www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

655715
اپنے آپ کو سپر طاقت کھنے والے ممالک، عالمی ادارے اس وقت دنیا میں بدامنی پھیلا رھے ہیں۔ افغانستان، عراق، شام، یمن ،بحرین اور پاکستان میں لاکھوں افراد کو مارا گیا ہے۔ لاکھوں افراد کے گھروں کو تباہ کر دیا اور خود ان کو بے گھر کر دیا گیا ہے۔ انھوں نے مسلم ممالک تو کیا پوری دنیا کو تقسیم کر رکھا ہے، فرقہ واریت کا فتنہ ان کی وجہ سے دنیا میں پھیل رھا ہے۔ ظلم و ستم کے سائے، ان عالمی بشری قوتوں اور طاقتوں کا نتیجہ ہیں۔ بھت سارے مغربی مفکرین بھی اس ظلم و ستم کی طرف متوجہ ھوچکے ہیں۔ آج عالم انسانیت کے سامنے یہ سوال ہے کہ مادی و تجربی علوم کی وسعت اور ٹیکنالوجی کی ترقی کیوں دنیا کو رفاہ و عدالت نھیں دے سکی؟ ھر روز غربت کی لکیر کے نیچے ممالک کی تعداد میں اضافہ کیوں ھو رھا ہے؟ کیوں آج کا انسان مضطرب اور بے سکون ہے؟ موجودہ اور زمان حال کی یہ صورتحال ہے۔ جب یہ حالت ہے تو انسانیت اپنے مستقبل کے بارے میں پریشان ہے کہ آیندہ کیا ھوگا۔؟
مستقبل کی اھمیت
مستقبل کے بارے میں جاننا آج کل مختلت یونیورسٹیوں میں ایک علم کے طور پر جانا گیا ہے۔ مختلف ادارے، مختلف تنظیمیں، مختلف کمپنیاں اور تقریباً ھر ملک کسی جگہ پر تغییر و تحول ایجاد کرنے کے لئے پلاننگ بناتا ہے۔ آیندہ کی تصویر اجمالی طور ذھن میں رکھتے ہیں اور اسی کے مطابق منصوبہ بندی بنائی جاتی ہے۔ اس منصوبہ بندی کے اندر یہ طے کیا جاتا ہے کہ آیندہ کونسی مشکلات پیش آسکتی ہیں، مشکلات کا مقابلہ کرنے کے بعد جب کامیاب ھو جاتے ہیں تو اس وقت ھماری کیا حیثیت ھوگی، ھمیں کس قدر نفع مل سکتا ہے اور معاشرہ کے اندر جو تبدیلی کرنا چاھتے ہیں، وہ کس قدر ھوسکتی ہے۔؟
اپنے مستقبل کے بارے میں دنیا کو پریشانی
آج تمام ممالک اس حوالے سے پریشان ہیں کہ آیندہ انصاف کے تقاضوں کے مطابق طبیعی منابع سے کیسے استفادہ کیا جائے گا، بطور مثال تیل، پیٹرول، گیس اور پانی وغیرہ کی کیا تقسیم ھوگی۔ حکومت کرنے کا انداز کیا ھوگا، پوری دنیا میں کیسے ایک ھی حکومت ھوگی۔ کیمونیزم، سوشلیزم، لیبرالیزم، کپیٹلزم حتی سکولاریزم کی ساری شکلوں سے گزرنے اور ان کے نواقص سے آگاہ ھونے کے بعد انسانیت پریشان ہے کہ آیندہ کی حکومت بنے گی تو کیسے۔ اس کی شکل کیا ھوگی، منابع کیا ھوں گے، انصاف اور عدل کے تقاضے کیسے پورے ھوں گے؟ بعض مغربی لوگوں کا کھنا ہے کہ انسانیت کا مستقبل تاریک ہے، انسان نے اپنی خود ساختہ ترقی سے اپنی موت خود خرید رکھی ہے۔ ھمارے ھاتھوں سے بنایا ھوا اپنا ایٹمی اسلحہ ھماری تباھی کا سب سے بڑا سامان بنا ھوا ہے۔ ایک وقت ایسا بھی آئے گا کہ انسان اپنی موت آپ ھی مر جائے گا۔
عقیدہ مھدویت اور ھم
ساری دنیا ایک منجی برحق کے انتظار میں ہے، اس کے آنے میں اور اس پر عقیدہ رکھنے میں سوائے محدود لوگوں کے سب کا اتفاق ہے، اختلاف صرف مصداق اور شخصیت میں ہے۔ انسان چاھے آسمانی ادیان جیسے اسلام، مسیحیت اور یھودیت کا پیروکار ھو یا ھندوئیسم، بودائیسم کا ماننے والا ھو، پوری کی پوری انسانیت ایک ھی مشترکہ سوچ رکھتی ہے اور وہ سوچ ایک عالمی نجات دھندہ کی سوچ ہے۔ یہ سوچ، یہ نظریہ لوگوں نے کھیں سے باقاعدہ کسب نھیں کیا بلکہ اللہ نے اپنے لطف خاص سے لوگوں کے ذھنوں میں رکھ دیا ہے۔
پوری دنیا کے سامنے اگرچہ ایک اجمالی حد تک امام مھدی کا تصور ہے، لیکن ھمیں اسے زیادہ سے زیادہ روشن کرنے کی ضرورت ہے۔ اسے علمی طور پر اور وقت کے تقاضوں کے مطابق بیان کرنا ہے، لوگوں کو ظھور کے زمانہ کے لئے تیار کرنا ہے۔ استعماری طاقتوں کے ظلم سے لوگ تھک چکے ہیں، عادل حکمران کی تلاش میں رھتے ہیں، لیکن ھمیشہ دھوکہ کھاتے ہیں۔ لوگوں کے سامنے عدل اور ظلم کا مفھوم واضح اور روشن ہے، لیکن عدل اور ظلم کی حقیقت واضح اور روشن نھیں ہے، جسے علمی حوالے سے حل ھونا چاھیے۔ ھمیں صرف اس بات پر اکتفا نھیں کرنا کہ چند غریب اور فقیر لوگوں کی مدد کرنی ہے بلکہ یہ کوشش کرنی ہے کہ ان کی غربت اور فقر کو ھمیشہ کے لئے ختم کرنا ہے۔ اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ معاشرہ اور پوری دنیا سے بلکہ پوری انسانیت سے ظلم کا، غربت اور فقر کا خاتمہ کرنا ہے۔ اس کام کے لئے ھم نے لوگوں کو آمادہ اور تیار کرنا ہے، تاکہ صرف چند شیعہ ھی نھیں بلکہ انسانیت امام کے آنے کے لئے بے تاب ھوچکی ھو اور پوری پوری آمادگی رکھتی ھو۔ اس کام کے لئے ھمیں مھدویت کے دور میں انسانیت کے مستقبل کو زیادہ سے زیادہ واضح کرنے کی ضرورت ہے۔
انسانیت کے مستقبل کا حال سے تعلق
امام زمانہ (ع) کے ظھور کے اندر فقر ختم ھوچکا ھوگا، کوئی غریب نھیں ھوگا، وہ زمانہ عین عدل ھوگا، لیکن یہ زمانہ اس شخص کو نصیب ھوگا کہ جس کی نگاہ صرف اپنی ذات، اپنی قوم یا اپنے علاقے تک محدود نہ ھو۔ اس کی نگاہ عالمی ھو، پوری انسانیت کے لئے ھو، سوچنے کا انداز جھانی ھو، یھاں تک کہ اگر وہ دعا مانگے تو دعا بھی ہر انسان کے لئے ھو اور یہ وہ طریقہ اور تربیت ہے، جو خود معصومین نے تعلیم فرمایی ہے:"اللَّهُمَّ أَغْنِ كُلَّ فَقِیرٍ، اللَّهُمَّ أَشْبِعْ كُلَّ جَائِع، اللَّهُمَّ فَرِّجْ عَنْ كُلِّ مَكْرُوب‏، اللَّهُمَّ أَصْلِحْ كُلَّ فَاسِد" ایسا انسان، مھدویت کے زمانہ کو اپنی نگاھوں میں رکھنے والا ہے، اس کا ھدف اور آئیدیل زمانہ اس دنیا کے اندر وھی مھدویت کا دور ہے۔ یہ انسان اس حوالے سے جتنے کام کرتا ہے، اس کی کوشش یھی ھوتی ہے کہ عالمی سطح کے ھوں۔ یھی انسان اپنے حال کو مستقبل کے لئے علت بناتے ھوئے اپنے آپ کو تیار کر رھا ھوتا ہے۔ مھدویت کا زمانہ وہ ہے، جس کو پانے کے لئے معصومین (ع) نے اپنے ماننے والوں کو اس طرح دعا کرنے حکم دیا ہے:"اللھم انا نرغب الیک فی دولة کریمة تعز بھا الاسلام واھلہ"پروردگار! ھم تجھ سے ایسی عظیم حکومت میں زندگی گزارنے کی دعا کرتے ہیں، جس میں اسلام اور مسلمانوں کو عزت و رتبہ حاصل ھو۔ "وتذل بھاالنفاق واھلہ" اور اس میں منافقوں کو ذلت و رسوائی ملے گی۔
مھدویت کے زمانہ کے ذمہ دار افرادامام کے ساتھی
امام زمانہ (ع) کے ساتھی وہ لوگ ہیں، جو آج اپنے امام کے سامنے، شریعت کے سامنے، قرآن مجید کے سامنے سر تسلیم خم ہیں۔ امام ھم سب کی کیفیت سے آگاہ ہیں، یا جب بھی آگاہ ھونا چاھیں آگاہ ھوسکتے ہیں۔ مھدویت کا زمانہ ڈرپوک، بزدل اور بے بصیرت لوگوں کا زمانہ نھیں ہے۔ جو لوگ گناھگار ہیں، ظالم ہیں، فاسق اور فاسد ہیں، جن پر اللہ کی یہ آیات صدق کرتی ہیں کہ: تَنازَعْتُمْ، عَصَیْتُم، فَشِلْتُمْ ایسے افراد امام (ع) کے ساتھی نھیں بن سکیں گے۔ امام (ع) کے ساتھی جو انسانیت کی خدمت کرنے ھوں گے وہ، وہ لوگ ہیں کہ جن پر مومنون، خاشعوں، معرضون، حاٖفظون، قانتوں جیسی صفات صدق کرتی ہیں۔ مھدویت کے زمانے میں امام (ع) کے ساتھی آھن کی طرح حق پر سخت ھوں گے، جن کو کھا گیا ہے کہ مانند زُبَرِ الْحَدِید ھوں گے۔ مھدویت کے زمانے میں انسانوں کے فلاحی اور سماجی کام کرنے والے، امام کے ساتھی ایسا نھیں ہے کہ شاید متقی ھوں، شاید ھدایت پانے والے ھوں، شاید رشد کرنے والے ھوں یعنی لَعَلَّهُمْ یَهْتَدُونَ اور لَعَلَّهُمْ یَرْشُدُونَ کی منزلوں سے گزر کر أُولئِكَ هُمُ الْمُهْتَدُونَ، هُمُ الْمُتَّقُون‏ اور أُولئِكَ هُمُ الرَّاشِدُونَ کی منزل تک پینچ چکے ھوں گے۔
مھدویت، انسانیت کا شاندار اور روشن مستقبل
مھدویت کے زمانے میں زمین پر حکومت اللہ کے صالح بندوں کی ھوگی، جو نیک ھوں گے، پاک و پاکیزہ ھوں گے، ان کے اندر حکومت کرنے کی صلاحیت ھوگی اور یہ استعداد و صلاحیت اللہ کی بندگی سے حاصل ھوچکی ھوگی۔ اللہ کا وعدہ ہے کہ ھمیشہ نتیجہ اور انجام مومنین اور متقین کے حق میں ہے۔ یھی وہ بات ہے، جو انسان کو تمام مشکلات کے باوجود مھدویت کے شاندار اور روشن مستقبل کے لئے امیدوار کرتی ہے۔ کس قدر ظالم لوگ امام حق یعنی مھدویت کی حکومت کے لئے رکاوٹ بنتے رھے ہیں اور بن رھے ہیں، لیکن اس صفحہ ھستی سے حرف غلط کی طرح مٹ گئے اور مٹ رھے ہیں۔ ابو جھل و ابو سفیان اپنے اھداف کے ساتھ مر مٹ گئے، محمد مصطفٰی کی تعلیمات بھی باقی ہیں اور اھداف بھی باقی ہیں۔ ابن زیاد و یزید تاریخ میں ایک فحش بن کر رہ گئے، جبکہ علی کی بیٹی حضرت زینب (ع) کے خطبات اور مولا امام حسین (ع) کے اھداف اب بھی باقی ہیں۔ شاہ و صدام کا نام اور ان کی حیثیت کجا اور امام خمینی (رہ) کا نام اور مقام عظمت کجا۔ یہ ساری باتیں انسان کو حوصلہ دیتی ہیں کہ پریشان ھونے کی ضرورت نھیں ہے، مایوسی گناہ ہے، اللہ نے ھمارے سامنے ایک شاندار اور روشن مستقبل رکھا ہے، جسے روایات میں مھدویت کا زمانہ کھا جاتا ہے۔
مھدویت کا زمانہ اور انسانیت کا کمال
انسانیت اپنے کمال کو پھنچ چکی ھوگی، حسد، بغض اور نفاق نام کی کوئی چیز نھیں ھوگی۔ آپس میں محبت، ھمدردی اور ایثار، اخوت اور برادری کی فضا ھوگی۔ اس زمانے میں معاملات اور بینکاری میں سے سود کا نظام ختم ھوچکا ھوگا، جب کسی مومن کو کوئی ضرورت ھوگی تو وہ اپنے مومن بھائی کی جیب سے نکال لے گا اور اس کو وہ مومن کوئی ممانعت بھی نھیں کرے گا بلکہ اس عمل سے خوش ھوگا۔ ھر جگہ پر امن ھوگا، لوگ اچھی اور خوشحال زندگی گزاریں گے۔ امام زمان بھت زیادہ بخشش اور عطا کرنے والے ھوں گے، کوئی شخص غریب اور تنگ دست نھیں ھوگا۔ زمین کے محصولات بھت زیادہ ھوں گے۔ مھدویت وہ شاندار زمانہ ہے، جس میں ھر صاحب حق، کا حق اسے مل کر رھے گا۔ اگر کسی نے ایک مومن کے حق پر ناجائز قبضہ کر لیا ھوگا تو امام اسے اس کا حق واپس لیکر دیں گے۔ جبار اور مستکبر حاکموں کی حکومتیں ختم ھو جائیں گی اور منافق و خائن لوگوں کی سازشیں کارگر نھیں ھوں گی۔ زمانہ مھدویت میں اور حکومت امام مھدی (ع) میں انسانیت اس قدر رشد کرے گی کہ پوری دنیا کے 30، 50 یا 70 فی صد لوگ نھیں بلکہ سب کے سب لوگ اھل علم ھوں گے، یھاں تک کہ خواتین اپنے گھروں میں بیٹھ کر اللہ کی کتاب اور پیغمبر اکرم﴿ص﴾ کی سنت کے مطابق فیصلے کریں گی۔ تمام مرد اور خواتین امام مھدی کی برکت سے عقل اور حکمت کی بلندی پر پھنچ جائیں گے۔ مومنین میں سے ایک ایک مرد کی طاقت عام طور پر چالیس مردوں سے بھی زیادہ ھو جائے گی۔ دنیا پر امام (ع) کی حکومت امام کے مخلص پیروکاروں کے توسط سے ھوگی۔ امام لوگوں میں مساوی طور پر دولت کو تقسیم کریں گے اور کسی کو کسی پر کوئی امتیاز نھیں دیا جائے گا۔ اللہ کی نعمات فراوانی سے پائی جائیں گی، جانور اور حیوانات بھت زیادہ ھوں گے، زمین سے فصلیں بھت زیادہ اگیں گی، نھروں کا پانی بھت وافر مقدار میں ھوگا، زمین کے اندر جتنے معادن ہیں، ان کو نکالا جائے گا اور زمین اپنی تمام برکات اور نعمتوں کو پیش کر دے گی۔ مھدویت ایک بھت بڑا انقلاب ہے۔ اس دوران معیشت، زراعت اور اقتصاد، ان تمام میدانوں کے اندر ایک بھت بڑی تبدیلی آئے گی۔
مھدویت، باطل قوتوں کی شکست
آج عالم انسانیت کے سامنے یہ سوال ہے کہ مادی و تجربی علوم کی وسعت اور ٹیکنالوجی کی ترقی کیوں دنیا کو رفاہ و عدالت نھیں دے سکی؟ ھر روز غربت کی لکیر کے نیچے ممالک کی تعداد میں اضافہ کیوں ھو رھا ہے؟ کیوں آج کا انسان مضطرب اور بے سکون ہے؟ اسی طرح کے دسیوں دیگر سوالات عالمی استکبار کی عنقریب حتمی شکست کی نشانیاں ہیں۔
مھدویت کا نظریہ ایک محدود علاقے کا نظریہ نھیں بلکہ عالمی نظریہ ہے اور یہ دنیا کے نظم و نسق کو چلانے کے لئے جامع، بنیادی اور عملی منصوبہ رکھتا ہے۔ دنیا بھی اس طرح کے نظام اور فکر کی تشنگی محسوس کرتی ہے اور ھمارا ایمان ہے کہ عصر حاضر کے انسان کو جو نظام مطمئن کرسکتا ہے اور اس کی مادی و معنوی ضروریات کو پورا کرسکتا ہے، وہ صرف اور صرف نظام مھدویت ہے۔
اُس دور میں پوری دنیا میں واحد حکومت امام زمان (ع) اور اسلام کی ھوگی، اس کے علاوہ کوئی اور دین اور سیاست نھیں ھوگی۔ یھودیت، مسیحیت اور باقی ادیاں کا جھاں سے خاتمہ ھو جائے گا، دنیا کے ھر خطہ سے اشهد ان لا اله الاّ الله، و اشهد انّ محمّدا رسول الله کی صدا آئے گی۔ لوگوں کے آپس کے داخلی اختلافات ختم ھو جائیں گے، دونوں طرف سے دنیاوی اور مادی امور میں کوئی جنگ نھیں ھوگی۔ اگر کوئی نزاع یا جنگ ھوئی بھی تو کچھ عرصہ کے لئے ھوگی اور وہ حق اور باطل کے درمیان ھوگی۔ امام مھدی کے زمانہ میں حکومت آج کی طرح نھیں ھوگی کہ اپنی خواھشات نفسانی کی وجہ سے جس پر حملہ اور تسلط کرنا چاھیں کرسکیں۔ نہ اس طرح نھیں ھوگا، ھوا پرستی کی جگہ پر خدا پرستی آچکی ھوگی۔ نظریات، تھیوریاں، افکار سب قرآن مجید کو پیش کر رھے ھوں گے۔ آج کے زمانے کی طرح نھیں ھوگا کہ حکمران اور طاقتور کو کوئی پوچھنے والا ھی نہ ھو بلکہ اس زمانہ میں امام کی طرف سے اپنے سپاھیوں اور جرنیلوں سے سخت حساب و کتاب لیا جائے گا۔ اس وقت انسان درک کرے گا کہ امام عادل اور سیرت عدل کیا ہے اور کتاب و سنت کو زندہ کرنا کیا ہے؟ مھدویت مغربی ثقافت پر اعتماد کو ختم کر رھی ہے اور اس ثقافت میں امام زمانہ علیہ السلام پر اعتماد کرنا چاھیے، مھدویت سماجی، اخلاقی اور سیاسی آفات کے مقابلے میں اھم اور گرانقدر کردار ادا کرتی رھی ہے اور ان شاء اللہ کرتی رھے گی۔
امام کے سپاھیوں پر زمین کا افتخار
انسانیت کی بلندی اور کمال ھی کمال پوری دنیا میں پھیل چکا ھوگا، امام کے ساتھیوں کی ھر جگہ پر حکومت ھوگی، ھر چیز ان کی مطیع ھوگی، یھاں تک کہ صحرا کے درندے اور شکاری پرندے بھی ان کے تابع ھوں گے اور امام کے سپاھیوں کی رضا اور خوشی کو طلب کرنے کے درپے ھوں گے۔ امام کے ان سپاھیوں، امام کے ان فوجیوں، امام کے لشکر کے ان تمام افراد کے تقویٰ، کمال، پیام صلح اور پیغام عدالت کی بنیاد پر جب یہ افراد چلیں گے تو زمین کا وہ حصہ فخر و مباحات کرے گا کہ امام مھدی کا سپاھی مجھ پر چل رھا ہے۔ ان افراد کا ھر عمل اللہ کی رضا کے مطابق ھوگا، حتٰی کہ ان کا تلواروں کو چلانا اللہ کی رضا کے لئے ھوگا، وہ اپنے ھاتھ سے تلوار کو نیچے نھیں لائیں، مگر یہ کہ اللہ ان سے راضی ھو جائے۔ امام مھدی کے زمانے میں انسانیت پر سوئی کی نوک کے برابر بھی ظلم نھیں ھوگا اور کسی کا دل نھیں دکھایا جائے گا، کسی کا دل شکستہ اور توڑا نھیں جائے گا۔ آخر پر دعا کی جاتی ہے کہ اللہ تعالٰی ھم سب کو امام زمانہ کا حقیقی سپاھی بننے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین
تحریر: محمد اشرف ملک
حوالے۔
1۔ نهج البلاغه، چاپ فیض الاسلام، ص ۴۲۴-۴۲۵
2۔ نماز واجب کے بعد کی دعا ماہ رمضان میں
3۔ اصول کافی، ج ۸ و ۲۹۴
4۔ الاختصاص، شیخ مفید، ص ۲۴
5۔ بحار الانوار ج ۱۰
6۔ مھدی موعود، ج ۱ ص ۲۷۹
7۔ بحار الأنوار، ج ۵۲، ص ۳۱۷
8۔ بحار الانوار ج ۵۲، ص ۳۲۷
9۔ ھماں

Add comment


Security code
Refresh