مملکت سعودی عرب میں غیر ملکی محنت کشوں کے ساتھ حکومت و نجی اداروں کا نامناسب رویہ کوئی نئی یا انوکھی بات نھیں۔ برسوں پھلے یھاں غریب محنت کشوں، مزدوروں اور غلاموں کے ساتھ جو سلوک روا رکھا جاتا تھا، اسی کا تسلسل ہے کہ آج بھی سعودی عرب میں محنت مزدوری کرنے والا طبقہ اپنے بنیادی حقوق سے محروم ہے۔
بیرونی ممالک سے تعلق رکھنے والے لاکھوں محنت کشوں کو اتنا بھی حق حاصل نھیں کہ اپنی محنت کا جائز معاوضہ وصول کرنے کیلئے عدلیہ سے رجوع کرسکیں، یا اپنے ساتھ ھونے والے کسی دھوکے کے خلاف کوئی آواز بلند کرسکیں۔
یھاں محنت مزدوری کرنے والوں کے ساتھ آج بھی وھی سلوک جاری ہے، جو برسوں پھلے یھاں کے نام نھاد آقا یا تاجر اپنے غلاموں سے روا رکھتے تھے۔ تیل کی پیداوار سے پھلے نجد و حجاز (سعودی عرب) کے مکین زیادہ خوشحال نھیں تھے، یھاں کے بیشتر باشندوں کا کاروبار زندگی ان قافلوں سے وابستہ رھتا، جو حج و عمرہ کی غرض سے یھاں کا رخ کرتے یا تاجروں کے وہ قافلے جو دیگر اجناس کے علاوہ غلاموں کی تجارت سے وابستہ ھوتے۔
عرب باشندے ان قافلوں کی ضروریات کا خیال رکھتے اور ھر ممکن خدمت بجا لاتے، جس کی قیمت مال یا غذا کی صورت میں وصول کرتے۔ تجارتی قافلوں کی سالاری زیادہ تر یھودی تاجروں کے پاس ھوتی، جن کے متعلق مشھور تھا کہ وہ کم ادائیگی میں زیادہ خدمت لیتے ہیں، چنانچہ محنت کش یا غلام تو ان یھودی سالاروں کو پسند نھیں کرتے مگر قبائلی سردار، مقامی تاجر اور صاحب ثروت لوگوں سے ان سالاروں کی خوب چھنتی، کیونکہ دونوں کے ایک دوسرے سے مفادات جڑے ھوتے۔
چنانچہ ایک طبقہ آقاوں، سرداروں، سالاروں، تاجروں کی صورت میں وسائل پر چھایا ھوا تھا، تو دوسرا غریبوں، محنت کشوں، غلاموں کی صورت میں اپنا پیٹ بھرنے اور سر پہ چھت کے خواب کے ساتھ خون پسینہ ایک کر رھا تھا۔ دونوں کے درمیان طبقاتی فرق کی وسیع خلیج حائل رھی۔
صدیاں گزرنے کے باوجود بھی فرق کی یہ خلیج ختم نہ ھوسکی اور آج بھی انسانوں کو غلام بناکر ان کے ھر طرح کے استحصال کو مملکت سعودی عرب میں قانون کا درجہ حاصل ہے۔
ماضی میں غلاموں کی تجارت کرنے والے انسانی تاجر آج کفیل کی صورت میں مختلف ممالک کے دورے کرکے وھاں سے اپنی ضرورت اور پسند کے مطابق محنت کش بھرتی کرکے لاتے ہیں اور انھیں خون آشام کمپنیوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیتے ہیں۔
ریاستی سرپرستی میں محنت کشوں کے استحصال کا یہ عالم ہے کہ چنگل میں پھنسے محنت کش نہ ھی ان سے آزادی حاصل کر پاتے ہیں اور نہ ھی عالمی قواعد و ضوابط کے مطابق اپنی اجرت حاصل کرتے ہیں۔
روزگار کے سنھری مواقع کی چکاچوند اشتھار بازی کے نتیجے میں مختلف ممالک سے تعلق رکھنے والے محنت کش کثیر سرمایہ خرچ کرکے ورکنگ ویزا تو حاصل کرتے ہیں، مگر مملکت کی حدود میں داخل ھونے کے بعد اپنے تمام حقوق سے محروم کر دیئے جاتے ہیں۔
سوشل میڈیا پر ایسی کئی وڈیوز باآسانی دیکھی جاسکتی ہیں، جن میں غیر ملکی محنت کشوں کے ساتھ انتھائی اھانت آمیز سلوک کیا جا رھا ہے، خاص طور پر نجی ملازمین و ملازماوں پر امیر یا مالک غیر انسانی تشدد کرتا دکھائی دیتا ہے۔ اس پر ستم یہ کہ اس کے جبر و ستم کے خلاف کھیں کوئی سنوائی نھیں۔
مملکت سعودی عرب میں محنت مزدوری اور اپنا خون پسینہ بھانے کیلئے پاکستان، بھارت، بنگلہ دیش سے جانے والے شھریوں کو تین سے چار لاکھ روپے پاکستانی خرچ کرنا پڑتے ہیں۔ ورکنگ ویزا کے حصول کے بعد یہ افرادی قوت پاسپورٹ کی صورت میں اپنے آپ کو کفیل کے پاس رھن رکھ لیتی ہے۔
عمومی طور پر کمپنی اس افرادی قوت کی اجرت کفیل کو ادا کرتی ہے اور کفیل محنت کشوں کو ادائیگی کرتا ہے۔ اجرت اور کام کے اوقات تو طے شدہ ھوتے ہیں، مگر رھائش کے نام پر زیر تعمیر عمارتوں کے تھہ خانوں میں بھیڑ بکریوں کی طرح ٹھونسا جاتا ہے۔
خوراک، موسمی لباس، دیگر ضروریات کی کمی کے علاوہ مخصوص سرکل سے باھر جانے پر پابندی کے باعث یہ محنت نہ فقط نفسیاتی مسائل، احساس کمتری کا شکار ھوتے ہیں، بلکہ ان کی زندگی کی اوسط شرح بھی کم ھوکر رہ جاتی ہے۔
ان تمام قربانیوں کے بعد ھونا تو یہ چاھیئے تھا کہ حکومت غیر ملکی محنت کشوں کیلئے کوئی ریلیف یا انسانی بنیادوں پر کوئی رعایتی قوانین مرتب کرتی، الٹا مرے کو سو دے کے مصداق ان غیر ملکی محنت کشوں کے خلاف کریک ڈاون اور جبری ڈی پورٹ کا سلسلہ شروع کر دیا جاتا ہے۔
ایک تاثر یہ بھی پایا جاتا ہے کہ سعودی عرب میں موجود آل سعود کی بادشاھت ماضی کی اسی ذھنیت کی نمائندہ ہے، جس میں انسانوں کو غلام بنا کر ان کا ھر طرح سے استحصال جائز سمجھا جاتا تھا۔
چنانچہ ایسی حکومت سے محنت کشوں کیلئے کسی ریلیف کی توقع عبث ہے۔ ایشیائی ممالک سمیت دنیا کے غریب ممالک سے جانے والے یہ محنت کش اپنا سرمایہ خرچ کرتے ہیں، مگر حکومت کی جانب سے اقامہ و محنت کے قوانین میں ردوبدل کے باعث قانون کی گرفت میں آتے ہیں اور ڈی پورٹ بھی کر دیئے جاتے ہیں، جبکہ سعودی حکومت ان محنت کشوں کو خرچ ھونے والا سرمایہ واپس نھیں کرتی، حالانکہ سرمایہ خرچ پھلے جبکہ قانون سازی بعد میں کی گئی ھوتی ہے۔
شام میں حکومتی تبدیلی کی خواھش میں ناکامی اور یمن پر فضائی حملوں کے بعد آل سعود حکومت کے ستم کا نشانہ سب سے زیادہ غیر ملکی محنت کش بنے ہیں۔ انتھائی قلیل عرصے میں قوانین میں تبدیلیاں کرکے محنت کشوں کے خلاف کریک ڈاون کیا گیا اور انھیں ڈی پورٹ کیا گیا۔
سعودی حکومت نے قوانین میں تبدیلی کے بعد ان تمام غیر ملکیوں کے قیام کو غیر قانونی قرار دیا، جو کہ پرانے قوانین کے مطابق سعودی عرب میں موجود تھے۔ محنت کش غیر ملکیوں پر ٹوٹنے والی قیامتوں کا سلسلہ یھیں نھیں تھما، بلکہ مسلک، قومیت یھاں تک کہ ناموں کی بنیاد پر محنت کشوں کو زبردستی سے ڈی پورٹ کیا گیا، ان میں سے کئی بے گناھوں کو تفتیش کے کڑے مراحل سے گزارا گیا، ان میں اکثر تاحال لاپتہ جبکہ بعض کو ڈی پورٹ کیا گیا۔ اکثر لاپتہ غیر ملکی محنت کشوں کو بھی سعودی حکومت نے حج حادثہ کے شھداء میں شمار کر لیا ہے۔
کئی پاکستانی گھرانوں کو فقط نام یا حسب نسب کی بنیاد پر ڈی پورٹ کیا گیا، حالانکہ ان کی حیثیت سعودی عرب میں قانونی تھی۔ کچھ عرصہ قبل سعودی اخبار نے اپنی رپورٹ میں انکشاف کیا کہ فقط تین ماہ میں چوالیس ھزار غیر ملکیوں کو جیلوں میں لایا جا چکا ہے۔
رپورٹ میں جیل خانہ جات کے ڈائریکٹوریٹ کی جانب سے جاری اعداد و شمار کو شامل کیا گیا تھا۔ رپورٹ میں مزید کھا گیا کہ ان چوالیس ھزار میں سے نصف سے زائد غیر ملکیوں کو زبردستی اپنے اپنے ممالک واپس بھجوا دیا گیا ہے۔ یہ تمام تر گرفتاریاں غیر ملکیوں سے متعلق نئے قوانین کی مد میں کریک ڈاون کے بعد عمل میں آئیں۔
رپورٹ کی شہ سرخی میں یہ انکشاف بھی شامل تھا کہ ان غیر ملکیوں کے ساتھ قوانین کے مطابق سلوک کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ محکمہ پاسپورٹ نے اعلان کیا کہ وزٹ ویزے کی معیاد ختم ھونے کے بعد قیام کرنے والے کو 6 ماہ قید اور 50 ھزار ریال تک جرمانے کی سزا دی جائے گی اور میزبان کو سعودی عرب سے بیدخل کر دیا جائے گا۔ کوئی بھی ویزے کی معیاد ختم ھونے کے بعد مملکت میں قیام کی کوشش نہ کرے، ھر غیر ملکی مملکت میں اقامہ قانون کی پابندی کرے۔ محکمہ پاسپورٹ کے اس اعلان کے اگلے ھی روز قصیم پولیس کے ترجمان بدر الحیانی نے واضح کیا ہے کہ اقامہ و محنت قوانین کی خلاف ورزی کرنیوالے 3211 تارکین گرفتار کر لئے گئے ہیں۔ پولیس نے وزارت محنت کے افسران کے تعاون و اشتراک سے چھاپے مارے اور آئندہ بھی چھاپہ مھم جاری رھے گی۔
غیر ملکیوں کے ساتھ سعودی حکومت کی زیادتیوں کی حد یھیں ختم نھیں ھوتی بلکہ اس سے بڑھ کر سزائے موت بھی ان کے مقدر میں لکھی جاتی ہے۔ تین ماہ میں چوالیس ھزار غیر ملکیوں کی گرفتاری سے یوں ظاھر ھوتا ہے کہ مملکت میں لاکھوں غیر ملکی غیر قانونی طور پر موجود ہیں اور ان کی آمدورفت کے راستے فی الحال آل سعود کی دسترس سے باھر ہیں، جس کے باعث یہ غیر ملکی انتھائی آسانی سے مملکت سعودی عرب میں داخل ھوتے ہیں، مگر دوسری جانب سعودی عرب میں اب تک سزائے موت پانے والوں میں نصف سے زائد تعداد غیر ملکیوں کی ہے۔
ان غیر ملکیوں میں اکثر پر منشیات کی سمگلنگ کا الزام عائد کیا گیا تھا۔ اگر دونوں اعداد و شمار کو پرکھا جائے تو یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ جس ملک میں غیر قانونی طریقے سے لاکھوں انسان باآسانی داخل ھوسکتے ہیں، وھاں منشیات کے سمگلروں کو سر کٹوانے کی کیا ضرورت ہے۔ اصولی طور پر تو جس راستے سے لاکھوں انسان غیر قانونی طریقے سے داخل ھوتے ہیں، اسی کو سمگلر بھی استعمال کرتے۔
ایمنیسٹی انٹرنیشنل کی رپورٹ کے مطابق سعودی عرب میں جنوری 1985ء سے جون 2015ء کے درمیانی عرصے میں 2208 لوگوں کو موت کی سزا دی گئی۔ سزائے موت پانے والوں میں نصف سے زائد تعداد ان غیر ملکیوں کی تھی کہ جو عربی زبان سے واقف نھیں تھے اور ان سے ایسی دستاویزات اور اعترافی بیانات پر دستخط کرائے گئے، جن کو وہ پڑھنے اور سمجھنے سے قاصر تھے۔
قانونی امور اور انسانی حقوق کے کئی ماھرین کی طرف سے اس بارے میں بار بار تحفظات کا اظھار کیا جا چکا ہے کہ سعودی عرب میں ملزمان کے خلاف مقدمات کی سماعت شفاف اور منصفانہ طور پر نھیں کی جاتی۔
اس رپورٹ میں یہ بھی کھا گیا ہے کہ سلطنتِ سعودی عرب کا ناقص نظامِ انصاف بڑے پیمانے پر سزائے موت دیئے جانے میں مدد فراھم کرتا ہے۔
رپورٹ میں مزید کھا گیا ہے کہ بھت سے واقعات میں ملزموں کو وکیلوں کی سھولت مھیا نھیں کی جاتی اور بھت سے لوگوں کو پولیس حراست کے دوران تشدد سے حاصل کئے جانے والے اعترافی بیانات کی بنا پر موت کی سزا دے دی جاتی ہے۔
جن لوگوں کو سزائے موت دی گئی ہے، ان میں کم عمر ملزمان اور ذھنی بیمار شامل ھوتے ہیں۔ اس کے علاوہ سعودی عرب میں سزائے موت پانے والے غیر ملکیوں میں اسی فیصد مسلمان جبکہ بیس فیصد دیگر مذاھب سے تعلق رکھتے ہیں، شائد ایک مثال بھی ایسی نہ ملے کہ کسی امریکی یا برطانوی باشندے کی گردن کسی جرم میں اڑائی گئی ھو، ھوسکتا ہے کہ سعودی جلاد صرف مسلمانوں کے سر اڑانا جانتے ھوں، داعش کی طرح۔
تحریر: آئی اے خان
محنت کشوں کی مقتل گاہ
- Details
- Written by admin
- Category: خاص موضوعات
- Hits: 1711