آج انقلاب اسلامی ایران اپنے شباب کے چالیسویں سال کی جانب بڑھ رھا ہے اور انھی دنوں اس بےنظیر انقلاب کی کامیابی کی سالگرہ منائی جا رھی ہے۔
یہ انقلاب درحقیقت ایک ایسا انقلاب ہے، جس نے بیسویں صدی کے آخر میں دنیا کو ھلا کر رکھ دیا اور دنیا بھر کے مسلمانوں اور مستضعفین کے دلوں میں امید کی کرن پیدا کر دی۔
آج اس امید بخش شجرہ طیبہ کی عمر کے چار عشرے گزر چکے ہیں۔ اس عظیم اسلامی انقلاب نے ایران میں اور عالمی سطح پر بھت گھرے اثرات مرتب کئے ہیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ اس خدائی معجزے کے تمام ثمرات اور مبارک اثرات کا احاطہ کرنا تقریباً ناممکن نظر آتا ہے۔
اس مقالہ میں ھم انقلاب اسلامی کے ثقافتی اثرات میں سے ایک نمایاں پھلو یعنی ’’انقلاب اسلامی کے قرآن کریم کی ترویج و تبلیغ کے اثرات‘‘ پر مختصراً روشنی ڈالیں گے، تاکہ انھیں پھلووں کو اپناتے ھوئے ھم بھی ان اثرات و نتائج کو اپنے معاشرے میں رائج کرسکیں اور اس عظیم نعمت کی قدر کو جانتے ھوئے اللہ تعالیٰ کے حضور شکرگزاری کی توفیق حاصل کریں۔
چالیس سالوں میں انقلاب اسلامی میں قرآن کریم کی ترویج و تبلیغ کے چند نمایاں اثرات اور نتائج پر ایک نظر:
* انقلاب اسلامی کے نتیجے میں قرآن کی رو سے ’’دین سے سیاست کی جدائی‘‘ کے شعار کا عملاً رد ھونا۔
* قرآن کے وضع کردہ اصول ’’لا شرقیہ و لا غربیہ" کے تحت حکومت کا قیام۔
* قرآنی تعلیمات کی روشنی میں سیاسی نظام کا نفاذ۔
* ایران کے آئین کا قرآنی تعلیمات کی روشنی میں ترتیب دیا جانا۔
* انقلاب اسلامی نے قرآن کریم کو طاقوں اور غلافوں سے نکالا کر تمام شعبہ ھای زندگی میں عملی طور پر پیش کیا اور قرآن کریم کو دستور زندگی بنانے کے لیے عملاً اقدامات کیے۔
* انقلاب اسلامی کے بعد قرآن پر بے تحاشا علمی و تحقیقاتی کام ھوا ہے اور اس سلسلے میں قرآن کریم کے تراجم، تفاسیر اور علوم و معارف پر ھزاروں جلد کتابیں لکھی گئی ہیں نیز مختلف موضوعات پر علمی و تحقیقاتی قرآنی مجلات کا اجراء بھی اسی کی ایک کڑی ہے۔
* قرآن کریم کو گھر گھر تک پھچانے کے لیے لاکھوں کی تعداد میں قرآنی نسخہ کی اشاعت کی گئی، جس کا سلسلہ اب تک جاری ہے۔ مزید یہ کہ ایران کا شمار دنیا کے ان ممالک میں ھوتا ہے، جھاں سب سے زیادہ قرآن کریم کی نشر و اشاعت کی جاتی ہے۔
* انقلاب اسلامی کے بعد قرآن کی طرف بازگشت سے مسلمانوں کے عزت و وقار میں اضافہ ھوا ہے۔
* قرآنی تعلیمات اور مفاھیم کی روشنی میں انقلاب اسلامی کے بعد تمام میدانوں میں ایران کی ترقی کا سفر تیزی سے جاری ہے۔
* انقلاب اسلامی کی برکت سے قرآنی ریڈیو، ٹیلی ویژن کا قیام اور سینکڑوں ویب سائٹس، سافٹ ویئرز اور موبائل ایپس بنائے جا چکے ہیں۔
* اب تک قرآنی قصص و موضوعات پر بھت سی فلمیں اور ڈرامے فلمائے جا چکے ہیں۔
* انقلاب اسلامی کے بعد ایران قرآنی ثقافتی سرگرمیاں کے حوالے سے پوری دنیا کا محور و مرکز بن گیا ہے۔
* قرآنی موضوعات پر علمی، ادبی، ثقافتی مقابلہ جات، سیمینارز و نشستیں بھی آئے روز منعقد ھوتی رھتی ہیں۔
* قرآنی معاشرے کی تشکیل کے سلسلے میں لا تعداد قرآنی مکاتب اور سینٹرز کا قیام بھی انقلاب کے مرھون منت ہے۔
* انقلاب اسلامی کے بعد اب تک ھزاروں قرآنی تنظیمیں و ادارے معرض وجود میں آچکے ہیں۔
* بڑی تعداد میں قرآنی یونیورسٹیز اور کالجز کا قیام انقلاب اسلامی کی برکات میں سے ہے۔
* انقلاب اسلامی کے نتائج میں سے ایک یہ ہے کہ اس وقت ایران قرآن کریم کے بین الاقوامی مقابلہ جات کا محور و مرکز بن چکا ہے اور اب تک مختلف جھات و موضوعات میں کئی بین الاقوامی قرآنی مقابلہ جات کروائے جا چکے ہیں۔
* انقلاب کے بعد سے اب تک ایران میں ھر سال بین الاقوامی قرآنی موضوعات پر کتابوں کی نمائش کا اھتمام کیا جاتا ہے۔
* قرآن کریم کی تعلیم(ناظرہ، تجوید...) کے مقدمات کے بعد اب معاشرہ تدبر اور قرآن کریم پر عمل کی طرف گامزان ہے۔
* انقلاب اسلامی کے اثراث میں سے ایک یہ ہے کہ حفظ قرآن کریم پر مختلف طریقوں اور روشوں سے بھت زیادہ کام ھوا ہے، جس کی پوری دنیا میں کوئی نظیر نھیں ملتی۔ اب تک ھزاروں افراد قرآن کریم کو اپنے سینوں میں محفوظ کرچکے ہیں۔
* عالمی سطح پر اتحاد بین المسلمین کے قرآنی اصول کا احیاء اور اس سلسلے میں عملی اقدامات کا سلسلہ زور و شور سے جاری ہے۔
* انقلاب اسلامی معاشرے کو ھزاروں قرآنی شخصیات، محققین، مترجمین، مفسرین، حفاظ و خوش الحان قراء کرام کے علاوہ قرآن کریم کے موضوعات پر ماھرین دے چکا ہے۔
آخر میں یہ بات بھی ذکر کرنا ضروری ہے کہ انقلابات کی خاصیت یہ ھوتی ہے کہ وہ کسی علاقہ، سرزمین یا مذھب سے مختص نھیں ھوتے اور ان کے اثرات نہ فقط ملکی یا علاقائی سطح پر ھوتے ہیں، بلکہ ان انقلابات کے اثرات پوری دنیا میں رونما ھوتے ہیں، جن کو روکا نھیں جاسکتا۔
اگر فرانس، روس، چین یا دوسرے ممالک میں انقلاب آئے تو انھوں نے بھی باقی اقوام پر اپنے اثرات ڈالے، لیکن ایران میں آنے والے انقلاب اور باقی ممالک میں آنے والے انقلابات کا بنیادی فرق یہ ہے کہ ایران کا انقلاب ’’قرآن کریم‘‘ کے بنیادی اصولوں پر قائم ہے، جبکہ دوسرے ممالک میں آنے والے انقلابات خاص اقتصادی، یا معاشرتی نظریہ کی بنیاد پر تھے، کہ جن کا قرآن کریم سے کوئی براہ راست رابطہ نہ تھا۔ ایسے میں جھاں کھیں بھی ھم قرآنی معاشرہ تشکیل دینا چاھتے ہیں، وھاں کے لیے یہ اثرات و نتایج نمونہ عمل اور راہ گشا ہیں۔
تحریر: ڈاکٹر مولانا سید علی عباس نقوی
انقلاب اسلامی اور قرآنی سرگرمیاں
- Details
- Written by admin
- Category: خاص موضوعات
- Hits: 1314