صحیفہ سجادیہ کی روشنی میں ھم نے بھت ھی اختصار کے ساتھ انسان کے کچھ ایسے اھم اوصاف پیش کرنے کی کوشش کی جن کی بنیاد پر انسان خود کو بھتر طور پر ان معیاروں پر تول سکتا ہے جنھیں قرآن کریم نےانسانی اوصاف کی حیثیت سے پیش کیا ہے۔
تمھید
کرہ ارض پر انسان نے جب سے قدم رکھا ہے یہ گفتگو ھوتی رھی ہے کہ انسان خیر محض ہے کہ شر محض کسی نے اسے خیر کا مظھر قرار دیا تو کسی نے ذاتا اس کا میلان شر کی طرف قرار دیا اور آج تک انسان کی ذات کے سلسلہ سے یہ گفتگو ھو رھی ہے کہ اس کے اندر رجحان خیر کا پایا جاتا ہے یا یہ شر کی طرف جھکاو رکھتا ہے انسان شناسی کے باب میں بھت سے دانشوروں اور اسکالرز نے اپنے اپنے طور پر انسان کے وجود کی مختلف پرتوں کو کھولنے کی کوشش کی ہے۔ [1]
لیکن ان کی تمام تر جدو جھد کے باوجود انسان کے حقیقی تصویر سامنے نھیں آسکی اور اس کا اعتراف وہ خود کرتے ہیں کہ ان کی زیادہ تر گفتگو سائنسی دائرہ کے اندر محدود رھنے کی بنیاد پر اس کی ان صلاحیتوں کو نھیں پیش کر سکی جو روحانی طور پر انسان کے وجود کے اندر پائی جاتی ہیں[2] اور جن کے بل پر وہ کمال کے اعلی ترین درجات کو حاصل کرتے ھوئے سب سے افضل و برتر قرار پاتا ہے اور اسی بنا پر کل سے لیکر آج تک ان کے لئیے انسان ایک معمہ بنا ھوا ہے [3] ۔
ظاھر ہے یہ کام انھیں لوگوں کا ہے جو روحانی و معنوی طور پر خود کسی مقام و درجہ پر فائز ھوں اور معنویت کی راہ میں خود انھوں نے جانفشانیاں کی ھوں لھذا پیش نظر مقالہ میں ھم ایک ایسی شخصیت کی دعاوں کے مجموعہ سے انسانی شناخت کے کچھ اشاروں کو پیش کریں گے جسے سید الساجدین کے لقب سے دنیا جانتی ہے ،مختصر طور پر ھی سھی صحیفہ سجادیہ کی روشنی میں ھم انسان کے ان حقیقی اوصاف کی شناخت حاصل کر سکتے ہیں جو پروردگار نے انسان کے وجود میں رکھے ہیں اور جن کے لحاظ سے بشر حقیقی معنی میں اس درجہ پر پھنچتا ہے کہ ملائک بھی اس کے حصول کمال پر دم بخود رہ جائیں ۔
صحیفہ سجادیہ میں انسان کے اوصاف :
جس طرح قرآن کریم نے انسان کے مثبت و منفی دونوں ھی صفات کا تذکرہ کیا ہے اسی طرح صحیفہ سجادیہ نے بھی انسان کو اس حیثیت سے پیش کیا ہے کہ اس کے مثبت و منفی دونوں پھلو سامنے آ جائیں بس فرق یہ ہے کہ قرآن اوپر سے نیچے آنے والی کتاب ہے اور امام سجاد علیہ السلام نے ان دعاوں کے مجموعہ کو ھمارے سامنے پیش کیا ہے جسے قرآن صاعد کھا جاتا ہے جو خدا کی عظمت کا اعتراف کرنے والے ایسے بندے کی زبان سے بصورت دعاء نکلے ہیں جسے عبادتوں کی زینت کھا گیا ۔
امام سجاد علیہ السلام نے دعاوں کے قالب میں ان اوصاف کی نشاندھی کی ہے جن کے پیش نظر مثبت صفات کا لحاظ و منفی صفات سے پرھیز کرتے ھوئے انسان منزل کمال کے اعلی ترین مدارج کو طے کرسکتاہے ان میں بعض صفات تو بعینہ وھی ہیں جنھیں قرآن کریم نے پیش کیا ہے اور بعض خواہ مثبت و منفی صفات وہ ہیں جنھیں آپ نے بعنوان صفات انسان تو پیش نھیں کیا لیکن ان دعاوں میں غور و فکر یہ بتاتا ہے کہ ان میں ایسے صفات کی نشاندھی ضرور کی گئی ہے جن کا انسان یا تو خود حامل ہے یا اس کے اندر ان صفات کو اپنی ذات کا حصہ بنا لینے اور خود میں رچا بسا لینے کی صلاحیت موجود ہے ان میں کچھ مثبت صفتیں وہ ہیں جو خود انسان کی ذات کے اندر پھلے سے موجود ہیں اور کچھ وہ ہیں جن سے آراستہ ھونے پر انسان تطھیر و تعمیر ذات کا عمل بھتر طور پر کر سکتا ہے ۔ علاوہ از این کچھ صفات وہ ہیں جو انسان کو اسکی حقیقت کا پتہ دیتی ہیں اور یہ بتاتی ہیں کہ وہ کس قدر اھمیت کا حامل ہے اس کی قیمت کیا ہے تاکہ انسان اس بات کی طرف متوجہ ھو سکے کہ جب ذاتا وہ قیمتی ہے تو پھر بے وقعت چیزوں کے پیچھے بھاگنے کا کیا معنی حسب ذیل صفات سے ھم اندازہ لگا سکتے ہیں کہ امام سجاد علیہ السلام نے کتنی خوبصورتی کی ساتھ پھلے تو اپنی دعاوں میں انسان کے ان صفات کا تذکرہ کیا ہے جس سے اس کی قدر و قیمت واضح ھو پھر اس کے بعد انسان کی نیازمندی کو پیش کرتے ھوئے رب کی بے نیازی کو بیان کیا ہے تاکہ ایسا نہ ھو کہ انسان اپنے آگے سب کو بھول جائے ۔
انسان عالم خلقت پر برتری کا حامل :
جس طرح قرآن کریم نے انسان کو دیگر مخلوقات پر برتر و افضل جانا ہے[4] ویسے ھی امام سجاد علیہ السلام نے بھی دعاء کے قالب میں اس حقیقت کو بیان کرتے ھوئے انسان کو اس اپنی قدر قیمت سمجھنے کی دعوت دی ہے آپ فرماتے ہیں :
اور ھمیں تمام مخلوقات پر حکومت کی فضیلت عطا فرمائی ، اب اس کی تمام مخلوقات اس کی قدرت سے ھماری مطیع ہے اور اس کی عزت کی بنا پر ھماری اطاعت کی طرف گامزن ہے ۔[5]
محدود وسعت و طاقت کا حامل :
امام سجاد علیہ السلام نے انسان کو خدا کی جانب سے دیگر موجودات پر برتری دئیے جانے کے اعتراف کے بعد اس بات کو بھی دعا کے پیرایہ میں بیان کیا ہے کہ انسان کی طاقت و اس کی وسعت محدود ہے جس کی طرف قرآن میں بھی اشارہ کیا گیا ہے [6]یہ تمام مخلوقات پر برتری ضرور رکھتا ہے لیکن اس کی ظاھری صلاحیتیں محدود ہیں اور اسی کے پیش نظر خدا نے بھی کوئی ایسا دستور انسان کو نھیں دیا جس کے بجا لانے کی انسان کو طاقت نہ ھو :
اور اب تو اس نے ھم سے ان تمام احکام کو اٹھا لیا ہے جن کی ھم میں طاقت نھیں ہے اور ھم کو صرف بقدر وسعت تکلیف دی اور سھولت کو دیکھ کر ھمیں مشقت میں مبتلا کیا اوراس طرح کسی بندہ کے لئیے نہ کوئی دلیل چھوڑی نہ عذر ۔ [7]
انسان اور شکر گزاری :
جس طرح قرآن کریم نے انسان کی ایک صفت کو رب کی ناشکری اور کفران نعمت کے طور پر پیش کیا ہے اور شکران نعمت کو فزونی نعمت سے تعبیر کیا ہے[8] اسی سے ملتے جلتے انداز میں اما م سجاد علیہ السلام نے خدا کے شکریہ کے ساتھ اس کی خاص حمد اس بات پر کی ہے کہ اس نے ایسی مخلوق کے درمیان ھمیں رکھا کہ خدا کی حمد بجالاتی ہے اور اس کی رضا و اس کے عفو کی طلب کی طرف گامزن ہے ۔
اور ان نعمتوں پر ادائے شکر کی بہ نسبت جو مجھے عطا کی ہیں ان چیزوں پر میرے شکریہ کا کامل وفزوں تر قرار دے جو مجھ سے روک لی ہیں[9]
یا ایک اور مقام پر فرماتے ہیں :
اب ھم شکر ادا کرنے والی مخلوقات کے درمیان زندگی گزار رھے ہیں اور اس کی رضا و مغفرت کی طرف سبقت کرنے والوں آگے بڑھے جا رھے ہیں [10]
سرکش و طغیانی کرنے والا
امام سجاد علیہ السلام نے انسان کی اس حقیقت کو دیکھتے ھوئے جسے قرآن نے اس کی سرکش طبیعت کے طور پر بیان کیا ہے [11]سرکشی و طغیانی سے دوری کو بھی اپنے مالک سے طلب کیا ہے اور ساتھ ھی ظالموں کی پشت پناھی کرنے والوں میں قرار نہ دینے کی دعاء کر کے متوجہ کرنا چاھا ہے کہ سرکشی کو بغاوت کبھی کبھی اس حد تک بڑھ جاتی ہے کہ انسان مظلوموں کے بجائے ظالموں کی پشت پناھی جیسے سنگین جرم کا مرتکب ھو جاتا ہے ایسے میں خدا ھی ہے جو انسان کو بچا سکتا ہے چنانچہ آپ فرماتے ہیں : مجھے میری سرکشی میں سرگرداں اور ایک مدت تک غفلت میں بے خبر پڑا رھنے والا بنا کر نہ چھوڑ دینا [12]ایک اور مقام پر فرماتے ہیں پروردگار مجھے ظالموں کی پشت پناھی کرنے والا قرار نہ دے [13]۔
ضعیف و ناتواں
قرآن کریم نے انسان کو ضعیف و ناتوں مخلوق کے طور پر پیش کیا ہے[14] اسی صفت کو امام علیہ السلام اس طرح سے پیش کرتے ہیں :
اے اللہ ! اے یکہ وتنھا اورکمزور وناتوان کی (مھموں میں ) کفایت کرنے والے اورخطرناک مرحلوں سے بچا لے جانے والے! گناھوں نے مجھے بے یارو مددگار چھوڑ دیا ہے ۔ اب کوئی ساتھی نھیں ہے اورتیرے غضب کے برداشت کرنے سے عاجز ھوں ۔اب کوئی سھارا دینے والا نھیں ہے۔ تیری طرف بازگشت کا خطرہ درپیش ہے ۔اب اس دھشت سے کوئی تسکین دینے والا نھیں ہے ۔ اورجب کہ تو نے مجھے خوف زدہ کیا ہے تو کون ہے جو مجھے تجھ سے مطمئن کرے ۔ اورجب کہ تو نے مجھے تنھاچھوڑ دیا ہے تو کون ہے جو میری دستگیری کرے ۔ اور جب کہ تو نے مجھے ناتوان کر دیا ہے تو کون ہے جو مجھے قوت دے ۔ اے میرے معبود ! پروردہ کو کوئی پناہ نھیں دے سکتا سوائے اس کے پروردگار کے اورشکست خوردہ کو کوئی امان نھیں دے سکتا سوائے اس پر غلبہ پانے والے کے ۔ اورطلب کردہ کی کوئی مدد نھیں کر سکتا سوائے اس کے طالب کے ۔ یہ تمام وسائل اے میرے معبود تیرے ھی ھاتھ میں ہیں اورتیری ھی طرف راہ فرار وگریز ہے. لھذا تو محمد اور ان کی آل پر رحمت نازل فرما اورمیرے گریز کو اپنے دامن میں پناہ دے اورمیری حاجت برلا. [15]
بارالھا! تو نے ھمیں کمزور اور سست بنیاد پیدا کیا ہے اور پانی کے ایک حقیر قطرہ (نطفہ ) سے خلق فرمایا ہے اگر ھمیں کچھ قوت وتصرف حاصل ہے تو تیری قوت کی بدولت اوراختیار ہے تو تیری مدد کے سھارے سے۔ لھذا اپنی توفیق سے ھماری دستگیری فرما اوراپنی رھنمائی سے استحکام و قوت بخش اورھمارے دیدہ دل کو ان باتوں سے جو تیری محبت کے خلاف ہیں نابینا کردے اورھمارے اعضاء کے کسی حصہ میں معصیت کے سرایت کرنے کی گنجائش پیدا نہ کر ۔
بارالھا ! رحمت نازل فرما محمد اور ان کی آل پر اورھمارے دل کے خیالوں ، اعضاء کی جنبشوں،آنکھ کے اشاروں اورزبان کے کلموں کو ان چیزوں میں صرف کرنے کی توفیق دے جو تیرے ثواب کا باعث ھوں یھاں تک کہ ھم سے کوئی ایسی نیکی چھوٹنے نہ پائے جس سے ھم تیرے اجر وثواب کے مستحق قرار پائیں۔ اورنہ ھم میں کوئی برائی رہ جائے جس سے تیرے عذاب کے سزاوار ٹھہریں ۔[16]
اے اللہ !میں ھر حال میں تیرا ذلیل بندہ ھوں تیری مدد کے بغیر میں اپنے سود زیاں کا مالک نھیں۔ میں اس عجزو بے بضاعتی کی اپنے بارے میں گواھی دیتا ھوں اوراپنی کمزوری و بے چارگی کا اعتراف کرتا ھوں ۔ لھذا جو وعدہ تو نے مجھ سے کیا ہے اسے پورا کراور جو دیا ہے اسے تکمیل تک پھنچا دے اس لیے کہ میں تیرا وہ بندہ ھوں جو بے نوا، عاجز، کمزور، بے سروسامان ، حقیر، ذلیل ، نادار، خوفزدہ ، اور پناہ کا خواستگار ہے [17]
خدا کو فراموش کر دینے والی مخلوق:
جیسا کہ قرآن کریم نے انسان کی ایک صفت یہ بیان کی کہ جب یہ آسائشوں میں ھوتا ہے تو خدا کو بھول جاتا ہےاور جب مشکلوں میں گھرتا ہے تو ھی خدا کو پکارتا ہے [18] اسی بات کو دعاء کے قالب میں امام علیہ السلام یوں بیان کرتے ہیں کہ پروردگار مجھے احسان نا شناس نہ قرار دے :
اے اللہ ! رحمت نازل فرما محمد اوران کی آل پر اور مجھے ان عطیوں میں جو تو نے بخشے ہیں فراموش کار اور ان نعمتوں میں جو تو نے عطا کی ہیں احسان ناشناس نہ بنا دے اورمجھے دعا کی قبولیت سے ناامید نہ کر اگرچہ اس میں تا خیر ھو جائے ۔ آسائش میں ھوں یا تکلیف میں، تنگی میں ھوں یا فارغ البلالی میں ،تندرستی کی حالت میں ھوں یا بیماری کی ،بدحالی میں ھوں یا خوشحالی میں ،تونگری میں ھوں یا عسرت میں ، فقر میں ، یا دولتمندی میں، اے اللہ ! محمد اوران کی آل پر رحمت نازل فرما اور مجھے ہر حالت میں مدح وستائش وسپاس میں مصروف رکھ یھاں تک کہ دنیا میں سے جو کچھ تو دے اس پر خوش نہ ھونے لگوں اورجو روک لے اس پر رنجیدہ نہ ھوں [19]۔
حسد کرنے والی تنگ نظر مخلوق:
قرآن کریم نے انسان کو تنگ نظر مخلوق کی صورت میں پیش کیا ہے[20] اسی تنگ نظری و حسد کے سلسلہ سے امام علیہ السلام فرماتے ہیں :
اے اللہ ! محمد اور ان کی آل پر رحمت نازل فرما اورمجھے ان چیزوں سے جو دوسروں کو دی ہیں آشفتہ وپریشان نہ ھونے دے کہ میں تیری مخلوق پر حسد کروں اورتیرے فیصلہ کو حقیر سمجھوں [21] ایک اور مقام پر انسان کی ان خصلتوں کا ذکر کرتے ھوئے فرماتے ہیں جوحسد و بدگمانی کے ساتھ شیطانی جذبات انسان کے وجود میں پیدا کر دیتی ہیں جنکی بنیاد پر دو جھاں میں انسان ذلیل ھوتا ہے :
اے تمام رحم کرنے والوں میں سے سب سے زیادہ رحم کرنے والے خدایا! جو حرص،بد گمانی اور حسد کے جذبات شیطان میرے دل میں پیدا کرے ۔ انھیں اپنی عظمت کی یاد اپنی قدرت میں تفکر اور دشمن کے مقابلہ میں تدبر و چارہ سازی کے تصورات سے بدل دے اور فحش کلامی یا بے ھودہ گوئی ، یا دشنام طرازی یا جھوٹی گواھی یا غائب مومن کی غیبت یا موجود سے بد زبانی اور اس قبیل کی جو باتیں میری زبان پر لانا چاھے انھیں اپنی حمد سرائی ، مدح میں کوشش اور انھماک ، تمجید و بزرگی کے بیان ،شکر نعمت و اعتراف احسان اور اپنی نعمتوں کے شمار سے تبدیل کر دے [22]
خود پسندی وکبر و غرور میں مبتلا :
خود پسندی و غرور میں انسان اس قدر مبتلا ہے کہ مال ودولت کی زیادتی پر بجائے اس کے کے اپنے رب کا شکر ادا کرے شیخیاں بگھارتا ہے [23]جسکی طرف قرآن میں بھی اشارہ ھوا ہے اور امام نے بھی دعاء کے پیرایہ میں اس صفت کو بیان کرنے کی کوشش کی ہے :
۔بارالھا ! محمد اور ان کی آل پر رحمت نازل فرما اور مجھے ان مصروفیتوں سے جو عبادت میں مانع ہیں بے نیاز کر دے اور انھی چیزوں پر عمل پیرا ھونے کی توفیق دے جن کے بارے میں مجھ سے کل کے دن سوال کرے گا اور میرے ایام زندگی کو غرض خلقت کی انجام دھی کے لۓ مخصوص کر دے ۔ اور مجھے( دوسروں سے ) بے نیاز کر دے اور میرے رزق میں گشائش و وسعت عطا فرما ۔ احتیاج و دست نگری میں مبتلا نہ کر ۔ عزت و توقیر دے، کبرو غرور سے دوچار نہ ھونے دے ۔ میرے نفس کو بندگی و عبادت کے لۓ رام کر اور خودپسندی سے میری عبادت کو فاسد نہ ھونے دے اور میرے ھاتھوں سے لوگوں کو فیض پھنچا اور اسے احسان جتانے سے رائگان نہ ھونے دے ۔ مجھے بلند پایہ اخلاق مرحمت فرما اور غرور اور تفاخر سے محفوظ رکھ[24]۔امام سجاد علیہ السلام میں اس دعاء میں جھاں کبر و نخوت جیسی منفی صفات کی نشاندھی کی ہے اور کبرو غرور میں مبتلا نہ ھونے کی خدا سے دعا ء کی ہے وھیں ایک دلکش انداز میں انسان کو اس بات کی طرف بھی متوجہ کیا ہے کہ اگر کوئی کسی منصب و مقام پر فائز ہے اور خدا نے اسے عزت بخشی ہے تو اسے لوگوں کے درمیں عزیز ھوتے ھوئے اپنےمالک کے سامنے اپنے وجود کی پستی کا احساس بھی ھونا چاھیے :اور لوگوں میں میرا درجہ جتنا بلند کرے اتنا ہی مجھے خود اپنی نظروں میں پست کر دے اور جتنی ظاھری عزت مجھے دے اتنا ھی میرے نفس میں باطنی بے وقعتی کا احساس پیدا کر دے۔ [25]
انسان جھالت و بے عملی کا شکار :
قرآن کریم نے انسان کی ایک منفی صفت اس کا جاھل ھونا بیان کی ہے [26]جھالت کی بنیاد پر وہ زندگی میں بھت سی دشواریوں کو شکار ھوتا ہے امام علیہ السلام جھالت و برے اعمال کی انجام دھی سے اجتناب کے لئیے اپنے رب کی بارگاہ میں یوں دعاء فرماتے ہیں :
اے اللہ ! میں اپنی جھالتوں سے عذر خواہ اور اپنی بد اعمالیوں سے بخشش کا طلب گار ھوں ۔ لھذا اپنے لطف و احسان سے مجھے پناہ گاہ رحمت میں جگہ دے اوراپنے تفضل سے اپنی عافیت کے پردہ میں چھپا لے [27]
عافیت طلب :
انسان کی ایک صفت اس کی عافیت طلبی ہے جس کی طرف قرآن میں بھی اشارہ ھوا [28]ہے اسی بات کی طرف اپنی اس دعاء میں حقیقی عافیت کو بیان کرتے ہیں جھاں صحت و تندرستی کو مرضی رب کے طور پر بیان کرتے ھوئے آپ محض دنیاوی عافیت کی دعاء نھیں کرتے بلکہ آخرت کی عافیت کو مقدم کرتے ھوئے یوں فرماتے ہیں :
اے اللہ ! تیرے ھی لیے حمد وستائش ہے تیرے بھترین فیصلہ پر اور اس بات پر کہ تو نے بلاؤں کا رخ مجھ سے موڑ دیا۔ تو میرا حصہ اپنی رحمت میں سے صرف اس دنیوی تندرستی میں منحصر نہ کر دے کہ میں اپنی اس پسندیدہ چیز کی وجہ سے (آخرت کی ) سعادتوں سے محروم رھوں اوردوسرا میری نا پسندیدہ چیز کی وجہ سے خوش بختی وسعادت حاصل کر لے جائے ۔ اور اگر یہ تندرستی کہ جس میں دن گزارا ہے یا رات بسر کی ہے کسی لازوال مصیبت کا پیش خیمہ اورکسی دائمی وبال کی تمھید بن جائے تو جس (زحمت واندوہ ) کو تو نے موخر کیا ہے اسے مقدم کر دے اور جس( صحت وعافیت کو مقدم کیا اسے موخر کر دے کیونکہ جس چیز کا نتیجہ فنا ھو وہ زیادہ نھیں اورجس کا انجام بقا ھو وہ کم نھیں ۔ اے اللہ تو محمد اوران کی آل پر رحمت نازل فرما۔[29]
ایک شبھہ کا ازالہ :
صحیفہ سجادیہ میں امام علیہ السلام نے بالکل قرآن ھی طرح انسان کے مثبت اور منفی دونوں ھی پھلوو ں کو پیش کر کے اس بات کو بیان کرنا چاھا ہے کہ اس شبھہ کی کوئی گنجائش نھیں کہ کوئی کھے کہ انسان کے دو فطرتیں ہیں ایک اچھی، ایک بری ،ھرگز ایسا نھیں ہے بلکہ حقیقت میں تواس کی فطرت اس کی اچھائیوں کی طرف جانا ھی ہے یہ اور بات ہے کہ خدا نے اس کے اندر اچھا اور برابننے کی استعداد ضروررکھی ہے اور اس کا اختیار خود انسان کے ھاتھ میں ہے کہ وہ اچھا بنتا ہے یا برا ۔
بقول شھید مطھری : حقیقت یہ ہے کہ انسان کی تعریف اور مذمت اس سبب سے نھیں کہ وہ دو فطرتوں کا حامل ہے گویا اس کی ایک فطرت قابل تعریف اور دوسری قابل مذمت[30] بلکہ انسان کی تعریف و تمجید کا راز اس کا خدا سے اتصال و لگاو میں پوشیدہ ہے جتنا انسان خدا سے جڑا ہے اتنا ھی اس کے وجود کے اندر خیر ہے اور جتنا خدا سے دور ہے اتنا ھی برائیوں میں گھرا ہے بالکل درخت کی ٹھہنیوں اور شاخوں کی طرح جب تک وہ اپنی جڑ سے جڑی ہیں ھری بھری رھیں گی اور جب اس سے علیحدہ ھو جائیں تو سوکھ جائیں گی اور یہ تب ھی ممکن ہے جب ایمان و عمل صالح بجا لائے ورنہ قرآن کریم نے واضح الفاظ میں اعلان کر دیا ہے کہ :والعصر ان الانسان لفی خسر الا الذین آمنوا و عملو الصالحات وتواصوا بالحق وتواصوا باالصبر”قسم ہے زمانے کی! بے شک انسان خسارے میں ہے مگر جو لوگ ایمان لائے اور جنھوں نے نیک عمل کئے اور ایک دوسرے کو حق کی تاکید کرتے اور صبر و استقامت کی تاکید کرتے رھے [31]
اب صحیفہ سجادیہ جیسی عظیم کتاب جس بات کی طرف رھنمائی کر رھی ہے وہ یھی ہے کہ انسان اپنی حقیقت کو پا لے اور قرآن بھی یہ چاھتا ہے کہ انسان اپنے آپ کو ڈھونڈے خود کو تلاش کرے اب یہ خود اس کا شناختی کارڈ نھیں ہے کہ جس میں اس کا نام ، باپ کا نام ماں کا نام اور کب پیدا ھوا کھاں کا باشندہ ہے ؟ کس سے شادی کی ہے ؟ کتنے فرزند ہیں یہ سب ھوتا ہے بلکہ یہ خود حقیقت میں روح الھی ہے اس روح کو پھچان کر انسان احساس شرافت و کرامت کرتا ہے پستیوں سے اپنے آپ کو دور کرتا ہے۔ [32]
خود شناسی کا مفھوم یہ ہے کہ عالم وجود میں انسان اپنے آپ تک پھنچ جائے خود کا ادراک کر لے یہ جان لے کہ وہ محض مٹی نھیں بلکہ روح الھی کی تجلی اس کی ذات میں ہے ۔ [33]اور اس بات کو سمجھ کر ھی وہ حصول کمال کی طرف بڑھ سکتا ہے ورنہ اس میں اور چوپایوں میں کوئی فرق نھیں بلکہ بسا اوقات تو وہ چوپایوں سے بھی بدتر ھو جاتا ہے [34]
حاصل کلام :
صحیفہ سجادیہ کی روشنی میں ھم نے بھت ھی اختصار کے ساتھ انسان کے کچھ ایسے اھم اوصاف پیش کرنے کی کوشش کی جنکی بنیاد پر انسان خود کو بھتر طور پر ان معیاروں پر تول سکتا ہے جنھیں قرآن کریم نےانسانی اوصاف کی حیثیت سے پیش کیا ہے۔ قرآن کریم کی آیات کریمہ ھوں یا صحیفہ سجادیہ کی عمیق دعائیں دونوں ھی کی روشنی میں انسان کو جھاں اپنی شناخت ھوتی ہے جھاں یہ پتہ چلتا ہے کہ مالک کائنات نے اسے کس قدر اھم بنایا ہے اور جھاں یہ پتہ چلتا ہے کہ اس کے اندر کیا کیا خصلتیں رکھیں ہیں وھیں یہ بھی معلوم ھوتا ہے کہ اگر وہ معیار انسانیت سے نیچے گر گیا تو جانوروں سے بھی بدتر ھو جائے گا[35] لھذا معیار انسانیت کو باقی رکھتے ھوئے کمال کی منزلوں تک اسے مسلسل سفر کرنا ہے اور یھی سفر اس کی کامیابی کی ضمانت ہے ۔
بقلم؛ سید نجیب الحسن زیدی
حوالہ جات
[1] ۔ لسلی ، اسٹیونسن ، ھفت نظریہ دربارہ طبیعت انسان ، ص ١٦١
[2] ۔ (کیسیرر، ارنسٹ ؛ فلسفہ و فرھنگ ترجمہ بزرگی نادرزادہ ، تھران ؛ موسسہ مطالعات و تحقیقات فرھنگی ص ٤٥و ٤٦)۔
[3] ۔ . [3] Scheler Max. lasituation de l' hommo dans la monde.p. 17.
انسان شناسی در قرآن ص ۳۰ آیت اللہ محمد تقی مصباح یزدی
[4] ۔ وَلَقَدْ كَرَّمْنَا بَنِی آدَمَ وَحَمَلْنَاهُمْ فِی الْبَرِّ وَالْبَحْرِ وَرَزَقْنَاهُمْ مِنَ الطَّیبَاتِ وَفَضَّلْنَاهُمْ عَلَى كَثِیرٍ مِمَّنْ خَلَقْنَا تَفْضِیلًا
اور ھم نے یقینا آدم کی اولاد کو عزت دی اور خشکی اور تری میں لئے پھرے اور انھیں اچھی اچھی چیزیں کھانے کو دیں اور اپنے بھترین مخلوقات پر ان کو اچھی خاصی فضیلت دی ، الَمْ تَرَ اَنَّ اللہَ سَخَّرَ لَكُمْ مَّا فِي الْاَرْضِ وَالْفُلْكَ تَجْرِيْ فِي الْبَحْرِ بِاَمْرِہٖ۰ۭوَيُمْسِكُ السَّمَاۗءَ اَنْ تَقَعَ عَلَي الْاَرْضِ اِلَّا بِـاِذْنِہٖ۰ۭاِنَّ اللہَ بِالنَّاسِ لَرَءُوْفٌ رَّحِيْمٌ۔ کیا تم نے نھیں دیکھا کہ اللہ نے تمھارے لیے زمین کی ھر چیز کو مسخر کر دیا ہے اور وہ کشتی بھی جو سمندر میں بحکم خدا چلتی ہے اور اسی نے آسمان کو تھام رکھا ہے کہ اس کی اجازت کے بغیر وہ زمین پر گرنے نہ پائے، یقینا اللہ لوگوں پر بڑا مھربان، رحم کرنے والا ہےھوَالَّذِىْ خَلَقَ لَكُمْ مَّا فِى الْاَرْضِ جَمِيْعًا ۰ۤ ثُمَّ اسْتَوٰٓى اِلَى السَّمَاۗءِ فَسَوّٰىھُنَّ سَبْعَ سَمٰوٰتٍ۰ۭ وَھُوَبِكُلِّ شَىْءٍ عَلِيْمٌ وہ وھی اللہ ہے جس نے زمین میں موجود ھر چیز کو تمھارے لیے پید ا کیا ، پھر آسمان کا رخ کیا تو انھیں سات آسمانوں کی شکل میں بنا دیا اور وہ ھر چیز کا خوب جاننے والا ہے۔ الَّذِىْ جَعَلَ لَكُمُ الْاَرْضَ فِرَاشًا وَّالسَّمَاۗءَ بِنَاۗءً۰۠ وَّاَنْزَلَ مِنَ السَّمَاۗءِ مَاۗءً فَاَخْرَجَ بِہٖ مِنَ الثَّمَرٰتِ رِزْقًا لَّكُمْ۰ۚ فَلَا تَجْعَلُوْا لِلہِ اَنْدَادًا وَّاَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ۔ جس نے تمھارے لیے زمین کو بچھونا اور آسمان کو چھت بنایا اور آسمان سے پانی برسایا پھر اس سے تمھاری غذا کے لیے پھل پیدا کیے ، پس تم جانتے بوجھتے ھوئے کسی کو اللہ کا مدمقابل نہ بناؤ وَسَخَّرَ لَكُمْ مَّا فِي السَّمٰوٰتِ وَمَا فِي الْاَرْضِ جَمِيْعًا مِّنْہُ۰ۭاِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَاٰيٰتٍ لِّقَوْمٍ يَّتَفَكَّرُوْنَ ۔ اور جو کچھ آسمانوں اور جو کچھ زمین میں ہے سب کو اس نے اپنی طرف سے تمھارے لیے مسخر کیا، غور کرنے والوں کے لیے یقینا اس میں نشانیاں ۔وَالَّذِيْ خَلَقَ الْاَزْوَاجَ كُلَّہَا وَجَعَلَ لَكُمْ مِّنَ الْفُلْكِ وَالْاَنْعَامِ مَا تَرْكَبُوْنَ،۔ اور جس نے تمام اقسام کے جوڑے پیدا کیے اور تمھارے لیے کشتیاں اور جانور آمادہ کیے جن پر تم سوار ھوتے ھو،لِتَسْتَوٗا عَلٰي ظُھُوْرِہٖ ثُمَّ تَذْكُرُوْا نِعْمَۃَ رَبِّكُمْ اِذَا اسْـتَوَيْتُمْ عَلَيْہِ وَتَـقُوْلُوْا سُبْحٰنَ الَّذِيْ سَخَّــرَ لَنَا ھٰذَا وَمَا كُنَّا لَہٗ مُقْرِنِيْنَۙ۔ تاکہ تم ان کی پشت پر بیٹھو پھر جب تم اس پر درست بیٹھ جاؤ تو اپنے پروردگار کی نعمت یاد کرو اور کھو: پاک ہے وہ جس نے اسے ھمارے لیے مسخر کیا ورنہ ھم اسے قابو میں نھیں لا سکتے تھے۔
وَاِنَّآ اِلٰى رَبِّنَا لَمُنْقَلِبُوْنَ ۔ اور ھم اپنے پروردگار کی طرف لوٹ کر جانے والے ہیں ۔ َللہُ الَّذِيْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ وَاَنْزَلَ مِنَ السَّمَاۗءِ مَاۗءً فَاَخْرَجَ بِہٖ مِنَ الثَّمَرٰتِ رِزْقًا لَّكُمْ۰ۚ وَسَخَّــرَ لَكُمُ الْفُلْكَ لِتَجْرِيَ فِي الْبَحْرِ بِاَمْرِہٖ۰ۚ وَسَخَّرَ لَكُمُ الْاَنْھٰرَ اللہ ھی نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا اور آسمان سے پانی برسایا پھر اس سے تمھاری روزی کے لیے پھل پیدا کیے اور کشتیوں کو تمھارے لیے مسخر کیا تاکہ اس کے حکم سے سمندر میں چلیں اور دریاؤں کو بھی تمھارے لیے مسخر کیا۔وَسَخَّــرَ لَكُمُ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ دَاۗىِٕـبَيْنِ۰ۚ وَسَخَّرَ لَكُمُ الَّيْلَ وَالنَّھارَ۔ اور اسی نے ھمیشہ چلتے رھنے والے سورج اور چاند کو تمھارے لیے مسخر کیا اور رات اور دن کو بھی تمھارے لیے مسخر بنایا ثُمَّ خَلَقْنَا النُّطْفَۃَ عَلَقَۃً فَخَـلَقْنَا الْعَلَقَۃَ مُضْغَۃً فَخَـلَقْنَا الْمُضْغَۃَ عِظٰمًا فَكَسَوْنَا الْعِظٰمَ لَحْــمًا۰ۤ ثُمَّ اَنْشَاْنٰہُ خَلْقًا اٰخَرَ۰ۭ فَتَبٰرَكَ اللہُ اَحْسَنُ الْخٰلِقِيْنَۭ۔ پھر ھم نے نطفے کو لوتھڑا بنایا پھر لوتھڑے کو بوٹی کی شکل دی پھر بوٹی سے ھڈیاں بنا دیں پھر ھڈیوں پر گوشت چڑھایا پھر ھم نے اسے ایک دوسری مخلوق بنا دیا، پس بابرکت ہے وہ اللہ جو سب سے بھترین خالق ہے۔
لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ فِيْٓ اَحْسَنِ تَقْوِيْمٍ
[5] ۔ وَ جَعَلَ لَنَا الْفَضِيلَةَ بِالْمَلَكَةِ عَلَى جَمِيعِ الْخَلْقِ ، فَكُلُّ خَلِيقَتِهِ مُنْقَادَةٌ لَنَا بِقُدْرَتِهِ ، وَ صَائِرَةٌ إِلَى طَاعَتِنَا بِعِزَّتِهِ صحیفہ سجادیہ ۱۔ ۱۹
[6] ۔ لَا يُكَلِّفُ اللَّهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا ۚ لَهَا مَا كَسَبَتْ وَعَلَيْهَا مَا اكْتَسَبَتْ ۗ رَبَّنَا لَا تُؤَاخِذْنَا إِن نَّسِينَا أَوْ أَخْطَأْنَا ۚ رَبَّنَا وَلَا تَحْمِلْ عَلَيْنَا إِصْرًا كَمَا حَمَلْتَهُ عَلَى الَّذِينَ مِن قَبْلِنَا رَبَّنَا وَلَا تُحَمِّلْنَا مَا لَا طَاقَةَ لَنَا بِهِ ۖ وَاعْفُ عَنَّا وَاغْفِرْ لَنَا وَارْحَمْنَا ۚ أَنتَ مَوْلَانَا فَانصُرْنَا عَلَى الْقَوْمِ الْكَافِرِينَ بقرہ (286)
[7] ۔ َقَدْ وَضَعَ عَنَّا مَا لَا طَاقَةَ لَنَا بِهِ ، وَ لَمْ يُكَلِّفْنَا إِلَّا وُسْعاً ، وَ لَمْ يُجَشِّمْنَا إِلَّا يُسْراً ، وَ لَمْ يَدَعْ لِأَحَدٍ مِنَّا حُجَّةً وَ لَا عُذْراً . ایضا ، ۲۴
[8] ۔ وَجَعَلُوْا لَہٗ مِنْ عِبَادِہٖ جُزْءًا۰ۭ اِنَّ الْاِنْسَانَ لَكَفُوْرٌ مُّبِيْنٌ زخرف ۱۵ ، ھوَالَّذِيْٓ اَحْيَاكُمْ۰ۡثُمَّ يُمِيْتُكُمْ ثُمَّ يُحْيِيْكُمْ۰ۭ اِنَّ الْاِنْسَانَ لَكَفُوْرٌ۔ اور اسی نے تمھیں حیات عطا کی پھر وھی تمھیں موت دیتا ہے پھر وھی تمھیں زندہ کرے گا، انسان تو یقینابڑا ھی ناشکرا ہے ۔“ ، اِنَّ الْاِنْسَانَ لِرَبِّہٖ لَكَنُوْدٌ،۔ یقینا انسان اپنے رب کا ناشکرا ہے۔، اِنَّا ھَدَيْنٰہُ السَّبِيْلَ اِمَّا شَاكِرًا وَّاِمَّا كَفُوْرًا ۔ ھم نے اسے راستے کی ھدایت کر دی خواہ شکر گزار بنے اور خواہ ناشکرا
[9] ۔ أَوْفَرَ مِنْ شُكْرِي إِيّاكَ عَلَى مَا خَوّلْتَنِي ایضا ، دعاء۔ ۳۵
[10] ۔ حَمْداً نُعَمَّرُ بِهِ فِيمَنْ حَمِدَهُ مِنْ خَلْقِهِ ، وَ نَسْبِقُ بِهِ مَنْ سَبَقَ إِلَى رِضَاهُ وَ عَفْوِهِ ،ایضا ۱۲۔ ۱
[11] ۔ كَلَّآ اِنَّ الْاِنْسَانَ لَيَطْغٰٓى۔ ھرگز نھیں ! انسان تو یقینا سر کشی کرتا ہے۔اَنْ رَّاٰہُ اسْتَغْنٰى۔ اس بنا پر کہ وہ اپنے آپ کو بے نیاز خیال کرتا ہے۔
[12] ۔ وَ لَا تَذَرْنِي فِي طُغْيَانِي عَامِهاً ، وَ لَا فِي غَمْرَتِي سَاهِياً حَتَّى حِينٍ ، صحیفہ سجادیہ دعاء ، ۴۷ ۔
[13] ۔ وَ لَا تَجْعَلْنِي لِلظَّالِمِينَ ظَهِيراً ، ایضا
[14] ۔ يُرِيْدُ اللہُ اَنْ يُخَفِّفَ عَنْكُمْ۰ۚ وَخُلِقَ الْاِنْسَانُ ضَعِيْفًا[14]۔۔ اور اللہ تمہارا بوجھ ہلکا کرنا چاہتا ہے کیونکہ انسان کمزور پیدا کیا گیا ہے ۔ نساء ۵۵
[15] اللَّهُمَّ يَا كَافِيَ الْفَرْدِ الضَّعِيفِ ، وَ وَاقِيَ الْأَمْرِ الْمَخُوفِ ، أَفْرَدَتْنِي الْخَطَايَا فَلَا صَاحِبَ مَعِي ، وَ ضَعُفْتُ عَنْ غَضَبِكَ فَلَا مُؤَيِّدَ لِي أَشْرَفْتُ عَلَى خَوْفِ لِقَائِكَ فَلَا مُسَكّنَ لِرَوْعَتِي وَ مَنْ يُؤْمِنُنِي مِنْكَ وَ أَنْتَ أَخَفْتَنِي، وَ مَنْ يُسَاعِدُنِي وَ أَنْتَ أَفْرَدْتَنِي، وَ مَنْ يُقَوّينِي وَ أَنْتَ أَضْعَفْتَنِي لَا يُجِيرُ، يَا إِلَهِي، إِلّا رَبٌّ عَلَى مَرْبُوبٍ، وَ لَا يُؤْمِنُ إِلّا غَالِبٌ عَلَى مَغْلُوبٍ، وَ لَا يُعِينُ إِلّا طَالِبٌ عَلَى مَطْلُوبٍ.وَ بِيَدِكَ، يَا إِلَهِي، جَمِيعُ ذَلِكَ السّبَبِ، وَ إِلَيْكَ الْمَفَرّ وَ الْمَهْرَبُ، فَصَلّ عَلَى مُحَمّدٍ وَ آلِهِ، وَ أَجِرْ هَرَبِي، وَ أَنْجِحْ مَطْلَبِي،۔ صحیفہ سجادیہ ،دعاء ۲۱
[16] ۔ اللَّهُمَّ وَ إِنَّكَ مِنَ الضُّعْفِ خَلَقْتَنَا ، وَ عَلَى الْوَهْنِ بَنَيْتَنَا ، وَ مِنْ مَاءٍ مَهِينٍ ابْتَدَأْتَنَا ، فَلَا حَوْلَ لَنَا إِلَّا بِقُوَّتِكَ ، وَ لَا قُوَّةَ لَنَا إِلَّا بِعَوْنِكَ فَأَيِّدْنَا بِتَوْفِيقِكَ ، وَ سَدِّدْنَا بِتَسْدِيدِكَ ، وَ أَعْمِ أَبْصَارَ قُلُوبِنَا عَمَّا خَالَفَ مَحَبَّتَكَ ، وَ لَا تَجْعَلْ لِشَيْءٍ مِنْ جَوَارِحِنَا نُفُوذاً فِي مَعْصِيَتِكَ .اللَّهُمَّ فَصَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَ آلِهِ ، وَ اجْعَلْ هَمَسَاتِ قُلُوبِنَا ، وَ حَرَكَاتِ أَعْضَائِنَا وَ لَمَحَاتِ أَعْيُنِنَا ، وَ لَهَجَاتِ أَلْسِنَتِنَا فِي مُوجِبَاتِ ثَوَابِكَ حَتَّى لَا تَفُوتَنَا حَسَنَةٌ نَسْتَحِقُّ بِهَا جَزَاءَكَ ، وَ لَا تَبْقَى لَنَا سَيِّئَةٌ نَسْتَوْجِبُ بِهَا عِقَابَكَ .لَا أَمْرَ لِي مَعَ أَمْرِكَ، مَاضٍ فِيّ حُكْمُكَ، عَدْلٌ فِيّ قَضَاؤُكَ، وَ لَا قُوّةَ لِي عَلَى الْخُرُوجِ مِنْ سُلْطَانِكَ، وَ لَا أَسْتَطِيعُ مُجَاوَزَةَ قُدْرَتِكَ، وَ لَا أَسْتَمِيلُ هَوَاكَ، وَ لَا أَبْلُغُ رِضَاكَ، وَ لَا أَنَالُ مَا عِنْدَكَ إِلّا بِطَاعَتِكَ وَ بِفَضْلِ رَحْمَتِكَ. صحیفہ سجادیہ
[17] ۔ اِي أَصْبَحْتُ وَ أَمْسَيْتُ عَبْداً دَاخِراً لَكَ، لَا أَمْلِكُ لِنَفْسِي نَفْعاً وَ لَا ضَرّاً إِلّا بِكَ، أَشْهَدُ بِذَلِكَ عَلَى نَفْسِي، وَ أَعْتَرِفُ بِضَعْفِ قُوّتِي وَ قِلّةِ حِيلَتِي، فَأَنْجِزْ لِي مَا وَعَدْتَنِي، وَ تَمّمْ لِي مَا آتَيْتَنِي، فَإِنّي عَبْدُكَ الْمِسْكِينُ الْمُسْتَكِينُ الضّعِيفُ الضّرِيرُ الْحَقِيرُ الْمَهِينُ الْفَقِيرُ الْخَائِفُ الْمُسْتَجِيرُ. صحیفہ سجادیہ
[18] ۔ وَاِذَا مَسَّ الْاِنْسَانَ الضُّرُّ دَعَانَا لِجَنْۢبِہٖٓ اَوْ قَاعِدًا اَوْ قَاۗىِٕمًا۰ۚ فَلَمَّا كَشَفْنَا عَنْہُ ضُرَّہٗ مَرَّ كَاَنْ لَّمْ يَدْعُنَآ اِلٰى ضُرٍّ مَّسَّہٗ۰ۭ كَذٰلِكَ زُيِّنَ لِلْمُسْرِفِيْنَ مَا كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ ۔”جب انسان کو کوئی تکلیف پھنچتی ہے تو ھم کو لیٹے بیٹھے اور کھڑے کھڑے پکارنے لگتا ہے پھر جب اس کی وہ تکلیف اس سے دور کر دیتے ہیں تو پھر وہ اپنی پھلی حالت میں آ جاتا ہے گویا جو تکلیف اس کو پھنچی تھی اس کو دور کرنے کے لئے اس نے کبھی ھم کو پکارا ھی نہ تھا ، یونس ۱۲ ، اِذَا مَسَّہُ الشَّرُّ جَزُوْعًا جب اسے تکلیف پھنچتی ہے تو گھبرا اٹھتا ہے آسائش میں بخیل و کنجوس ۔ وَّاِذَا مَسَّہُ الْخَيْرُ مَنُوْعًا”جب اس کو برائی پھنچے تو وہ مضطرب ھو جاتا ہے اور جب اس کو بھلائی پھنچے تو وہ بخل کرنے لگتا ہے ۔ ۱۹ ۔ ۲۱ معارج )
[19]۔اللّهُمّ صَلّ عَلَى مُحَمّدٍ وَ آلِهِ، وَ لَا تَجْعَلْنِي نَاسِياً لِذِكْرِكَ فِيمَا أَوْلَيْتَنِي، وَ لَا غَافِلًا لِإِحْسَانِكَ فِيمَا أَبْلَيْتَنِي، وَ لَا آيِساً مِنْ إِجَابَتِكَ لِي وَ إِنْ أَبْطَأَتْ عَنّي، فِي سَرّاءَ كُنْتُ أَوْ ضَرّاءَ، أَوْ شِدّةٍ أَوْ رَخَاءٍ، أَوْ عَافِيَةٍ أَوْ بَلَاءٍ، أَوْ بُؤْسٍ أَوْ نَعْمَاءَ، أَوْ جِدَةٍ أَوْ لَأْوَاءَ، أَوْ فَقْرٍ أَوْ غِنًى. اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَ آلِهِ ، وَ اجْعَلْ ثَنَائِي عَلَيْكَ ، وَ مَدْحِي إِيَّاكَ ، وَ حَمْدِي لَكَ فِي كُلِّ حَالَاتِي حَتَّى لَا أَفْرَحَ بِمَا آتَيْتَنِي مِنَ الدُّنْيَا ، وَ لَا أَحْزَنَ عَلَى مَا مَنَعْتَنِي فِيهَا ۔، صحیفہ سجادیہ ، دعاء ۲۱
[20] ۔ قلْ لَّوْ اَنْتُمْ تَمْلِكُوْنَ خَزَاۗىِٕنَ رَحْمَۃِ رَبِّيْٓ اِذًا لَّاَمْسَكْتُمْ خَشْـيَۃَ الْاِنْفَاقِۭ وَكَانَ الْاِنْسَانُ قَتُوْرًا
کھہ د یجیے: اگر تم میرے رب کی رحمت کے خزانوں پراختیار رکھتے تو تم خرچ کے خوف سے انھیں روک لیتے اور انسان بھت (تنگ دل) واقع ھوا ہے ( اسراء ۴۸ )
[21] ۔ اللّهُمّ صَلّ عَلَى مُحَمّدٍ وَ آلِهِ، وَ لَا تَفْتِنّي بِمَا أَعْطَيْتَهُمْ، وَ لَا تَفْتِنْهُمْ بِمَا مَنَعْتَنِي فَأَحْسُدَ خَلْقَكَ، وَ أَغْمَطَ حُكْمَكَ. صحیفہ سجادیہ دعاء ۳۵
[22] ۔ للّهُمّ اجْعَلْ مَا يُلْقِي الشّيْطَانُ فِي رُوعِي مِنَ التّمَنّي وَ التّظَنّي وَ الْحَسَدِ ذِكْراً لِعَظَمَتِكَ، وَ تَفَكّراً فِي قُدْرَتِكَ، وَ تَدْبِيراً عَلَى عَدُوّكَ، وَ مَا أَجْرَى عَلَى لِسَانِي مِنْ لَفْظَةِ فُحْشٍ أَوْ هُجْرٍ أَوْ شَتْمِ عِرْضٍ أَوْ شَهَادَةِ بَاطِلٍ أَوِ اغْتِيَابِ مُؤْمِنٍ غَائِبٍ أَوْ سَبّ حَاضِرٍ وَ مَا أَشْبَهَ ذَلِكَ نُطْقاً بِالْحَمْدِ لَكَ، وَ إِغْرَاقاً فِي الثّنَاءِ عَلَيْكَ، وَ ذَهَاباً فِي تَمْجِيدِكَ، وَ شُكْراً لِنِعْمَتِكَ، وَ اعْتِرَافاً بِإِحْسَانِكَ، وَ إِحْصَاءً لِمِنَنِكَ صحیفہ سجادیہ ، دعاء ۲۰
[23] ۔ا ْلھٰىكُمُ التَّكَاثُرُ۔ ایک دوسرے پر فخر نے تمھیں غافل کر دیا ہے،۔۔ تکاثر ۱
[24] ۔ صحیفہ سجادیہ ، دعاء ۲۰
[25] ۔ ولَا تَرْفَعْنِي فِي النَّاسِ دَرَجَةً إِلَّا حَطَطْتَنِي عِنْدَ نَفْسِي مِثْلَهَا ، وَ لَا تُحْدِثْ لِي عِزّاً ظَاهِراً إِلَّا أَحْدَثْتَ لِي ذِلَّةً بَاطِنَةً عِنْدَ نَفْسِي بِقَدَرِهَا
صحیفہ سجادیہ دعاء ۲۰
[26] ۔ اِنَّہٗ كَانَ ظَلُوْمًا جَھوْلًا ، انسان یقینا بڑا ظالم اور نادان ہے ، احزاب ۷۲
[27] ۔ اللّهُمّ إِنّي أَعْتَذِرُ إِلَيْكَ مِنْ جَهْلِي، وَ أَسْتَوْهِبُكَ سُوءَ فِعْلِي، فَاضْمُمْنِي إِلَى كَنَفِ رَحْمَتِكَ تَطَوّلًا، وَ اسْتُرْنِي بِسِتْرِ عَافِيَتِكَ تَفَضّلًا.صحیفہ سجادیہ دعاء ،
[28] ۔ اِذَا مَسَّہُ الشَّرُّ جَزُوْعًا جب اسے تکلیف پھنچتی ہے تو گھبرا اٹھتا ہے
آسائش میں بخیل و کنجوس ۔ وَّاِذَا مَسَّہُ الْخَيْرُ مَنُوْعًا ”جب اس کو برائی پھنچے تو وہ مضطرب ھو جاتا ہے اور جب اس کو بھلائی پھنچے تو وہ بخل کرنے لگتا ہے ، لَا يَسْـَٔمُ الْاِنْسَانُ مِنْ دُعَاۗءِ الْخَيْرِ۰ۡوَاِنْ مَّسَّہُ الشَّرُّ فَيَــــُٔـــوْسٌ قَنُوْطٌ ۔ انسان آسودگی مانگ مانگ کر تو تھکتا نھیں لیکن جب کوئی آفت آجاتی ہے تو مایوس ھوتا ہے اور آس توڑ بیٹھتا ہے
[29] ۔ للَّهُمَّ لَكَ الْحَمْدُ عَلَى حُسْنِ قَضَائِكَ ، وَ بِمَا صَرَفْتَ عَنِّي مِنْ بَلَائِكَ ، فَلَا تَجْعَلْ حَظِّي مِنْ رَحْمَتِكَ مَا عَجَّلْتَ لِي مِنْ عَافِيَتِكَ فَأَكُونَ قَدْ شَقِيتُ بِمَا أَحْبَبْتُ وَ سَعِدَ غَيْرِي بِمَا كَرِهْتُ . وَ إِنْ يَكُنْ مَا ظَلِلْتُ فِيهِ أَوْ بِتُّ فِيهِ مِنْ هَذِهِ الْعَافِيَةِ بَيْنَ يَدَيْ بَلَاءٍ لَا يَنْقَطِعُ وَ وِزْرٍ لَا يَرْتَفِعُ فَقَدِّمْ لِي مَا أَخَّرْتَ ، وَ أَخِّرْ عَنِّي مَا قَدَّمْتَ . فَغَيْرُ كَثِيرٍ مَا عَاقِبَتُهُ الْفَنَاءُ ، وَ غَيْرُ قَلِيلٍ مَا عَاقِبَتُهُ الْبَقَاءُ ، وَ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَ آلِهِ صحیفہ سجادیہ ، دعاء ۱۸
[30] ۔ انسان در قرآن ص ۱۶
[31] ۔ ۔“( سورہ عصر ۱) انسان در قرآن ص ۱۶
[32] ۔ انسان در قرآن ص ۲۸ ۔
[33] ۔ انسان در قرآن ص ۲۹
۔ [34]۔ (أولٰئِکَ کَالأنعَامِ بَل ھم أَضَلُّ أولٰئِکَ ھُمُ الغَافِلونَ)''وہ لوگ جانوروں کی طرح ہیں بلکہ ان سے بھی بھت زیادہ گمراہ ہیں ، وہ لوگ بے خبر اور غافل ہیں ''( سورۂ اعراف ١٧٩)(انَّ شرَّ الدَّوَابِّ عندَ اللّہِ الّذِینَ کَفَرُوا فَھُم لایُؤمِنُونَ)''یقینا خدا کے نزدیک بدترین جانور وھی ہیں جو کافر ھوگئے ہیں پس وہ لوگ ایمان نھیں لائیں گے ''( انفال ٥٥)
[35] ۔ ولقد ذرانا لجھنم کثیرا من الجن والانس لھم قلوب لا یفقھون بھاولھم اعین لا یبصرون بھا ولھم آذان لا یسمعون بھا اولئک کالانعام بل ھم اضل”اور ھم نے بھت سے جن اور انسان دوزخ کے لئے پیدا کئے ان کا انجام جھنم ہے ان کے دل ہیں وہ ان سے سمجھتے نھیں اور آنکھیں ہیں وہ ان سے دیکھتے نھیں اور کان ہیں کہ وہ ان سے سنتے نھیں وہ ایسے ہیں جیسے چوپائے بلکہ وہ ان سے بھی زیادہ گمراہ ہیں۔“
صحیفہ سجادیہ کی روشنی میں انسان کا قرآنی تصوراورانسانی شناخت کے اشارے
- Details
- Written by admin
- Category: خاص موضوعات
- Hits: 1505