جس طرح ایک قافلہ کے لئے قافلہ سالار کا ھونا ضروری ہے۔ اس طرح سماج و معاشرہ میں نظم و نسق باقی رکھنے کی خاطر ایک حکومت کی تشکیل اور روشن خیال و بابصیرت شخص کا حاکم ھونا لازمی ہے، تاکہ وہ عوام کے درمیان عدل و انصاف کو رائج کرسکے اور ان کی ضروریات زندگی کو پورا کرسکے۔
افلاطون (348۔428 ق،م ) قدیم یونان کے تین اکابر فلسفیوں میں سے ایک تھا۔ ریاست میں اس کا نظریہ یہ تھا کہ جب فلسفی بادشاھت کا عھدہ سنبھالیں گے، تبھی ایک قابل قدر حکمراں وجود میں آسکتا ہے اور لوگ چین کی نیند اور سکون کی زندگی بسر کریں گے، ورنہ نھیں! جیسا کہ اس نے اپنی کتاب “Republic”(ریپبلک) طبع 380ق۔م میں تحریر کیا ہے:“Unless philosopher bear kingly rule or those who are now called king and princess become genuine and adequate philosophers there will be no respite from evil”جب تک فلاسفہ بادشاھت کا عھدہ نہ سنبھالیں یا جو لوگ آج بادشاہ اور شھزادے کھے جاتے ہیں، وہ واقعی فلسفی نہ ھو جائیں، اس وقت تک برائی سے نجات نھیں ملنے والی۔
اس ذکر شدہ نظریہ کے بعد کئی فلسفی بنے اور بھت سے بادشاہ فلسفی بنے، لیکن وہ بھتر حکمراں ثابت نہ ھوسکے، جیسے سنگاپور کا (Lee kuan yew) لی کیون تھا۔ اسی کے برخلاف پیٹر گرین (Peter Green) نے کھا:What happened was nothing happened …power it appeared ,could corrupt even philosopher (Time magazine May 13,1999)جو ھوا وہ یہ تھا کہ کچھ نھیں ھوا۔ ایسا معلوم ھوتا ہے کہ کہ اقتدار فلسفیوں کو بھی بگاڑ دیتا ہے۔
ایسے ھی کارل مارکس نے نظریہ پیش کیا کہ"تمام خرابیوں کی جڑ ملکیت کا اقتصادی نظام ہے۔ انفرادی ملکیت کے نظام میں ایک مالک ھوتا ہے تو دوسرا مملوک۔ اس بناء پر مالک مملوک کا استحصال کرتا ہے۔ اگر انفرادی نظام کو ختم کرکے "سب کی ملکیت" کا نظام قائم کر دیا جائے تو ھر قسم کے ظلم و جور کی جڑ کٹ جائے گی۔ اس کے بعد نہ کوئی مالک ھوگا اور نہ کوئی مملوک، پھر کون کس کا استحصال کرے گا؟" 1977ء میں روس میں انقلاب آیا اور مذکورہ نظریہ "سب کی ملکیت" کا نظام قائم ھوگیا، مگر بعد کے حالات نے اس بات کا ثبوت فراھم کیا کہ یہ نظریہ سب سے برا اور بدتر ہے۔
مذکورہ تمام تجرباتی زندگی میں غلط ثابت ھوئے، سچ تو یہ ہے کہ اقتدار و ملکیت کسی کو نھیں بگاڑتی بشرطیکہ کہ حاکم میں خود پسندی، نااھلی اور کج فکری جیسی فکری بیماریاں نہ پائی جاتی ھوں۔ یہ چیزیں کسی سے مخصوص نھیں بلکہ ھر انسان کی زندگی کے تمام تر شعبے میں کارآمد ثابت ھوتی ہیں۔ جب تک کہ انسان کے قلب میں اللہ کا ڈر اور خواھشات نفسانی کو مات دینے کی طاقت نہ ھو، وہ کبھی بھی ایک اچھا انسان نھیں بن سکتا، چہ برسد حاکم اور بادشاہ!
دین اسلام میں حضرت رسول خدا کے بعد آج بھی اگر کوئی حکومتی نظام حضرت علی کی پیروی کرلے تو وہ کامیاب ترین حکومت شمار ھوگی۔ جیسا کہ کوفی عنان (kofi Annan) اقوام متحدہ کے ساتواں جنرل سکریٹری (7th Secretary General of the U.N.O)The caliph Ali Bin Abi Talib is considered the fairest governor who appeared during history (After the prophet Mohd.(p.b.u.h)).So ,we advise Arab countries to take Imam Ali bin Abi Talib (a.s) as an example in establishing a regime based on justice and democracy and encouraging knowledge.حضرت رسول خدا کے بعد تاریخ بشریت میں خلیفہ (اسلام) علی ابن ابی طالب سب سے بھترین حاکم تصور کئے جاتے ہیں۔ اس لئے میں عرب ممالک کو نصیحت کرتا ھوں کہ اگر عدل و انصاف و جمھوریت و تعلیمی بالیدگی پر مبنی حکومت قائم کرنا چاھتے ہیں تو ان کو چاھئے کہ علی ابن ابی طالب کو اپنا نمونہ عمل قراردیں۔
حضرت علی علیہ السلام کی چار برس نو ماہ کی حکومت میں عدل و انصاف کا بول بولا تھا۔ آپ نے کبھی کوئی ایسا کام نھیں کیا، جو لوگوں کی اذیت کا سبب بنا ھو بلکہ غریبوں، فقیروں اور مسکینوں کو راتوں رات غذا فراھم کرنا آپ کا طرہ امیتاز تھا۔
آپ نے ایسی عادلانہ اور منصفانہ حکومت کی کہ اپنے ذاتی کاموں کے لئے بیت المال کا ذرہ برابر بھی استعمال نھیں کیا۔ اگر کوئی شخص حکومتی اوقات میں امور حکومت کے علاوہ کسی اور موضوع پر گفتگو کرتا تو آپ بیت المال کے چراغ بجھا دیا کرتے تھے۔ یھی وجہ تھی جو لباس اور سواری منصب خلافت سنبھالنے سے پھلے تھے، وھی دنیا کو الوداع کھنے کے بعد بھی رھے۔ امیر مملکت ھوتے ھوئے بھی عام سی زندگی گزارنا، محتاجوں کی حاجت روائی کرنا، بیت المال سے ذاتی مفاد کی خاطر دولت کا استعمال نہ کرنا اور انسانیت کے درد میں برابر کا شریک رھنا، لوھے کے چنے چبانا ہے۔ اس معیار پر وھی افراد کھرے اترتے ہیں، جن کے لئے عھدہ حصول دنیا کے لئے نھیں بلکہ انسانیت کے تحفظ کے لئے ھو۔
تحریر: عظمت علی
بے داغ سیاست کا حاکم کون؟
- Details
- Written by admin
- Category: خاص موضوعات
- Hits: 1393