س۴۶۰۔ رمضان المبارک میں ھمارے گاوٴں میں موذن ھمیشہ صبح کی اذان وقت سے چند منٹ پھلے ھی دیتا ھے تاکہ لوگ درمیان اذان یا اذان ختم ھونے تک کھانے پینے سے فارغ ھولیں۔ کیا یہ عمل صحیح ھے؟
ج۔ اگر اذان کی آواز لوگوں کو شبھہ میں مبتلا نہ کرے اور وہ طلوع فجر کے اعلان کے عنوان سے نہ ھو تو اس میں کوئی اشکال نھیں ھے۔
س۴۶۱۔ بعض اشخاص امربالمعروف اور نھی عن المنکر کے فریضہ کی انجام دھی کے لئے وہ اجتماعی صورت میں عام راستوں میں اذان دیتے ھیں اور خدا کا شکر ھے کہ اس اقدام سے علاقے میں کھلم کھلا فسق و فساد روکنے میں بڑا اثر ھورھا ھے اور عام لوگ خصوصاً جوان اول وقت نما زپڑھنے لگے ھیں؟
لیکن ایک صاحب کھتے ھیں کہ : یہ عمل شریعت اسلامی میں وارد نھیں ھوا ھے ، یہ بدعت ھے، اس بات سے شبھہ پیدا ھوگیا ھے ، آپ کا کیا نظریہ ھے؟
ج۔ روزانہ کی واجب نمازوں کے اول اوقات میں نماز کے لئے اذان دینا اور سامعین کی طرف سے اسے بلند آواز سے دھرانا مستحبات میں سے ھے جن کی شریعت نے تاکید کی ھے اور سڑکوں کے کناروں پر اجتماعی صورت میں اذان دینے میں اگر یہ عمل بے حرمتی یا راستہ روکنے اور دوسروں کی اذیت کا سبب نہ ھو تو کوئی حرج نھیں ھے۔
س۴۶۲۔ چونکہ اذان دینا عبادی ، سیاسی عمل ھے اور اس میں عظیم ثواب ھے لھذا مومنین نے یہ طے کیا ھے کہ وہ لاوٴڈ اسپیکر کے بغیر واجب نماز کے وقت خصوصاً نماز صبح کے لئے اپنے اپنے گھروں کی چھت سے اذان دیں گے(لیکن) سوال یہ ھے کہ اگر اس عمل پر بعض ھمسایہ اعتراض کریں تو اس کا کیا حکم ھے؟
ج۔ عام طور پر جس طرح اذان دی جاتی ھے اس طرح مکان کی چھت سے اذان دینے میں کوئی اشکال نھیں ھے بشرطیکہ اس سے دوسروں کو تکلیف نہ پھنچے اور نہ ھمسایوں کے گھروں کی طرف نگاہ اٹھائی جائے۔
س۴۶۳۔رمضان المبارک میں اذان صبح کو چھوڑ کر مسجد کے لاوڈ اسپےکر سے سحری کے مخصوص پروگرام نشر کرنے کا کےا حکم ھے تاکہ سب لوگ جاگ جائیں ؟
ج۔ رمضان المبارک کی راتوں میں جھاں اکثر لوگ تلاوت قرآن مجید، دعائیں پڑھنے اور دینی و مذھبی مراسم میں شرکت کے لئے بیدار رھتے ھیں وھاں اس میں کوئی حرج نھیں ھے لیکن اگر یہ مسجد کے ھمسایوں کی تکلیف کا موجب ھو تو جائز نھیں ھے۔
س۴۶۴۔ کیا اذان صبح سے قبل مساجد اور مراکز سے بھت بلند آواز میں جس کی آواز کئی کلومیٹر تک پھنچے قرآنی آیات اور دعاوٴں کو نشر کرکے دوسروں کو زحمت میں مبتلا کرنا صحیح نھیںھے۔
ج۔رائج طرےقہ کے مطابق نماز صبح کے وقت کے داخل ھونے کے اعلان کے لئے لاوڈ اسپےکر سے اذان دےنے میں کوئی حرج نھیں ھے لےکن لاوڈ اسپےکر کے ذرےعے مسجد سے آےت قرآنی اور دعاوٴں وغےرہ کا کسی بھی وقت نشر کرنا اگر ھمساےوں کےلئے تکلےف کا باعث ھے تو اس کےلئے شرعاً کوئی جواز نھیں بلکہ اس میں اشکال ھے اور بنےادی طور پر آےات قرآنی کی تلاوت اور دعاوٴ ں کو نشر کرکے دوسروں کو زحمت میں مبتلا کرنا صحےح نھیںھے ۔
س۴۶۵۔ کیا اپنی نما زکے لئے مرد عورت کی اذان پر اکتفا کرسکتا ھے؟
ج۔ عورت کی اذان پر اکتفا کرنا بعید نھیں ھے اگر اس کے تمام کلمات سنے گئے ھوں۔
س۴۶۶۔ واجب نماز کی اذان و اقامت میں شھادت ثالثہ یعنی سید الاوصیاء ( حضرت علی علیہ السلام) کو امیر و ولی کھنے کے سلسلے میں آپ کا کیا نظریہ ھے؟
ج۔ شرع کے لحاظ سے اذان و اقامت کا جزء نھیں ھے لیکن اگر اذان و اقامت کے جزء اور اس میں شامل ھونے کے قصد سے نہ ھو تو اسے کھنے میں کوئی حرج نھیں ھے بلکہ اگر خلیفہ ٴ رسول صلی اللہ علیہ و علیٰ اوصیائہ المعصومین (ع) کھنا اپنے عقیدے کے اعتراف و اذعان کے اظھار کے لئے ھو تو راجح و بھتر ھے۔