چیزیں تھیں جن کا نام سن کر آدمی کی آنکھیں برس پڑتی ہيں ؟ کیا ھم یہ نھيں کھتے کہ وہ دینا اور دنیا کی خوبصورتیوں میں کوئی دلچسپی نھيں رکھتی تھیں ؟ کیا یہ ھو سکتا ہے کہ ھم دن بہ دن اپنے سامان عیش و عشرت اور تڑک بھڑک میں اضافہ کرتے جائيں ، ھمیں اس پر غور کرنا چاھئے .
اگر کسی دن کو یوم مادر کھا جا سکتا ہے تو وہ شھزادی کونین کی ولادت کا دن ہے: امام خمینی﴿رح﴾
- Details
- Written by admin
- Category: خاص موضوعات
- Hits: 1529