www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

 

خدایا !میں قریش سے انتقام لینے پر تجھ سے مدد کا خواستگا ر ہوں کیو نکہ انہوں نے میری قرابت و عزیز داری کے بندھن توڑ دیئے اور میرے ظرف (عز ت و حرمت)کو اوندھا کردیا

اور ا س حق میں کہ جس کا میں سب سے زیادہ اھلھوں جھگڑا کرنے کے لئے انکار کر لیا اور یہ کہنے لگے کہ یہ بھی حق ہے کہ آپ کو اس سے روک دیا جائے تو غم وحزن کی حالت میںصبر کیجئے یا رنج واندو ہ سے مر جایئے ۔میں نے نگاہ دوڑائی تو مجھے اپنے اھل بیت کے سوا نہ کوئی معاون نظر آیا او رنہ کوئی سینہ سپر اور معین دکھائی دیا تو میں نے انہیں موت کے منہ میں دینے سے بخل کیا ۔آنکھوں میں خس و خاشاک تھا مگر میں نے چشم پوشی کی حلق میں(غم و رنج کے ) پھندے تھے مگر میں لعاب دہن نگلتا رہا اور غم و غصہ پی لینے کی وجہ سے ایسے حالات پر صبر کیا جو خنطل (اندرائن)سے زیادہ تلخ ا ور دل کے لئے چھریوں کے کچو کوں سے زیادہ المناک تھے۔

سیّد رضی فرماتے ہیں کہ حضرت کا یہ کلام ایک پہلے خطبہ کے ضمن میں گزر چکا ہے مگر میں نے پھر اس کا اعادہ کیا ہے چونکہ دونوں روایتوں کی لفظوں میں کچھ فر ق ہے ۔

اسی خطبہ کا ایک جز یہ ہے جس میں ان لو گو ں کا ذکر ہے جو آپ سے لڑنے کے لئے بصرہ کی طرف نکل کھڑے ہو ئے تھے ۔وہ میرے عاملوں اورمسلمانوں کے اس بیت المال کے خزینہ داروں پرکہ جس کا اختیار میرے ہاتھو ں میں تھا اور شہر (بصرہ)کے رہنے والوں پر کہ جو سب کے سب میرے فرمانبردار اور میری بیعت پر برقرار تھے چڑھ دوڑے چنانچہ انہوں نے ان میں پھوٹ ڈلوا دی اور مجھ پر ان کی یک جہتی کو درہم برہم کر دیا اور میرے پیروکاروں پر ٹوٹ پڑے اور ان میں سے ایک گروہ کو غداری سے قتل کردیا(البتہ )ایک گروہ نے شمشیر بکف ہو کر دانتوں کو بھینچ لیا اور ان کے ساتھ تلواروں سے ٹکرائے یہاں تک کہ وہ سچائی کا جامہ پہنے ہوئے اللہ کے حضور میں پہنچ گئے۔

Add comment


Security code
Refresh