گلوبل ویلج کا نام تو آپ نے سنا ھی ھوگا، یہ کوئی افسانوی بات نھیں بلکہ میدانی حقیقت ہے۔ آج جدید ٹیکنالوجی نے سچ مچ میں ھماری اس دنیا کو گلوبل ویلیج میں بدل دیا ہے۔
ماضی کی مشکلات اب جدید ٹیکنالوجی کی بدولت کافی حد تک حل ھوگئی ہیں۔ وسائل نقل و حمل کا مسئلہ ھو یا مواصلات کا، پھلے دنیا ومافیھا سے لوگ بے خبر ھوتے تھے، لیکن آج ان سھولیات کی بدولت پل پل کی خبروں سے انسان آگاہ رہ سکتے ہیں۔ پھلے سالوں کی مسافت اب ھفتوں میں اور مھینوں کی مسافت اب دنوں اور گھنٹوں میں بدل گئی ہے۔ پھلے جس کام کے انجام دینے کے لئے دسیوں افراد درکار ھوتے تھے، اب ایک جدید مشین ان سب سے بھتر انداز میں اس کام کو انجام دیتی ہے۔
ٹیلی فون اور موبائل کے فقدان کے باعث لوگ اپنے عزیزوں سے سالوں بے خبر ھوتے تھے، اب جھاں جدید ٹیکنالوجی نے مختلف طریقوں سے ایسے بھت سارے مسائل کو حل اور فاصلوں کو بھت حد تک کم کر دیا ہے، وھاں بدقسمتی سے وسائل میں اضافے کے ساتھ ساتھ مختلف اخلاقی، اعتقادی، معاشرتی، خاندانی، فکری اور تربیتی حوالے سے بھت ھی خطرناک مسائل بھی جنم لے رھے ہیں۔
پھلے جن مسائل کے بارے میں سوچا بھی نھیں جاسکتا تھا، آج کل وہ عملی صورت پر رونما ھو رھے ہیں۔ پھلے لوگ ایک دوسرے کے بھائی کی طرح زندگی گزارتے تھے، ایک دوسرے کے دکھ درد میں بھرپور شریک ھوتے تھے، غریبوں کی خوب مدد کرتے تھے اور بے سھاروں کا سھارا بنتے تھے، مریضوں کی تیمار داری کرتے تھے، ایک دوسرے کا غم بانٹتے تھے، بزرگوں کا احترام اور علماء کے دربار میں رھنے کو اپنا شرعی اور اخلاقی فریضہ سمجھتے تھے، اپنے ھر اھم کام میں اپنے علاقے کے عالم دین سے مشورہ کرتے تھے اور اس کے حکم کی تعمیل کرتے تھے، مشکلات کی بھرمار ھونے کے باوجود خوشحال رھتے تھے، عیش و نوش کی محفلوں کا سوچنا بھی دور کی بات تھی، طور اطوار اب سے بھت ھی مختلف تھے، ناموس کا احترام بھت زیادہ کیا جاتا تھا اور طلاقوں کی شرح نہ ھونے کے برابر تھی۔ بے حیائی اور بے حجابی آٹے میں نمک کے برابر تھی۔
موجودہ زمانے میں جدید ٹیکنالوجی جوں جوں ترقی کر رھی ہے، انسان کی انسانیت و اخلاقیات، محبت و الفت، شرافت و دیانت، عبادت و ریاضت، عدالت و صداقت، رحمت و ھمدلی، آداب و احترام، اطعام و اکرام، غریب پروری و تیمارداری میں رفتہ رفتہ واضح کمی بھی رونما ھو رھی ہے اور اب انسان انسانیت سے نکل کر مشین کا روپ دھار رھا ہے۔ ایسی ایجادات کی نمود سے پھلے یہ تمام اخلاقی اقدار کافی حد تک برقرار تھے۔ انسانیت کی جگہ اب مادیت لے رھی ہے، محبت کی جگہ اب نفرت اپنا گھر بسا رھی ہے، شرافت و دیانت کے مقام پر بدمعاشی اور خیانت قابض ھوتی جا رھی ہے، عبادت و ریاضت کی جگہ اب ساز و سرود غصب کر رھا ہے، عدالت و صداقت پر اب ظلم و فریب شب خوں مار رھا ہے، رحمت و ھمدلی کی جگہ اب شقاوت و نفرت حاکم ھوتی جا رھی ہے۔ علماء کی ھمنشینی اب عذاب محسوس کرنے لگ گئے ہیں اور ان پر مختلف قسم کا الزام لگا کر انھیں سرکوب کرنے کی کوشش کرنا ایک عام سی بات بن گیا ہے۔ ان سے معاشرے کے ایک حاذق روحانی ڈاکٹر کے طور پر اپنی روحانی بیماریوں کا علاج کرانے کی بجائے اپنے ذاتی مقاصد کے لئے انھیں استعمال کرنے کی ناکام کوشش کرنا اب روز مرہ کا معمول بن چکا ہے۔
پھلے خواتین اپنے ماں باپ کی اجازت کے بغیر گھر سے نکلنا اپنے لئے ننگ و عار سمجھتی تھیں اور محدود وسائل کے باعث ان کا ھر کام والدین، بھائی اور دوسرے عزیزوں کی زیر نظر ھوتا تھا، جس کے سبب بے حیائی عجوبہ سی لگتی تھی اور ھماری خواتین حیا کا پیکر شمار ھوتی تھیں۔
لیکن اب جدید کمیونیکیشن کی بدولت موبائل، فیس بک اور واٹس اپ جیسی سھولیات کا سھارا لیکر رفتہ رفتہ عشق و عاشقی کے نام پر غلط روابط کے ذریعے بے حیائی کا بازار گرم ھوتا جا رھا ہے۔ طلاقوں کی شرح میں روز بہ روز ترقی ھوتی جا رھی ہے۔ گھروں کی چاردیواری کی حرمت بھی اب بری طرح پامال ھوتی جا رھی ہے اور آزادی کے نام پر فحاشی اور عریانیت کو دن بدن فروغ ملنے کے ساتھ ساتھ خانوادگی زندگی بھی اجیرن بنتی جا رھی ہے۔
انھی سھولیات کا سھارا لیکر مغرب کی بوسیدہ ثقافت ھماری پاکیزہ ثقافت کو بری طرح متاثر کر رھی ہے۔ تمدن کے نام پر اسلامی تھذیب کے پرخچے اڑائے جا رھے ہیں۔
نشے اور اخلاقی برائیوں میں رفتہ رفتہ اضافہ ھوتا جا رھا ہے۔ پاکستان میں گذشتہ سال 67 لاکھ بالغ افراد نے منشیات استعمال کی۔ 42 لاکھ سے زائد افراد نشے کے عادی ہیں۔ ان میں سے تیس ھزار سے بھی کم افراد کے لئے علاج معالجے کی سھولیت میسر ہے۔ کل آبادی کا 4 فیصد بھانگ پی رھا ہے۔ آٹھ لاکھ سات ھزار افراد افیون استعمال کر رھے ہیں۔ مردوں میں بھانگ اور خواب آور ادویات کی شرح زیادہ ہے، جبکہ خواتین سکون فراھم کرنے والی ادویات بھی استعمال کرتی ہیں۔ تقریباً سولہ لاکھ افراد ادویات کو بطور نشہ استعمال کرتے ہیں۔ منشیات کی وجہ سے سالانہ لاکھوں افراد داعی اجل کو لبیک کھہ رھے ہیں۔﴿۱﴾
یھی وجہ ہے کہ آج کے جدید نظام زندگی سے تنگ آکر لوگ اب اپنی سابقہ طریق زندگی کے لئے ترس رھے ہیں۔ جس کا واضح ثبوت حال ھی میں اٹلی میں دس لاکھ سے بھی زیادہ افراد کا اپنے قدیم گھریلو سسٹم کی بحالی کے لئے احتجاج کرنا ہے۔﴿۲﴾
آخر اس کا سبب کیا ہے؟ اس کی بنیادی وجہ ھمارے اعتقادات کی کمزوری، اسلامی اقدار سے ھماری دوری اور نئی نسل کی صحیح اسلامی تربیت سے ھمارا چی چرانا ہے۔
ھمیں چاھیے کہ اپنے بچوں کی ایسی تربیت کریں، جس کے بعد وہ ان تمام مشکلات کا مردانہ وار مقابلہ کرسکیں۔ جب ھم ان کی درست تربیت کے ذریعے ان کے اعتقادات کو مضبوط بنائیں گے، تب اسلامی اقدار کی نسبت ان کے ذھنوں میں ایک احترام تشکیل پائے گا۔ جب یہ اقدار ان کے ذھنوں پر حاکم رھیں گے، تب خود بخود اسلامی قوانین پر عمل کرنے کے لئے وہ تیار ھوجائیں گے۔ جب وہ اسلامی اصولوں پر عملی میدان میں بھی پابند ھوجائیں گے، تب ثقافتی یلغار انھیں منحرف نھیں کرسکے گی۔
کائنات میں اللہ تعالٰی نے کوئی چیز بری خلق نھیں کی ہے۔ ھر چیز انسان کے کمال اور اس کی ترقی کے لئے ہے۔ اسی طرح جدید ٹیکنالوجی میں بھی صرف منفی پھلو نھیں بلکہ اس کے فوائد بھی ناقابل انکار ہیں۔ کیا ھم صرف اس کی منفی جھت کو دیکھ کر اس کے قریب ھی نہ جائیں؟ نھیں نھیں۔ اس قدر احتیاط کی ضرورت نھیں ہے۔
﴿البتہ کم عمری میں بچوں کا کمپیوٹر استعمال کرنا ان کی ذھنی صلاحتیوں میں کمی کا سبب بنتا ہے۔ اسی لئے خود بلگیٹ نے اپنے بچوں کو کبھی کمپیوٹر استعمال کرنے کی اجازت نھیں دی۔ اسی طرح اوباما کی بیوی نے بھی پندرہ سال ھونے تک اپنے بچے کو کمپیوٹر کے قریب تک جانے نھیں دیا۔ یہ ھم ہیں جو دوسروں کی نقل اتارتے اتارے اپنے آپ کو ھلاکت میں ڈال دیتے ہیں۔﴾
ھماری کمزوری یہ ھوتی ہے کہ اس جدید ٹیکنالوجی کو مثبت انداز میں فائدہ مند بنانے کی بجائے اسے منفی کاموں کے لئے ھی استعمال کرتے ہیں۔ بالفرض اگر کوئی فیس بک پر کسی نامحرم کی تصویر لگا دے تب مرور زمان کے ساتھ ساتھ جتنے لوگ اسے دیکھ کر گمراہ ھوتے جائیں گے، اس گناہ میں وہ تصویر لگانے والا برابر کا شریک رھے گا، خواہ وہ خود زندہ ھو یا مر چکا ھو۔ اس گناہ کا حصہ اسے قبر میں بھی ملتا رھے گا۔
اسی طرح کوئی اچھی بات وھاں شیئر کرتا ہے، تب جتنے لوگ اس سے استفادہ کریں گے، اس کے ثواب میں بھی وہ شخص برابر کا شریک رھے گا، خواہ وہ قید حیات میں ھو یا ابدی سفر پر روانہ ھوچکا ھو۔ جس طرح چھری خود سے کوئی بری چیز نھیں، رائفل کوئی خطرناک چیز نھیں، کلھاڑا کوئی دردناک چیز نھیں۔ لیکن جب ھم ان چیزوں کو اپنے مصرف میں استعمال کرنے کی بجائے ان سے غلط کام لینا شروع کردیتے ہیں، تب ان میں منفی رخ پیدا ھوجاتا تھا۔ جس چھری کو سبزی اور گوشت کاٹنے کے لئے استعمال ھونا چاھیے تھا، جس ھتھیار کو اپنے ملک دشمن کافر و مشرکین کو سرکوب کرنے کے لئے بروکار لانا چاھیے تھا، جس کلھاڑے سے لکڑی اور دوسری سخت چیزیں کاٹنا چاھیے تھی، اب اگر ان سے کسی مسلمان کا گلا کاٹیں، کسی بے گناہ کی جان سے کھیلیں اور کسی عزیز کا خون بھائیں تو اس میں ان چیزوں کی کوئی غلطی نھیں بلکہ اس استعمال کرنے والے کا قصور ہے۔
بنابریں جدید ٹیکنالوجی خود سے کوئی خطرناک چیز نھیں، لیکن جب ھم اسے اپنے منفی مقاصد کو پانے کے لئے استعمال کرتے ہیں، تب اس کے مفید اثرات ناپید ھوجاتے ہیں اور اس کی جگہ مضر اثرات معاشرے میں پھیل جاتے ہیں۔
لھذا ھماری بنیادی ذمہ داری یہ ہے کہ ان سھولیات سے ھماری نسلوں کو صرف اور صرف معاشرے کی ترقی اور تکامل کے کاموں میں استعمال کرنے کی تلقین کریں۔ جس فیس بک کے ذریعے پیغمبر اکرم(ص) اور ان کی پاک آل کا پیغام دنیا تک پھنچ سکتا ہے، ھمارے اعتقادات سے دنیا کو آشنا کیا جاسکتا ہے، معاشرتی اصلاح کی باتیں شیئر کرسکتے ہیں، ظالموں کے خلاف آواز اٹھا سکتے ہیں، مظلوموں کی حمایت کا اعلان کرسکتے ہیں اور اپنے عزیزوں کی زیارت کرسکتے ہیں۔ اسی سے اگر غلط فائدہ اٹھا کر فحاشی پھیلانے، نفرت ایجاد کرنے، فساد برپا کرنے اور اسلامی اقدار کو پامال کرنے والی چیزوں کے لئے استعمال کریں، تب یہ معاشرے، گھر اور ملک بلکہ پوری دنیا کے لئے خطرناک ثابت ھوسکتی ہیں۔
البتہ موجودہ زمانے کے تقاضوں کو ملحوظ خاطر رکھتے ھوئے والدین، بھائیوں اور رشتہ داروں کی ذمہ داری بنتی ہے کہ اپنی ماں، بھنوں کے ھاتھوں ضرورت سے زیادہ موبائیل وغیرہ نہ تھمائیں، بالخصوص جن کی ابھی تک شادی بھی نھیں ھوئی، ان کے ھاتھوں ایسی چیزوں کا تھمانا ایسا ھی ہے جیسے ایک غیر ممیز بچے کے ھاتھ میں آگ کا انگارا دینا۔ لھذا ان کو ھمیشہ تحت نظر رکھنا اشد ضروری ہے۔
یہ حقیقت ھمیں ھمیشہ یاد رکھنا چاھیے کہ ھاری ھوئی جنگ کو دوبارہ جیت میں تبدیل کیا جاسکتا ہے، مگر تھذیب و ثقافت کی شکست پوری قوم کو تباہ و برباد کر دیتی ہے۔ آج کل زیادہ تر انٹرنیٹ کا استعمال فحش و بے حیائی و اخلاقی بگاڑ کی طرف دعوت، مذھبی جذبات کو مجروح کرنے اور غلط معلومات کو پھیلانے میں ھو رھا ہے۔
آج کل سوشل نیٹ ورکینگ کا چلن فروغ پا رھا ہے۔ فیس بک کا استعمال لڑکے لڑکیوں کو نشے کی لت کی طرح لگ جاتا ہے اور اس میں نئی نئی دوستیاں صنف مخالف سے ھوتی ہیں اور پھر معاملات پیار، شادی اور زنا تک پھنچ جاتے ہیں۔
فیس بک اور انٹرنیٹ کے غلط استعمال سے لڑکے لڑکیوں کی اخلاقی قدروں کے ساتھ ساتھ ذھنی و جسمانی صلاحیتوں پر بھی کاری ضرب لگتی ہے۔ لھذا گھر کے ذمہ دار افراد کو اپنے گھر والوں کی آئی ڈی وغیرہ وقتاً فوقتاً چیک کرتے رھنا چاھیے۔ ساتھ ھی پولیس اور دوسرے ذمہ دار ادارے اپنی ذمہ داریوں کو صحیح معنوں میں نبھائیں تو کوئی وجہ نھیں کہ معاشروں سے جرم کا تدارک نہ ھوسکے۔ اس لئے جوابدھی کے نظام کو بھی بھتر بنانا ھوگا۔(3)
بنابریں جھاں جدید ٹیکنالوجی زندگی میں آسانیوں کا سبب ہے، وھاں پر اس کا غلط استعمال انسانی زندگی کو اجیرن بھی بنا سکتا ہے۔
حوالہ جات:
1: ڈیلی کے ٹو، ۱۵ فروری ۲۰۱۶
2: چینل1، ایران، ۳۰ جنوری۲۰۱۶
3:HAMARI WEB OSAMA SHOAIB, ALIG, DEHLI
تحریر: سید محمد علی شاہ الحسینی
جدید ٹیکنالوجی ۔۔۔ فوائد اور نقصانات
- Details
- Written by admin
- Category: خاص موضوعات
- Hits: 2075