دنیا میں جھاں بھی ننگے بھوکے پابرھنہ لوگوں کے وجود سے انقلاب کے شعلے لپکے ہیں اور انھوں نے شھنشاھوں اور سلطانوں کی دستاروں کو ان کے وجود اور ان کے تخت و تاج کے ساتھ جلا کر خاک کے ڈھیر میں بدل دیا ہے، جھاں بھی استبداد و بربریت کے آھنی پنجوں کو مظلوموں کے لھو کی حرارت نے پلاسٹک کے کسی کھلونے کی طرح پگھلا کر ناکارہ بنا دیا ہے، جھاں بھی خنجر و تلوار کے پانی نے خون کے اسلحہ کے سامنے بے بس ھو کر پانی مانگا ہے، جھاں بھی مظلوموں کی آھوں نے عالیشان محلوں کو کھنڈرات میں بدل کر اپنی قسمت کا فیصلہ کیا ہے، ھر اس مقام و ھر اس جگہ پر جھاں ظالموں کی تلواریں مظلوموں کے گلوں کے سامنے بے بس ھوئی ہیں ، جھاں پیشانیوں کے سامنے نیزے روئے ہیں، جھاں فولادی سینوں کے سامنے تیر کانپ اٹھے ہیں کہ انھوں نے سینوں میں سوراخ ضرور کیا ہے لیکن عزم و ھمت کے سامنے انھیں شکست سے دوچار ھونا پڑا ہے، جھاں سوکھے گلوں کے سامنے خنجر پیچھے ھٹیں ہیں اور گلوں نے انھیں دبوچ لیا ہے۔
خنجر و نیزہ و تیر و شمشیر، ڈھال و تلوار و گرز آھنیں سے آگے بڑھیں ذرا آج کی کربلا میں آئیں، جھاں سنگینوں کا تعاقب سینوں نے کیا ہے، جھاں گولیاں سینوں میں پیوست ھو کر ناکام ھوئی ہیں، جھاں توپوں اور ٹینکوں نے لاشوں کے ڈھیر کے سامنے اپنی بے بسی کا ماتم کیا ہے جھاں موت برساتے طیاروں نے اپنے چھروں پر طمانچے مارے ہیں وھاں ایک صدا بس ایک صدا سنائی دی ہے حسین زندہ باد، حسین زندہ باد، جی ھاں حسین زندہ باد ھر اس مقام پر ھر اس جگہ جھاں حسینی عزم کے سامنے یزیدیت پسپا ھوئی حسینی حوصلہ کے سامنے یزیدیت رسوا ھوئی، حسین زندہ باد ھرگز کوئی نعرہ نھیں کوئی گمان نہ کرے کہ یہ ایک نعرہ ہے، یہ ایک زندہ حقیقت ہے، فاطمیون، زینبیون، حزب اللہ، حشد الشعبی اور انصار اللہ کی صورت میں، اگر کسی کی ھار جیت کا فیصلہ گلے کے کٹ جانے سے ھوتا تو الگ بات تھی لیکن حسین نے تو شکست و فتح کا معیار ھی بدل دیا کٹے ھوئے گلے سے تلاوت کر کے بتایا کہ گلوں کا کاٹا جانا یزیدیت کی نگاہ میں موت کا استعارہ ھوگا حسینیت کے مکتب میں تو یہ شھادت ہے، اور زندگی جاودان کی یہ وہ منزل ہے جھاں کوئی گمان بھی نہ کرے کہ کوئی شھید مردہ ہے۔ وَلا تَحسَبَنَّ الَّذينَ قُتِلوا في سَبيلِ اللَّهِ أَمواتًا بَل أَحياءٌ عِندَ رَبِّهِم يُرزَقونَ۔
یقینا اگر کوئی ظلم کے خلاف ہے، حسینی عزم لیکر میدان میں ہے، چاھے میدان فکر کا ھو، خطابت کا ھو، اقتصاد کا ھو، سیاست کا ھو، فرھنگ کا ھو ثقافت کا ھو، قلم کا ھو، شعر و شاعری کا ھو، سماجیات کا ھو، اگر انسان اپنے وقت کے یزید سے نبرد آزما ہے تو وہ کربلا کا سپاھی ہے جب اس کا تعلق کربلا سے ھو گیا تو جیتے جی بھی زندہ ہے مر کر بھی زندہ ہے کہ یھاں مرنا اور جینا تو خدا کی مشیت پر منحصر ہے معیار یہ ہے کہ جینا اور مرنا کیوں اور کس مقصد کے تحت، جینا اور مرنا کیسے؟
خیمہ حسین (ع) میں یا خیمہ یزید میں، ملاک و معیار جب یہ ہے تو نہ زندگی اھم ہے نہ موت اھم ہے، اھم یہ ہے کہ زندگی ہے تو کیوں، موت ہے تو کس حال میں سو اب ایسی صورت میں اگر کوئی باطل سے مقابلہ کر رھا ہے تو وہ کھیں بھی ھو فرد کی صورت ھو کہ اجتماع کی صورت، کسی بھی علاقے کا ھو، کسی بھی رنگ کا حامل ھو، کوئی زبان رکھتا ھو، کوئی لھجہ رکھتا ھو، کسی بھی، خطے سے اٹھا ھو کسی بھی ملک سے ھو، کسی بھی قبیلہ کا ھو، کسی خاندان سے اسکا تعلق ھو اگر اس نے فیصلہ کیا کہ حق کا ساتھ دے گا باطل کو پسپا کریگا، چاھے باطل کوئی بھی ھو، کسی بھی لباس میں ھو، کسی بھی مقام پر ھو، کسی بھی زبان کا حامل ھو، کسی بھی رنگ سے اس کا تعلق ھو، تو وہ کربلا سے جڑا ہے حقیقت کربلا سے جڑا ہے۔
یھی وجہ ہے کہ کربلائی مزاج کبھی یزیدی مزاج کو برداشت نھیں کرتا کہ اس کی حیات و موت دونوں میں مقصدیت کار فرما ھوتی ہے جبکہ یزیدیت صرف اپنے وجود کو دیکھتی ہے اس کے پیشِ نظر دنیا میں کوئی اعلٰی مقصد نھیں ھوتا ہے آخرت کی تو بات ھی کیا، یزیدیت کا واحد مقصد حصول اقتدار اور حفظ اقتدار اور بس جبکہ حسینیت کا مقصد حصول رضائے الٰھی اور حفظ رضائے الھی، یھی سبب ہے کہ جب اللہ کی رضا کے حصول کے لئے کچھ لوگ اپنے اعز و اقارب اپنا گھر بار چھوڑ کر یزید وقت سے مقابلہ کیلئے نکلتے ہیں، قربانیاں دیتے ہیں، اپنی جانیں گنواتے ہیں، گولیاں کھاتے ہیں، زخم سھتے ہیں تب بھی ان کے ماتھے پر شکن نھیں ھوتی بلکہ مسکراتے ھوئے جامِ شھادت نوش کر لیتے ہیں کہ ان کے سامنے کربلا کے اس پیاسے کا مسکراتا وجود ھوتا ہے جو عصر عاشور پشت فرس پر ڈگمگا رھا تھا اور اس کا جسم نازنین تیروں سے ڈھکا ھوا تھا لیکن آنے والے کل کو لیکر پرامید تھا، اس کی نظریں کربلائی فکر رکھنے والی ان نسلوں پر تھیں جو صدیاں گزر جانے کے بعد بھی اسے تنھا نھیں چھوڑیں گے، وہ مظلوم کربلا جس نے اپنے ۷۲ جانثاروں کو مسلخ عشق میں قربان کر دیا، جس نے اپنے ننھے مجاھد علی اصغر (ع) کی شکل میں جب اپنی تمام تر قربانیوں پر مھر لگا دی تو عصر عاشور اپنی قربانیوں کی قبولیت کی خاطر سر کو مالک کے سجدے میں رکھ دیا، اور پوری کائنات کا سب سے عظیم سجدہ، نرالے انداز، نرالی شان، نرالی ادا سے کیا۔
''سبحان ربی الاعلی و بحمدہ"، تو سب کھتے ہیں ، لیکن جس انداز سے سید الشھداء نے کھا وہ پوری کائنات میں بے نظیر و یکتائے روزگار ہے، وہ حسین (ع) جو تنھا تھا، اکیلا تھا، پیاسا تھا، غریب تھا، ستایا ھوا تھا، زخمی تھا، جس کا آخری سجدہ رھتی دنیا تک بندگی کو دلیل فراھم کر گیا، کیوں نہ مسکرائے گا ظلم و ستم کو لرزاں دیکھ کر کیوں نہ مسکرائے گا، ظالموں کے خلاف مظلوموں کی جنگ دیکھ کر کیوں نہ مسکرائے گا، حق کا غلبہ دیکھ کر کیوں نہ مسکرائے گا، شھید حججی جیسے جوانوں کو مطمئن و خندہ دیکھ کر کیوں نہ مسکرائے گا، مدافعین حرم کے عزم و ھمت کو دیکھ کر کہ یہ سب کے سب اسی کی شھادت کا فیض عظیم ہے، لبیک ہے اس صدائے ھل من پر جسے اس نے صحرائے کربلا میں ۶۱ ھجری میں بلند کیا تھا لیکن ۶۱ ھجری سے اب تک مسلسل راہ خدا میں گرتی ھوئی شھداء کی لاشیں بغیر کسی وقفے کے لبیک کی عملی تصویر پیش کر رھی ہیں، یہ کربلا کے اس درخت کا ثمر ہیں جسے اس نے اپنے جسم کے لھو کے ساتھ خونِ جگر دیکر پروان چڑھایا تھا۔
غاصب اسرائیل کے خونچکاں پنجوں میں جکڑا ھوا قبلہ اول بیت المقدس ھو کہ استعماری سازشوں کی شکار سرزمین شام و عراق، یا عالمی سامراج سے ٹکرانے کی جرات رکھنے والے مختلف علاقوں اور ملکوں کے اقوام اور اسلامی بیداری کی لھروں کی زد میں زمیں بوس ھونے والے آمروں اور شھنشاہوں کے محل، تیونس ھو کے لیبیا، مصر ھو کے بحرین و یمن، دنیا چاھے سر اٹھاتی ھوئی عوامی تحریکوں کو کچھ بھی نام دے لیکن اتنا طے ہے کہ جھاں بھی استبداد و بربریت کے خلاف محاذ آرائی ھو اس کی پشت پر اپنے خون کی دھار سے خنجر و تلوار کی کاٹ کو ناکارہ بنانے والی کربلا کے آفاقی دروس کے شہ پارے ضرور نظر آئیں گے، جنھوں نے دنیا والوں کو سکھایا کہ کس طرح سر کٹا کر سربلند ھوا جاتا ہے اور کس طرح اپنی جان دے کر بھی باطل کو اس کے ارادوں میں ناکام بنایا جاتا ہے۔
آج دنیا کے ظالم کربلا کا نام سن کر کانپنے لگتے ہیں اور سلاطین ظلم و جور کی دستاروں سے دھواں بلند ھونے لگتا ہے کہ کربلا درحقیقت نام ہے تخت شاھی کو نابود کر دینے والے اس مفھوم کا جو مستضعف اور مقھور انسانیت کے زخموں کا مرھم ہے تو اس کے حقوق کو پامال کرنے والوں کے لئے نقارہ جنگ۔ اسی لئے کسی بھی قوم اور قبیلہ کا انسان ھو کسی بھی ملک سے تعلق رکھتا ھو کسی بھی مذھب کا پرستار ھو اگر اس کا ضمیر بیدار ہے تو اپنی ھر طرح کی جغرافیائی، مذھبی، اور قبائلی حدود کو پار کر کے کربلا کی آغوش میں اپنی پیاسی روح کو سیراب کرتا نظر آئے گا۔
یہ وارفتگی اور کربلا والوں سے اس قدر لگن نتیجہ ہے اس مقدس خون کا جو انسانیت کی قدروں کو بچانے کے لئے دشت نینوا کی گرم ریت پر بھا تو ھر احساس رکھنے والے انسان کے وجود میں ایک ایسی دھکتی آگ روشن کر گیا جو اس وقت تک ٹھنڈی نھیں ھو سکتی جب تک دنیا کے کسی بھی گوشہ میں مظلوموں کا حق مارا جاتا رھے گا، اسی لئے استعمار و استکبار ایک دوسرے کے شانہ بشانہ کربلا سے حاصل ھونے والے دروس کی روشنی کو تاریکی اور ظلمت میں بدلنے کی راھوں پر ایک ساتھ مل جل کر غور کر رھے ہیں کہ کھیں ایسا نہ ھو کہ ان کی حکومتوں کا بھی وھی حال ھو جو کربلا تخت یزید کا ھوا کہ حسین (ع) نے اپنا معیار شھادت اتنا بلند کر لیا کہ یزید کا بیٹا بھی تخت کو ٹھوکر مار کر یہ کھنے پر مجبور ھوا کہ میرا حق نھیں تھا، انھیں اس بات کا بخوبی اندازہ ہے کہ کربلا کی حیات ابھی ختم نھیں ھوئی ہے بلکہ کربلا آج بھی زندہ ہے اور کسی بھی وقت ایک انقلابی تحریک کی صورت ان سے ان کا تخت و تاج چھین سکتی ہے، انھیں خوب معلوم ہے کہ چودہ صدیاں گزر جانے کے بعد اگر آج بھی کربلا کے ذرات خون آشام کو نچوڑا جائے گا تو خون شھادت کے مقدس خطرے لپک لپک کر خدا کی کبریائی کا اعلان بھی اسی طرح کریں گے جس طرح کل حق پر مر مٹنے والوں نے اپنی گردنیں کٹا کر کیا تھا۔
یہ خوب جانتے ہیں کہ روئے زمین پر جب تک ایک بھی ذی روح ھستی غلامی کا شکار رھے گی ظلم و تشدد کی زوال پذیر خزاں اس کے جذبات کچل کر اسے ٹھیس پھونچائے گی تب تب کربلا کی صدائے بازگشت سنائی دیتی رھے گی۔ اسی وجہ سے کربلا کی آفاقی جگمگاھٹ کو دیکھ کر مات و مبھوت باطل پرستوں کے ٹولے زھریلے اور منفی پروپیگنڈوں کے ذریعہ جس چیز پر سب سے زیادہ یلغار کر رھے ہیں وہ کربلا ہے اور وہ یہ بات اچھی طرح جانتے ہیں کہ کربلا کے رھتے کربلائیوں کو پسپا کرنا مشکل ہے، کربلا کے رھتے مکتب کربلا کے روشن چراغ کو بجھانا ناممکن ہے لیکن، کیا یہ بھی ممکن نھیں کہ کربلا کے مقابل ایک دوسری کربلا بنائی جائے، ایک ایسی کربلا جو حسین (ع) کی کربلا نہ ھو ؟ ایک ایسی کربلا جسے ظلم سے کوئی لینا دینا نہ ھو؟ ایک ایسی کربلا جھاں انسانیت کا درد نہ ھو، جسے نہ بحرین سے مطلب ھو، نہ شام، سے نہ لبنان سے نہ، عراق سے نہ یمن سے، اسے مطلب ھو تو بس اپنی عزاداری سے مطلب ھو تو اپنے جلوس سے مطلب ھو تو اپنے ماتم سے؟ کیا یہ ممکن ہے؟ تو کیا مصنوعی کربلا بن سکتی ہے تاکہ کربلا کے تعلیمات کو آگے بڑھنے سے روکا جا سکے، جی ھاں نہ صرف بن سکتی ہے بلکہ اس کے لئے پوری منصوبہ بندی بھی ہے ایسے میں ھمیں خیال رکھنا ھوگا کہ ھم کھاں کھڑے ہیں، حقیقی کربلا میں جھاں حسین ہیں، یا مصنوعی کربلا میں جھاں بھولے بھالے حسینیوں کو خاص مقاصد کے تحت استعمال کیا جا رھا ہے۔
میں نھیں کھتا کہ مصنوعی کربلا بنانے میں وہ لوگ جان بوجھ کر آگے آ رھے ہیں جن کا تعلق ایک بزرگ و علمی خاندان سے ہے، نھیں کھتا کہ مصنوعی کربلا کی تشکیل میں سوچ سمجھ کر مرجعیت حصہ بن رھی ہے لیکن اتنا ضرور ہے مصنوعی کربلا میں ایسے خاندان موجود ضرور ہیں جنھوں نے کبھی کربلا کی حقیقی میراث کو ھم تک پھنچانے کے لئے بڑی قربانیاں دیں تھی، کون بھول سکتا ہے میرزائے شیرازی کے تنباکو کی حرمت پر دیئے جانے والے تاریخی فتوٰی کو جس نے برطانوی سلطنت کی چولیں ھلا کر رکھ دی تھیں اور کربلا کے جانباز سپاھی کی صورت سامنے آ کر استعمار کی سازشوں کو بےنقاب کیا تھا، کون سوچ سکتا تھا آج میرزائے شیرازی کے وارث جانے انجانے مصنوعی کربلا کا حصہ بن کر دشمنوں کی خوشحالی کا سبب بن جائیں گے۔
ھم مرجعیت کا احترام کرتے ہیں اور مرجعیت کی توھین کو کسی بھی انداز سے کیوں نہ ھو قوم و ملت اور مکتب تشیع کی توھین سمجھتے ہیں، اور تمام تر نظریاتی اختلافات کے باوجود کسی بھی مرجع کی شان میں گستاخی کو قبول نھیں کرسکتے چاھے وہ ولایت فقیہ کو مانتا ھو یا نہ مانتا ھو لیکن جب بات اصولوں کی ھو تو اصولوں کا سودا بڑے ناموں سے کرنا بھی دین و قوم کے ساتھ خیانت ہے اور کربلائی اصول ھم سے کھتے ہیں، یزیدی لشکر سے تو حسینی لشکر کا حصہ بننے کوئی آ سکتا ہے اور حسین (ع) بڑھ کر اس کا استقبال کریں گے لیکن ۷۲ میں سے کوئی ادھر نھیں جا سکتا بھلے اس پر سے بیعت ھی کیوں نہ اٹھا لی جائے۔
کیا یہ افسوس کا مقام نھیں ہے کہ آج مرجعیت کے عظیم منصب پر فائز کچھ شخصیتوں کو استعمار اپنے آلہ کار کے طور پر دیکھ رھا ہے ؟ کیا ممکن ہے کہ کوئی کربلائی فکر کا حامل ھو اور وقت کے یزید کو نہ پھچانتا ھو ؟ یزیدیت کے لئے نرم گوشہ رکھتا ھو، یا زمانہ کی یزیدیت کا سھارا لے رھا ھو اپنے افکار و نظریات کی ترویج کے لئے؟ آپ خود فیصلہ کریں اس کے بارے میں اگر سید الشھداء (ع) کے ھاتھوں فیصلہ ھونا ھو تو کیا ھوگا؟ کبھی کبھی انسان کو اپنے افکار و نظریات کا محاسبہ یہ سوچ کر کرنا چاھیئے کہ دشمن اس کے بارے میں کیا سوچ رھا ہے؟ ممکن ہے انسان خود کو صادق و حق پرست کہہ رھا ھو لیکن دشمن نے اپنی نیرنگی چالوں سے حق اس پر مشتبہ کر دیا ھو، جیسا کہ وفات پیغمبر (ص) کے بعد آپ کے بڑے بڑے صحابہ کرام کے ساتھ ھوا جن میں زبیر جیسے صحابی کی شخصیت بھی ہے۔ یہ کوئی جذباتی گفتگو نھیں کہ قلم جادہ حق بیانی سے ھٹ کر جذبات کا شکار ھو گیا ھو بلکہ ایک ایسی تلخ حقیقت ہے جس پر دل روتا ہے آپ نے ڈاکٹر جفری ھالورسن کا نام سنا ھوگا ڈاکٹر جفری ھالورسن کا ماننا ہے کہ آج کے دور میں امام حسین علیہ السلام کے طرفداروں کا کردار نبھانے کی صلاحیتوں کا مالک، شیرازی طرز فکر ہے جو جعلی یزید یعنی اسلامی جمھوریہ ایران سے مقابلہ کے لئے امام حسین علیہ السلام کا کرادار ادا کر سکتا ہے۔
ھالورسن نے ایزونا یونیورسٹی کے اسٹراٹیجک مطالعہ کی سائٹ پر اپنے ایک مقالے میں اس مصنوعی کربلا کے سلسلہ جو کچھ لکھا ہے اسے پڑھ کر دل کٹ کٹ جاتا ہے اور رونا آتا ہے بعض اپنوں کی سادہ دلی پر اور دشمنوں کی سازشوں سے بے خبری پر۔
مقالے کے کچھ اھم نکات:
1۔ ھالورسن کا ماننا ہے کہ اسلامی جمھوریہ ایران کی حکومت کا تختہ پلٹنے اور اس کے نظام کو گرانے کے لئے ھرگز سختی اور تندی کی پالیسی کام نھیں آسکی ہے۔
2۔ ھاولورسن، دیگر سلامتی و تحفظاتی اسٹراٹجیکل پالسییوں کی طرح نرم رویہ کو اپناتے ھوئے کولڈ وار کے ذریعہ ایران کے خلاف اپنی رائے کو نرم انداز میں حکومت کا تختہ الٹنے کی پالیسی کو تجویز کرتے ہیں۔
3۔ وہ کھتے ہیں کہ حکومت ایران کے مقابلہ کے لئے ضروری ہے کہ روایتِ کربلا کو کربلا کے بالکل برعکس و برخلاف ایک دشمن کی صورت میں تبدیل کر دیا جائے۔
4۔ اس کے لئے ضروری ہے کہ ھم اپنے تمام وسائل کو بروئے کار لاتے ھوئے ایران کی حکومت کو یزیدی حکومت کے طور پر پیش کریں اور اسی سلسلہ سے اپنے وسائل کا استفادہ کریں کہ ایرانی حکومت کو یزیدی ثابت کیا جا سکے۔
5۔ روایت کربلا کو منحرف انداز میں ھمیں اس طرح پیش کرنا ہے کہ ھمارا محور، شیرازیت ھو جس سے ھم اسلامی جمھوریہ ایران کی حکومت میں فائدہ اٹھا سکیں۔
وہ آگے لکھتے ہیں:
ایسی چیز جو ایک حقیقی روایت کو اس کے بالکل برخلاف پیش کر سکے، اس کے لئے تین چیزوں کی ضرورت ہے۔
1۔ اصلی و واقعی ماجرا کو توڑ مروڑ کے پیش کیا جائے اور قیاسات کی نئی تشکیل ھو، نیز تشابھات کو نشر کیا جائے اور پھر اسکا نفوذ ھو۔
2۔ اس کی حقانیت کے بارے میں شک پیدا کیا جائے {ظاھرا مراد یہ ہے کہ واقعہ کربلا کو بنیاد بنا کر نظام کی حقانیت پر سوال کھڑے کئے جائیں}۔
3۔ ان تمام چیزوں کی جگہ کو ایک بڑی روایت یا بڑے واقعہ سے بدل دیا جائے۔
انجام کار وہ یہ نتیجہ لیتے ہیں کہ کربلا کی روایت مذکورہ بالا تنیوں نکتوں کے تحقق کی صلاحیت کو اپنے اندر رکھتی ہے جسے ایران کی موجودہ رژیم کے خلاف استعمال کیا جا سکتا ہے۔
ھالورسن کا ماننا ہے کہ شیرازی طرز فکر امام حسین علیہ السلام کے طرفداروں کا رول پلے کرنے کے لئے ایک بھترین آپشن رھے گا جو جعلی یزید یعنی اسلامی جمھوریہ کے مقابلہ کے لئے اپنا کردار ادا کر سکتا ہے۔ سکیورٹی سے متعلقہ اس صاحب نظر شخصیت نے تجویز کئے گئے اپنے طریقہ کار کے مناسب ھونے کے اثبات میں متعدد دلائل ذکر کئے ہیں:
1۔ اس طرز فکر کی قیادت کا سید ھونا۔
2۔ اس طائفہ کے اکثر طرفداروں کا اھل کربلا ھونا۔
3۔ اسلامی حکومت کا ناقد و مخالف ھونا۔
انجام کار ھالورسن نے ان باتوں کے نشر کرنے کا بھترین موقع اور اپنی تجویز کو عملی کرنے کی بھتر فرصت اور اپنے پیغامات کو پھنچانے کا بھترین وقت ماہ محرم اور عاشور سے نزدیک ایام کو قرار دیا دیتے ھوئے آگے لکھا ہے، یہ وہ وقت ہے کہ جب شیعہ مسلمان، جذبات و معنویت سے سرشار ھوتے ہیں، اور کربلا سے آگاہ بھی اور اس واقعہ سے نزدیک بھی، ایسی صورت میں اس پیغام کو پھچائے جانے کے سلسلہ سے جو بھی رکاوٹ کھڑی کی جائے گی یا اس کے نشر کو روکنے کے سلسلہ سے جو بھی اقدام ھوگا، وہ ھمارے حق میں ھوگا حتی شیرازیوں کو اگر سرکوب کیا جائے گا تو یہ سبب بنے گا کہ روایت کربلا کا یہ عنصر غالب آئے کہ ایرانی رژیم یزید کا کردار ادا کر رھی ہے اور جتنا بھی اس کی جانب سے سیاسی دباو بڑھایا جائے اتنا ھی ھماری جانب سے پیش کئے جانے والے ستم گر یزید کا رنگ و روپ سامنے آئے گا اور یزیدی کردار واضح و آشکار ھوگا جو ھمارا مطلوب ہے۔
ھالورسن نے اپنے مقالہ کے اختتام میں امریکی سینیٹ کو پیش کی گئی ایک تجویز کا ذکر کرتے ھوئے کھا ہے کہ اس طرز فکر کی مدد کے لئے ضروری ہے کہ اجتماعی روابط عامہ کے وسائل جیسے سیٹلائٹ چینل، انٹرنیٹ، اور مختلف سائٹس وغیرہ کل ملا کر ھر وہ چیز جو انسانی افکار پر اپنا اثر چھوڑتی ہے سب کے سب کو ان کی مدد کیلئے آمادہ ھونا چاھیئے، اور اس کیلئے شیرازی طرز فکر ایک بھترین آپشن ہے۔
گذشتہ چند دنوں میں شیرازی طرز فکر کے منصوبوں کے کھلنے اور ان کی جانب سے ھونے والی کاروائی کو اگر دیکھا جائے تو ھم کہہ سکتے ہیں کہ گذشتہ کچھ دنوں میں جو بھی ھوا ہے وہ چیخ چیخ کر کہہ رھا ہے کہ یہ وھی سب کچھ ہے جسے ھالورسن نے بیان کیا ہے اور اسی منصوبہ کا حصہ ہے جو اوپر بیان کیا گیا ہے، اپنی بات کے ثبوت میں ھم کہہ سکتے ہیں، مثلا یزیدی حکومت، کا اشاریہ وھی ہے جس سے اس طرز فکر کے حامی ایران کے نظام کے خلاف استعمال کر رھے ہیں۔ دوسری طرف مظلومیت کے عنصر پر تاکید کرنا اور اپنی مظلومیت کا اثبات اسی پروجیکٹ کا ایک ایسا حصہ ہے جس سے آگے بڑھ کر اس خبیث منصوبہ کی تکمیل کی جا سکتی ہے، چنانچہ سید محمد شیرازی کے ھارٹ اٹیک کے چلتے گزر جانے کے بعد ھالورسن کا اشارہ یہ ہے کہ ان کی مظلومیت کو پیش کیا جائے اور ان کے قتل کی افواھوں کو لوگوں میں پھیلایا جائے، جس پر ابھی ھی عمل ھوا اور سید حسین شیرازی نے اس مظلومیت کو اپنی تقریر میں پیش کرنے کی کوشش کی اور عجیب بات یہ ہے کہ شیرازی طرز فکر اپنے چینلز کے سلسلہ سے یہ یوں تو کوشش کرتا ہے کہ جھاں جھاں ان کے چینلز ہیں وھاں کی حکومت کی پالسییوں کا لحاظ کیا جائے اس ملک کے قوانین کا احترام کیا جائے، جھاں سے یہ اپنی خدمات پیش کر رھے ہیں، لیکن جب بات اسلامی جمھوریہ ایران کے قوانین کی آتی ہے تو بارھا نہ صرف اپنے ملحوظات کو نظر انداز کیا جاتا ہے بلکہ اسلامی جمھوریہ کے قوانین کو پیروں تلے روند کر اپنے مقاصد کی تکمیل کی جاتی ہے۔
تبرائی اسلام پر افراط کی حد تک تاکید وہ مفروضہ ہے جو طولانی مدت اسکتباری منصوبہ میں اسکتبار کی اس علاقہ میں تعاون و مدد کا سبب ہے، اس وقت جبکہ اسلامی جمھوریہ ایران کی کوشش ہے کہ برادران اھلسنت کے اختلافات کو سمجھتے ھوئے ان کے ساتھ ایک محترمانہ تعلقات کی داغ بیل ڈالی جائے، چنانچہ ایران سے اندر اور باھر رھنے والے برادران اھلسنت کے ساتھ مل کر علاقے کے توازن کو اپنے حق میں کرتے ھوئے دشمن سے مقابلہ کے لئے مل جل کر آگے بڑھنے کی خاطر جھاں ایران کوششیں کر رھا ہے، جھاں ایران کی کوشش ہے کہ برادران اھل سنت کو مشترکہ دشمن سے مقابلہ کی سمت لے جایا جائے وھیں اس شیرازیت کی شکل میں تبرائی فکر اختلافات کو بھڑکانے کے ساتھ علاقے میں شیعوں اور اھلسنت کے مابین علاقائی جنگ کا سبب ہے۔ ان تمام باتوں کا مقصد کسی خاص گروہ کی توھین اور کسی خاص عقیدے کے حامل افراد کے جذبات کا مشتعل کرنا نھیں ہے بلکہ اپنی ذمہ داری کو ان نازک حالات میں سمجھنا ہے۔
جھاں طول تاریخ میں کربلا کے مقابل ھار سے دوچار ھونے کی بات جدید و مارڈن یزیدیت نے کربلا کو کربلا کے خلاف استعمال کرنے کی سازش سے رچائی ہے ایسے میں ھم سب کی ذمہ داری ہے کہ سوچیں ھم کھاں کھڑے ہیں؟ کھیں ایسا تو نھیں ھم کسی کا دفاع کر رھے ھوں، کسی کی مظلومیت کا رونا رو رھے ھوں لیکن خیمہ حسین (ع) میں نہ ھو کر مصنوعی کربلا کے اس عالیشان محل میں ھوں جھاں چھرے پر نقاب ڈالے ابن زیاد ھماری بصیرت کا امتحان لے رھا ھو۔
یقینا یہ ایک سخت گھڑی ہے جب اپنے ھی کربلا کا نام لیتے رھیں لیکن اس کی روح کا سودا کر لیں، جب اپنے ھی نام حسین (ع) کا لیں لیکن جانے انجانے دشمن کے بھکاوے میں آکر کام وہ کریں جو یزیدیت کی تقویت کا سبب ھو، جب اپنے ھی اپنی غیرت و حمیت کو بیچ کھائیں تو انھیں ذلتوں کے گڑھے میں جانے سے کوئی نھیں روک سکتا ہے، جب اپنے ھی دشمن کی بساط کے مھرے بن جائیں تو انسان کس سے فریاد کرے، سوائے اس کے کہ ایک بار پھر اپنے خون میں ڈوبے، زخمی و غریب عصر عاشور پشت فرس پر ڈگمگاتے آقا کو آواز دی جائے، شاید ھماری نحیف سی یہ آواز ھمارے درد و کرب کی داستان کو ھمارے آقا تک منتقل کر دے۔
حسین آؤ کہ اب شھادت کا لفظ معنی بدل رھا ہے
حسین آؤ کہ وقت انساں کو اپنے ھاتھوں مسل رھا ہے
حسین آؤ کہ اب تو آنکھوں کی بینائی پانی میں ڈھل گئی ہے
حسین آؤ کہ آج کے آدمی کی ھیئت بدل گئی ہے
حسین میری نحیف سانسوں کو پھر ضرورت ہے انبیا کی
حسین آؤ کہ آج دنیا کو پھر ضرورت ہے کربلا کی
تحریر: سید نجیب الحسن زیدی
حقیقی کربلا سے مصنوعی کربلا تک، استعماری چالیں اور ھم
- Details
- Written by admin
- Category: خاص موضوعات
- Hits: 1598