مرد کا جھاد اس کی تلوار ہے ، نیزہ ہے ، تیر ہے اور عورت کا جھاد اس کی زبان ہے ، اس کی گفتار ہے اور اس کا دل نشین لھجہ ہے۔
حضرت زھراء سلام اللہ علیھا کا تصور بظاھر بڑا عجیب ہے ، ایسی صنف سے تھیں جس کی صفت ھی نزاکت قرار دی گئی ہے ، لیکن اس بات کو فراموش نھیں کرنا چاھئے کہ عام انسانوں کے معیار پر صاحبان عصمت کو سمجھنا بڑی نادانی ہے ، حضرت معصومۂ کونین فاطمہ زھرا سلام اللہ علیھا ختم نبوت کا جزو تھیں، آپ معدن امامت تھیں اس لئے تمام نازش آفریں خواتین سے افضل تھیں بلکہ اپنے وقت کی معصومہ حضرت مریم سلام اللہ علیھا سے بھی افضل تھیں ، خصوصیات کے اعتبار سے بھی افضل تھیں اور کردار کے اعتبار سے بھی افضل تھیں۔
حضرت فاطمہ زھراء سلام اللہ علیھا کی اٹھارہ سالہ زندگی میں شجاعت کے ایسے ایسے نمونے ہیں کہ واقعی یہ اقرار کرنا پڑتا ہے کہ آپ عرب کے شجاع ترین ذات کا کفو تھیں، ھم نے شب ھجرت کے حالات میں صرف اس پھلو پر غور کیا کہ حضرت علی انتھائی مظاھرۂ شجاعت فرماتے ھوئے بستر رسول پر گھری نیند سوئے رھے ، بڑے سکون و اطمینان کے ساتھ سوئے رھے ، نہ اضطراب تھا نہ گھبراھٹ تھی ، حالانکہ آپ جس بستر پر آرام فرماتھے اس کے ارد گرد چالیس قبائل کی تلواریں تھیں ،چالیس اُپی ھوئی تلواریں جو کسی بھی وقت حضرت پر حملہ آور ھوسکتی تھیں ، اس عالم میں اضطراب کا مظاھرہ نہ کرنا ھی بھادری ہے ، نہ کہ آرام سے گھری نیند سونا ۔
اس رخ سے ھمارا غور کرنا واقعی اھم ہے لیکن اس سے زیادہ اھم بات یہ ہے کہ اس گھر میں ایک خاتون بھی ہیں ، انھیں بھی اچھی طرح معلوم ہے کہ میرے گھر پر چالیس اُپی ھوئی تلواروں کا نرغہ ہے ، جو کسی بھی وقت رات میں یا صبح کے وقت گھر میں گھس کر ھم سب کا کام تمام کردیں گی ۔ علی مرد میدان تھے ، شجاع تھے ، بھادر تھے ، حوصلہ مند تھے ، انھوں نے اس خوفناک منظر کو نظر انداز کردیاتھا ، آنے والے حادثے کا تصور ذھن سے مٹادیاتھا تو ساتھ میں یہ بھی ماننا پڑے گا کہ حضرت فاطمہ زھراء سلام اللہ علیھا بھی قوی دل تھیں کہ تحفظ اسلام کے لئے اس خوفناک منظر کو ھیچ سمجھ رھی تھیں ، کیا اسے حضرت فاطمہ فاطمہ زھرا سلام اللہ علیھا کی حوصلہ مندی کا محیر العقول نمونہ نھیں کھاجائے گا ...؟
حقیقت یہ ہے کہ رسول خدا(ص)کو حکم ھجرت اصل میں حضرت فاطمہ سلام اللہ علیھا کے استقامت علی الحق کا امتحان تھا ، آپ نے ایسے عالم میں کہ جب گھر دشمنوں اور قاتلوں کی تلواروں سے گھرا ھوا تھا اور آپ اسی گھر میں موجود تھیں نہ کسی ھراس کا مظاھرہ کیا نہ خوف کا اظھار کیا ، نہ جزع و فزع کیا ، نہ گریہ و زاری کی بلکہ پورے اطمینان و سکون کے ساتھ پوری رات گزار دی ، کم سے کم جب حضرت علی علیہ السلام مدینہ کی طرف روانہ ھورھے تھے اور کفار سے مزاحمت کی تھی ، اس وقت تو آپ کو گریہ و زاری کرنا چاھئے تھا لیکن یاد رکھئے گریہ و زاری وہ کرتاہے جسے اسباب پر بھروسہ ھوتاہے جو مخلوق کا سھارا ڈھونڈھتا ہے ۔
حضرت معصومہ گریہ و زاری کیوں کرتیں ، آپ کو تو خالق اسباب پر بھروسہ تھا ، خالق پر توکل تھا ، وہ صنف نسواں کا مثالی کردار تھیں ، اگر وہ گریہ کرتیں تو سخت وسنگین حالات میں راضی برضا رھنے کا سبق کھاں سے ملتا ۔ حضرت مریم کے یھاں جس وقت حضرت عیسیٰ کی ولادت ھوئی اور انھوں نے یہ خیال کیا کہ اب قوم آکر ھمیں طعنہ دے گی تو ان کی دلی کیفیت کی قرآن نے ترجمانی کی ہے کہ '' اے کاش ! میں آج سے پھلے مرگئی ھوتی اور بھولی بسری چیز ھوجاتی '' ۔
یاد رکھئے قرآن میں صنف نسواں کا ایک ھی مثالی کردار ہے حضرت مریم کا جو معصومہ تھیں لیکن صنف نسواں کے لئے ابد آثار نمونۂ عمل ان کے پاس بھی نھیں ہے اس لئے یہ کھاجاسکتاہے کہ جھاں حضرت مریم میں کمی رہ گئی ہے اسے کردار فاطمہ نے پورا کیا ، مریم سخت و سنگین حالات میں جزع و فزع کرتی ہیں اور حضرت فاطمہ زھراء ان سے زیادہ سخت حالات میں صبر و سکون کا مظاھرہ کرتی ہیں ، اسی لئے تو رسول خدا (ص)نے فرمایاتھا کہ بیٹی فاطمہ !مریم اپنے وقت کی عورتوں کی سردار تھیں اور تم قیامت تک کی عورتوں کی سردار ھو ، تم اولین و آخرین کی عورتوں کی سردار ھو۔
حضرت فاطمہ سلام اللہ علیھا کی شجاعت کا ایک دوسرامنظر جنگ احد ہے ، یہ جنگ ٣ ھجری میں ھوئی ، اس جنگ میں حضرت علی علیہ السلام کا امتحان تو اس طرح ھوا کہ آ پ نے تحفظ رسالت میں سولہ یا سترہ ایسے زخم کھائے جن سے آپ کا جانبر ھونا مشکل تھا ۔
خود آپ کا ارشاد ہے کہ ھربار میں زخم کھاکر گر پڑتاتھا اور ایسا گرتا تھا کہ میرا اٹھنا ناممکن تھا لیکن کوئی میرا بازو پکڑ کر اٹھادیتاتھا اور میں پھر سے نئی قوت کے ساتھ حمایت و نصرت رسول میں تلوار چلانے لگتاتھا ۔ میدان احد اس قدر بھیانک بن گیاتھا کہ بڑے بڑے لحیم شحیم اصحاب رسول میدان چھوڑ کر بھاگ گئے تھے ، شیطان نے ''قد قتل محمد'' کی آواز بلند کردی تھی ، صحابہ کی اس بے وفائی پر قرآن میں کئی جگہ ان کی مذمت کی گئی ہے ۔
ایسے بھیانک اور حوصلہ شکن ماحول میں جس وقت حضرت فاطمہ سلام اللہ علیھا نے باپ کے زخمی ھونے کی خبر سنی تو والھانہ میدان احد میں پھنچ گئیں ، ذرا بھی خوف و ھراس کا مظاھرہ نھیں کیا ، میدان میں پھنچ کر باپ کی مرھم پٹی کی ، شوھر کا علاج کیا اور اس ذوالفقار کو صاف کیا ، دھویا جو مجسم شجاعت علی کا قصیدہ تھا ۔ میدان احد میں بڑے بڑے نام نھاد بھادروں کے اوسان خطا کردئیے تھے ،جھاں سے بھادروں کی ٹولی بھاگ گئی تھی وھاں معصومۂ کونین نے پھنچ کر ثبات و صبر کا درس دیا ۔
شجاعت فاطمہ سلام اللہ علیھا کا سب سے زیادہ لرزہ خیز وفات رسول کے بعد کے حالت پیش کرتے ہیں ، شب ھجرت کا واقعہ یا جنگ احد کا واقعہ صرف اندیشے کی حد تک ہے یعنی زیادہ سے زیادہ یہ سوچا جاسکتا ہے کہ اگر دشمن نے قتل کردیا تو کیا ھوگا ؟ یہ بھرحال خوفناک مناظر ہیں لیکن وفات رسول کے بعد تو آپ پر مصائب انڈیل دئیے گئے اور اچانک مصائب انڈیلے گئے اور اس طرح سے مصائب انڈیلے گئے کہ تصور بھی نھیں کیاجاسکتا ۔کیا کوئی تصور کرسکتاہے کہ جس ڈیوڑھی پر آسمان والے ادب سے حاضری دیتے ھوں ، بارگاہ چوم کر اجازت لیتے ھوں ، اسی ڈیوڑھی پر باپ کے نام نھاد وفادار آگ اور لکڑی لے کر آجائیں ، گستاخانہ باتیں کی جائیں ، دھمکیاں دی جائیں اور دروازہ پھلو پر گرادیا جائے ...ان کربناک حالات کو جھیلنا حضرت معصومۂ کونین سلام اللہ علیھا ھی کا کلیجہ تھا۔
ھائے !آپ حالات کو جھیل گئیں ، لیکن شدت درد سے بیھوش ھوگئیں ، آپ کی پسلیاں شھید ھوگئیں ، غشی سے آنکھ کھولی تو اور زیادہ ھوش رھا منظر دیکھا ، ایک بزدل ، جس نے جنگ خندق میں عمرو کی آواز پر اپنے حواس گنوادئیے تھے ، گھگھی بندھ گئی تھی ، بولتی بند ھوگئی تھی اور منھ پھاڑ کے بولا بھی تو عمرو کا قصیدہ پڑھنے لگا ...آج وھی بزدل ،قاتل عمرو حضرت علی علیہ السلام کے گلے میں چادر کا پھندا ڈال کر کشاں کشاں مسجد کی طرف لئے جارھاہے ، یہ منظر کسی قوی دل مرد کے لئے بھی روح فرسا تھا ، حضرت معصومہ سلام اللہ علیھا کے لئے تو اس لئے بھی یہ منظر عظیم ترین آزمائش تھا کہ وہ قیدی کوئی اور نھیں خود آپ کا شجاع شوھر تھا جو باپ کی وصیت سے مجبور اپنے حالات پر صبر کررھاتھا ، بزدلوں کے مصائب برداشت کررھاتھا ۔
ظاھر ہے کہ ان حالات میں حضرت معصومہ کونین سلام اللہ علیھا کا ثبات اور استقلال ان کی عظیم شجاعت کا مظھر ہے ، آپ نے دین خدا کی حفاظت کے لئے نہ صرف صبر کیا ، پامردی دکھائی بلکہ ان حالات میں اپنا جھاد اور بھی تیز کردیا ، آپ ان منافقوں سے جھاد کرنے کے لئے گھر سے باھر نکل آئیں ، آپ کا خطبہ فدک عظیم ترین جھاد بھی ہے اور قیامت تک تما م صنف نسواں کے لئے انداز جھاد کا سبق بھی ۔
مرد کا جھاد اس کی تلوار ہے ، نیزہ ہے ، تیر ہے اور عورت کا جھاد اس کی زبان ہے ، اس کی گفتار ہے اور اس کا دل نشین لھجہ ہے۔
آپ گھر سے مسجد میں اس طرح تشریف لائیں کہ سر سے پیر تک چادر اوڑھے ھوئی تھیں ، اس حجاب میں اصحاب رسول نے محسوس کیا کہ آپ کی چال بالکل رسول خدا (ص) کی چال ہے ، اصحاب نے صرف رسول خدا (ص) کی رفتار تک اپنی بات محدود رکھی ، آپ کی تقریر کو رسول خدا (ص) کی تقریر نھیں بتایا اس لئے کہ اس سے خود انھیں لوگوں پر ضرب پڑ رھی تھی۔
آپ نے خطبہ شروع کیا ، ھر طرح کی تعریف و ستائش مخصوص ہے اللہ کے لئے اس کے انعام پر ، اور شکر ہے اس کے الھام پر۔
ذرا ٹھہر کے معصومہ کے اس ابتدائی فقرے پر غور کیجئے اور اس ماحول کا اندازہ کیجئے، آپ نے فرمایا کہ خدا کے انعام پر جو انسان کی تمام زندگی میں بکھرا ھواہے اس کی تعریف کرنی چاھئے اور اس نے زندگی کو بھتر بنانے کے لئے جو بندوں کو الھام فرمایاہے اس پر شکر ادا کرنا چاھئے ، خدا کے انعام نے انسان کو زندگی عطا کی ، خدا کے الھام نے دین اسلام عطا کیا ، انعام پر ستائش و حمد ہے ، الھام پر شکر ہے ، حضرت معصومہ کونین سلام اللہ علیھا ابتداء ھی میں اصحاب رسول کی احساس فراموشی کا اعلان کررھی ہیں کہ جس خدا نے تمھیں اسلام عطا کیا اور جس رسول نے تم تک اس اسلام کو پھونچا یا اسی خدا کی احسان فراموشی کر کے تم دین سے مرتد ھوگئے ھو ، جس رسول نے تم تک دین اسلام پھونچایا اسی کی پارۂ جگر کو اذیت دے رھے ھو، مصائب کے پھاڑ توڑ رھے ھو ، تم سے زیادہ نمک حرام امت کون ھوگی ؟
آپ نے حمد الٰہی کے بعد اپنے باپ رسول پر صلوات پڑھی اس کے بعد اصحاب کا احساس حق جگانے کے لئے خطاب فرمایا کہ تم ان کے حکم کا مرکز ہو ، میرے باپ جو دین لائے اور ان پر جو وحی آئی ، اس دین و وحی کے حامل ہو ، تم لوگ اپنے نفس پر اللہ کے امین ہو ، تمہاے ہی ذریعہ سے امتوں تک پیغام پہونچے گا ۔
اس کے بعد اپنا تعارف اس طرح فرمایاکہ اے لوگو!اچھی طرح سمجھ لو کہ میں فاطمہ ھوں ، میرے ھی باپ محمد مصطفی ہیں ، یھی بات میں اول بھی کھتی ھوں اور یھی بات میں آخر میں بھی کھتی ھوں اور میں غلط اور خلاف واقع نھیں کہہ رھی ھوں ، میری بات بے ربط بھی نھیں ہے ، میرے باپ تمھارے پاس رسول بن کر آئے ، ان کے اوپر تم لوگوں کی زحمتیں شاق تھیں ، تمھارے مصائب ان سے دیکھے نہ گئے ، وہ تمھاری بھلائی چاھتے تھے اور وہ صاحبان ایمان کے اوپر رحیم و مھربان تھے ۔
جناب معصومہ سلام اللہ علیھا نے بڑی احتیاط برتی ہے اپنی تقریر میں ، آپ نے فرمایا : میرے باپ صاحبان ایمان پر مھربان تھے یعنی یہ جو قرآن میں رسول خدا کے لئے ارشاد ہے کہ تم عالمین کے لئے رحمت ھو ، یہ رحمت و مھربانی صرف دنیا تک محدود ہے ، اگر تم سمجھتے ھو کہ آخرت میں بھی تمھارے اوپر مھربان ھی رھیں گے تو یہ تمھاری خام خیالی ہے ، آخرت میں صرف انھیں لوگوں پر مھربان رھیں گے جو صاحبان ایمان ہیں، جو مرتدنھیں ھوئے ہیں اور جنھوں نے ان کے بعد بھی نبھایا ۔
حضرت فاطمہ زھراء سلام اللہ علیھا معصومہ تھیں لیکن رسول یا امام نھیں تھیں ، آپ کو خدا نے عصمت عطا کی تھی لیکن منصب نھیں عطا کیاتھا ، اس کی وجہ سمجھنے کے لئے ان دونوں کے مظاھرات پر غور کرنا ھوگا ۔ یہ بات بھت واضح ہے کہ ھر انسان کو خوبیاں اور اچھائیاں پسند ہیں ، ھر شخص خوبیوں کی تعریف کرتاہے ، اچھے لوگوں سے محبت کرتاہے ، اس لئے تمام انبیاء کے تمام محاسن لوگوں کی نظر میں محبوب تھے ، پسندیدہ تھے ، اصل میں ان سے لوگوں نے اختلاف کیا ان کے منصب کی وجہ سے ، جب انھوں نے ایک خدا کی طرف دعوت دی تو جو لوگ کئی خداؤں کی پرستش کرتے تھے ، انھوں نے مخالفت شروع کروں ، معاشرے کو اپنا ھم خیال بنا لیا۔
خود رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ نے جب تک اعلان رسالت نھیں کیا تھا سبھی آپ کو صادق کھتے تھے ، امین کھتے تھے ، آپ سے فیصلے کراتے تھے ، آپ کی باتوں کو توجہ سے سنتے تھے لیکن جیسے ھی آپ نے اپنی رسالت کا اعلان کیا ، تمام لوگ آپ کے دشمن ھوگئے ، آپ کا جینا دوبھر کردیا ۔ معلوم ھوا کہ عصمت ایسی چیز ہے ، جسے سبھی لوگ پسند کرتے ہیں ، معصوم سے محبت کرتے ہیں لیکن چونکہ منصب کی وجہ سے لوگوں کے مفادات پر ضرب پڑتی ہے ، اس لئے منصب کے لوگ دشمن ھوجاتے ہیں ۔
اس معاشرتی مظاھرے سے یہ بات سمجھ میں آجاتی ہے کہ خدا نے جناب فاطمہ سلام اللہ علیھا کو عصمت کیوں عطا کی تھی اور منصب کیوں نھیں عطا کیا تھا ۔ خداوندعالم کو منظور تھا کہ حضرت فاطمہ زھراء سلام اللہ علیھا رسالت و امامت کی تقویت کا سبب ھوں ، اس لئے خدا نے معاشرے میں ان کا وقار برقرار رکھنے کے لئے آپ کو عصمت عطا کی بلکہ آپ کو معدن عصمت بنایا ، جناب معصومہ سلام اللہ علیھا نے اسی لئے اس عطائے پروردگار کو دین خدا کی تقویت کے لئے وقف کردیا ۔ جب رسالت کی گواھی دینے کے لئے میدان مباھلہ میں جانا ھوا تو رسالت کی تصدیق کے لئے تشریف لے گئیں اور جب بعد رسول امامت کے تحفظ کے لئے گھر سے نکلنا پڑا تو گھر سے مسجد میں تشریف لے گئیں ۔
حضرت فاطمہ زھراء سلام اللہ علیھا رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ کا جلال و جمال تھیں ، آپ کی چال بالکل رسول کی چال تھی، آپ کی گفتگو بالکل رسول کی گفتگو تھی ، آپ کا لھجہ بالکل رسول کا لھجہ تھا اور کیوں نہ ھوتا آپ رسول کا پارۂ جگر تھیں ، رسول کا آئینہ تھیں ۔
یھی وجہ ہے کہ جب آپ مطالبۂ فدک کے لئے مسجد میں تشریف لے گئیں تو اگر چہ آپ سر سے پا تک چادر میں چھپی ھوئی تھیں لیکن لوگوں نے آپ کی چال دیکھ کر رونا شروع کردیا ۔اصل میں شھزادی زھرا سلام اللہ علیھا نے یہ انداز اس لئے اختیار کیا تاکہ لوگو ں کے دلوں میں رسول کی یاد تازہ رھے اور جو باتیں بیان کرنا چاھتی ہیں وہ زیادہ موثر ھو ۔اور اس طرح جناب زھرا سلام اللہ علیھا کی یہ منفرد شجاعت تاریخ کے دامن میں محفوظ ھوجائے۔
ادیب عصر مولانا سید علی اختر رضوی شعور گوپال پوری
شجاعت حضرت فاطمہ زھرا سلام اللہ علیھا کے نمونے
- Details
- Written by admin
- Category: خاص موضوعات
- Hits: 1802