ظھورِ اسلام سے قبل اقوامِ عالم کی جو حالت تھی، اس کے بارے تاریخ کے اوراق سے پوچھو تو یہ سامنے آتا ہے کہ قبل از بعثت نبوی انسانی گردنوں میں طرح طرح کے پھندے، قسم قسم کی بیڑیاں پڑی ھوئی تھیں؟ نسلِ انسانی اس وقت رنگ رنگ کی جکڑ بندیوں میں جکڑی ھوئی تھی، ان کے بوجھ کیوجہ سے ان کی کمریں دو تہہ ھوئی جاتی تھیں اور انسانی کاندھوں پر ایسے بوجھ لدے ھوئے تھے، جنھوں نے ان کی زندگیوں کو تلخ ترین بنا ڈالا تھا، ھاں ایسا ھی تھا، اس وقت کی صدھا اقسام کی مذھبی و قانونی جکڑ بندیاں ایک لعنت بن کر نسلِ انسانی و نوعِ بشری کے ساتھ چپک گئی تھیں اور انسانوں کے ساتھ انسانیت کا بھی خون ھو رھا تھا، ایسے ماحول و معاشرے میں توحید خالص کی طرف سے "وما ارسلنک اِلا رحمة لِلعالمِین" کا ظھور اس کے سوا کچھ نھیں ہے کہ رحمة للعالمین، تمام نوعِ انسانی کے لئے رحمت بن کر ظاھر ھوئے۔
روایتی طور پہ آپ کسی ایک ٹکڑے، کسی ایک گوشے کے لئے نھیں، تمام نوعِ انسانی کے لئے، مشرق و مغرب کے لئے، اسود و احمر کے لئے، کسی ایک خاص قوم کے لئے نھیں، اقوامِ عالم کے لئے رحمت بنا کر بھیجے گئے، اللہ کا یہ اعلانِ حق ہے، قرآن کے اس اعلانِ حق سے آج تک کوئی منکر بھی انکار نھیں کرسکا، بلکہ تاریخ کے جتنے ابواب و اوراق الٹے گئے، اس اعلان کی صداقت و حقانیت واضح بلکہ واضح تر ھوتی گئی اور اس وجودِ گرامی کا رحمة للعالمین ھونا ھر اعتبار سے اور ھر نوعیت سے ثابت و درست ھوتا گیا۔ کسی محقق کی بھی خواہ وہ کتنا ھی مخالف ھو، یہ مجال نھیں ھوئی کہ قرآنِ کریم کے اس معیار کو غلط ثابت کرسکے اور اس وجودِ اقدس کے اعمالِ حسنہ پر خوف رکھ سکے، اس کا ھر عمل بجائے خود دلیل بن کر پکارا کہ ھاں میں رحمت ھوں!
اگر کسی نوعیت سے یہ رحمت نہ ھو تو پھر رحمت کون ہے اور رحمة للعالمین تمام جھانوں کیلئے رحمت؟ تاریخ کو کون جھٹلا سکتا ہے، کوئی بھی تاریخ اٹھاو تو دیکھو گے کہ ھر امتیاز، ہر پرکھ ایک ابھری ھوئی نشانی ہے، ھر عمل عملِ خیر اور معیارِ رحمت ہے، ایسا کہ ھر نظر، ھر نگاہ، ھر دل، ھر دماغ، اعتراف و تسلیم کرے گا کہ بلا شک و شبہ یھی وجودِ گرامی رحمتِ الھی ہے۔۔ وماارسلنک اِلا رحمة لِلعالمِین! کونسی رحمت، وھی جو سرزمین مکہ سے ظاھر ھوئی، ھاں سرزمینِ مکہ سے ھی ایک آواز بلند ھوتی ہے، جو طالبانِ نجات کے لئے وجہ نجات ثابت ھوتی ہے۔ یہ اعلان کوئی معمولی اعلان نھیں تھا، کیا اعلان؟ اعلان کہ ایک ھستی آئی ہے، کیوں آئی ہے؟ کرہ ارضی پر بسنے والی نوعِ انسانی کے لئے پیامِ رحمت لے کر، زمین کی پیٹھ پر، اس طبقہ انسانی کے لئے، جس کی گردنوں میں ظالمانہ قانون کے پھندے اور پاوں میں بے رحمانہ احکام کی بیڑیاں، کندھوں پر مصائب و آلام کے اور مشقت و مصیبت کے ناقابل برداشت بوجھ لدے ھوئے ہیں، پیغامِ آزادی لے کر۔
ھر اس کمر کے لئے جو بوجھ سے خمیدہ اور ھر اس گردن کے لئے جو طرح طرح کے ظالمانہ جکڑ بندیوں میں کڑی ھوئی ہے، نویدِ امن لے کر آئی ہے۔، کون نھیں جانتا کہ عرب کا جاھل ماحول کس قسم کا تھا، جھاں نبی رحمت کا نزول مبارک ھوا، جھاں خانہ خدا بت کدہ میں تبدیل کر دیا گیا تھا، جھاں معاشرہ قبائلی و دیگر عصبیتوں میں جکڑا ھوا تھا، لوگ پسے ھوئے تھے اور کچھ لوگ ان پر خدا کی طرح حاکم تھے، جن کا حکم حرف آخر سمجھا جاتا تھا، جو اپنی خدائی کو چیلنج کرنے والی ھر طاقت و قوت کو ختم کر دیتے تھے، جنھیں اپنے آباو اجداد کی رسومات پہ فخر تھا، جو جبر و اکراہ سے بھرپور زندگی گزارنے پہ مجبور تھے، ایسے پسے ھوئے، غلامی میں جکڑے، رسومات کے قیدیوں میں آپ کا ظھور واقعی معجزہ تھا۔
نگاہِ عشق و مستی میں وھی اول وھی آخر
وھی قرآں وھی فرقاں وھی یسین وھی طہٰ
مخلوقات میں یہ جذبہء رحمت سب سے زیادہ اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو عطا فرمایا اور آپ کی رحمت کو زمان و مکان، دوست و دشمن، انسان و حیوان کی تمام تر قیودات سے الگ کر کے بیان فرمایا:و ماارسلنٰک الا رحمة للعالمین۔ اے محبوب ھم نے آپ کو دونوں جھان کے لئے رحمت بنا کر بھیجا۔ اسی لئے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رحمت کا دائرہ کسی خاص قوم اور کسی خاص جماعت کے لئے محدود نہ تھا بلکہ آپ جس طرح اپنے دوستوں کے لئے رحمت تھے، ویسے ھی اپنے دشمنوں کے لئے بھی، جیسے تمام انسانوں کے لئے رحمت تھے، ویسے ھی تمام حیوانوں کے لئے بھی، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت طیبہ کے ھر پھلو میں آپ کی رحمت کے جلوے کو دیکھا جا سکتا ہے، آپ کی زندگی کا ھر ھر لمحہ واقعی سراپا رحمت ہے۔
آپ آج بھی باعث رحمت و بخشش ہیں، آپ کا پیغام رحمت ہے، آپ کا قرآن رحمت ہے، آپ کا نام رحمت ہے، آپ کا جھان رحمت ہے، آپ نے جس معاشرے و ماحول میں اسلام کی تبلیغ اور اللہ کے دین کی ترویج کی وہ معاشرہ و سوسائٹی جن جکڑ بندیوں کا شکار تھا، ان میں رحمت و شفقت اور محبت و اخوت، بھائی چارہ و برادری کو اھمیت و ارزش دے کر اپنے مقصد میں کامیابی حاصل کی، وگرنہ کفر کے ان مراکز میں اللہ کی وحدانیت کا پیغام سننے والا کوئی نہ ھوتا، یہ آپ کا کردار و عمل تھا کہ لوگ بالخصوص پسے ھوئے، پا برھنہ لوگ آپ کیساتھ آن کھڑے ھوئے، انھوں نے اسلام قبول کرکے تکالیف بھی برداشت کیں، مگر آپ کو چھوڑنا گوارا نھیں کیا۔
آج اگر ھم امت مسلمہ کی حالت زار بالخصوص اپنے ملک میں تقسیم، فرقہ بندی اور تفریق کا جائزہ لیں تو اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ھم جس نبی رحمت کا کلمہ پڑھتے ہیں اور ان کی محبت کا دم بھرتے ہیں، ان کے اسوہ سے کس قدر دور ہیں، ھمارے اعمال و کردار دوغلے ہیں، ھم ھر وہ کام کرتے ہیں، جس سے نبی رحمت نے منع فرمایا اور اپنے آپ کو مسلمان بھی کھلاتے ہیں، نبی سے محبت کے دعوے بھی کرتے ہیں جبکہ ساری زندگی رحمت بن کر انسانوں و مخلوقات کو اپنے فیوض بخشنے والے پاک پیغمبر نے تو کسی انسان کجا حیوان کو بھی تکلیف پھنچانا گوارا نھیں کیا اور ھم ہیں کہ لوگوں کو اپنے ذاتی مقاصد کیلئے تکلیف پھنچاتے ہیں، ان پر لاٹھیاں برساتے ہیں، انکا راستہ روکتے ہیں، بیماروں اور مریضوں کو اسپتالوں میں پھنچنے سے روکتے ہیں، لوگوں کی ذاتی و سرکاری املاک کو آگ لگا دیتے ہیں اور نام ھوتا ہے محبت نبوی کا، کونسے نبی سے محبت کا یہ طریقہ ہے، کس نبی نے یہ گوارا کیا کہ کسی بے گناہ انسان کو ایک معمولی تھپڑ بھی مارا جا سکتا ہے، نبی تو کجا کوئی عام انصاف پسند حکمران یا پیر فقیر بھی ایسا نھیں کرنے دیگا۔
مگر ھم نے دیکھا کہ چند دن پھلے کیسے اسی ملک میں نبی رحمت کے نام پر کروڑوں کی نجی و سرکاری املاک کو جلا دیا گیا، کیا یھی اسلام ہے، جس کی دعوت ھم غیر مسلموں کو دینا چاھتے ہیں اور پرچم نبوی کو دنیا بھر میں لھراتا دیکھنا چاھتے ہیں، اللہ کے دین کی سربلندی کا یھی طریقہ ہے؟ ھرگز نھیں، ھرگز نھیں۔ یہ تو کسی ابو جھل کا طریقہ ھوسکتا ہے، یہ کسی ابو سفیان کی راہ ھوسکتی ہے، یہ بنو امیہ کا انداز ھوسکتا ہے، ھمارے پیارے نبی اور جو تمام انسانوں کیلئے رحمت بنا کر بھیجے گئے، ان کا طریقہ اور اسوہ ھرگز نھیں ھوسکتا۔ ھمیں اگر اسلام عزیز ہے، اگر نبی کا دین عزیز ہے، اگر الھیٰ پیغام عزیز ہے، توحید کی نمائندگی عزیز ہے تو پھر اسوہ نبوی کو اختیار کرنا ھوگا اور اس پرفتن دور میں سازشوں کو سمجھنا ھوگا، موجودہ پرفتن دور میں ھمیں رسول رحمت کے اس جذبے کو اختیار کرتے ھوئے انسانیت کو انسانوں کے ھاتھوں غلامی سے نجات کا راستہ اختیار کرنے کی ضرورت ہے، اس لئے کہ جدید دنیا میں جدید غلامی کے اطوار سے انسان اپنے مقصد تخلیق کو بھلا چکا ہے۔
جس طرح عرب کے جاھل معاشرے میں رسول رحمت نے آکر وقت کے طاغوتوں اور ظالموں کو اپنے بلند کردار اور حکمت عملی سے شکست سے دوچار کیا، اسی طرح آج کے جدید طاغوتوں اور ظالموں کو ان کے جدید وسائل کے ذریعے اور ان کی حکمت عملیوں کو انھی پر پلٹاتے ھوئے شکست سے دوچار کرنا ھوگا، استعمار کا بھت پرانا حربہ ہے کہ تقسیم کرو اور حکومت کرو، آج بھی ایسا ھی ھو رھا ہے، امت مسلمہ اس وقت مختلف گروھوں اور ٹکڑوں میں تقسیم کر دی گئی ہے، جو ان ظالمین کی خدمت کے مترادف ہے، ھم اس وقت تک فتح مند نھیں ھوسکتے، جب تک باھمی اتحاد، وحدت، اخوت اور بھائی چارگی کا وہ سبق یاد نہ کر لیں، جو رسول اکرم ﴿ص﴾ نے آج سے چودہ سو سال پھلے ھمیں دیا اور اپنے معاشرے میں عملی کیا تھا، مسلمانوں کو باھمی اخوت اور بھائی چارگی کے رشتے میں بدل کر آپ نے تمام تفرقات کو ختم کر دیا تھا پھر اللہ کی مدد شامل حال ھوئی، خدائی وعدہ پورا ھوا اور مسلمان فتح مند ھوئے۔
آج بھی فتح کا یھی راز ہے، آج بھی امت کی مشکلات و مصائب اور مسائل کے حل کا یھی ایک نسخہ ہے، یہ معمولی فرد کا نسخہ نھیں، یہ الھیٰ نسخہ ہے، جسے قرآن نے حبل اللہ سے تعبیر کیا ہے، آج حبل اللہ کو تھامے بغیر یہ امت سرخرو نھیں ھوسکتی، سلام ہے جمھوری اسلامی ایران کے بنیان گزار امام راحل امام خمینی اور ان کے وارث برحق آیت اللہ علی حسینی الخامنہ ای اور آیت اللہ سیستانی پر، جنھوں نے دنیا بھر کے مسلمانوں کو وحدت کا پیغام یاد کرایا ہے، امت اگر ان بزرگان کی رھبری و قیادت میں اتحاد، وحدت، اخوت، بھائی چارہ اور یکجھتی کا دامن پکڑ لے تو وقت کے ابوجھل، ابو سفیان اور امیہ کے عمال کچھ بھی نھیں بگاڑ سکتے۔
قوتِ عشق سے ہر پست کو بالا کر دے
دھر میں اسمِ محمد سے اجالا کر دے
تحریر: ارشاد حسین ناصر
رسولِ رحمت ﴿ص﴾ اور ھمارا کردار
- Details
- Written by admin
- Category: خاص موضوعات
- Hits: 3748