www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

امام زمانہ (عج) کی عظمت کی وجہ سے ایک ھزار سال سے زائد کے اس عرصے میں ھر گروہ اور ھر جماعت نے اپنی گروھی اور جماعتی

 افکار و آراء کے تناسب سے آپ (عج) کی شخصیت، مقام و منزلت اور عالم وجود میں آپ (ع) کے مقام و منزلت کے بارے میں الگ الگ رائے قائم کرتے ہیں۔
مثلاعرفان وسیروسلوک والے آپ (ع) کے عرفانی اور خلیفۃاللھی اور ماوراءالطبیعی (Metaphysical) پھلو کو موضوع بحث قرار دیتے ہیں اور آپ (عج) کی شخصیت کے دیگر پھلؤوں سے غفلت برتتے ہیں۔
بعض اھل شریعت نے آپ (عج) کے وجود شریف کے طبیعی پھلو کو لیا اور امام و پیشوا کے عنوان سے آپ (عج) کی امامت و رھبری پر بحث کرتے ھوئے آپ (عج) کی غیبت کے زمانے میں عوام کے لئے کسی ذمہ داری کے قائل نھیں ہیں اور کھتے ہیں کہ صرف آپ (عج) کے لئے دعا کریں تا کہ وہ تشریف لائیں اور خود ھی لوگوں کے معاملات و امور کی اصلاح کریں۔
کچھ لوگ آپ (عج) کے ماوراء الطبیعی پھلو کی طرف متوجہ ھوئے ہیں اور آپ (عج) سے ملاقات کے لئے بے چین رھتے ہیں تا کہ آپ (عج) سے اپنے ذاتی مسائل حل کروائیں۔
تاھم بعض لوگ ایسے بھی ہیں جو ان تمام پھلوؤں کو بھی مد نظر رکھتے ہیں اور انتظار کے صحیح معنی کی طرف توجہ کرتے ھوئے غیبت کے زمانے میں منتظرین کے فرائض پر بھی زور دیتے ہیں۔ اس رائے میں انسان کامل کی خلافت الھیہ بھی ان کے مد نظر رھتی ہے اور ھاں اس رائے کے حامل افراد اھل شریعت کے اس نکتے کو بھی نھيں بھولتے کہ لوگوں کو آپ (عج) کے ظھور کے لئے دعا کرنی چاھئے۔
امام خمینی رحمۃاللہ علیہ اس رائے کے بانیوں میں شمار ھوتے ہیں فرماتے ہيں:
"البتہ جھاں تک دنیا کو عدل و انصاف سے بھر دینے کا تعلق ہے تو یہ کام ھم نھیں کرسکتے، اگر ھم کرسکتے تو ضرور کرتے لیکن چونکہ ہھم ایسا نھیں کرسکتے آپ (عج) کو آنا چاھئے ... لیکن ھمیں اس کام کو فراھم کرنا چاھئے، اس کے اسباب فراھم کریں اور اس کے اسباب فراھم کرکے ظھور کو قریب تر کردیں، ھمیں ایسا کام کرنا چاھئے کہ امام علیہ السلام کی تشریف آوری کے لئے اسباب فراھم ھوجائیں ...".
امام خمینی(رہ) انتظار فَرَج کے بارے میں فرماتے ہیں: انتظار فَرَج اسلام کی قوت و وطاقت کا انتظار ہے اور ھمیں کوشش کرنی چاھئے کہ اسلام کی قوت دنیا میں عملی صورت اپنائے اور ظھور کے مقدمات ان شاء اللہ فراھم ھوں۔
شیعہ تفکر میں انتظار کے مفھوم کو سمجھنے کے لئے بعض روایات کا سھارا لیتے ہیں تا کہ واضح ھوجائے کہ:
۱۔ کیا انتظار کی ضرورت ہے؟
۲۔ انتظار کی فضیلت کیا ہے؟
۳۔عصر غیبت میں منتظرین کے فرائض کیا ہیں؟
۴۔ انتظار کے آثار و نتائج کیا ہیں؟

۱۔ انتظار کی ضرورت
شیعہ تفکر میں موعود (عج) کا انتظار ایک مسلمہ اعتقادی اصول ہے اور بھت سی روایات میں قائم آل محمد (عج) کے انتظار کے وجود پر تصریح ھوئی ہے مثال کے طور پر:
الف۔ محمد بن ابراھیم نعمانی نے کتاب الغیبۃ (غیبت نعمانی) میں روایت کی ہے کہ امام صادق علیہ السلام نے ایک روز اپنے اصحاب سے مخاطب ھوکر فرمایا: کیا میں تمھیں ایسے عمل سے آگاہ نہ کروں کہ خداوند صاحب عزت و جلال بندوں کے کسی بھی عمل کو اس کے بغیر قبول نھیں فرماتا؟
میں نے عرض کیا: کیوں نھيں میرے مولا؟
فرمایا: گواھی دینا کہ "کوئی بھی اھل عبادت نھیں ہے سوائے خداوند متعال کے اور یہ کہ محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) خدا کے بندے اور رسول ہیں اور ان چیزوں کا اقرار کرنا جن کا اللہ تعالی نے حکم دیا ہے اور ھماری ولایت کا اقرار کرنا اور ھمارے دشمنوں سے بیزاری ظاھر کرنا ـ بالخصوص ائمہ اطہھار علیھم السلام کے دشمنوں سے ـ اور ان کے سامنے سر تسلیم خم کرنا، اور پرھیزگاری اور کوشش و مجاھدت و اطمینان اور قائم علیہ السلام کا انتظار۔
ب۔ ثقة الاسلام کلینی اپنی کتاب الکافی میں روایت کرتے ہیں کہ ایک روز ایک مرد امام محمد باقر علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ھوا جس کے ھاتھ میں ایک صفحہ تھا، حضرت باقر علیہ السلام نے اس شخص سے فرمایا:
یہ مکتوب ایک مُناظر (مناظرہ کرنے والے) کا ہے جو ایسے دین کے بارے میں پوچھنا چاھتا ہے جس میں تمام اعمال مقبول ہیں۔
اس شخص نے عرض کیا: اللہ کی رحمت ھو آپ پر، میں نے یھی چاھا ہے۔
پس امام ابوجعفر محمد باقر علیھما السلام نے فرمایا: گواھی دینا اس پر کہ خدا ایک ہے اور اس کا کوئی شریک نھیں ہے، اور یہ کہ محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) اللہ کے بندے اور رسول ہیں اور یہ کہ اقرار کرو اس پر جو اللہ کی طرف سے آیا ہے اور ھمارے خاندان کی ولایت پر گواھی دینا اور ھمارے دشمنوں سے برائت و بیزاری کا اظھار کرنا، اور ھماری اطاعت کرنا اور ھمارے سامنے سرتسلیم خم کئے رکھنا، اور پرھیزگاری اور منکسرالمزاجی اور ھمارے قائم کا انتظار کرنا، کیونکہ ھمارے لئے ایک حکومت ہے جو اللہ تعالی جب چاھے گا لے کر آئے گا۔
ج۔ شیخ صدوق کتاب "کمال الدین" میں "عبدالعظیم الحسنی" سے روایت کرتے ہیں:
میں ایک دن اپنے آقا و مولا محمد بن علی بن موسی بن جعفر بن محمد بن علی بن الحسین بن علی بن ابیطالب علیھم السلام (یعنی امام محمد تقی الجواد (ع)) کی خدمت میں حاضر ھوا اور میں آپ (ع) سے حضرت قائم علیہ السلام کے بارے میں پوچھنا چاھتا تھا کیا مھدی آپ (ع) خود ہیں یا آپ (ع) کے بعد آئیں گے؛ امام (ع) نے اپنے کلام کا آغاز کیا اور مجھ سے فرمایا: اے ابالقاسم! بے شک مھدی ھم میں سے ہیں اور وہ وھی مھدی ہیں جن کی غیبت میں انتظار کرنا واجب ہے۔ اس حوالے سے روایات بھت زیادہ ہیں لیکن ھمارے اس مکتوب میں ان کا مفصل حوالہ دینا ممکن نھیں ہے چنانچہ ھم دیکھنا چاھتے ہیں کہ انتظار کی فضیلت کیا ہے اور کلام معصومین علیھم السلام میں انتظار کا مقام کیا ہے؟
۲۔ انتظار کی فضیلت
اسلامی روایات میں منتظرین کے لئے جس مقام و منزلت کا ذکر ھوا ہے کبھی انسان کی حیرت کا باعث بنتی ہے کہ انتظار جیسا عمل ـ جو بظاھر سادہ ہے ـ اتنی فضلیتوں کا حامل کیونکر ھوسکتی ہے؟ تا ھم جب ھم فلسفۂ انتظار کی طرف توجہ دیتے ہیں اور منتظرین کے فرائض اور ذمہ داریوں کو مد نظر رکھتے ہیں تو ان توصیفات کا فلسفہ بھی سمجھ میں آنے لگتا ہے۔
۱۔رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کی حدیث: انتظار برترین عبادت
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فرماتے ہيں: "انتظارِ فَرَج برترین اور بھترین عبادت ہے"۔
۲۔ انتظارِ فَرَج بھترین جھاد
رسول اللہ علیہ و آلہ و سلم فرماتے ہیں کہ: "میری امت کا بھترین جھاد انتظارِ فَرَج ہے"۔
۳۔ امیر المؤمنین (ع) کی حدیث: انتظار خوشآیند ترین عمل
علامہ محمدباقر مجلسی روایت کرتے ہيں کہ امیرالمؤمنین علیہ السلام نے فرمایا: فَرَج (فراخی اور بھتر صورت حال یا مصائب و مشکلات سے چھٹکارے) کے منتظر رھو بے شک خداوند عزوجل کے نزدیک برترین اور خوشآیند ترین عمل انتظارِ فَرَج ہے۔
۴۔ رسول اللہ (ص) اور ائمہ معصومین (ع) کی حدیث: منتظر شھید کی مانند
شیخ صدوق کمال الدین میں روایت کرتے ہيں کہ امام صادق علیہ السلام نے اپنے آباء و اجداد طاھرین علیھم السلام کے حوالے سے فرمایا: ھماری حکومت کا منتظر شخص اس شھید کی مانند ہے جو راہ خدا میں اپنے خون میں تڑپتا ہے۔
۵۔ منتظرین اولیاء الھی ہیں
اسی کتاب میں امام صادق علیہ السلام سے روایت ہے کہ آپ (ع) نے فرمایا:
خوش بحال ان کے جو ھمارے قائم کی غیبت میں ان کے ظھور کے منتظر ہيں اور ظھور کے بعد ان کے فرمانبردار ہيں، وہ اللہ کے اولیاء ہیں وھی جن کے لئے نہ کوئی ڈر ہے اور نہ ھی وہ غم و حزن سے دوچار ھوتے ہیں۔
۶۔امام صادق (ع) کی حدیث: منتظر امام زمانہ (عج) کا ھم نشین
علامہ مجلسی روایت کرتے ہیں کہ امام صادق علیہ السلام نے فرمایا: تم میں سے جو شخص اس امر کا انتظار کرتے ھوئے مرتا ہے وہ اس شخص کی مانند ہے جو امام علیہ السلام کے ساتھ ایک خیمے میں رھا ھو۔ اور کچھ لمحات خاموشی کے بعد فرمایا: نھیں! بلکہ اس شخص کی مانند ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے رکاب میں شمشیرزنی کرچکا ھو اور پھر فرمایا: نھیں، اللہ کی قسم! بلکہ اس شخص کی مانند ہے جس نے رسول اللہ (ص) کے رکاب میں جان کی بازی لگا دی ھو اور شھادت پالی ھو۔
منتظرین کے لئے اتنی فضیلت کیوں؟
اس لئے کہ:
۱۔ انتظار امام معصوم کے ساتھ شیعیان آل محمد (ص) کا اتصال:
ولایت اور امامت مکتب تشیع کا بنیادی ستون سمجھی جاتی ہے اور ہر عصر میں امام معصوم کی موجودگی کا عقیدہ اس مکتب کو دوسرے مکاتب سے ممتاز کردیتا ہے۔
شیعہ مکتب میں ائمہ معصومین(ع) کی ولایت کو تسلیم کرنا اور امام و حجت عصر کے سامنے سرتسلیم خم کرنا تمام فضائل کی چوٹی اور بندوں کے تمام اعمال و عبادات کی قبولیت کی اساس ہے۔ ھمارے اس زمانے کے امام اور حجت خدا حضرت امام مھدی امام زمانہ ہیں جو فیض الھی کا واسطہ اور عصر حاضر میں ھمارے امام اور ہھمارے مددگار ہیں۔
۲۔ انتظار انسانوں کی وقعت کا پیمانہ:
انسانوں کی خواھشیں اور آرزوئیں ان کے کمال اور بلندی کا معیار ہیں حتی بعض لوگ کھتے ہیں: "بتاؤ کہ تمھاری خواھش کیا ہے تا کہ میں کھہ دوں کہ تم کون ھو!"۔ بلند خواھشیں اور قابل قدر اور اھم آرزوئیں انسان کی روح اور شخصیت کی بلندی کی دلیل ہیں اور یہ خواھشیں چھوٹی چھوٹی اور حقیر آرزؤں سے مختلف ہیں جو انسان کی حقارت اور بے وقعتی اور بے ھمتی اور عدم نشوو نما کی دلیل ہیں۔
امیرالمؤمنین علیہ السلام فرماتے ہیں:
انسان کی وقعت اس کی ھمت کے برابر ہے۔
اس تمھید کے بعد کھا جاسکتا ہے کہ چونکہ منتظر اعلی ترین آرزؤوں کا حامل ہے لھذا وہ فطری طور پر بھترین اور والاترین اقدار کا بھی حامل ہے۔
وضاحت:
منتظر انسان کی آرزو پوری دنیا میں دین خدا کی حاکمیت اور مذھب آل محمد (ص) کے نفاذ اور پوری دنیا پر صالحین اور مستضعفین کی حکومت کے قیام کی خواھش سے عبارت ہے اور اس کی آرزو ہے کہ مستکبرین اور ظالمین کے ھاتھ کاٹ دیئے جائیں اور دنیا کے گوشے گوشے میں عدل و انصاف کی حکومت ھو اور تمام انسانوں کو فلاح اور عدل و انصاف مل جائے۔
۳۔ انتظار فرد اور معاشرے کے تحریک و تعمیر کا سبب
انتظار ـ جیسا کہ اگلی سطور میں واضح کیا جائے گا ـ غیبت کے زمانے میں فرد اور معاشرے کی تعمیر، تحرک (Dynamism) نیز اصلاح کا سبب بنتا ہے اور اگر منتظر انسان اپنے مقررہ فرائض پر عمل کرے تو وہ ایک دیندار انسان کی علامت بن جائے گا اور اعلی مقام و منزلت کا مالک بن جاتا ہے۔ بالفاظ دیگر اگر انتظار کی تمام شرطوں پر پورا اترے تو وہ اسی مقام و منزلت کو حاصل کرلے گا جو دین اسلام ھم سے چاھتا ہے اور وہ کمال کی چوٹیوں کو سر کرلیتا ہے۔
۳۔ منتظرین کی ذمہ داریاں
روایات اور احادیث کے ضمن میں، زمانہ غیبت میں شیعیان آل محمد (ص) اور منتظرین امام زمانہ (عج) کے لئے متعدد فرائض بیان ھوئے ہیں اور حتی "مکیال المکارم فی فوائد الدعاء للقائم" میں خاتم الاوصیاء حضرت بقیۃاللہ ارواحنا لہ الفداء کے منتظرین کے لئے اسّی فرائض بیان کئے گئے ہیں۔ لیکن ھم یھاں بعض اھم فرائض بیان کرنے پر اکتفا کرتے ہیں:
حجت خدا اور امام عصر علیہ السلام کی شناخت
ھر منتظر کا اولین فریضہ یہ ہے کہ وہ اپنے زمانے کے امام کو پھچان لیں۔ یہ موضوع اس قدر اھم ہے کہ شیعہ اور سنی منابع سے منقولہ روایت کے مطابق رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور ائمہ طاھرین علیھم السلام نے فرمایا: جو مرے اور اپنے زمانے کے امام کو نہ پھچانے وہ جاھلی موت مرا ہے۔
اسی حدیث نبوی کے تسلسل میں امام محمد باقر علیہ السلام فرماتے ہیں:
جو بغیر امام کے مرجائے اس کی موت جاھلی موت ہے اور جو شخص اپنے امام کو پھچان کر مرے اس امر [یعنی آل محمد (ص) کی عالمی حکومت کے قیام] میں تعجیل یا تاخیر سے اس کو کوئی نقصان نھيں پھنچے گا اور جو مرے گا ایسے حال میں کہ اس نے اپنے امام کو پھچان لیا ہے، وہ اس شخص کی مانند ہے جو امام عصر علیہ السلام کے خیمے میں آپ (عج) کا ھم نشین رھا ھو۔
غیبت کے زمانے میں جن دعاؤں کی قرائت پر زور دیا گیا ہے ان کی طرف توجہ بھی ہمیں حجت خدا کی شناخت کی اھمیت سے آگاہ کردیتی ہے۔ جیسا کہ ھم کتاب "کمال الدین" میں شیخ صدوق سے منقولہ ایک دعا میں پڑھتے ہیں:
بارالٰھا! تو مجھے اپنی معرفت عطا فرما کہ اگر میں تجھے نہ پھچانوں تو تیرے پیغمبر کو نہ پھچان سکوں گا۔
بارالٰھا! مجھے اپنے نبی کی معرفت عطا فرما کیونکہ اگر تو مجھے اپنے نبی کی شناخت عطا نہ کرے گا تو میں تیری حجت کی معرفت سے بے بھرہ رھوں گا۔
بارالٰھا! مجھے اپنی حجت کی معرفت عطا فرما کیونکہ اگر تو مجھے اپنی حجت کی معرفت عطا نہ کرے گا تو میں اپنے دین سے گمراہ ھوجاؤں گا۔
خداوندا! مجھے جاھلیت کی موت نہ دے کیونکہ میرے دل کو منحرف نہ فرما بعد اس کے کہ تو نے مجھے ھدایت عطا فرمائی ... ۔
امام صادق علیہ السلام امام کی معرفت کی کم از کم حدود بیان کرتے ھوئے فرماتے ہیں:
امام کی شناخت و معرفت کا نازل ترین مرتبہ یہ ہے کہ تم جان لو کہ امام پیغمبر کے برابر ہے مگر نبوت کے درجے کے سوا؛ امام پیغمبر کا وارث ہے اور بے شک امام کی اطاعت رسول اللہ(ص) کی اطاعات اور رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی اطاعات اللہ تعالی کا اطاعت ہے اور ھر مسئلے میں امام کے سامنے سراپا تسلیم ھونا چاھئے اور اس کے کلام و فرمان پر عمل کرنا چاھئے ... ۔
 

Add comment


Security code
Refresh