www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

امامت امت کے بغیر نھیں ھو سکتی ہے، امامت پیروکار کے بغیر نھیں ھو سکتی ہے ،فقط پیروکار کے لئے لفظ شیعہ استعمال ھوا ہے

 اور پیشوا کے لئے لفظِ امام استعمال ھوا ہے دونوں کی روح میں عمل موجود ہے، امام یعنی آگے چلنے والا شیعہ یعنی پیچھے چلنے والا، ھر دو چلنے والے ہیں امام بھی چل رھا ہے اور شیعہ بھی چل رھا ہے فرق صرف اتنا ہے کہ وہ آگے چل رھا ہے اور یہ پیچھے چل رھا ہے کسی رکے ھوئے کو امام نھیں کھتے ہیں اورکسی رکے ھوئے کو شیعہ نھیں کھتے ہیں ۔
اس وقت تک غیبت امام کو تقریباً بارہ سو سال گزر چکے ہیں۔ اس مدت میں مسلمانوں کی کئی نسلیں گزری ہیں جب کہ ائمہ کے حضور کا زمانہ ڈھائی سوسال بنتا ہے۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ ڈھائی سو سال میں رھنے والے لوگ عدد میں بھی بھت کم تھے، اس وقت ویسے بھی آبادی بھت کم تھی اور مسلمانوں کی آبادی بھت ھی کم تھی تواتنی کم آبادی کو خداوند تبارک وتعالیٰ نے کتنے ھادی عطا کئے؟ جیسے وجودِ نورانی حضور اکرم(ص) ، وجودِ نورانی ٔ حضرت علی (ع) وجودِ نورانی ٔ حضرت امام حسن (ع) حضرت سیدہ(س) تا آخر ، تمام ائمہ ھدیٰ کے نور سے ان لوگوں کو منور کیا اور ان کے اندر متواتر ایک حجت کے بعد دوسری حجت بغیر کسی وقفے کے ﷲ تعالیٰ نے فراھم کی اور ان لوگوں نے انھیں مانا بھی نھیں ۔ اکثر ائمہ ھدیٰ کی زندگی گوشہ نشینی اورتقیہ کی حالت میں بسر ھوئی ہے۔ کسی حجت خدا کو نہ حکومت قائم کرنے کا حق دیا گیا ہے نہ ان کے پیروکاراس تعداد میں بنے ہیں ۔ ائمہ کی زندگی یا قید خانوں جیلوں میں گزر گئی ہے یا پابندیوں میں گزر گئی ہے، یا میدانِ جنگ میں گزر گئی ہے اور سب کے سب شھید بھی ھوگئے۔
اور آج جب کہ پیروکار بھی زیادہ ہیں، ماننے والے بھی زیادہ ہیں اور نسل بعد از نسل تڑپ بھی زیادہ ہے، خواھش بھی زیادہ ہے، آج ان کی اتنی ضرورت محسوس ھورھی ہے تو حجت موجود نھیں ہے بارہ سو سال سے محروم ہیں کتنے لوگ محروم آئے اور چلے بھی گئے ہیں ۔
دوسری طرف سے خود ائمہ معصومین(ع) کی طرف سے تاکید ہے کہ جو بھی ظھور کا وقت معین کرے گا کہ فلاں دن فلاں وقت پہ ظھور ھوگا وہ کذَّاب ہے بلکہ بعض روایات میں اسے ملعون کھا گیا ہے، خود حضر ت حجت (عج) نے اسے کذَّاب کھا ہے کیونکہ یہ سرّ الٰھی اور راز خدا ہے ۔ خدا اپنے راز سے خود بھتر آشنا ہے کہ کب ظھور ھوگا ؟ کیسے ظھور ھوگا؟ کب مصلحت خدا کا تقاضا ہے کہ ظھور ھو؟ یہ رازِ خدا ہے اس کو رازِ خدا ھی رھنے دو، اس کے بارے میں کوئی حدس و گمان سے کام نہ لے ۔ خود معصوم نے فرمایا ہے کہ یہ جائز نھیں ہے اور فرمایاکہ آپ ظھور کا وقت معین نہ کریں لیکن ظھور کے لئے دعا ضرور کریں ، و ظھور کی خواھش ضرور کریں لیکن مصلحت خدا ھمیں معلوم نھیں ہے کتنے ھزار سال یا کتنے سو سال اور گزریں گے اور اس صورت میں کتنی نسلیں آئیں گی اور آکر گزر جائیں گی اور امام غیب تک ان کی دسترس نھیں ھوگی اور جو لوگ ظھور کے زمانے میں ھوں گے وہ عھدِ حضرت حجت(عج) کو درک کر یں گے ، ان کے لئے کوئی مشکل نھیں ہے ۔ جو لوگ ائمہ کی زندگی میں موجودتھے ان کے لئے بھی کوئی مشکل نھیں تھی لیکن یہ جو کئی نسلیں گزر رھی ہیں جن میں سے ایک نسل ھم ہیں، محروم ہیں ۔ ھمارا کیا گناہ ہے؟ ھم وجودِ حجت سے کیوں محروم ہیں؟ ایک بڑی تعداد ماننے والوں کی محروم ہے یا جونسلیں آئی ہیں اور مر گئی ہیں ان کو اس ظھور کا کیا فائدہ ملے گا ؟ ظھور کا فائدہ تو ان کو ھوگا جو امام کے زمانے میں زندہ ھوں گے ھم تو زندہ نھیں ھوں گے یا آج اگر ظھورھوجائے تو گزشتہ ھمارے آباء و اجداد اور ھمارے اسلاف تو ظھور کی نعمت سے محروم رہ گئے، جب کہ خدا کی ذات عادل ہے خدا نے کھا ہے کہ میں کسی کے ساتھ نا انصافی نھیں کرتا خدا کسی پر ظلم نھیں کرتا ہے، نا انصافی نھیں کرتا ہے، تو کیا یہ عدلِ الٰھی کے ساتھ سازگار ہے؟ پس حقیقت کیا ہے؟
ائمہ معصومین(ع) نے انتظار کا ایسا فلسفہ بیان کیا ہے اور ایسی فضیلت بیان کی کہ جو لوگ عصرِ ائمہ میں موجود تھے ان کی خواھش بھی یہ تھی کہ اے کاش ھم بھی عصر غیبت میں ھوتے اور عصر منتظرین میں سے ھوتے، یہ آرزو لے کر وہ ائمہ ھدیٰ کی خدمت میں آتے تھے وھاں پر امام (ع) نے انتظار کا یہ فلسفہ بیان کیا۔
فلسفہ انتظار کلام معصومین(ع) میں
اصول کافی ، جلد اول ، صفحہ ٣٧١ ، کتاب حجت، باب " انّہ من عرف امامہ لم یضرّہ تقدم ھذا الامر او تأخّر" ہے ۔
احادیث کا شانِ نزولِ یہ ہے کہ ائمہ ھدیٰ (ع) نے انتظار کی اتنی فضیلت بیان کی اور حضرت حجت(عج) کے اتنے فضائل بیان کئے کہ وہ لوگ جو ائمہ (ع) کے صحابہ تھے ان کومنتظر ین پر رشک آنے لگا انھوں نے ائمہ (ع) کی خدمت میں آکرعرض کیا کہ مولا کیاھم بھی وہ زمانہ پالیں گے؟ جب حضرت حجت (عج) ظھور فرمائیں گے اور ھم منتظرین کے طور پر ان کا استقبال کریں گے آیا یہ سعادت ھمیں نصیب ھوگی یا نھیں ھوگی ؟ امام حجت(عج) موجود ہیں ان کی موجودگی میں خود حجتِ خدا (ع)سے پوچھ رھے ہیں کہ جب یہ آخری حجت الٰھی (ع) تشریف لائیں گے تو آیا ھمیں یہ سعادت نصیب ھوگی یا نصیب نھیں ھوگی ؟ ھم منتظرین میں سے ھو سکتے ہیں یا منتظرین میں سے نھیں ھو سکتے؟
یہ سوال حضرت امام جعفر صادق اور حضرت امام باقر علیھما السلام سے کیا گیا تھا ۔ اب آپ عصرامام صادق(ع) دیکھیں اورعصرغیبت دیکھیں یعنی حضرت حجت(عج) کی پیدائش سے ایک سو پچاس سال پھلے ایک شخص آکر سوال کرتا ہے کہ آیا میں حضرت حجت(عج) کے منتظرین میں سے ھوں گا یا نھیں ؟ حضرت (ع) نے فرمایا کہ ھمارے زمانے میں ھی تمھاری وفات ھوگی لیکن تم اس کے باوجود منتظرین حضرت حجت(عج) میں سے ھو سکتے ھو۔
زمانہ غیبت و عملی انتظار
وہ انتظار جو امام(ع) بیان فرما رھے ہیں وہ یہ ہے کہ غیبت یعنی امام تک پھنچنے کی راہ میں حائل زمانی اور مکانی فاصلے کو عصرِ غیبت کھتے ہیں اور اگر زمانی فاصلے اور یہ مکانی دوریاں سمیٹ لی جائیں تواس کو انتظار کھتے ہیں ۔ زمانی اور مکانی فاصلوں کو سمیٹ کر حجت خدا کے حضور میں پھنچنے کو انتظار کھتے ہیں پس غیبت کا مداوا انتظار ہے ۔ غیبت زمانی اورمکانی دوری کا نام ہے ۔ انتظار اس زمانی و مکانی دوری کو قرب میں تبدیل کرنے کا نام ہے ۔ اس سے کوئی فرق نھیں پڑتاہے یہ کام زمانہ غیبت میں ھو یا زمان ظھور میں۔
فلسفہ انتظار اور فریضہ منتظرین
امام صادق (ع) سے انتظار کے بارے میں اس وقت سوال کیا گیا جب حضرت حجت (ع) پیدا بھی نھیں ھوئے تھے کہ ھم کیسے منتظرین میں شامل ھوں ؟وھی دستور جوامام صادق (ع) نے اس شخص کے سوال کے جواب میں بیان کیا ہے، وہ ھمارے لئے بھی ہے ۔ حدیث یہ ہے :
'' علی ابن ابراھیم عن ابیہ عن حماد ابن عیسیٰ عن حریز عن ز رارہ ''
سارے راوی جلیل القدر ، پاک، صاف اور منزہ لوگ ہیں ، انھوں نے یہ حدیث نقل کی ہے ۔
'' قال ابو عبد اﷲ علیہ السّلام : اعرف امامک ، فانّک اذا عرفت لم یضرّک ، تقدّم ھذا الأمر أو تأخّر ''
اپنے امام کو پھچانوجب تم اپنے امام کو پھچان لو گے اس وقت تمھارے لئے ظھور کے تقدم یا تأخر کا کوئی فرق نھیں ھو گا۔
ابوعبد اﷲ امام صادق (ع) کی کنیت ہے کہ حضرت امام صادق (ع) یوں ارشادفرماتے ہیں :
'' اعرف امامک ۔۔۔"
اپنے امام کو پھچانو …
'' فانّک اذا عرفت۔ ۔۔''
اگر تو نے اپنے امام کو پھچان لیا …
'' لم یضرّک تقدّم ھٰذاالامر او تاخّر … "
پھر تیرے لئے کوئی فرق نھیں پڑتا کہ ظھور پھلے ھو یا ظھور بعد میں ھو ۔ اگر تجھے اپنے امام (ع) کی معرفت ہے تو ظھور کی تاخیر ایسے ھی ہے جیسے ظھور تمھارے زمانے میں ھوا ہے۔
دوسری حدیث میں بھی تقریباً مضمون اسی قسم کا ہے، اس میں یوں ہے کہ:
'' سألت ابا عبد اﷲ عن قول اﷲ تبارک وتعالیٰ ''یوم ندعو کلّ اناس بامامھم '' فقال : یا فضیل اعرف امامک ، فانّک اذا عرفت امامک لم یضرّک ، تقدّم ھذا الأمر أو تأخّر ، و من عرف امامہ ثمّ مات قبل أن یقوم صاحب ھذا الأمر ، کان بمنزلة من کان قاعداً فی عسکرہ ، لا بل بمنزلة من قعد تحت لوائہ ، قال : و قال بعض أصحابہ : بمنزلة استشھد مع رسول اللّہ ''
فضیل ابن یسار کھتے ہیں : میں نے حضرت امام جعفر صادق (ع) سے اللہ تبارک و تعالی کے اس قول کے بارے میں پوچھا کہ : '' قیامت کے دن ھم ھر انسان کو اس کے امام کے ساتھ بلائیں گے '' تو امام (ع) نے فرمایا : اے فضیل اپنے امام کو پھچانو جب تم اپنے امام کو پھچان لو گے تو پھر ظھور کی تعجیل اور تأخیر میں تمھارے لئے کوئی حرج نھیں ہے صاحب الأمر کے ظھور سے قبل جو شخص بھی مرنے سے پھلے اپنے امام کو پھچان لے وہ امام کے لشکر میں بیٹھے ھوئے شخص کی طرح ہے ۔ نہ ، بلکہ وہ امام کے پرچم کے نیچے بیٹھا ھوا ہے اور بعض راویوں نے یہ نقل کیا ہے کہ : '' امام (ع) فرمایا '' بلکہ اس وہ شخص کی طرح ہے جو رسول اللہ کی معیت میں شھید ھوا ہے ۔
اصحاب حضرت امام جعفر صادق (ع) کی خدمت میں جاکر عرض کرتے ہیں قرآن کی اس آیت کے بارے میں کہ جس میں خداوند تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ اس دن ھم ھر آدمی کوا پنے امام کے ساتھ اٹھائیں گے ، اس سے کیا مراد ہے؟ راوی کی خواھش کیا تھی ؟ حضرت امام صادق(ع) کے زمانے کا راوی جس کو پتہ ہے کہ یہ امام ہیں، امام کی موجودگی میں امام پر عقیدہ و یقین ہے لیکن اس کے باوجود امام سے پوچھ رھا ہے کہ اس آیت کے معنی کیا ہیں ؟ کہ ھم قیامت میں ھر آدمی کو اپنے امام کے ساتھ اٹھائیں گے ۔ امام (ع) یوں جواب دیتے ہیں:
'' فقال یا فضیل اعرف امامک … ''
امام نے فرمایا : اے فضیل اپنے امام کو پھچان ، فضیل سامنے بیٹھا ھوا ہے سوال کر رھا ہے اور امام صادق(ع) کھہ رھے ہیں کہ اپنے امام کو پھچان ،
'' فانّک اذا عرفت امامک لم یضرّک تقدّم ھٰذالامر او تاخّر … ''
کہ پھر تیرے لئے مضر نھیں ہے یعنی تیرے لئے کوئی فرق نھیں پڑتا کہ یہ ظھور جلدی ھو یا دیر سے ھو ، تجھے اپنے امام کی پھچان ھونی چاھیے۔
فضیل امام (ع) کی خدمت میں بیٹھے ھوئے تھے ، آپ کے صحابی تھے اور امام کی امامت پر اعتقاد تھا لیکن فضیل کا جی یہ چاھتا تھا کہ اس کا حضرت حجت (عج) کے ساتھ شمار ھو ،با وجود اس کے کہ امام صادق (ع) بھی امام تھے اور حجت خداھونے کے لحاظ سے ائمہ (ع) میں کوئی فرق نھیں ہے ، سب حجتِ خدا ہیں، سب برگزیدگانِ خدا ہیں ،سب معصوم ہیں اور سب اولیاء ﷲ ہیں، لیکن فضیل اس کے باوجود خواھش کرتے ہیں کہ حضرت حجت (عج) کے ساتھ محشور ھوں ، فضیل کے زمانے میں تو حضرت حجت (عج) ابھی پیدا بھی نھیں ھوئے تھے ، ولادت بھی نھیں ھوئی تھی ، پھر کس نے فضیل کو اتنا راغب کر دیا ؟ خود امام صادق (ع) نے حضرت حجت (عج)کے اتنے فضائل بتائے کہ فضیل بھی سوچنے پر مجبور ھوگئے ک امام صادق (ع) جس شخصیت کو اتنا بڑھا کر بیان کر رھے ہیں تو پھر مجھے اس شخصیت کی معیت میں ھونا چاھئے ۔ امام (ع) یوں فرماتے ہیں کہ:
'' ومن عرف امامہ ثمّ مات قبل عن یقوم صاحب ھٰذالامر … ''
اگر تم نے اپنے امام(ع) کو پھچان لیا اور پھر تجھے موت آجائے ،اس سے پھلے کہ امام ظھور فرمائیں
'' کان بمنزلة من کان قاعداً فی عسکرہ ''
جو شخص اپنے امام کی معرفت پیدا کر لے اور اس معرفت پر اس کو موت آجائے اگرچہ اس موت کے زمانے میں ظھور نہ بھی ھوا ھو تو یہ شخص ایسے ھی ہے جیسے سپاہِ امام زمان (عج) میں شامل ہے ۔
اور امام (ع) فرماتے ہیں کہ سپاہ میں ھونا کوئی بڑی فضیلت نھیں ہے ، بلکہ امام کی معرفت حاصل کر کے مرنا فضیلت ہے ۔
'' لا بل بمنزلة من قعد تحت لوائہ … ''
بلکہ یہ شخص جو انتظار کے ایام میں حضرت(ع) کے ظھور سے پھلے مرگیا ہے لیکن اس کے دل میں معرفتِ امام ہے یہ اس شخص کی طرح ہے جو امام زمانہ (عج) کی سپاہ میں ہے نہ صرف سپاہ میں ہے ، بلکہ امام زمانہ (ع) کے پرچم کے نیچے ہے ۔چونکہ سپاہ جب منتشر اور پراگندہ ھو جاتی ہے توپرچم کے نیچے بھت خاص لوگ رہ جاتے ہیں ۔ حضرت فرماتے ہیں کہ یہ امام (ع) کے پرچم کے نیچے ھوگا ۔
'' قال : و قال بعض اصحابہ : ''
بعض اصحاب کا یہ کھنا ہے کہ امام نے ایک اور جملہ بھی بیچ میں فرمایا تھا اور وہ جملہ اس طرح تھا:
'' بمنزلة من استشھد مع رسول اﷲ … ''
بلکہ یہ اس کی طرح ہے جو رسول اﷲ(ص) کی معیت میں شھید ھوا ہے، یہ اس کی طرح ہے جوجنگِ بدر میں یاجنگِ احد میں شھید ھوا ہے ، اس کے لئے شھدائے بدر کا مقام ہے، اگر وہ اپنے گھر میں ھی کیوں نہ مرجائے ؟ لیکن شر ط اس کی یہ ہے کہ اپنے امام کی معرفت رکھتا ھو۔
اس کے بعد کی حدیث جناب ابوبصیر سے ہے:
'' عن ابی بصیر قال : قلت لأبی عبد اللّہ ـ : جعلت فداک متی الفرج : فقال : یا أبا بصیر و أنت ممّن یرید الدنیا ؟ من عرف ھذا الأمر فقد فرّج عنہ لانتظارہ ''
ابو بصیر کھتے ہیں : '' میں نے حضرت امام جعفر صادق (ع)کی خدمت میں عرض کیا میں آپ پر قربان ھو جاؤں فرج یعنی گرہ کشائی ( ظہور)کب ھہو گی ؟ امام (ع) نے فرمایا : اے ابا بصیر کیا تم دنیا کے چاھنے والوں میں سے ھو ؟ جو بھی اس امر کو پھچان لے تو انتظار کرنے کی بنا پر اس کے لئے فرج حاصل ھو چکی ہے ۔''
دوسری حدیث میں ہے :
'' سأل ابو بصیر ابا عبد اﷲ ـ وانا اسمع ، فقال : ترانی أدرک القائم ـ ؟ فقال : یا أبا بصیر ألست تعرف امامک ؟ فقال : ای و اللّہ و أنت ھو ۔ و تناول یدہ ۔ فقال : و اللّہ ما تبالی یا أبا بصیر ألّا تکون محتبیاً بسیفک فی ظلّ رواق القائم صلوات اللّہ علیہ '' راوی کھتا ہے کہ ابو بصیر امام صادق(ع) سے سوال کر رھے تھے اورمیں بھی پاس بیٹھا ھوا تھا ابو بصیر نے یوں سوال کیا:
'' فقال ترانی ادرک القائم علیہ السلام ؟ ''
ابوبصیر ،مولا (ع) سے یہ پوچھتے ہیں کہ آپ کی کیا رائے ہے ،کیا میں بھی اس وجود ِمبارک ِ حضرت قائم (عج) کو درک کر سکوں گا اور ان کی زیارت کر سکوں گا ۔
'' فقال : یا ابا بصیر … ''
امام (ع) نے جواب میں فرمایا کہ ''اے ابوبصیر!
'' الست تعرف امامک ؟ ''
کیا تو اپنے امام (ع) کو نھیں پھچانتا … ؟
'' فقال ای واﷲ … ''
ابو بصیر نے کھا کہ خدا کی قسم پھچانتا ھوں …
'' وانت ھووتناول یدہ … ''
اور نہ صرف پھچانتا ھوں بلکہ یہ بھی معلوم ہے کہ وہ کون ہیں ؟ وہ آپ ہیں اور اس کے بعد ابو بصیر نے اپنا ھاتھ آگے بڑھا دیا امام کا ھاتھ اپنے دونوں ھاتھوں میں تھام کر کھا کہ خدا کی قسم وہ امام آپ ہیں ۔
'' فقال: واﷲ ماتبالی یا ابا بصیر ا لّا تکون محتبیاًً بسیفک فی ظل رواق القائم صلواة اﷲ علیہ ''
امام (ع) نے فرمایا : اے ابو بصیر اگرچہ تم ابھی حضرت کے لشکر میں نہ بھی ھو اور تلوار نہ بھی چلا سکو لیکن اس کے باوجود تجھے پرواہ نھیں ھونی چاھیے تو ایسے ھی ہے جیسے حضرت قائم(عج) کے لشکرمیں موجود ہے ۔
ایک اور حدیث میں اس طرح ہے کہ:
''عن ابی جعفر ـ قال:ماضرّمن مات منتظراً لأمرنا ألّا یموت فی وسط فسطاط المھدیّ و عسکرہ ''
حضرت امام باقر (ع) فرماتے ہیں : جو ھمارے امر کی انتظار کی حالت میں مرے وہ حضرت مھدی (عج) کی فوج اور خیمے کے در میان نہ بھی مرا ھو تو اس کے لئے کوئی حرج نھیں ہے۔
جوحالتِ انتظار میں مر جائے اس کے لئے کوئی فرق نھیں پڑتا ہے کہ وہ ظھور سے پھلے اس دنیا سے اٹھ جائے۔
'' عن فضیل ابن یسار قال : سمعت أبا جعفر(ع) یقول : من مات و لیس لہ امام فمیتتہ میتةجاھلیة ، و من مات وھوعارف لامامہ لم یضرہ ، تقدم ھذا الأمر أو تأخر ، من مات و ھو عارف لامامہ ، کان کمن ھو مع القائم فی فسطاطہ ''
فضیل ابن یسار کھتے ہیں : '' میں نے امام باقر(ع) سے سنا کہ آپ نے فرمایا : جس انسان کو موت آئی اور اس کا امام نہ ھو تو اس کی موت جاھلیت کی موت ہے اور جو اپنی امام کی معرفت کے ساتھ مرے تو ظھور کی تعجیل اور تأخیر سے اسے کوئی نقصان نہ ھوگا اور جو اپنی امام کی معرفت کے ساتھ مرے تو وہ حضرت قائم (عج) کی معیت میں حضرت کے خیمے میں بیٹھے ھوئے شخص کی طرح ہے۔
ایک اور حدیث میں امام جعفر صادق(ع) نے فرمایا :
عن عمر ابن أبان قال : '' سمعت أبا عبد اللّہ ـ یقول : أعرف العلامة فاذا عرفتہ لم یضرّک ، تقدّم ھذا الأمر أو تأخر، انّ اللّہ عزّوجلّ یقول : '' یوم ندعو کل أناس بامامھم '' فمن عرف امامہ کان کمن کان فی فسطاط المنتظر ـ ''
عمر ابن أبان کھتے ہیں کہ میں نے حضرت امام صادق(ع) سے سنا کہ آپ نے یہ فرمایا کہ : علامت کو پھچانو جب تم اپنے امام کو پھچان لو تو پھر ظھور کی تعجیل و تأخیر میں تمھارے لئے کوئی حرج نھیں ہے ۔ اللہ تعالی نے فرمایا ہے : ھم قیامت کہ دن ھر انسان کو اپنے امام کے ساتھ بلائیں گے پس جس نے امام کو پھچان لیا وہ امام (ع) منتظر کے خیمے میں بیٹھے ھوئے شخص کی طرح ہے۔
امام فرماتے ہیں :
'' اعرف العلامة … ''
علامت کو پھچانو …
'' فاذا عرفتہ لم یضرّ ک تقدّم ھٰذالامر او تاخّر انّ اﷲ عزّ و جلّ یقول یوم ندعوکلّ اناس بامامھم … ''
امام صادق (ع) فرماتے ہیں :
'' فمن عرف امامہ … ''
جس نے اپنے امام کو پھچان لیا …
'' کان کمن کان فی فسطاط المنتظر علیہ السلام … ''
عصر غیبت کو عصر ظھور میں بدلنے کا راستہ
یہ شخص اس کی طرح ہے جو حضرت حجت (عج) کے خیمے میں ھو ، امام (ع) فرماتے ہیں : جب تمھیں اپنے امام کی معرفت ھوجائے تو تم ایسے ھو جیسے سپاہِ امام (عج) میں شامل ھو ، جیسے تم لوائے امام کے نیچے کھڑے ھو ، تم ایسے ھو جیسے رسول اﷲ کی معیت میں بدر میں شھید ھوئے ھو اور تم ایسے ھو جیسے حضرت حجت (عج) کے مرکزی خیمے میں حضرت کے ھمراہ ھو ،پس معلوم یہ ھوا کہ انتظار کس چیز کا نام ہے ، زمینی اور زمانی فاصلوں کو سمیٹنے کا نام ہے ، انسان یہ فاصلے سمیٹ سکتا ہے کہ اگر ظھور ھمارے عھد میں نہ بھی ھوا تو آج ھم اپنے آپ کو عصر ظھور میں پیش کر سکتے ہیں ، آج ھم اپنے آپ کو عصر ظھور میں لے جا سکتے ہیں، ظھور اگرھمارے زمانے میں نہ ھو ا تو بھی ھم ظھور کے زمانے میں پھنچ سکتے ہیں۔ کیسے پھنچیں گے ؟ حضرت امام صادق (ع) نے بیان کر دیاکہ آپ اپنے امام کی معرفت پیدا کریں ۔
معرفتِ امام (ع) سے کیا مراد ہے ؟
'' من مات و لم یعرف امام زمانہ مات میتة جاھلیّة … ''
'' جو شخص مر جائے اور اس کو اپنے زمانے کے امام کی معرفت نہ ہھو اس کی موت جاھلیت کی موت ہے ''
معرفت امام کی حقیقت
یھاں پر دو قسم کی معرفتوں کی طرف اشارہ ھوگا۔ اما م کے بارے میں دو قسم کی باتیں آپ کے سامنے آئیں گی ایک یہ کہ امام کون ہیں ؟ اور ایک یہ کہ امام کیا ہیں ؟ وہ معرفت جو علی کے بارے میں لوگوں کو تھی، وہ صرف اتنی معرفت تھی کہ علی کون ہیں ؟ لیکن انھیں یہ معلوم نھیں تھا کہ علی (ع) کیا ہیں ؟ اس لئے وہ سب جاھلیت کی موت مرے ، پس اپنی معرفت کو ذرا ورق الٹ کر دیکھ لیں اپنی معرفت کی بیاض الٹ کر دیکھ لیں کہ ھماری کتنی معرفت ہے ؟ اگر ھمیں صرف اتنا پتہ ہے کہ علی کون ہیں ؟ یہ وہ معرفت نھیں ہے جو ھمیں جاھلیت کی موت سے بچا سکے گی بلکہ ھمیں یہ معلوم ھونا چاھئے کہ علی (ع) کیا ہیں ؟
بعض مسلمان جب زیارات کے لئے جاتے ہیں تو ائمہ(ع) کی قبور پر ھاتھ اٹھاکر فاتحہ پڑھتے ہیں ، اگر ان سے پوچھو کہ یہ کون ہیں تو فرماتے ہیں کہ یہ حضرت فلاں ہیں اوریہ حضرت فلاں ہیں ، تو آپ کیا کر رھے ھو ؟ ھم فاتحہ پڑھ رھے ہیں یہ فاتحہ کیوں پڑھ رھے ھو ؟ کھتے ہیں یہ فاتحہ ان کی بخشش کے لئے پڑھتے ہیں ، اب آپ بتائیں انھیں معلوم ہے یا نھیں ہے کہ یہ کون ہیں ؟یقینا معلوم ہے کہ یہ کون ہیں ،لیکن جب با معرفت مؤمنین وھاں پر جاتے ہیں تو کیا کرتے ہیں ؟ وہ وھاں جاکر ان کی بخشش کے لئے نھیں بلکہ اپنی بخشش کے لئے فاتحہ پڑھتے ہیں ۔ یھی فرق ہے جس کو یہ معلوم ھو کہ یہ کون ہیں ؟ وہ فاتحہ ان کی بخشش کے لئے پڑھتا ہے اور جس کو معلوم ھو کہ یہ کیا ہیں وہ ان سے اپنی بخشش کرواتا ہے ۔
امام کی پھچان کا طریقہ
وہ معرفت جو ھماری نجات کا وسیلہ بن سکتی ہے ،جو غیبت کی دوریاں سمیٹ سکتی ہے ، جو ھمیں حضرت مھدی (عج)کی سپاہ کے خیمے میں لے جا سکتی ہے ، جو ھمیں اپنے امام کی دوری کے باوجود امام کا قرب نصیب کر سکتی ہے وہ یھی معرفت ہے کہ امام کیا ہیں ؟ اور یھی سب سے اھم نکتہ تھا کہ جب ائمہ زندہ تھے تو اس وقت بھی انگلیوں پہ گنے ھوئے چند لوگوں کو معلوم تھا امام کیا ہیں ؟ آج بھی یھی المیہ موجود ہے ۔ آج بھی آپ کو انگشت شمار ملیں گے جن کو پتہ ہے امام کیا ہیں ؟
اب پھر حدیث کی طرف آتے ہیں کہ امام کیا ہیں ؟ خود معصوم یہ فرماتے ہیں کہ اگر خدا کو پھچاننا ہے تو ربوبیت سے پھچانو ہے اگر نبی کو پھچاننا ہے تو رسالت سے پھچانو اور اگر امام کو پھچاننا ہے تو امر بالمعروف و نھی عن المنکر سے پھچانو یعنی امام (ع) یہ فرما رھے ہیں کہ خدا ربوبیت سے پھچانا جائے گا نبی رسالت سے پھچانا جائے گا اور امام اپنی امامت سے پھچانا جائے گا۔
امام کو امامت کے ذریعے پھچانو
پس پھلے امامت کو سمجھو کہ امامت کیا چیز ہے ؟ امامت کی حقیقت کو جب سمجھ جاؤ گے تو پھر تمھیں پتہ چل جائے گا کہ تم کیا ھو ؟ اور امامت تم سے کیا مانگتی ہے ؟ امامت تم سے کیا طلب کرتی ہے ؟ جب امامت کے معانی میں اتر جاؤ گے تو اس وقت تمھیں امامت کے ساتھ اپنا رابطہ بھی معلوم ھوجائے گا پھر فرق نھیں پڑتا ہے کہ امام ھماری نظروں کے سامنے ھو یا پردہ غیبت میں ھو ، ھم ھمیشہ اس کے لئے تیار ہیں ، انتظار اسی چیز کا نام ہے ، انتظار اسی چیز کو کھتے ہیں کہ جب ھمیں علم ھوجائے کہ امامت کیا ہے ؟
حضرت ابوذرغفاری کو علم تھا کہ علی(ع) کیا ہیں ؟ پھر فرق نھیں پڑتا تھا ابوذر اپنے گھر میں ھوں یا علی(ع) کے گھر میں ھو ں، ھر دو حال میں ابوذر ایک ھی طرح سے تھے ، چونکہ ان کو معلوم تھا کہ علی (ع)کیا ہیں ؟
امام و شیعہ کے معنی
امامت امت کے بغیر نھیں ھو سکتی ہے، امامت پیروکار کے بغیر نھیں ھو سکتی ہے ،فقط پیروکار کے لئے لفظ شیعہ استعمال ھوا ہے اور پیشوا کے لئے لفظِ امام استعمال ھوا ہے دونوں کی روح میں عمل موجود ہے، امام یعنی آگے چلنے والا شیعہ یعنی پیچھے چلنے والا، ھر دو چلنے والے ہیں امام بھی چل رھا ہے اور شیعہ بھی چل رھا ہے فرق صرف اتنا ہے کہ وہ آگے چل رھا ہے اور یہ پیچھے چل رھا ہے کسی رکے ھوئے کو امام نھیں کھتے ہیں اورکسی رکے ھوئے کو شیعہ نھیں کھتے ہیں ۔
ظھور قائم کے لئے قیام کی ضرورت
حضرت (ع) کے القابات میں سے ایک بھت نورانی لقب ہے جسے سن کر سب ادب سے اٹھ کھڑے ھوتے ہیں وہ قائم آل محمد عجل اﷲ تعالیٰ فرجہ الشریف ہے۔ یہ لقب حضرت (ع) کے ظھور کی ماھیت اور حقیقت بھی بتاتاہے اور ھمیں انتظار کا فلسفہ بھی بتاتا ہے یعنی جب وہ حضرت ظھور فرمائیں گے تو وہ قائماً ظھور فرمائیں گے ، کوئی قاعد نھیں بلکہ قائم آئے گا ۔ قائم یعنی حالتِ قیام میں آئے گا اور حالتِ قیام میں جب آئے گا تو ان کے پاس نھیں آئے گا جوبیٹھے ھوں، ان کے پاس نھیں آئے گا جوسوئے ھوں ،ان کے پاس نھیں آئے گا جو لیٹے ھوں، مشغول لوگوں کے پاس نھیں آئے گا، مست لوگوں کے پاس نھیں آئے گا بلکہ ان کے پاس آئے گا جو حالتِ قیام میں ھوں گے ، پس معلوم یہ ھوا کہ ھم منتظرہیں کہ وہ ظھور فرمائیں اوروہ منتظر ہیں کہ ھم قیام کریں ۔ ھم دونوں منتظر ہیں صرف ھم انتظار میں نھیں ہیں وہ بھی انتظار میں ہیں لیکن یہ انتظار کی مدت ختم کیسے ھو ؟ اس کی ایک شرط ہے وہ شرط یہ ہے کہ وہ منتظر ہیں کہ یہ امت پھچان لے کہ امام کیا ھوتا ہے ؟ اس لئے کہ پھلے جو گیارہ گزرے ہیں وہ امت میں موجود تھے لیکن امت نے ان کو نھیں پھچانا، امام موجود تھے امت نے نھیں پھچانا اور جب امام نہ پھچانا جائے تو اس کا ھونا امت کو کوئی فائدہ نھیں دیتا ہے بلکہ اس کے ھوتے ھوئے بھی امت جھنم چلی جاتی ہے تو یہ امام ہے کس کا منتظر ہے؟ اس بات کا کہ پھلے میں پھچانا جاؤں پھر میں جب آؤں گا تو میں قیام کروں گا اورمیں ان کے پاس آؤں گا جو حالتِ قیام میں ھوں گے ۔ پس امام منتظر ہیں دو چیزوں کے ایک یہ کہ ھم معرفت امام پیدا کر یں کیونکہ معرفتِ امام ھمیں میدان میں لے آئے گی اور میدان میں جب ھم حالتِ قیام میں ھوں گے تو قائم آل محمد عجل اﷲ تعالیٰ فرجہ الشریف ظھورفرمائیں گے۔
اس ساری بحث سے مقصود یہ تھا کہ انتظار کے بارے سوال اٹھایا جائے نہ کہ سوال دبایا جائے ، مقصود یہ تھا کہ اس پرسکون سمندر میں موج ایجاد کی جائے ۔
خدا تجھے کسی طوفاں سے آشنا کر دے
کہ تیرے بحر کی موجوں میں اضطراب نھیں
خدا وند تبارک وتعالیٰ سے دعاہے کہ امت کا سکون و سکوت توڑ دے تاکہ امت قیام کرے اور قائم ظھور کرے۔ انشاء اﷲ۔
حجۃ الاسلام والمسین سید جواد نقوی
 

Add comment


Security code
Refresh