www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

یھاں پر اگر کوئی یہ کھے کہ اس کائنات کا پیدا کرنے والا مادہ ھے جیسا کہ بعض لوگ اس نظریہ کے قائل ھیں تو ھم ان سے یہ سوال کرتے ھیں کہ یہ مادہ کیسے پیدا هوا ؟اور اس کو کس نے پیدا کیا؟

ھمارے اس سوال کے جواب میں اھل مادہ کھتے ھیں:
”مادہ چونکہ پھلے سے موجود تھااور وہ ازلی ھے لہٰذا اس کے پیدا هونے اوراس کو پیدا کرنے والے کی ضرورت ھی نھیں“
 آج کل کے سائنس نے اس نظریہ کو بھت ھی آسان طریقہ سے ردّ کیا ھے ، کیونکہ سائنس نے یہ بات واضح کردی ھے کہ یہ کائنات ازلی نھیں هوسکتی، کیونکہ نظام کائنات کا دستور یہ ھے کہ گرم اجسام سے گرمی سرد اجسام کی طرف جاتی ھے اورذاتی طور پر اس کے برعکس نھیں هوتی، مثلاً گرمی ٹھنڈی چیزوں سے گرم چیزوں کی طرف منتقل هو، اس کے معنی یہ ھیں کہ اس کائنات میں تمام اجسام کا درجہ حرارت متعادل رہتا ھے اور اس میں معین طاقت جذب هوتی ھے ،اور اگر ایک روز ایسا آجائے کہ جب اس میں کیمیاوی اور طبیعی کارکردگی نہ هو، تو اس کائنات میں کوئی شی بھی زندہ باقی نہ بچے، جبکہ ھم دیکھ رھے ھیں کہ اس کائنات میں حیات باقی ھے تو اس کا مطلب یہ ھے کہ اس میں مختلف قسم کی کارکردگی هورھی ھے ، لہٰذا ھم یہ نتیجہ حاصل کرتے ھیں کہ یہ کائنات ازلی نھیں ھے اور اگر اس کو ازلی مان لیا جائے تو اس کائنات کی تمام موجودات کبھی کی ختم هوگئی هوتیں۔
چنانچہ آج سائنس نے ایسے آلات بنالئے ھیں جن کی وجہ سے زمین کی عمر کا پتہ لگایا جاسکتا ھے ، لیکن پھر بھی اس کے نتائج تخمینی هوتے ھیں لیکن ان سے یہ بات معلوم هوتی ھے کہ یہ کائنات کروڑوں اور اربوں سال پھلے ایجاد هوئی ھے، یعنی اس کا مطلب یہ ھے کہ یہ ازلی (ھمیشہ سے)نھیں ھے اور اگر ازلی هوتی تو اس میں کوئی بھی عنصر نہ پایا جاتا، چنانچہ قوانین ”ڈینا میکا حراری“ "Thermo Dynamics"کا قانون دوم بھی اسی بات کی تصدیق کرتا ھے۔
لیکن وہ نظریہ جوکہتا ھے کہ” یہ کائنات دوری“ ھے یعنی پھلے یہ کائنات سُکڑی هوئی تھی ، پھر پھیل گئی اور اس کے بعد پھر سُکڑ ے گی اوریہ سلسلہ اسی طرح جاری ھے۔
لیکن یہ نظریہ بھی درست نھیں ھے اور نہ ھی اس کی دلیل قابل قبول ھے نیز نہ ھی اس کو علمی نظریہ کھا جاسکتا ھے، کیونکہ ”قوانین ڈینا میکا حراری“ "Thermo Dynamics" ، دلائل فلکی اور جیولوجی"Geological" ان تمام چیزوں سے مذکورہ نظریہ کی تائید نھیں هوتی بلکہ یہ چیز اس جملہ کی تائید کرتی ھے کہ ”زمین وآسمان کو ابتداء میںخداوندعالم نے خلق کیا ھے“:
”لقد خلق الله فی البدایة السماوات والارض“
)بے شک خدا نے ھی زمین وآسمان کو ابتداء میں خلق کیا ھے۔)
اسی طرح یہ بے عیب سورج اور چمکتے هوئے ستارے اوریہ زمین اپنی تمام زندگی کے اسباب کے ساتھ بہترین دلیل ھے کہ اس کائنات کی اصل واساس ایک خاص زمانہ سے مربوط ھے جس کا مطلب یہ ھے کہ یہ بعد میں حادث هوئی (یعنی ازلی اور ھمیشہ سے نھیں ھے۔
اسی طرح علم کیمیا (کیمسٹری)بھی دلالت کرتا ھے کہ تمام مادے زوال اور فنا کی طرف بڑھ رھے ھیں چاھے ان کی رفتار تیز هو یا کم، لہٰذا اس سے یہ ثابت هوتا ھے کہ مادہ ھمیشہ باقی نھیں رھے گا ،اور نہ ھی یہ مادہ ازلی تھا پس اس مادہ کی بھی کوئی ابتداء تھی کہ جب یہ وجود میں آیا ، چنانچہ اس بات پر علم کیمیا اور سائنس بھی دلالت کرتے ھیںکہ مادہ کی ابتدا ء تدریجی نھیں بلکہ یہ اچانک اور یکایک پیدا هوا ھے ،لہٰذا سائنس کے ذریعہ اس کے پیدا هونے کا وقت معین کیا جاسکتا ھے ، تو پھر ان تمام چیزوں سے یہ بات واضح هوتی ھے کہ یہ عالَمِ مادی مخلوق ھے اور یہ جب سے خلق هوا ھے تو اسی وقت سے خاص قوانین کے تحت ھے اور کائنات کے قوانین کے ساتھ محدود ھے جس میں کوئی اتفاقی عنصر نھیں پایا جاتا۔
 تقریباً سوسال پھلے روس کے ایک ماھر ”مانڈلیف“ نے ایسے کیمیاوی عناصر مرتب کئے جو ذرات کے وزن کو ترتیب دوری کے لحاظ سے بڑھادیتے ھیں ،اور اس نے ایسے عناصر کا پتہ لگایا ھے جن کے ذریعہ مادہ کی ایک نئی قسم ایجاد هوتی ھے جس کی صفات تقریباً ایک دوسرے کے مشابہ هوتی ھیں، تو کیا ان تمام باتوں کو دیکھ کر یہ کھا جاسکتا ھے کہ یہ کائنات تصادفی اور اتفاقی طور پر پیدا هوگئی ھے؟!!
بتحقیق ”مانڈالیف“ کے کشفیات کو ”مصادفہ دوری“ کا نام نھیں دیا جاسکتا، البتہ اسے”قانون دوری“ "Periodic Law"کھا جاسکتا ھے۔
کیا یہ ممکن ھے کہ ان کو مصادفہ اور اتفاق کا نام دیدیں جیسا کہ ماھرین سائنس کا درج ذیل نظریہ:
عنصر ”الف“ ،عنصر ”ب“ کے ذریعہ متاثر هوتا ھے لیکن عنصر ”الف“ ،عنصر ”ج“ کے ذریعہ متاثر نھیں هوتا۔؟!
نھیں ھرگز نھیں! کیونکہ سائنسدانوں کا یہ ماننا ھے کہ اس کائنات کے تمام عنصر ”الف“ ،وعنصر ”ب“ میں قوت جاذبہ اور رجحان هوتا ھے لیکن یہ طاقت عنصر”ج“ میں نھیں هوتی۔
چنانچہ ماھر سائنسداںافراد کا ماننا ھے ھلکے معادنی ذرات اور پانی کے درمیان سرعت تفاعل معادنی ذرات کے اوزان کی زیادتی کی وجہ سے بڑھتی رہتی ھے ، اس حال میں کہ عناصر ”ھالوجینیہ “ جو جدا هوئے ھیں ان کی گردش ،مذکورہ گردش کے بالکل مخالف هوتی ھیں، اور آج تک بھی اس مخالفت کا سبب کسی کو معلوم نہ هوسکا، اس کے باوجود بھی کسی بھی شخص نے اس چیز کو محض مصادفہ کا نام نھیں دیا ھے، اور نہ کسی نے یہ گمان کیا ھے کہ ان عناصر کی مذکورہ گردش کبھی کبھی ایک دو مادہ کے بعد معتدل هوجاتی ھے، یا زمان ومکان کے اختلاف کی بناپر معتدل هوجاتی ھے، اور نہ ھی کسی کے دل میں یہ خیال آیا کہ یہ تمام ذرات بنفسہ کبھی کبھی اپنے تفاعل سے خارج هوجاتے ھیں، یا برعکس فعالیت کرنا شروع کردیتے ھیں یا بغیر کسی سوچے سمجھے اپنی فعالیت انجام دیتے ھیں۔
سائنس نے ترکیب ذرات کوکشف کیا ھے کہ کیمیا کی وہ فعالیت جو ھم مشاہدہ کرتے ھیں اور ان کی خاصیت کو ملاحظہ کرتے ھیں یہ سب کے سب، خاص قوانین کے تحت هوتے ھیں جن میں تصادفی اور اتفاقی کوئی چیز نھیں ھے۔
تاکہ ھم نامعلوم ذرات کے ذریعہ اس واضح نظریہ کو اخذ کریںکہ ھم یہ تصور کریں کہ اگر ”ھیڈروجن“ "Hydrogen"کے کروڑوں ذرات ایک جگہ جمع هوجائےں تو ایک ملی میڑ(m.m)جگہ میں جمع هوجاتے ھیں۔
بالفرض اگر ھم پیاسے هو ں اور ھم پانی پئیں تو جو پانی ھم پیتے ھیں تو اس میں کچھ ریت کے ذرات هوتے ھیں کیونکہ سمندر اور زمین میں هونے کی وجہ سے پانی میں مٹی کے ذرات پائے جاتے ھیں۔
اور کبھی کبھی یہ ذرات بہت ھی باریک باریک پتھر سے تشکیل پاتے ھیںجو بالکل ذرہ کے برابر هوتے ھیں۔
اور یہ ذرہ ایک نوات ( بہت ھی باریک پتھر )سے وجود میں آتا ھے کیونکہ یہ نوات باریک پتھر سے بنتے ھیں، چنانچہ ان میں کے بعض پروٹن هوتے ھیں اور بعض نیوٹرن ، جبکہ ان کے اردگرد ایک بعید فاصلہ پر الکٹرون گردش کرتی ھے۔
چنانچہ سائنسدانوں نے اس نظام میں بہت سی چیزوں کو کشف کیا ھے جن کی اب تک ۳۰/ قسموں کاپتہ چل چکا ھے جن میں سے بعض وہ ھیں جن کو ھم نے ابھی ذکر کیا ھے جیسے ”پروٹن“، ”نیوٹرون“ اور ”الکٹرون“۔"Proton","Neutron", "Electron"۔
اور ماھرین کا کہنا ھے کہ ”الکٹرون“ کے چکّر ایک سیکنڈ میں ۷بلین"Billion" )ملین در ملین) هوتے ھیں۔
جبکہ بعض ذرات ایسے هوتے ھیں جو ایک دوسرے میں جذب هوجاتے ھیں اور بعض ذرات کی خاصیت یہ ھے کہ وہ ایک دوسرے سے دور بھاگتے ھیں چونکہ ذرات کے بھی کچھ قوانین ھیں جو انسان میں شادی اور طلاق کے قوانین سے دقیق تر ھیں۔
اسی طرح ھم جس نمک کو مختلف غذاؤں میں استعمال کرتے ھیں اس کے دو جز هوتے ھیں جو ایک ساتھ رہتے ھیں اور اگر اس کے یہ دو جز ایک ساتھ نہ هوں تو پھر ان میں کا ھر ایک جزء جسم میں فساد اور خرابی ایجاد کردیتا ھے، کیونکہ نمک میں دو درج ذیل چیزیں هوتی ھیں:
۱۔”کلورائیڈ“ "Chloride" جو ایک قسم کی گیس هوتی ھے جس کو اگر کوئی زندہ حیوان سونگ لے تو وہ موت کے گھاٹ اتر جائے۔
۲۔” سوڈیم“ "Sodium"جو ایک نرم عنصر هوتا ھے جو پانی کو خشک کردیتا ھے اور اس کے اندر سے دھواں اور شعلے نکلتے ھیں یہ بھی اگر کسی کے بدن میں داخل هوجائے تو وہ بھی مرجائے ، لیکن یھی دونوں زھریلی اور خطرناک چیزیں جب آپس میں مل جاتی ھیں تو نمک بن جاتاھے جس کے بعد نہ نقصان دہ هوتا ھے اور نہ شعلہ ور۔
اسی طرح پانی کے بھی تین اجزاء هوتے ھیں جس طرح سے اسلامی قوانین کے مطابق انسان کو یہ اختیار ھے کہ وہ ایک، دو تین یا چار بیویوں سے (ایک وقت میں) شادی کرسکتا ھے اسی طرح ذرات کا قانون بھی ھے پس جب ”کلورائیڈ“ ”سوڈیم“ سے ملتا ھے تو ھمارے لئے نمک بن جاتا ھے گویا یہ کلورڈ ایک ذرہ سے ملا ھے، اسی طرح جب آکسیجن،"Oxygen"، ھیڈروجن"Hydrogen" کے دو ذروں سے ملتا ھے تو پانی بنتا ھے، اور جب ”نیٹروجن“ تین ذروں سے ملتا ھے تو ”امونےا“نامی گیس بنتی ھے (جس کا مزہ منھ جلانے والا هوتا ھے جو بے رنگ اور تیز مزہ رکھتی ھے) اور جب ”کاربن“ "Carbon" ھیڈروجن"Hydrogen"کے چار ذروں سے ملتا ھے تو ”میٹھن“ "Methane"نامی گیس بنتی ھے۔
اسی طرح بعض عناصر ایسے ھیں جو انفرادی طور پر رہتے ھیں اور ان میں کے بعض ذرات کے نام اس طرح ھیں: ”نیون“ اور ”راڈون“(جو دونوںگیس ھیں)
جیسا کہ آپ حضرات نے ملاحظہ کیا کہ عالم ذرات بھی کتنا عجیب ھے جس میں مختلف فائدہ مندجزئیات هوتے ھیں اور یہ ھماری زمین پر اس طرح ایک دوسرے سے مرتبط ھیں کہ انسان تصور کرنے سے قاصر ھے ، بس ایسے سمجھ لیجئے کہ جس طرح کسی بھی زبان کے حروف (جیسے عربی زبان میں حروف تہجی کی تعداد ۲۸/ ھے) کو ایک دوسرے سے ملاتے جائیں، ان سے کلمات بنتے جائیں تب آپ دیکھیں کہ کتنے عنصر بنتے ھیں حقیقت تو یہ ھے کہ لاکھوں او ر کروڑوں کی تعداد هوجائے گی۔
مثال کے طور پر یھی تین چیزیں:
۱۔ کاربن۔"Carbon" ۔
۲۔آکسیجن"Oxygen" ۔
۳۔ ھیڈروجن"Hydrogen"۔ کو اگر ایک دوسرے سے ملائیں تو لاکھوں کیمیائی مرکب تیار هوسکتے ھیں جن میں سے ھر ایک کی الگ الگ خاصیتیں هونگی۔
جیسا کہ ماھرین کا کہنا ھے کہ انسانی جسم کے مختلف پروٹن"Protein"کی اتنی قسم ھیں جن کی تعداد دسیوں لاکھ تک پهونچتی ھے جبکہ پروٹن"Protein"، کاربن"Carbon"، ھیڈروجن"Hydrogen" اور آکسیجن،"Oxygen" کے بغیر وجود میں نھیں آتی۔اور کبھی کبھی پروٹن کے ساتھ ”فاسفور"Phosphore" اور ”کاربرائڈ“"Carbide"هوتے ھیں اور کبھی نھیں هوتے۔
اسی طریقہ سے ھمارے لئے حیات کے تمام جزئیات واضح هوتے جاتے ھیں اوریہ جزئیات حیات اسی طریقہ سے جاری وساری ومتحدو منفصل (جدا) هوتے جاتے ھیں، چنانچہ اس زندگی کے تمام جزئیات کے ادوار اور اس کے اتحاد وانفصال کی تمام صورتیں ایک معین اور معلوم مقدار کے مطابق رواں دواں ھے نہ اس میں کمی هوتی ھے نہ زیادتی، کیونکہ ھرحالت کے لئے ایک قطعی قانون اور محکم نظام هوتا ھے ۔
کیا کوئی صاحب عقل اور مفکر انسان یہ سوچ سکتا ھے کہ عقل وحکمت سے خالی مادہ اپنے آپ کو خود بخود اچانک وجود میں لے آئے؟! یا یہ مجرد مادہ پھلے اس کائنات کے قوانین ونظام کا موجداور پھر ان قوانین کو اپنے اوپر لاگوبھی کردے یعنی پھلے ان قوانین کو اس مادہ نے ایجاد کیا اورپھر یہ مادہ ان قوانین کے ماتحت هوجاتا ھے؟!!
بلا شبہ ھر صاحب عقل کا جواب یھاں نفی میں هوگا، بلکہ مادہ جب طاقت میں تبدیل هوتا ھے یا مادہ میں طاقت آتی ھے تو یہ تمام چیزیں معین قوانین کے تحت هوتی ھیں، اور وہ مادہ جو وجود میں آیا ھے وہ بعد میںان قوانین کا محکوم هوتاھے یعنی اس پر معین قوانین لاگو هوتے ھیں۔
اور جب ھمارا یہ مادی عالم اپنے جیسا( عالم) خلق کرنے یا ایسے قوانین تعین کرنے سے، (جو اس کے زیر اثر هوں)عاجز ھے تو پھر ضروری ھے کہ اس عالم کی خلقت ایک ایسے موجود کے ذریعہ وجود میں آئے جو مادہ کے علاوہ هو۔
چنانچہ ھماری اس بات کی تائید قوانین حرارت کرتے ھیں، اور ھم انھیں کے ذریعہ طاقت میسورہ اور طاقت غیر میسورہ کے درمیان فرق محسوس کرتے ھیں،اور بتحقیق یہ بات ظاھر ھے کہ جب کوئی بھی حرارت متغیر هو توطاقت میسورہ کا ایک معین جز طاقت غیر میسورہ میں تبدیل هوجاتا ھے، جبکہ یہ بات بھی واضح ھے کہ طبعیات میں یہ تغییر و تبدیلی اس کے برخلاف نھیں هوتی،اور یہ” ڈینا میکا حرارتی قوانین“ "Thermo Dynamics"کا دوسرا قانون ھے۔
اور جب یہ بات طے هوگئی کہ مادہ ازلی نھیں ھے بلکہ حادث ھے (جیسا کہ تفصیل گذر چکی ھے) تواس کے لئے کسی محدث کا هونا ضروری ھے،کیونکہ کوئی بھی چیز اپنے کو پیدا نھیں کرسکتی ،بلکہ یہ بات عقلی طور پر محال ھے کہ کوئی شے اپنی موجد هو۔
پس نتیجہ یہ نکلا کہ مادہ کا خالق اور موجد خداوندعالم کے علاوہ کوئی دوسر انھیں هوسکتا۔
صدفہ نظریہ کے دلائل اور اس کی رد
اگر ھم تھوڑی دیر کے لئے یہ فرض کرلیں کہ” تطورمادہ“ (حرکت مادہ) بر بناء صُدفہ ھے،تو ھمیں تسلیم کرنا پڑے گا کہ یہ مصادفت (اتفاق) موجودات عالم کے لئے بمنزلہ سبب ھے، اور کوئی بھی عقل اس بات کو قبول نھیں کرسکتی۔
چنانچہ علم طبیعات کے ماھر ڈاکٹر ”نوبلٹشی“کہتے ھیں:
”میں کبھی بھی یہ تصور نھیں کرسکتا کہ صرف مصادفت (اتفاق) الکٹرون پھلے پروٹن کے لئے مظھر هو یا پھلے ذرات، یاپھلے احماض الامینیةیا پروٹوپلازم الاول"Protoplasm 1st" یا بذرة اولیٰ یا عقل اول کے لئے مظھر هو !! بلکہ میرا عقیدہ تو یہ ھے کہ ان تمام چیزوں کا مظھر اور مفسر واجب الوجود اللہ کی ذات ھے جو کائنات کی تمام اشیاء پر محیط ھے۔
 مصادفہ اور احتمال کا نظریہ ریاضی"Mathe matical" لحاظ سے تفصیلی طور پر گذر چکاھے ، جس کی بنا پر ھم بعض چیزوں کے بارے میں اتفاقی وجودکے قائل هوئے کہ جن کی تفسیر اس کے علاوہ کوئی نھیں هوسکتی لیکن مذکورہ بحث کے مطالعہ سے اس بات پر قادر هوجاتے ھیں کہ ھم ان اشیاء کے درمیان اتفاقی اور غیر اتفاقی اشیاء کے درمیان فرق کرلیں، لہٰذا اب ھم یھاں پروہ بحث بیان کرتے ھیں جس میں مادہ کو منشاء حیات قرار دیا گیاھے۔
چنانچہ بلا شبہ یہ بات طے شدہ ھے کہ اساسی مرکبات کے پروٹن"Protein" تمام زندہ خلیے"Cells"پانچ عناصرسے مرکب هوتے ھیں:
۱۔ کاربن"Carbon"۔
۲۔ ھیڈروجن"Hydrogen"۔
۳۔ نیٹروجن"Nytrogen"۔
۴۔ آکسیجن،"Oxygen" ۔
۵۔کبریت( سلفور)"Sulfur"
اور پروٹن کے ایک جز میں ۰۰۰’۴۰ذرات پائے جاتے ھیں، اور اب تک سائنس نے ۱۰۲/ عناصر کا پتہ لگایا ھے توکیا ان کی تقسیم ایک اتفاقی اور تصادفی ھے،اورجب یہ پانچ عناصر ایک جگہ جمع هوتے ھیں تو پروٹن کا ایک جز بنتا ھے ، لہٰذا جب اس پروٹن کے ایک جز کے لئے اتنا دقیق حساب درکار ھے تو اس مادہ کے لئے جو تمام چیزوں کا لازمہ ھے اس میں ان ذرات کا حساب کس قدر دقیق هونا چاہئے۔
جیسا کہ سویسی ریاضی داں ”ٹشالزیوجن“ نے ا ن تمام اسباب کا حساب وکتاب پیش کیا ھے، چنانچہ وہ کہتا ھے کہ اس کائنات کا صدفةً اور اتفاقی پیدا هونے کا احتمال اربوں اور کھربوں میں سے صرف ایک احتمال ھے ، کیونکہ اس نے اس طرح حساب کیا ھے کہ اگر عدد ۱۰/ کو ۱۰میں ۱۶۰/ مرتبہ گنا کیا جائے تو اربوں کھربوں اور پدم وغیرہ سے بھی بڑی رقم بنی گی جس کو الفاظ میں بیان کرنا مشکل ھے تو اس رقم میں سے صرف ایک احتمال پایا جاتا ھے اور پھر کائنات کے لئے مادہ کی آزمایش کے لئے ملیونوں بار آزمائش کی ضرورت پڑی گی کیونکہ صرف زمین پر موجود پروٹن کے ایک جز کے لئے اربوں کھربوں سال کی ضرورت پڑے گی جس کا حساب مذکورہ دانشمند نے اس طرح کیا کہ عدد ۱۰کو ۱۰میں ۲۴۳بار گنا کیا جائے تو یہ رقم تو گذشتہ رقم کے لاکھوں گنا هوجائے گی جس کو بیان کرنے کے لئے انسان کے پاس الفاظ نھیں ھے ، مطلب یہ ھے کہ ان تمام حساب وکتاب کے پیش نظر اس کائنات کو اتفاقی کی پیدا وار کہنے کی کوئی صورت نھیں ھے، کیونکہ زمین کی پیدائش کا اندازہ لگایا لیا گیا ھے لیکن اس اعتبار سے ہزاروں برابر سال درکار ھیں تاکہ صرف زمین پر موجودات اس اعتبار سے پیدا هوں۔
اور اگر ھم مذکورہ قاعدہ سے تھوڑا تنزل کریں اور ”ھیموغلوبین“ "Hemogbobin" کے ذرات کو دیکھیں جو کہ خون میں لال رنگ کے هوتے ھیں (جبکہ ڈاکٹروں کا کہنا ھے کہ یہ پروٹن"Protein" کی ترکیب کا سب سے کم درجہ ھے) تو ان میں ”کاربن“ "Carbon"کے ۶۰۰/متحد ذروں سے بھی زیادہ پائیں گے جن میں ھیڈروجن"Hydrogen"کے ۱۰۰/ ذروں سے کم نھیں هوتے اور نیٹروجن کے ۲۰۰/ ذروں سے زیادہ هوتے ھیں اسی طرح آکسیجن،"Oxygen" کے بھی ۲۰۰/ ذروں سے زیادہ هوتے ھیں یھاں تک کہ انسان میں ۲۵/ٹریلین (25,000,000,000,000,000,000,)) خون کے دائرے هوتے ھیں۔
اسی طرح علم کیمیا کے ماھر ڈاکٹر” بوھلڑ “ کہتے ھیں:
اورجس وقت انسان، قوانین مصادفہ (اتفاقی نظریہ) کو ملاحظہ کرتا ھے تاکہ اس بات کا اندازہ لگائے کہ کائنات کے کسی ایک پروٹن کے کسی ایک جز کا اتفاقی هونا کھاں تک درست ھے، تو معلوم هوتا ھے کہ زمین کی عمر تقریباً تین بلین(ملیون در ملیون) (3,000,000,000,000,000,) سال یا اس سے بھی زیادہ ھے لیکن اس طویل مدت سے یہ ظاھر هوتا ھے کہ یہ کائنات اتفاقی نھیں ھے۔
 مذکورہ باتوں کے پیش نظر یہ بات ثابت ھے کہ یہ پروٹن"Protein" زندگی دہندہ کیمیاوی مواد ھیں اور ان میں زندگی نھیں پائی جاتی مگر جب تک ان میں وہ عجیب وغریب راز ودیعت نہ کیا جائے جس کی حقیقت کو ھم نھیں پہچانتے۔
بتحقیق اساسی مواد میں جن میں"Hydrogen","Oxygen","Carbon", کے ساتھ کچھ عناصر نیٹروجن اور دیگر عناصر پائے جاتے ھیں تو ان کے لئے ملیونوں ذرات پائے جاتے ھیں تب ایک چھوٹا سا مواد بنتا ھے ، اور جب ھم اس سے بڑے جسم والے مواد کو دیکھتے ھیں تو اس ذرات کی بنا پر مصادفہ (اتفاقی) نظریہ کا بہت کم احتمال باقی بچتا ھے جس کو عقل انسانی سوچنے کے لئے بھی تیار نھیں هوتی اور اس کو ماننے سے انکار کردیتی ھے ۔
چنانچہ مذکورہ گفتگو کے پیش نظر ”علوم اکاڈمی نیویورک“ کے صدر استاد ”کرس موریسن“ وضاحت کرتے ھیں:
”فرض کریں کہ آپ کے ایک تھیلے میں پتھر کے ۱۰۰عدد ٹکڑے ھیں جن میں ۹۹/کالے ھیں اور ایک سفید ھے،اور ان کو آپس میں ملالیںاس کے بعد اگر آپ تھیلے میں ھاتھ ڈال کر ان میں سے سفید پتھر نکالنا چاھیںتو اس سفید پتھر کے نکلنے کا احتمال ایک فیصد ھے، اسی طرح اگر آپ اس کے بعد دوبارہ پتھر نکالنا شروع کریں تو بھی سفید پتھر کے نکلنے کا احتمال ایک ھی فیصد رھے گا لیکن اگر اسی کام کو دومرتبہ لگاتار نکالیں تو اس کا احتمال دس ہزار میں سے ایک ھے اور اگر تیسری مرتبہ لگاتار نکالنا چاھےں تو اس کا احتمال دس لاکھ میں سے ایک ھے، اور اگر اس کے بعد اس کام کو چار بار لگاتار نکالیں تو رقم زیادہ هوجائے گی، کیونکہ ھر بار اس عدد کو اسی میں گنا کیا جائے گا، مثلاً ۱۰۰گنا ۱۰۰دس ہزار هوتے ھیں اسی طرح اگر تین بار لگاتار نکالنا چاھیں تو دس ہزار دس ہزار میں گنا کیا جائے گا جس سے دس لاکھ بن جائے گا، تو جتنی مرتبہ میں آپ اس سفید پتھر کو نکالنا چاھیں تو اس عدد کو اسی میں گنا کرتے چلے جائیں گے ، اور اس سفید پتھر کے نکلنا کا چانس گھٹتا چلا جائے گا۔
چنانچہ اس طریقہ کار سے ھمارا مقصد یہ ھے کہ ھم اپنے قارئین کو علمی اورواضح طریقہ سے ان دقیق حدود کو بیان کریں جن کے ذریعہ زمین پر زندگی بسرکرنا ممکن ھے اور حقیقی برھان کے ذریعہ زندگی حقیقی کے تمام مقومات کو ثابت کریں اور یہ بتائیں کہ کسی بھی وقت میں کوئی ایک ستارہ صرف صدفہ اور اتفاقی طور پر پیدا نھیں هوا ھے۔
کیونکہ جب ھم عالم مادی کی طرف دقت سے دیکھتے ھیں تو ھمیں معلوم هوتا ھے کہ چھوٹے سے چھوٹا ذرہ اور بڑے سے بڑاایٹم ، ان میں خاص قوانین اور حساب وانضباط پایا جاتا ھے۔
یھاں تک کہ الکٹرون بھی ایک مدار سے دوسری مدار کی طرف نھیں جاتے جب تک کہ وہ ان کو اس طرح کی مساوی طاقت نہ مل جائے تاکہ وہ ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل نہ هوجائے، گویا ایک مسافر کی طرح ھے کہ جب تک اس کو زاد راہ نہ دیا جائے وہ سفر نھیں کرسکتا۔
چنانچہ ستاروں کی پیدائش اور ان کی موت کے بھی خاص قوانین اور اسباب ھیں۔
ستاروں کے گھومنے میں طاقت متعادل ھے۔
اسی طرح مادہ ایک طاقت میں تبدیل هوتا ھے اور سورج کے جسم کو نور معادلة کی طرف روانہ کرتا ھے۔
اسی طرح نور کے لئے بھی ایک معین رفتار ھے۔
اسی طرح ھر موج کے لئے طول هوتا ھے اور حرکت کرنے والی طاقت بھی اور اس کی معین رفتار بھی۔
جیساکہ ھر معادن کے لئے کچھ ایسے مقناطیسی واضح اجزاء وخطوط هوتے ھیں جن کے ذریعہ سے یہ معادن گردشی سسٹم میں قابل شناخت ھیں۔
اسی طرح ھر معدن اپنی خاص مقدار میں هوتا ھے اس میں گرمی او ر سردی خاص مقدار میں هوتی ھے اسی طرح ھر معدن کے لئے ضخامت اور بدن اور خاص وزن هوتا ھے۔
چنانچہ ”اینش ٹن“ نے یہ ثابت کیا ھے کہ ھر معادن کے جسم اور اس کی رفتار میں خاص تناسب ھے ، اسی طرح زمانہ اور نظام حرکت جو ایک متحرک مجموعہ ھے اس میں اور زمان ومکان میں رابطہ پایا جاتا ھے۔
جس طرح بجلی بھی خاص قوانین کے تحت پیدا هوتی ھے۔
اسی طرح زلزلہ جس کے بارے میں کھا جاتا ھے کہ یہ بے قانونی کی وجہ سے حادث هوتا ھے لیکن یہ بھی ایک خاص نظام کے تحت هوتا ھے۔
اسی طرح کرہ زمین کا حجم اور اس کی سورج سے دوری ، اسی طرح سورج کی گرمی اور اس کی شاعیں جن کی وجہ سے مختلف چیزوں کو حیات ملتی ھے ، اسی طرح زمین کا اوپری حصہ، نیزپانی کی مقدار ، اور ”ڈائی آکسائیڈ کاربن ثانی“"Carbon Dioxide"اسی طرح نایٹروجن کا حجم ، اور انسان کی پیدائش اور اس کا زندگی بھر باقی رہنا، یہ تمام کی تمام (کسی کے )ارادے اور قصد پر موقوف ھیںاور جیسا کہ معلوم هوا ھے کہ یہ تمام چیزیںدقیق اور باریک حساب کے تحت هوتے ھیں ،توکیا ان سب کا اتفاقی طور پر پیدا هونا ممکن ھے؟!!
لیکن مادی لوگوں نے اتفاقی نظریہ کو ثابت کرتے هوئے کھا ھے:
”بالفرض اگر حروف ابجد سے ایک صندوق بھرا هوا هو جس کی ترتیب وتنظیم کو لاکھوں اور کروڑوں مرتبہ لاتعداد صدیوں میں انجام دیا گیا هو ، اس صورت میں کوئی مانع پیش نھیں آتا کہ ھم ایک منظوم قصیدہ کے نظم ونسق وترتیب کو صرف ایک دفعہ میں جدا کردیں، چنانچہ اس صورت میں قصیدہ کے حروف کی دوبارہ ترتیب میں صرف ھم کو ایک عمل کرنا پڑے گا اور وہ عمل وھی ھے جو ھم نے قصیدہ کی ترتیب وتنظیم کے جدا کرنے میں انجام دیا تھا، پس ترتیب جدا کرنے میںھم کو صرف ایک عمل (مصادفت)کے علاوہ اور کسی چیز کی ضرورت نھیں هوئی۔
اسی طریقہ سے ھمارا یہ عالم مادی جس کے بارے میں بہت سی ممکنہ مصادفات (اتفاقات) ھماری عقل میں آسکتی ھیں چنانچہ گذشتہ مثال کی طرح ھم عالم مادی میں بھی یھی طریقہ اپنا سکتے ھیں یعنی عقل اس بات سے منع نھیں کرتی کہ ھم اس نظام میں متعدد پائے جانے والے اتفاقات میں سے ایک اتفاق کو جدا کرلیں، اور یہ عالم مادہ چاھے عالَم جماد هو یا عالم حیات۔“
لیکن ان کے قول کو ردّ کرنے کے لئے مذکورہ مثال کی تحلیل کرنا ھی کافی ھے، جس میں چند احتمالات پائے جاتے ھیں:
۱۔سب سے پھلے ھمارے پاس ایسے حروف هونا ضروری ھے جن سے قصیدہ کھا جاسکتا هو، ان میں سے نہ ایک حرف کم هو اور نہ زیادہ۔
۲۔ ان حروف کومنظم ومترتب کرنے والی طاقت کا هونا بھی ضروری ھے۔
۳۔ اس طاقت کا باقی رہنا تاکہ نظم وترتیب هوتی رھے اور بیچ میں متوقف نہ هو۔
۴۔ ایسی بافھم قوت کا هونا ضروری ھے جو قصیدہ تمام هونے پر تنظیم وترتیب کی حرکت کو موقوف کردے۔
چنانچہ ان چاروں احتمالات میں ان کے دعویٰ کو باطل کرنے والی دلیل موجود ھے۔
پھلے فرضیہ میں ھم یہ سوال کریں گے کہ مذکورہ حروف جن کو ترتیب دیا گیا کس طرح پیدا هوئے؟ اور مادہ مختلف اجزاء میں کس طرح تقسیم هوا اور اس طرح کے نتائج کیسے برآمد هوئے؟ اس کے بعد اس تقسیم کے لئے کس طرح اتحاد کی قابلیت پیدا هوئی؟!
دوسرے فرضیہ میں ھم یہ سوال کریں گے
وہ کونسی طاقت ھے کہ جس کے تحت یہ ترتیب وتنظیم انجام پائی اور کیا یہ عقلی طور پر صحیح ھے کہ یھی حروف بذات خود اس بات کی صلاحیت رکھتے هوں کہ وہ خود بخود محرک هوکر کوئی قصیدہ بن جائیں؟
تیسرے فرضیہ میں ھم یہ سوال کرتے ھیں کہ اگر ھم یہ فرض کرلیں کہ حروف کے درمیان ایک قوت محرکہ پائی جاتی ھے جو تنظیم وترتیب کاکام انجام دیتی ھے لیکن سوال یہ پیدا هوتا ھے کہ آیا وہ کونسی طاقت ھے جو اس قوت محرکہ کو اثنائے حرکت میں رکنے نھیں دیتی، کیا اس قوت محرکہ کے پاس اس حرکت کو مسلسل جاری رکھنے کا ادراک پایا جاتا ھے؟!
چوتھے فرضیہ میں ھمارا سول یہ ھے کہ وہ طاقت کونسی ھے جس نے اس قصیدہ کے تمام هونے پر اس قوہ محرکہ کے استمرار کو روک دیا،اور پھریہ قوت کیوں اس کام کو مسلسل جاری رکھنے سے متوقف هوگئی؟!
"إِنَّ اللهَ یُمْسِکُ السَّمَاوَاتِ وَالْاٴَرْضَ اٴَنْ تَزُولاَوَلَئِنْ زَالَتَا إِنْ اٴَمْسَکَہُمَا مِنْ اٴَحَدٍ مِنْ بَعْدِہِ إِنَّہُ کَانَ حَلِیمًا غَفُورًا "[1]
”بے شک خدا ھی سارے آسمان اور زمین اپنی جگہ سے ہٹ جانے سے روکے هوئے ھے اور اگر (فرض کرو کہ) یہ اپنی جگہ سے ہٹ جائیں تو پھر اس کے سوا انھیں کوئی نھیں روک سکتا بے شک وہ بڑا بردبار (اور) بڑا بخشنے والا ھے۔“
گذشتہ مطالب کے پیش نظریہ بات واضح هوچکی ھے کہ مذکورہ نظریہ کو نہ تو منطق قبول کرتی ھے اور نہ ھی عقل تسلیم کرتی ھے،چنانچہ یہ تمام احتمالات اس بات پر دلالت کرتے ھیں کہ ایک ایسی قوت کا هونا ضروری ھے جو ازلی ، ابدی ، ھمیشگی اور صاحب عقل هو،
اور اسی نے اس عظیم کائنات کو بغیر کسی اضطراب و اتفاق کے مرتب و منظم طریقہ سے خلق کیا ھے ۔
ھم نظریہ صدفہ کے باطل هونے کے سلسلے میں مزید عرض کرتے ھیں:
اگر ھم بدون حیات مادہ میں حیات کا تصور کریں تو ھماری عقل دوچیزوں میں سے ایک چیز کو قبول کرتی ھے اور اس میں کسی تیسری چیز کا تصور نھیں:
۱۔ یا تو حیات مادہ کی خصوصیات اور لوازم میں سے ھے تو پھر اس صورت میں حیات کی خلقت کے لئے خالق مرید کی کوئی ضرورت نھیں!
۲۔ یا پھر حیات کا کوئی خالق ھے۔
پس اگر کوئی یہ کھے کہ حیات اورزندگی مادہ کی خاصیتوں میں سے ھے تو ھم اس سے یہ کھیں گے کہ اس صورت میں مادہ ازلی اور ابدی ھے جس کا اول وآخر نھیں ھے اور وہ ازل سے اپنی تمام خصوصیات کے ساتھ موجود ھے، اور اس کی خصوصیات اس کے ساتھ ھیں چاھے جھاں بھی رھے۔
لیکن اس صورت میں یہ کھنا غلط هوگا کہ فلاں ستارہ پیدا هوا اور فلاں ستارہ پیدا نھیں هوا کیونکہ حیات کی تمام خصوصیات کا بغیرکسی اثر کے اربوں سال تک باقی رھنے کا کوئی مقصد نھیں ھے کہ حیات ایک زمانے کے بعد ظاھر هو جس کا تاریخ نے اربوں سال کا حساب کیا ھے لہٰذا اس جگہ سوال یہ پیدا هوتا ھے کہ حیات اتنے طولانی عرصے کے بعد کیوں ظاھر هوئی جبکہ حیات کے خصوصیات ازل سے موجود ھیں؟!!
اور اگر ھم یہ فرض کرلیں کہ حیات کا مادہ ازلی ھے تو اب سوال یہ در پیش ھے کہ یہ اتفاق(صدفہ) سے پیدا هوکر دائمی کسیے هوگئی؟ اوریہ اتنی طولانی مدت کھاں رھی ؟ یھاں تک کہ وہ یکایک بغیر کسی ارادہ وقصد کے وقوع پذیرهوگئی ؟!!
پس ان تمام باتوں سے یہ ثابت هوا کہ ھم اس دوسرے فرضیہ کو صحیح مانیں کہ اس مجرد(بدون حیات) مادہ کے لئے ظهور حیات ایک خالق ازلی، مریداور صاحب اختیار سے وجود میں آئی ھے جو اس کے ظهور کے لئے زمانہ معین کرتا ھے اور جس جگہ رکھنا چاھے رکھتا ھے ،پس اسی نے اس کائنات کو اپنے ارادہ اور حکمت سے خلق کیا ھے، اور اسی کا نام اللہ تبارک وتعالیٰ ھے۔
زمین پر حیات کی شروعات
ھم اپنی بات کو تمام کرنے سے پھلے اس سوال کا جواب دینا اپنے لئے ضروری اور مناسب سمجھتے ھیں :زمین پر زندگی کا آغاز کیسے هوا؟ اور کیا اس حیات کی اصل سورج هوسکتا ھے؟!
لہٰذا ھم اس سوال کے جواب میں یہ عرض کرتے ھیں کہ حیات اور زندگی کیا ھے؟ کیا یہ حجم والی چیز ھے یا وزن دار مادہ؟ یا یہ ان دونوں چیزوں سے مل کر تشکیل پاتی ھے؟
حیات ایک ایسا اثر ھے جس کا ایک زندہ خَلیہ" Cell "میں مشاہدہ کیا جاسکتا ھے وہ بھی ٹلسکوپ"Telescope" وغیرہ کے ذریعہ، لہٰذا جب یہ معمولی اور سب سے چھوٹا نقطہ جو ”پروٹو پلازم“ "Protoplasm"سے مخلوط هوتا ھے اور اس میں زندگی کے آثار پائے جاتے ھیںجو هوا میں سے"Carbon Dioxide2th"خورشید سے حاصل کرتا ھے ، اور پانی سے"Hydrogen", نکلتا ھے چنانچہ ان دونوں چیزوں سے اس کی غذا فراھم هوتی ھے جس کے ذریعہ وہ رشد ونموکرتا ھے۔
چنانچہ ماھرین نے ”پروٹو پلازم“ "Protoplasm"کو بارھا مختلف وسائل اور مختلف زمانے میں خلق کرنا چاھالیکن سب ناکام رھے اور اسی وجہ سے خدا پر ایمان میں اضافہ هوا جو ان تمام خلیوں کا خالق ھے کیونکہ مخلوقات اپنی کو نھیں بناسکتی۔
چنانچہ یھی واحد زندہ خلیہ جو حیات کا واحد عنصر ھے جس کی بنا پر یہ کائنات وجود میں آئی تو کیا یہ پھلا خلیہ خود بخود اچانک پیدا هوگیا یا اس کو کسی نے خلق کیا ھے؟!
 زندگی کی ابتداء کے بارے میں مختلف قسم کے نظریات پائے جاتے ھیں جن میں سے بعض افراد نے یہ کھاھے کہ حیات ”پروٹوجن “یا ”فیروس“ سے شروع هوئی ھے یا ”پروٹن“ کے وجود سے شروع هوئی ھے جبکہ بعض لوگوں کا یہ بھی گمان ھے کہ ان نظریات نے اس میدان کا دروازہ بند کردیا جس سے عالم جماد اور عالم حیات میں فرق پیدا هوتا ھے ۔
جبکہ حقیقت تو یہ ھے کہ مذکورہ کسی بھی نظریہ میں اتنی صلاحیت نھیں ھے کہ ان کو قبول کرلیا جائے کیونکہ ان کی دلیلیں بہت کمزور ھیں ۔
ان تمام کے باوجود جو شخص بھی خدا کے وجود کا انکار کرتا ھے وہ کوئی ایسی علمی دلیل پیش کرنے سے قاصر ھے کہ تمام ذرات جمع هوکر اتفاقی طور پر زندگی کے اسباب بن گئے ، کیونکہ خلیوں میں ھر ایک خلیہ اتنا دقیق ھے کہ ھماری سمجھ میں آنا مشکل ھے اور اس کائنات میں اربوں، کھربوں خلیہ موجود ھیں جو اپنی زبان بے زبانی سے خدا کی قدرت کی گواھی دے رھے ھیں، جن پر عقل وفکر اور منطق دلالت کررھی ھیں۔
اسی طرح حیات کی یہ تعریف کرنا کہ یہ ایک کیمیاوی نشاط ھے ، یہ تعریف بھی قابل قبول نھیں کیونکہ مردہ جسم میں بھی کیمیاوی مادہ پایا جاتاھے، اسی طریقہ سے خود مٹی میں بھی لوھا، تانبا اور کاربن نکلتا ھے۔
اسی طرح یہ کہنا کہ جنسی خواہشات ” تستوسترون ھارمون“"Testosterone Hormone"کی وجہ سے هوتا ھے ،لیکن اس کے بھی کوئی معنی نھیں ھےں کیونکہ ھم یہ کہتے ھیں اسHormoneمیں یہ فاعلیت اور خاصیت کس نے عطا کی؟!!
اسی طریقہ سے وہ لوگ جو کہتے ھیں کہ عالم نباتات کی حرکت سورج مکھی کے پھول کی طرح ھے جس میں ”ھارمون اکسین“ "Hormone Auxin." کا کردار هوتاھے اورھمیشہ اسی طرح یہ پھول سورج کی طرف گھومتا رہتا ھے اور اس میں کوئی مشکل ایجاد نھیں هوتی۔
لہٰذا ھم یھاں پر یہ سوال کرتے ھیں کہ وہ کونسی طاقت ھے جس نے مادہ کو اس طرح کی تاثیر عنایت کی جو نباتات میں اسی طرح کیمیاوی عناصر کو پهونچاتی ھے۔؟
کیونکہ ابھی تک خلیہ میں کیمیاوی ترکیب نے ھمارے اوپر راز حیات کو واضح نھیں کیا ھے کیونکہ حیات صرف مجرد منظومہ اور جامد مثلاً مکان نھیں ھے بلکہ یہ تو حیات منظومہ صاحب حیات ھے جس میں ایک طاقت هوتی ھے جن کے اندر ایسی قدرت هوتی ھے جس کے ذریعہ وہ ہدایت کرتا ھے اور ایک ایسی فطرت ھے جس میں تنظیم و ترتیب کی صلاحیت هوتی ھے۔
اسی طرح سائنس کا ایک نظریہ یہ بھی ھے کہ یہ ھماری زمین سورج سے جدا هوئی ھے اور جس وقت یہ سورج سے جدا هوئی ،اس وقت اس کی گرمی سورج کے برابر تھی اور ھمارے فرض کے حساب سے اس کا درجہ حرارت ، سورج کے اس وقت کی گرمی کے برابر ھے اور چونکہ ملیونوں سال سے اس کی گرمی میں کمی واقع هورھی ھے۔
لہٰذا اس وقت اس کی سطح کی گرمی (۶۰۰۰) درجہ ھے ، لیکن اس کے اندر کا درجہ حرارت چالیس ملین (چار کروڑ) درجہ ھے، اور جب اس زمین نے ان گیسوں کو حاصل کرناشروع کیا جو سورج سے جدا هوئیں تھیں تو یہ زمین سطح ارض پر ٹھنڈی هونے لگی اور پانی جب زمین کے اس حصے سے مس هوا جو مرتفع اور حرارتی تھا تو یہ پانی فضا کی جانب بخار کی شکل میں جانے لگا کہ جس کا درجہ قابل تصور نہ تھا پس یہ پانی اس فضا کے مقابل قرار پایا جو سورج اور زمین کے درمیان ٹھنڈی تھی اس کے بعد یہ زمین کی طرف ھلاک کنندہ طوفان کی طرح واپس هوا، اور آہستہ آہستہ جب اس میں درجہ حرارت کم هوا تو پانی ایک جگہ رک گیا اور کھیں سمندر کی شکل میں اور کھیں منجمد هوکر پھاڑوںکی شکل میں ظاھر هوا۔
اور اگر کرہ ارضیہ کے بارے میں یہ فرضیہ صحیح هو تو پھر ذرا اس زندہ خلیہ کے بارے میں فکر کریں جس کے بارے میں کھا جاتا ھے کہ یہ زمین کے ساتھ سورج سے جدا هوا ھے، تو پھر یہ کیسے ممکن ھے کہ ۶۰۰۰/ درجہ حرارت میں کس طرح باقی رہ سکتا ھے ، اگرچہ یہ خلیے غلاف شدہ ھی کیوں نہ هوں۔
کیونکہ انسان کا درجہ حرارت ۳۷/درجہ هوتا ھے لیکن جب مریض هوتا ھے تو یہ درجہ حرارت ۴۰/درجہ تک پهونچ جاتا ھے ، اور جب پانی کا درجہ حرارت سوپر پهونچ جاتا ھے تو وہ بخار بن جاتا ھے، اور اس صورت میں ہزارواں درجہ کفایت کرے گا کیونکہ یہ درجہ ھر شے کو گیس کا درجہ بنادیتا ھے اس صورت میں کوئی بھی سخت سے سخت چیز پگھل جاتی ھے، پس اگر یہ درجہ حرارت ۶۰۰۰/پر پهونچ جائے توپھر اس کائنات کا کیا حال هوگا؟!!
لہٰذا علم وعقل دونوں اس بات پر متفق ھیں کہ سورج کے جدا شدہ خلیہ کے ذریعہ حیات کا آغاز هونا محال اور ناممکن ھے، لہٰذا اس کے لئے ضروری ھے کہ ایک خالق حیّ هو جو زمین پر مخلوقات کو پیدا کرے۔
چنانچہ ایک مشهور ومعروف ماھر ”غوسٹاف بونیہ“ کا یہ قول کتنا بہترین ھے:
”اگرھم نے زندہ مادہ کو خلق کیا ھے تو پھر یہ فکر کرنا کیسے ممکن ھے کہ کتنے ھی اجتماعی ،وراثتی اور پیچیدہ پیش آنے والے خصائص ”پروٹوپلازم حیّ“کے ٹکڑے میں پائے جاتے ھیں۔؟“
 ان تمام باتوں کی تفصیل کے بعد ھم یھاں ایک یہ اھم سوال کرنا چاہتے ھیں:
”یہ پھلی موجود جس میں پھلے حیات نہ تھی کھاں سے آئی؟ اور کس طرح مختلف حالات میں تبدیل هوئی؟ جبکہ اس میں پھلے کبھی حیات نہ تھی۔کیا یہ عدم سے وجود میں آگئی؟ یا مردہ مادہ سے پیدا هوئی؟!!
اور کس طرح ایک مردہ شے سے زندہ چیز بن سکتی ھے اور وجود، عدم سے کیسے بن سکتا ھے۔؟“
اس سوال کا جواب سائنس کے پاس مفروضوں اور تخمینوں کے علاوہ اور کچھ نھیں ھے۔
مثلاً ایک صاحب کہتے ھیں کہ یہ پھلی مخلوق ، آسمان سے شھاب( بجلی) کے ذریعہ نازل هوئی ھے ، یعنی جب بہت ھی دوری پر موجود ستاروں سے شھاب جداهوئے تو ان کے ذریعہ یہ زندگی وجود میں آئی۔
اس کاجواب تو خود ھمارے سوال کی طرف پلٹ رھا ھے ، یعنی ھم پھر سوال کرتے ھیں کہ یہ پھلی مخلوق ان دوردراز ستاروں میں کھاں سے آئی؟
چنانچہ ایک اور ماھرسائنس کہتا ھے کہ یہ حیات مردہ مادہ کے ذرات کی ترتیب سے وجود میں آئی ھے ، اور اس نظریہ پر ھماری دلیل یہ ھے کہ زندہ مادہ، مردہ عناصر سے وجود میں آتا ھے جیسا کہ ھم دیکھتے ھیں ھمارے اردگرد موجود پتھر ، پانی اور مٹی جیسے عناصر کے ذریعہ یہ مادہ تشکیل پاتا ھے اوریہ ذرات کاربن، ھیڈروجن، آکسیجن اور نیٹروجن"Hydrogen","Oxygen", "Carbon", "Nytrogen" ھی سے مادہ بنتا ھے چنانچہ ھم انھیں کو ترتیب دے کر دوبارہ دوسرے مادہ بناسکتے ھیں اور کبھی ان میں ”امینہ“ پروٹن ، نشویات اور سوگر کا اضافہ کرتے ھیں تو ایک نیا مادہ تشکیل پاتا ھے، اور یہ فرضیہ میں کافی نھیں ھے بلکہ اس پر کچھ تجربات کئے جانے ضروری ھیں جس میں بجلی اور شعائیں هوتی ھیں اور جس میں مختلف قسم کی گیس هوتی ھیں جیسے نوشادر آکسیڈ کاربن ،"CarbonDioxide" ”میٹھن“ "Methane" اور پانی کے بخارات کے فعل وانفعالات کے بعد آثار احماض امینیہ پیدا هوتے ھیں۔
”احماض امینیہ“ (کڑوی گیس) جو ایک دودھ جیسی گیس هوتی ھے جس کا تمام زندہ چیزوں میں هوناضروری ھے اور جب ان احماض کو آپس میں ملایا جاتا ھے تو ایک دوسری قسم کی پروٹن بن جاتی ھے ، یھاں تک کہ ان کو آپس میں ملانے سے کروڑوں قسم کی پروٹن بن سکتی ھیں جس طریقہ سے کسی زبان کے الفابیٹ کے ذریعہ سے مختلف کلمات بنتے جاتے ھیں تاکہ ان سے مختلف مفاھیم ومعانی حاصل کریں، اور یہ نتیجہ بخش پروٹن ھمیشہ حرارت وبرودت (ٹھنڈک) روشنی اور بجلی کے لئے اھم مواد هوتے ھیںپس یہ پرو ٹن مرکب هوکر دوسری خارجی چیزوں کے بننے کے باعث هوتے ھیںتب جاکے جوھرحیات کی صفت بنتے ھیں۔
جبکہ زمین کو تقریباً کروڑوں سال هوچکے ھیں اور مختلف تجربے هوتے رہتے ھیںاور اس مرکب ”احماض امینیہ“ کے بے مثال تجربہ هوچکے ھیںاور یہ احماض امینیہ پانی میں اپنے جوھر کے ساتھ گھُل جاتے ھیں تاکہ پروٹن کے لاکھوں مواد کوتشکیل دے، اور ضروری ھے کہ یہ احماض امینیہ ایک مرتبہ جب بے مثال گیس ( حامض دیزوکسی ربیونیوکلئیک) "D.N.A" سے ملتے ھیں اور اسی جز سے ”فیروس“ بنتا ھے۔
یہ تمام مفروضوں کا مجموعہ تھا جو ایک دوسرے سے ٹکراتے ھیں۔
چنانچہ ماھرین کا کہنا ھے کہ قانون صدفہ ھماری تائید کرتا ھے، جیسا کہ اگر کمپیوٹر پر بیٹھ کر ایک بندر کی بورڈ کے بٹن کو بہت ھی دقت سے دباتا چلا جائے تو کیا اس کے لکھنے سے کسی مشهور شاعر کا شعر بن سکتا ھے؟!!!ھر گز نھیں ، چاھے سالوں بیٹھ کر لکھتا رھے لیکن کبھی بھی اس کا یہ کام نتیجہ بخش نھیں هوسکتا۔
چنانچہ ماھرین کا کہنا کہ احماض امینیہ اپنی ھیئت مخصوص"D.N.A" پر باقی رہتا ھے تب کھیں منفرد مادہ اپنے اوپر تسلط پیداکرتا ھے اور پھر یہ منفرد مادہ اپنے مخصوص طریقوں کے ذریعہ تکاثر پیدا کرتا ھے اور اس کے ذریعہ بذر حیات برقرار رہتا ھے۔
بالفرض اگر ھم جدلی طریقہ سے قبول کریں اور فرض کریں کہ مٹی اور پانی کے عناصر بغیر کسی علت کے صدفةً اور اتفاقاً(D.N.A) حامض کے لحاظ سے پیدا هوتے ھیں ۔
اس کے بعد اس(D.N.A) سے مختلف لاکھوں چیزیں بننے کا سبب بنتا ھے۔
لیکن ان تمام چیزوں میں وہ حیات نھیں ھے جس کا ھم مشاہدہ کرتے ھیں۔
پس ضروری ھے کہ ھم پلٹ کر یہ کھیں کہ اس حامض کے اجزاء بھی اتفاقاً اور صدفةً هونے چاہئے تاکہ ان سے پروٹن وجود میں آئیں۔
اس کے بعد پروٹن بھی اتفاقاً خلیہ کے شکل میں ایجاد هونے چاہئے۔
پھر یہ خلےے بھی اپنی ذات میں خود بخود اور اتفاقی طور پر پیدا هوکر نباتی شکل اختیار کریں اور پھر دوسرا خلیہ انسانی شکل کو پیدا کرے۔
اس کے بعد ھم زندگی کی تمام کڑیوں کودرجہ بدرجہ ملاتے جائیں ،تو اس جادوئی کلید (کنجی)کا مطلب یہ بھی هوگاکہ یہ بھی صدفةً اور اتفاقی طور پر پیدا هوا ھے؟!
لیکن کیا یہ عقل میں آنے والی باتیں ھیں:
کیااتفاقی طور پر پرندے اور مچھلیوں کااپنے گھروں سے لاکھوں میل فاصلہ پر چلے جانے کے باو جود اپنے گھروں میں واپس آجانا اتفاقی ھے؟!!
کیا یہ بھی اتفاق ھے کہ مرغی کا بچہ انڈے کو توڑ کر خود بخودباھر نکل جائے!!
کیا زخم کا خود بخود ٹھیک هوجانا یہ بھی اتفاق ھے!!
کیا یہ بھی اتفاق ھے کہ ”سورج سے جدا شدہ اجزا“ اس بات کا ادراک رکھتے ھیں کہ ان کی حیات کا ملجاء وماویٰ سورج ھے تاکہ وہ اس کی اتباع کریں!!
کیا یہ بھی اتفاق ھے کہ جنگل اور پھاڑوں میں درخت خود بخود اگ جائیں ۔!!
کیا یہ بھی اتفاق ھے کہ”فیروس“ خلیہ کو کشف کرتا ھے اوراس سے اپنی حیات حاصل کرتا ھے۔
کیا یہ بھی اتفاق ھے کہ نباتات اپنے لئے ”کلوروفیل“ "Chlorophill"کشف کرتے ھیں اور اس کو استعمال کرتے ھیں تاکہ ان کی حیات باقی رھے۔
کیا یہ بھی اتفاق ھے کہ مچھر بڑی هوشیاری سے پانی پرتیرے اور وھاں انڈے دے اور پانی پر تیرتا رھے اور ھلاک نہ هو۔!!
کیا یہ بھی اتفاق ھے کہ چیونٹی اپنے اندرمو جود زھر کو محفوظ رکھے اور اپنے بچوں کو دی جانے والی غذا میں اسے نہ ملائے ۔ کیا یہ اتفاق کی ناؤ ریت پر چل سکتی ھے!!
اسی طرح شہد کی مکھی اتنے منظم طریقہ سے شہد کو جمع کرتی ھے، مختلف پھولوں سے رس چوستی ھے اور اس کو شہد میں تبدیل کرتی ھے اور اس کے موم سے شمع بنائی جاتی ھے کیا یہ بھی اتفاق ھے۔!!!
اسی طرح زمین پر رینگنے والے حشرات (کیڑے مکوڑے) فضا میں موجود قوانین کو سمجھتے ھیں اور اسی کے تحت اپنی زندگی چلاتے ھیں کیونکہ بہت سے کیڑے صرف برسات کے موسم میں نکلتے ھیں ، کیا یہ بھی اتفاق ھے!!!
اسی طرح رنگ برنگے حشرات جو اپنے اندر ایسی صلاحیت رکھتے ھیں جو ان کے رنگ سے مطابقت رکھتے ھیں۔
اسی طرح وہ حشرات جو بہت سی زھریلی گیس بناتے ھیں اورفضا میں چھوڑتے ھیں، کیا یہ بھی اتفاق ھے ؟!!
 اگر ھم ان تمام باتوں کو تسلیم کرلیں کہ یہ حیات بھی اتفاقی طور پر وجود میں آئی ھے تو ھم کیسے مان سکتے ھیں کہ یہ مذکورہ تمام چیزیں اتفاقی طور پر وجود میں آگئی ھیں۔!!
چنانچہ ان تمام بے هودہ باتوںکو عقل انسانی تسلیم نھیں کرسکتی۔
اور جب مادہ پرستوں نے اپنے کواتفاق(صدفہ)کی اس کشمش میں پایا تو اس سے چھٹکارا پانے کے لئے صدفہ (اتفاق) کی جگہ ایک دوسرا لفظ رکھا اور اس طرح کھا کہ یہ ھماری حیات (جو مختلف الوان واقسام سے مزین ھے) ایک ضرورت کے تحت پیدا هوئی جس طرح ایک بھوکا انسان غذا تلاش کرتا ھے اور مختلف غذا فراھم کرتا ھے اسی طرح ھماری زندگی میں مختلف ضروریات پیش آتی رھی اور ھمارے سامنے بہت سی چیزیں وجودمیں آتی گئیں!!۔
 آپ نے ملاحظہ فرمایا کہ یہ سب الفاظ کے ساتھ کھلواڑ کرنے کے علاوہ اور کچھ نھیں ھے ،کیونکہ انھوں نے لفظ ”صدفہ “(اتفاق) کی جگہ ” ضرورت کے تحت “ رکھا ! ۔
یہ کیسے تصور کیا جاسکتا ھے کہ ایک چھوٹا سا واقعہ بغیر کسی عقل کی کارکردگی کے ایک بہت بڑا واقعہ بن جائے؟!! لہٰذا یھاں سوال یہ پیدا هو تا ھے کہ ”ضرورت“ کو کس نے پیدا کیا؟۔
اور یہ” ضرورت“ ”لاضرورت“ سے کیسے وجود میں آئی؟!!
کیونکہ یہ سب چیزیں حقیقت کو چھپانے والی ھیں جس کا عقل انسانی اور فطرت بدیھی طور پر انکار کرتی ھیں پس معلوم یہ هوا کہ ان تمام چیزوں کا خالق ایک مدبر اور حکیم ھے۔
پس ھم ان زور گوئی والی باتوںکو بغیر دلیل کے کس طرح قبول کرسکتے ھیں؟!!
ھم کیسے ان محالات کو قبول کرسکتے ھیں؟!! تاکہ واضح حقائق کی پردہ پوشی هوجائے جو کہ ھماری بدیھی فطرت میں شامل ھیں اور ھم ان کا مشاہدہ کررھے ھیں۔!! اور اگر ھم ان تمام چیزوں کی بداہت کو جھٹلائیں تو پھرگویا ھم نے عقل کو بیچ ڈالا ،!! کیونکہ یہ تمام چیزیں منطقی اور عقلی بدیھیات میں سے ھیں۔ اگر ھم ان تمام چیزوں کا انکار کریں تو گویا ھم نے اپنی عقل کو بالائے طاق رکھدیا حالانکہ ھم اپنے کو بہت بڑاعاقل اور علامہ سمجھتے ھیں۔
چنانچہ علم طبیعیات کے مشهورو معروف ماھر ڈاکٹر ”کونجڈن“کہتے ھیں: ”کائنات میں موجود ھر شے خدا کے وجود ، اس کی قدرت اور اس کی عظمت پر دلالت کرتی ھے ، اور جب ھم اس کائنات کی چیزوںکو ملاحظہ کرتے ھیں تو ھمیں نعمت خدا کے علاوہ اور کچھ نظر نھیں آتا ،پس خدا ھی کی ذات ھے جس نے کائنات میں ان نعمتوں کو ھماری خدمت کے لئے خلق کیا ، لہٰذا ھم کسی مادی علمی وسیلہ سے خدا کو نھیں پہچان سکتے، لیکن ھم اپنے اندر اور کائنات کے ذرہ ذرہ میں خدا کی نشانیاں واضح طور پر دیکھتے ھیں: خلاصہ یہ کہ یہ علوم ، مخلوقات اور خدا کی قدرت کے علاوہ اور کسی چیز کا پتہ نھیں دے سکتے۔ چنانچہ خداوندعالم کا ارشاد هوتا ھے:
"ذَلِکُمْ اللهُ رَبُّکُمْ لاَإِلَہَ إِلاَّ هو خَالِقُ کُلِّ شَیْءٍ فَاعْبُدُوہُ وَهو عَلَی کُلِّ شَیْءٍ وَکِیلٌ "[2]
”)لوگو) وھی اللہ تمھارا پروردگار ھے اس کے سوا اور کوئی معبود نھیں وہ ھر چیز کا پیدا کرنے والا ھے تو اسی کی عبادت کرو اور ھی ھر چیز کا نگھبان ھے ۔(
" هو الَّذِی جَعَلَ الشَّمْسَ ضِیَاءً وَالْقَمَرَ نُورًا وَقَدَّرَہُ مَنَازِلَ لِتَعْلَمُوا عَدَدَ السِّنِینَ وَالْحِسَابَ مَا خَلَقَ اللهُ ذَلِکَ إِلاَّ بِالْحَقِّ یُفَصِّلُ الْآیَاتِ لِقَوْمٍ یَعْلَمُونَ"[3]
”وھی وہ (خدائے قادر) ھے جس نے آفتاب کو چمکدار اور ماہتاب کو روشن بنایا اور اس کی منزلیں مقرر کیں تاکہ تم لوگ برسوں کی گنتی اور حساب معلوم کرلو، خدا نے اسے حکمت ومصلحت سے بنایا ھے وہ اپنی آیتوں کو واقف کار لوگوں کے تفصیل وار بیان کرتا ھے۔“
"اللهُ الَّذِی خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْاٴَرْضَ وَاٴَنزَلَ مِنْ السَّمَاءِ مَاءً فَاٴَخْرَجَ بِہِ مِنْ الثَّمَرَاتِ رِزْقًا لَکُمْ وَسَخَّرَ لَکُمْ الْفُلْکَ لِتَجْرِیَ فِی الْبَحْرِ بِاٴَمْرِہِ وَسَخَّرَ لَکُمْ الْاٴَنہَارَ۔ وَسَخَّرَ لَکُمْ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ دَائِبَیْنِ وَسَخَّرَ لَکُمْ اللَّیْلَ وَالنَّہَارَ۔ وَآتَاکُمْ مِنْ کُلِّ مَا سَاٴَلْتُمُوہ۔۔۔"[4]
”خدا ھی ایسا (قادر وتوانا) ھے جس نے آسمان وزمین پیدا کرڈالے اورآسمان سے پانی برسایا پھر اس کے ذریعہ سے (مختلف درختوں سے) تمھاری روزی کے واسطے (طرح طرح کے) پھل پیدا کئے اور تمھارے واسطے کشتیاں تمھارے بس میں کردیں تاکہ اس کے حکم سے دریا میں چلیں اور تمھارے واسطے ندیوں کو تمھارے اختیار میں کردیا اور سورج چاند کو تمھارا تابعدار بنادیا کہ سدا پھیری کیا کرتے ھیں او ررات دن کو تمھارے قبضہ میں کردیا (کہ ھمیشہ حاضر باش رہتے ھیں) اور( اپنی ضرورت کے موافق) جو کچھ تم نے اس سے مانگا اس میں سے بقدر مناسب تمھیں دیا ۔۔۔“
"اٴَلاَلَہُ الْخَلْقُ وَالْاٴَمْرُ تَبَارَکَ اللهُ رَبُّ الْعَالَمِین"[5]
”دیکھو حکومت او رپیداکرنا بس خاص اسی کے لئے ھے۔“
حوالہ:
[1] سورہ فاطر آیت ۴۱۔
[2] سورہ انعام آیت۱۰۲۔
[3] سورہ یونس آیت۵۔
[4] سورہ ابراھیم آیت ۳۲تا۳۴۔
[5] سورہ اعراف آیت۵۴۔
 

Add comment


Security code
Refresh