www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

634202
مھدی موعود (عج) کا عقیدہ تمام مذاھب اسلامی کے نزدیک مسلم ہے۔ اس عقیدے کی بنیاد پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے منقول متواتر احادیث ہیں، جن کے مطابق قیامت سے پھلے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خاندان سے ایک فرد قیام کرے گا جو آپ کا ھم نام ھوں گے اور ان کا لقب مھدی ھو گا، جو اسلامی قوانین کے مطابق عالمی سطح پر عدل و انصاف کی حکومت قائم کریں گے۔
امام مھدی (عج) کی ولادت باسعادت کا عقیدہ صرف شیعہ حضرات ھی نھیں رکھتے بلکہ اھل سنت کے بھت سے مشھور علماء نے بھی اپنی کتابوں میں آپ (عج) کی ولادت باسعادت سے متعلق تفصیلات تحریر فرمائی ہیں جیسا کہ ابن حجر ھیثمی { الصواعق المحرقہ} سید جمال الدین {روضۃ الاحباب} ابن صباغ مالکی {الفصول المھمۃ} سبط ابن جوزی {تذکرۃ الخواص }۔۔۔۔۔ وغیرہ۔
امام زمانہ (عج) کی غیبت کے منکرین کا اعتراض ہے کہ امام غائب کا کوئی فائدہ نھیں ہے کیونکہ لوگوں کی ھدایت کے لئے امام کا ان کے درمیان موجود ھونا ضروری ہے تاکہ امام تک لوگوں کی رسائی ھو۔ ھم یھاں منکرین غیبت امام زمانہ عج کے اعتراض کا اجمالا جواب دینے کی کوشش کریں گے۔
پھلا جواب: امام زمانہ (عج) کی غیبت اور آپ (عج)کا شیعوں کے امور میں تصرف نہ کرنے کے درمیان کوئی ملازمہ نھیں ہیں۔ قرآن کریم انسان کے اولیاء خدا سے بھرہ مند ھونے کی داستان کو حضرت موٰسی علیہ السلام کے ذریعے نقل کرتا ہے۔ بنابریں عصر غیبت میں بھی امام زمانہ (عج) کا لوگوں کے ساتھ خاص طریقے سے رابطہ قائم کرنے اور ان افراد کا آپ (عج) کے فرامین پر عمل کرنے اور آپ (عج) کے وجود سے کسب فیض کرنے میں کوئی چیز مانع نھیں ہے۔ امام زمانہ (عج) کا لوگوں کے امور میں تصرف نہ کرنے کا ذمہ دار امام نھیں بلکہ خود عوام ہیں جو آپ (عج) کی رھبری قبول کرنے پر آمادہ نھیں ہیں۔
محقق طوسی تجرید الاعتقاد میں لکھتے ہیں: {وجوده لطف و تصرفه لطف آخر و عدمه منا} امام کا وجود بھی لطف اور امام کا تصرف کرنا ایک اور لطف اور ان کا ظاھر نہ ھونا ھماری وجہ سے ہے۔ {یعنی امام زمانہ (عج) بھی حضرت موسٰی علیہ السلام کے ساتھی حضرت خضر علیہ السلام کی طرح ہیں، انھیں بھی کوئی نھیں پھچانتا تھا لیکن پھر بھی وہ امت کے لئے فائدہ مند ہیں}۔
دوسرا جواب: امام (عج) کے پیروکاروں کا امام (عج) کے وجود سے کسب فیض کرنے کے لئے ضروری نھیں کہ آپ(عج) تک تمام لوگوں کی رسائی ممکن ھو بلکہ اگر ایک خاص گروہ جو آپ (عج) کےساتھ رابطہ قائم کر سکتا ھو اور وہ آپ (عج) کے وجود سےفیض حاصل کرے تو دوسرے لوگ بھی ان افرادکے ذریعے آپ (عج) کے وجود کے تمام آثار و برکات سے بھرہ مند ھو سکتے ہیں۔ یہ مطلب شیعوں کے بعض نیک اور شائستہ افراد کی آپ {عج }کے ساتھ ملاقات کے ذریعے حاصل ھو چکا ہے۔
تیسرا جواب: امام اور پیغمبر کے لئے حتٰی ان کے ظھور کے وقت بھی ضروری نھیں کہ وہ لوگوں کی ھدایت براہ راست اور بلا واسطہ انجام دیں، بلکہ اکثر اوقات وہ اپنے نمائندوں کے ذریعے سے یہ کام انجام دیتے تھے۔ آئمہ معصومین علیھم السلام اپنے دور میں دوسرے شھروں کے لئے اپنے نمائندے معین فرماتے تھے، جو لوگوں کی ھدایت اور رھبری کا کام انجام دیتے تھے اور یہ روش صرف رھبران الٰھی کے ساتھ مخصوص نھیں تھی بلکہ طول تاریخ میں انسانوں کے درمیان یہ طریقہ رائج تھا۔ اسی وجہ سے امام زمانہ(عج) بھی اپنے نمائندوں کے ذریعہ لوگوں کی رھبری کرتے ہیں جیساکہ غیبت صغٰری کے زمانے میں آپ (عج) نواب اربعہ {نیابت خاصہ}کے ذریعے اور غیبت کبرٰی کے زمانے میں عظیم المرتبت عادل فقھاء و مجتھدین {نیابت عامہ}کے ذریعے لوگوں کی رھبری کرتے ہیں۔
چوتھا جواب: شیعہ عقائد کے مطابق امام معصوم کا وجود لطف الٰھی ہے اور اس سے مراد یہ ہے کہ امام انسان کو اطاعت و عبادت سے نزدیک اور گناہ و مفاسد سے دور کرتے ہیں۔ بے شک یہ اعتقاد {کہ امام معصوم ان کے درمیان موجود ہیں گرچہ لوگ انھیں نھیں دیکھتے یا انھیں نھیں پھچانتے لیکن وہ لوگوں کو دیکھتے ہیں اور انھیں پھچانتے ہیں اور ان کے اچھے اور برے کاموں سے بھی واقف ہیں نیز آپ (عج) کسی وقت بھی ظھور کرسکتے ہیں کیونکہ آپ (عج) کے ظھور کا وقت معلوم نھیں ہے} انسان کی ھدایت و تربیت میں بھت اھم کردار ادا کرتے ہیں۔
پانچواں جواب: امامت کے اھداف میں سے ایک ھدف امام معصوم کا لوگوں کی باطنی ھدایت ہے۔ امام لائق اور پاکیزہ دل رکھنے والے افراد کو اپنی طرف جذب کر کے انھیں کمال تک پھنچاتے ہیں۔ واضح ہے کہ انسان کا اس طرح ھدایت سے ھمکنار ھونے کے لئے ضروری نھیں کہ وہ امام کے ساتھ ظاھری رابطہ برقرار کرے۔
گذشتہ بیانات کی روشنی میں امام زمانہ (عج) کو بادل کے پیچھے پنھان روشن آفتاب سے تشبیہ دینے کا مقصد بھی واضح ھو جاتا ہے۔ اگرچہ بادل کے پیچھے پنھان سورج سے انسان مکمل طور بھرہ مند نھیں ھوتا ہے لیکن اس کا ھرگز مطلب یہ نھیں ہے کہ اس سے انسان کو کوئی فائدہ حاصل نھیں ھوتا ہے۔ بھرحال امام زمانہ (عج) کے وجود کے آثار و برکات سے بھرہ مند نہ ھونے کا سبب انسانوں کی طرف سے خاص حالات کا فراھم نہ کرنا ہے، جس کی وجہ سے لوگ اس عظیم نعمت کے فوائد سے محروم ہیں اور اس محرومیت کا سبب وہ خود ہیں نہ کہ خداوند متعال اور امام، کیونکہ خداوند متعال اور امام کی طرف سے اس سلسلے میں کوئی مشکل درپیش نھیں ہے۔
خواجہ نصیر الدین طوسی آپ (عج) کی غیبت کے بارے میں لکھتے ہیں: {واما السبب غیبته فلایجوز ان یکون من الله سبحانه و لا منه کما عرفت فیکون من المکلفین و هو الخوف الغالب و عدم التمکین و الظهوریجب عند زوال السبب} لیکن یہ جائز نھیں کہ امام زمانہ (عج) کی غیبت خدا کی طرف سے یا خود آپ (عج) کی طرف سے ھو جیسا کہ آپ جان چکے ہیں، پس اس کی وجہ خود عوام {لوگ }ہیں، کیونکہ ان کے اوپر خوف کا غلبہ ہے اور ان کے سامنے سر تسلیم خم نہ کرنا ھی اس کا سبب ہے اور جب بھی رکاوٹیں ختم ھو جائیں گی تو ظھور واجب ھو جائے گا۔
گذشتہ بیانات امام زمانہ (عج) کے وجود کے تشریعی و تربیتی آثار تھے لیکن حجت الٰھی کے تکوینی آثار و برکات نظام خلقت اور کائنات کا باقی ھونا ہے یعنی ان کی وجہ سے زمین و آسمان قائم ہیں۔ اسی طرح حجت خدواندی اور انسان کامل کے بغیر کائنات بےمعنی ہے۔ اسی بنا پر روایات میں موجود ہے کہ زمین کبھی بھی حجت خدا سے خالی نھیں ھو سکتی، کیونکہ اگر ایک لحظہ کے لئے بھی زمین حجت خدا سے خالی ھو تو وہ اپنے اھل سمیت نابود ھو جائے گی۔ {لو لا الحجة لساخت الارض باهلها} یھاں سے اس عبارت کا مطلب بھی سمجھ میں آتا ہے جو کہ بعض دعاوٴں میں موجود ہے:{بیمنه رزق الوری و بوجوده ثبتت الارض و السماء} امام زمانہ (عج) کے وجود کی برکت سے ھی موجودات رزق پا رھی ہیں اور آسمان و زمین بر قرار ہیں۔ امام اور حجت خدا واسطہ فیض الٰھی ہیں، خدا اور بندگان کے درمیان واسطہ ہیں ،جن برکات و فیوض الھی کو براہ راست حاصل کرنے کی صلاحیت لوگوں میں نھیں پائی جاتی ہیں امام ان فیوض و برکات کو خدا سے لے کر بندوں تک پھنچانے کا ذریعہ و وسیلہ ہیں۔ لھذٰا امام زمانہ(عج) کی طولانی عمر اور ظھور سے صدیوں قبل آپ (عج) کی ولادت کا ایک فائدہ یہ ہے کہ اس طویل مدت میں کبھی بندگان خدا الطاف الھی سے محروم نہ رھیں اور امام کے وجود کے جو برکات ہیں وہ مسلسل لوگوں تک پھنچتے رھیں۔
تحریر: محمد لطیف مطھری کچوروی
حوالہ جات:
1۔ تجرید لاعتقاد ،بحث امامت
2۔ کمال الدین ،شیخ صدوق ،باب 45۔ حدیث 4 ،ص485
3۔ الرسائل،سید مرتضی،ج2،ص297 – 298
4۔ اصول کافی،ج1،کتاب الحجۃ باب ان الحجۃ لا تقوم للہ علی خلقہ
5۔ اصول کافی،ج1،کتاب الحجۃ باب ان الحجۃ لا تقوم للہ علی خلقہ
6۔ نوید امن و امان،آیۃ اللہ صافی گلپایگانی،ص 148

Add comment


Security code
Refresh