حضرت زینب سلام اللہ علیھا ایک ایسی مجاھد خاتون تھیں جنھوں نے اسلام کی تاریخ میں انتھائی شجاعانہ کردار ادا کیا۔ اس میں کوئی شک نھیں کہ اگر آج دنیا پر اسلام اور مسلمانوں اور مسلمانی کا نشان باقی ہے تو وہ صرف اور صرف کربلا جیسے عظیم واقعے اور سید الشھداء امام حسین علیہ السلام، ان کے عزیز و اقارب اور باوفا اور مخلص ساتھیوں کی عظیم قربانی کا نتیجہ ہے۔ جبکہ خود کربلا جیسے عظیم واقعے اور امام حسین علیہ السلام، ان کے اھلبیت علیھم السلام اور باوفا ساتھیوں کی عظیم قربانیوں کو زندہ رکھنے میں حضرت زینب سلام اللہ علیھا کا انتھائی بنیادی اور منفرد کردار ہے۔
آج دین مبین اسلام کی بقا اور وجود پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی محنتوں، ائمہ معصومین علیھم السلام کی کاوشوں اور ان کے مخلص پیروکاروں کی جدوجھد کے ساتھ ساتھ حضرت زینب سلام اللہ علیھا کے مجاھدانہ کردار کا بھی مرھون منت ہے۔ حضرت زینب سلام اللہ علیھا کی جدوجھد اور مجاھدانہ زندگی کو دو حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے:
1۔ اپنے والد امام علی علیہ السلام اور بھائیوں امام حسن علیہ السلام اور امام حسین علیہ السلام کے ھمراہ جدوجھد، اور
2۔ واقعہ کربلا اور امام حسین علیہ السلام کی شھادت کے بعد جدوجھد۔
اپنی زندگی کے پھلے حصے میں حضرت زینب سلام اللہ علیھا نے سیاسی امور میں مداخلت سے پرھیز کیا لیکن اس کا ھر گز یہ مطلب نھیں کہ انھوں نے اسلام کی ترویج اور تبلیغ کیلئے کچھ نہ کیا بلکہ اس دوران بھی حضرت زینب سلام اللہ علیھا نے بھرپور انداز میں دین کی تبلیغ کا کام انجام دیا۔ سیاسی امور سے پرھیز کی بنیادی وجہ بھی دین مبین اسلام میں نامحرم افراد سے پردہ اور حجاب پر حد سے زیادہ تاکید تھی لھذا آپ سلام اللہ علیھا صرف بھت ضروری موارد میں ھی معاشرے میں ظاھر ھوتی تھیں۔ اھلبیت سلام اللہ علیھا کی تقریباً تمام خواتین اسلامی معاشرے کی خواتین کی دینی اور اخلاقی تربیت میں آگے آگے رھی ہیں اور اھم اسلامی احکام اور مسائل میں ان کی رھنمائی کرتی رھی ہیں۔ لھذا حضرت زینب سلام اللہ علیھا بھی اپنی زندگی کے پھلے حصے میں اس اھم دینی فریضے سے غافل نھیں ھوئیں اور بھرپور انداز میں مسلمان خواتین کو دینی مسائل اور اسلامی تعلیمات سے آگاہ کرنے کیلئے سرگرم عمل رھیں۔
حضرت زینب سلام اللہ علیھا کی مجاھدانہ زندگی کا دوسرا حصہ کربلا جیسے
اگر بنی اسرائیل کی تاریخ کا بغور مطالعہ کیا جائے تو دیکھیں گے کہ اس قوم میں ھمیشہ سے ایک ایسا شرپسند ٹولہ موجود رھا ہے جس نے خدا سے دشمنی کی ہے۔
عظیم اور جاں گداز حادثے کے بعد شروع ھوتا ہے۔ واقعہ کربلا درحقیقت الھی اور شیطانی قوتوں میں ٹکراو کا نقطہ عروج تھا۔ واقعہ کربلا کے بارے میں تحقیق کرنے والے محققین کی نظر میں یہ واقعہ درحقیقت اسلامی تاریخ کا اھم موڑ تھا۔ اگر ھم الھی ادیان کی تاریخ کا جائزہ لیں تو دیکھیں گے کہ یھودیت، عیسائیت اور اسلام کی تاریخ ایک دوسرے سے جڑی ھوئی ہے۔
خداوند متعال نے قرآن کریم میں بنی اسرائیل سے شکوے کا اظھار کیا ہے اور ان سے یہ گلہ کیا ہے کہ انھوں نے خدا سے کیا ھوا عھد پورا نھیں کیا اور اس کی خلاف ورزی کی۔ اگر بنی اسرائیل کی تاریخ کا بغور مطالعہ کیا جائے تو دیکھیں گے کہ اس قوم میں ھمیشہ سے ایک ایسا شرپسند ٹولہ موجود رھا ہے جس نے خدا سے دشمنی کی ہے۔ قرآن کریم میں خداوند متعال اسی شرپسند ٹولے کے کرتوتوں کی جانب اشارہ کرتے ھوئے فرماتا ہے کہ تم انبیاء الھی کو قتل کرتے تھے، زمین میں فساد کرتے تھے اور لوگوں کو ناحق اپنے گھروں سے جلاوطن کر دیتے تھے۔
بدقسمتی سے بنی اسرائیل میں حضرت داود علیہ السلام اور حضرت سلمان علیہ السلام جیسے عظیم انبیاء کی سربراھی میں تشکیل پانے والی پر شکوہ الھی حکومت کے باوجود آخرکار بنی اسرائیل کا یھی شرپسند ٹولہ غالب آ جاتا ہے۔ اس شرپسند ٹولے نے شیطنت اور سیاسی سازباز کے ذریعے حضرت سلمان علیہ السلام کی وفات کے بعد ان کے حقیقی وارث اور جانشین حضرت آصف بن برخیا کو اقتدار سے محروم کر دیا اور اس کے بعد کھلم کھلا خدا کی معصیت اور خدا سے دشمنی شروع کر دی۔ اس فسادی اور شرپسند ٹولے نے جو پھلا کام انجام دیا وہ یھودیت کی حقیقی دینی تعلیمات میں من گھڑت تبدیلیاں اور تحریف ایجاد کرنا تھا۔ نام نھاد یھودی علماء نے دین کو اپنے پست سیاسی اور اقتصادی اھداف کی تکمیل کا ھتھکنڈہ قرار دے دیا اور مختلف قسم کی شیطانی توجیھات کے ذریعے عام افراد کو اصل یھودی تعلیمات سے محروم کر ڈالا۔ بنی اسرائیل کا یہ شرپسند ٹولہ صرف اسی حد تک قانع نہ ھوا بلکہ اپنے بعد آنے والے الھی دین عیسائیت کے ساتھ بھی یھی سلوک روا رکھا۔
عیسائیت کی تاریخ سے آگاہ ماھرین کی نظر میں جب حضرت عیسی علیہ السلام نے اپنی نبوت کا اعلان کیا اور عیسائی دین کی تعلیمات کا پرچار شروع کیا تو اس وقت یروشلم کے علاقے پر رومی سلطنت کا قبضہ تھا۔ یھودی علماء جن کا تذکرہ پھلے گزر چکا ہے مقامی رومی حکمرانوں سے ملے ھوئے تھے اور ان کے پٹھووں کا کردار ادا کر رھے تھے۔ دوسری طرف وہ حقیقی یھودی تعلیمات تک رسائی کے باعث اس حقیقت سے بھی بخوبی آگاہ تھے کہ مستقبل میں کون کون سے اھم انبیاء مبعوث ھونے والے ہیں۔ وہ حتی پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے مبعوث ھونے اور ان کا خاتم النبیین ھونے کے بارے میں بھی پوری طرح مطلع تھے۔
انھیں معلومات کی بنیاد پر انھوں نے پھلے سے ھی نئے آنے والے الھی ادیان پر اپنا مکمل کنٹرول اور اثرورسوخ قائم کرنے کی منصوبہ بندی کر رکھی تھی۔ لھذا جب حضرت عیسی علیہ السلام نے اپنی نبوت کا مشن شروع کیا تو ان یھودی علماء نے ان کی شدید مخالفت کی۔ عیسائی مذھب اختیار کرنے والے الھی ادیان کی تاریخ کے ماھرین کی نظر میں سینٹ پال (St. Paul) عیسائیوں میں یھودیوں کا جاسوس تھا۔
افراد کی گرفتاریاں شروع ھو گئیں، انھیں ٹارچر کئے جانے لگا اور حتی ان کے قتل عام سے بھی دریغ نھیں کیا گیا۔ نوبت یھاں تک پھنچی کہ خود حضرت عیسی علیہ السلام کو نشانہ بنانے کی کوشش کی گئی لیکن خداوند متعال نے اپنی حکمت کے تحت انھیں ان کے شر سے محفوظ کر لیا جبکہ وہ خود یھی سمجھتے رھے کہ انھوں نے حضرت عیسی علیہ السلام کو صلیب پر چڑھا کر شھید کر ڈالا ہے۔
جب بنی اسرائیل کے اس شرپسند ٹولے نے دیکھا کہ وہ عیسائی مذھب کو روکنے کیلئے جو ھتھکنڈہ بھی استعمال کرتے ہیں اس کا کوئی فائدہ نھیں نکلتا تو انھوں نے ایک نیا راستہ اختیار کیا۔ یہ راستہ عیسائی مذھب کے پیروکاروں میں اپنے جاسوس گھسا کر اپنی مرضی کی دینی تعلیمات عیسائی تعلیمات کے طور پر رائج کرنا تھا۔ الھی ادیان کی تاریخ کے ماھرین کی نظر میں سینٹ پال (St. Paul) عیسائیوں میں یھودیوں کا جاسوس تھا۔ سینٹ پال خود یھودی تھا اور اس نے عیسائیوں کے قتل عام میں بذات خود شرکت بھی کی لیکن ایک دن اچانک اس نے یہ ڈھونگ رچانا شروع کر دیا کہ اس نے خواب میں حضرت عیسی علیہ السلام کو دیکھا ہے لھذا وہ عیسائی ھو چکا ہے۔ اس نے نہ صرف عیسائی ھونے کا اعلان کر دیا بلکہ یہ دعوی بھی کیا کہ وہ عیسائی عالم دین اور مبلغ بن گیا ہے۔ سینٹ پال نے عیسائیت میں بھت سے انحرافی اعتقادات اور احکام متعارف کروائے۔ مثال کے طور پر چند نمونے درج ذیل ہیں:
1۔ عیسائی مذھب میں غذا کے حلال یا حرام ھونے کی شرط کا خاتمہ،
2۔ عیسائی مذھب میں ختنہ لازمی ھونے کی شرف کا خاتمہ،
3۔ تثلیث۔
مختصر یہ کہ یہ شرپسند یھودی ٹولہ خاتم النبیین حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی بعثت سے بھی آگاہ تھا۔ لھذا ھم تاریخ میں دیکھتے ہیں کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی پیدائش سے کافی عرصہ پھلے ھی یھودی مکہ اور مدینہ کے اردگرد آ کر آباد ھونے لگے۔ ظھور اسلام کے بعد اس شرپسند یھودی ٹولے نے اسلام میں بھی اپنا اثرورسوخ بڑھانے کی کوشش کی۔ مدینہ کے اردگرد آباد یھودی قبیلے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور مسلمانوں کے خلاف طرح طرح کی سازشیں اور فتنے کرتے رھتے تھے جن کا نتیجہ کئی جنگوں کی صورت میں بھی ظاھر ھوا جس کی ایک مثال جنگ خیبر ہے۔
آنحضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی وفات کے بعد بھی یھودیوں کا یہ شرپسند ٹولہ سازشیں کرنے سے باز نہ آیا اور دین مبین اسلام میں طرح طرح کے انحرافات پیدا کرنے کی کوشش کرنے لگا۔ اس کی ایک واضح مثال اسلامی حدیثی متون میں موجود ایسی جعلی احادیث ہیں جو "اسرائیلیات" کے نام سے جانی جاتی ہیں۔ اسلامی تاریخ کے ماھرین کھتے ہیں کہ بنی اسرائیل کا یہ شرپسند ٹولہ اسلام کو بھی اپنے حقیقی راستے سے منحرف کرنے میں تقریباً کامیاب ھو چکا تھا لیکن کربلا کے عظیم واقعے اور امام حسین علیہ السلام اور ان کے باوفا ساتھیوں کی عظیم قربانی نے ان تمام سازشوں پر پانی پھیر دیا اور حقیقی اسلامی تعلیمات کو فراموش ھو جانے سے بچا لیا۔ یھی وجہ ہے کہ کربلا اسلامی تاریخ بلکہ اسلامی تھذیب و تمدن کا ایک انتھائی اھم اور سنھری موڑ قرار دیا جاتا ہے۔
واقعہ کربلا کے بعد حضرت زینب سلام اللہ علیھا کی مجاھدانہ سرگرمیوں کی نوعیت میں اچانک بڑی تبدیلی آتی ہے۔ آپ سلام اللہ علیھا سفیر کربلا کا کردار ادا کرتی ہیں۔ وہ بھی ایسے شجاعانہ اور دلیرانہ انداز میں کہ دنیا حیرت زدہ رہ جاتی ہے۔ اس دور میں حضرت زینب سلام اللہ علیھا نے امام حسین علیہ السلام کی شھادت کے بعد پیدا ھونے والی شدید بحرانی صورتحال میں اپنا مشن انتھائی کامیابی سے انجام دیا۔ حکومت وقت کی کوشش تھی کہ وہ امام حسین علیہ السلام کو ایک جائز اور شرعی حکمران کے مقابلے میں سرکش باغی کے طور پر متعارف کروائے لھذا حاکم وقت یزید اور اس کے پٹھووں کی جانب سے یہ بات مشھور کر دی گئی کہ "حسین (ع) اپنے جد کی شمشیر سے ھی مارا گیا ہے۔" یعنی نعوذ باللہ امام حسین علیہ السلام نے شرعی حکمران کے خلاف بغاوت کی لھذا انھیں اسلامی قوانین کے تحت اس کی سزا دی گئی ہے۔ حضرت زینب سلام اللہ علیھا کا عظیم کارنامہ یہ تھا کہ انھوں نے اس وقت کے اسلامی معاشرے کی رائے عامہ امام حسین علیہ السلام اور ان کے باوفا ساتھیوں کی حقانیت اور مظلومیت کے حق میں بدل کر رکھ دی۔
حضرت زینب سلام اللہ علیھا نے امام زین العابدین علیہ السلام کے حکم پر اسیران کربلا کے قافلے کی قیادت سنبھالی اور واقعہ کربلا میں بچ جانے والے خواتین اور بچوں کی سرپرستی اپنے ھاتھ میں لے۔ حضرت زینب سلام اللہ علیھا نے کربلا سے کوفہ اور کوفہ سے شام تک اسیری کے سفر میں جگہ جگہ بصیرت افروز خطبے بیان فرمائے اور عوام کو حق اور باطل سے متعلق حقائق سے آگاہ کیا۔
حضرت زینب سلام اللہ علیھا کے انقلابی خطبوں کے نتیجے میں اسلامی معاشرے میں بیداری کی تحریک کا آغاز ھوا اور مسلمان غفلت کی نیند سے اٹھنے لگے۔ اسی طرح حضرت زینب سلام اللہ علیھا نے کئی مواقع پر امام زین العابدین علیہ السلام کی جان بھی بچائی۔ کوفہ کے دربار میں جب عبیداللہ ابن زیاد ملعون کو معلوم ھوا کہ امام حسین علیہ السلام کے بیٹے امام زین العابدین علیہ السلام زندہ ہیں تو انھیں بھی شھید کر دینے کا حکم دیا لیکن حضرت زینب سلام اللہ علیھا سامنے آئیں اور گرج کر کھا جب تک میں زندہ ھوں اجازت نھیں دوں گی انھیں کوئی نقصان پھنچے۔ ابن زیاد ملعون نے جب حضرت زینب سلام اللہ علیھا کی بے مثال بھادری کا شجاعت کا مشاھدہ کیا تو اپنا فیصلہ واپس لے لیا۔
حضرت زینب سلام اللہ علیھا کی مجاھدانہ تحریک آج تک جاری ہے۔ اگر ھم آج شام میں ایسے شھادت کے شوقین اور جاں نثار جوانوں کا مشاھدہ کرتے ہیں جو حضرت زینب سلام اللہ علیھا کے مزار کی حفاظت کیلئے سر دھڑ کی بازی لگانے کو تیار ہیں اور "مدافعین حرم" کا لقب پا کر کربلا کی راہ پر گامزن ہیں تو یہ حضرت زینب سلام اللہ علیھا کی مجاھدانہ سرگرمیوں کی برکت سے ہے۔ ان جوانوں نے حضرت زینب سلام اللہ علیھا سے ھی شجاعت اور ایثار کا درس حاصل کیا ہے۔ خدا کا سلام ھو سفیر کربلا حضرت زینب سلام اللہ علیھا پر اور ان کے راستے پر گامزن ھونے والے "مدافعین حرم" پر۔
تالیف: زیڈ اے حسینی
دشمنوں کے مقابلے میں حضرت زینب سلام اللہ علیھا کی جدوجھد کا انداز
- Details
- Written by admin
- Category: خاص موضوعات
- Hits: 1597