www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

607143
انسان اپنی قیمت خود لگاتا ہے، ایک مدبر انسان اپنی شخصیت کی میزان میں تلتا ہے، انسان کی شخصیت دشمن تراش ہے، بے شک انسان کی شخصیت سے دشمن اور حاسد جنم لیتے ہیں، یھی وجہ ہے کہ ایک منفعل اور مدبّر، مشتعل اور مفکر کے طرزِ زندگی اور اسلوبِ گفتار میں فرق ھوتا ہے، دنیا میں صرف ایک ھستی ایسی ہے کہ جس کے طرزِ زندگی کو منافقت کی موت اور جس کے اسلوبِ رفتار کو نھج البلاغہ ھونے کا شرف حاصل ہے۔ دعوتِ ذوالعشیر کے موقع پر جب سرورِ دو عالمؑ نے اپنی نبوت کا اعلان کیا تو فرزندِ ابو طالبؑ نے منفعل یا مشتعل ھوکر پیغامِ رسالت کی حمایت نھیں کی بلکہ آپ نے مکمل مدبرانہ اور مفکرانہ انداز میں تصدیقِ رسالت کرنے کے ساتھ ساتھ اس تصدیق کے رشتے کو تا عمر نبھایا بھی۔ اگر آپ کی اس تصدیق کے پیچھے وقتی اشتعال یا انفعال ھوتا تو تاریخ کے کسی صفحے پر مورخ یہ رقم کرتا کہ فلاں جنگ یا معرکے میں ابوطالبؑ کا بیٹا موت، شکست، جنگ کی شدت، تلواروں کی چھنکار یا تیروں کی بارش کو دیکھ کر کچھ دیر کے لئے پیچھے ھٹ گیا تھا۔ آپ صرف دینِ اسلام کے دفاعی ماھر نھیں تھے بلکہ پیغمبرِ اسلام کے دستِ راست، مشیر اور وزیر بھی تھے۔ آپ کے سارے اوصاف اور فضائل اپنی جگہ لیکن آپ فضائل اور اوصاف کا مجموعہ نھیں بلکہ فضائل و اوصاف کی کسوٹی اور میزان ہیں۔
تاریخِ اسلام کے مطابق آپ نے دعوتِ ذوالعشیر میں فقط تائید رسالت نھیں کی بلکہ اُس روز سے آپ نذرِ اسلام ھوگئے، روزِ اوّل سے ھی آپ اسلام میں ایسے ضم ھوگئے کہ رسولِ اسلام کے ساتھ سائے کی طرح نظر آتے تھے۔
تاریخ اسلام کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ دعوتِ ذوالعشیر کے موقع پر رسالتِ محمدیﷺ کی تصدیق کا فیصلہ ایک عام سے نو سالہ بچے کا نھیں بلکہ ایک حکیم، مدبر اور دانا نوجوان کا فیصلہ تھا۔ اس کے بعد تاریخ اسلام میں جتنے بھی اتار چڑھاو آتے ہیں، امتحانات اور مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور دینِ اسلام کو جو کامیابیاں نصیب ھوتی ہیں، اُن سب میں فراست بوتراب، حلمِ حیدرِ کرار اور شجاعت صفدر و غضنفر واضح طور پر جھلکتی ہے۔
اسلام کی تائید علی ابن ابیطالبؑ کی زندگی کا اصول تھا، ایک اصول پرست انسان کبھی بھی اصولوں پر سودا نھیں کرتا، یہ ممکن نھیں کہ اصول پرست انسان کو مسلمان آب زمزم سے غسل دیں اور کافر اس کے پاوں کو دھو کر پئیں بلکہ وہ قرآنی فیصلے کے مطابق مومنین پر مھربان اور منافقین پر سخت ھوتا ہے۔
جس طرح مقناطیس لوھے چون کو اپنی طرف کھینچتا ہے، اسی طرح ایک اصول پرست انسان بھی اپنے جیسے لوگوں کو اپنی طرف کھینچتا ہے، جتنی اس کی شخصیت میں مضبوطی ھوتی ہے، اتنی ھی اس کی کشش زیادہ ھوتی ہے۔ جس طرح ایک اصول پرست انسان کی ذات میں کشش زیادہ ھوتی ہے، اسی طرح اس کی ذات میں بے اصول لوگوں کے خلاف دافع بھی زیادہ ھوتا ہے۔ دنیا میں علی ابن ابیطالب کی شخصیت کتنی مضبوط ہے، اس کا اندازہ اس بات سے لگا لیجئے کہ چودہ سو سال گزرنے کے بعد آپ کا دافع بھی اسی طرح موجود ہے اور آپ کا جاذبہ بھی اسی طرح ہے۔ آپ کے چاھنے والے اور آپ کے محب آج بھی آپ سے شدید محبت کرتے ہیں اور آپ کے دشمن آج بھی آپ سے شدید بغض رکھتے ہیں۔
جس طرح نظامِ شمسی میں دافعہ اور جاذبہ پایا جاتا ہے، اسی طرح انسان کی شخصیت میں بھی دافعہ اور جاذبہ پایا جاتا ہے، جو کمزور شخصیت کے لوگ ھوتے ہیں، ان کے مرتے ھی ان کی دشمنی و دوستی بھی مرجاتی ہے، لیکن جو مضبوط اور جاندار شخصیت کے لوگ ھوتے ہیں، ان کی شخصیت جتنی مضبوط ھوتی ہے، ان کے اس دنیا سے جانے کے بعد ان کی محبت اور نفرت بھی اسی قدر باقی رھتی ہے۔
کسی بھی شخصیت سے محبت کا تقاضا یہ ہے کہ اس شخصیت کے طرزِ زندگی اور پسند و ناپسند کو زندہ رکھا جائے اور کسی بھی شخصیت سے نفرت کے اظھار کا آسان طریقہ یہ ہے کہ اس کے طرزِ زندگی اور پسند و ناپسند کو فراموش کر دیا جائے۔ کسی کے نعروں اور دعووں سے یہ پتہ نھیں چل سکتا کہ کون کس کا چاھنے والا ہے بلکہ کسی کے طرزِ زندگی، گفتار اور کردار سے یہ سمجھا جا سکتا ہے کہ کون کس کے راستے کا راھی ہے۔
مولودِ کعبہ کی ولادت باسعادت کے موقع پر خوشی کا جتنا بھی اظھار کیا جائے وہ کم ہے، لیکن اس خوشی کے موقع پر ھمیں اپنے طرزِ زندگی پر بھی ایک نظر ڈالنی چاھیے کہ کیا ھمارے طرزِ زندگی سے بھی حضرت علیؑ کی سیرت جھلکتی ہے یا نھیں؟؟؟
تحریر: نذر حافی

Add comment


Security code
Refresh