www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

حضرت امام مھدی عجل اللہ فرجہ الشریف کی حکومت برپا نھیں ھوگی مگر یہ کہ سب گروہ حکومت تک پھنچ جائیں،تاکہ کوئی یہ نہ کھے اگر ھم حکومت کرتے تو عدالت برپا کرتے ۔

سوال یہ ہے کہ اس شکستہ حال اور سرگردان انسان جو ناکامیوں اور عمل کے بغیر خالی نعروں اور شکست و سراب کا مشاھدہ کررھا تھا" اسکا کیا بنے گا؟آج کا انسان گذشتہ تجربات کی بدولت دنیا کے لئے ایک نئی نگاہ اور جدید منصوبے کی تشنگی کا احساس کررھا ہے اور کوئی چیز اس کو سیراب نھیں کرسکتی مگر یہ کہ مھدویت کا مدینہ فاضلہ، کیونکہ قائم ایک جدید امر(سسٹم) برپا کریں گے ... اور اللہ کی راہ میں کسی کی ملامت پر توجہ نھیں کریں گے۔
تمام مکاتب اس کوشش میں ہیں کہ انسانی ضروریات اور مسائل کا حل پیش کریں۔اھم ترین مسائل مثلاً عدالت خواھی،طلب کمال اور آسائش وسکون کی خواھش نیز امیدیں ...ان سب کا تحقق ایک سسٹم کا محتاج ہے،ایسا سسٹم جس میں قوانین کی تنظیم و تدوین ھو اور ان قوانین کے اجراء کے لیے مستحکم سیاسی نظام اور حکومت تشکیل ھو۔پس ھر مکتب کوشش کررھا ہے کہ ان انسانی تقاضوں کو لباس حقیقت پھنانے کے لیے یھاں سسٹم کا ایک خاص ماڈل پیش کرے ۔
عقائد ونظریات کی بناء پر مختلف حکومتیں سامنے آئیں، بھت سے پروگرامز اور روشیں بیان کی گئیں ،لیکن کچھ عرصہ بعد لوگوں نےان پروگرامز اور نظریات بے فا ئدہ ھونے ،عوام کے ان پر اعتماد ختم ھونے اور آخرکار عالمی سطح پر مسلسل مختلف مکاتب اور حکومتوں کی ناکامیوں کا نظارہ کیا۔
قابل توجہ بات یہ ہے کہ ان میں سے بھت سی حکومتیں فریب اور جھوٹ کی بنیاد پر وجود میں آئی تھیں ۔مثلاً گذشتہ کئی سالوں سے دو غالب نظریات کیپیٹل ازم جو مغرب کی لبرل ڈیموکریسی کا نمائندہ ہے اور کیمونیزم جو مزدوروں کے حقوق کے دفاع کا مدعی ہے، دو وحشی درندوں کی طرح ، اٹیمی اسلحوں کی طاقت کے ساتھ عصر حاضر کو خطرے سے دوچار کرنے کی دھمکی دے چکے ہیں ۔ ان کا یہ طولانی تنازع اور کسی وقت بھی شروع ھونے والی عالمی ایٹمی جنگ کا خطرہ دنیا پر منحوس سایہ ڈالے ھوئے ہے اور عصر حاضر کا فھمیدہ انسان نفسیاتی سکون اور پا ئیدار امن کے احساس سے محروم ہے.
یہ دھمکیاں اور خطرات ان دو مکاتب کے کمزور پروگرام اور ناتوان نظریات پر آشکار دلیل ہے۔یہ دو نظریے اگرچہ سالھا سال تک انسانی معاشرے کے سیاسی افکار پر اثر انداز ھوتے رھتے ہیں لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان میں سے ایک نے اپنے ناکارہ ھونے کا ثبوت دے دیا اور تاریخ کے کوڑے دان کی زینت بنا ۔
دوسری طاقت جو کیمونزم کے مقابلے میں تھی بظاھر رقیب نہ ھونے کی وجہ سے غرور اور تکبر میں مبتلا ھوکر دنیا کو اپنے پنجے اور دانت دکھا کر اپنے آپ کو جدید عالمی نظام کی رھبریت کے لئے مناسب ترین آئیڈیالوجی سمجھتی ہے اور اس کوشش میں ہے کہ ھر ممکن طریقے سے مخالف آواز کو سینوں میں ھی دبا دیا جائے۔
البتہ یہ خام خیالی سے زیادہ کچھ بھی نھیں چونکہ لبرل ڈیموکریسی کی دنیا میں مخالفت کو باآسانی مشاھدہ کیا جاسکتا ہے۔ اس مکتب فکر نے نہ صرف بشریت کو ساحل نجات تک نھیں پھنچایا، بلکہ اس کو معرفتی اخلاقی، نفسیاتی ، ٹیکنالوجی اور دیگر بحرانوں سے دوچار کردیا ہے ۔
بعنوان مثال کسی دور میں مادی فلسفہ کے دانشور فرانسیس بیکن (Francis Bacon ) اور دیگر حضرات مدعی تھے کہ مادی تجربی علوم کے ذریعے فطرت و طبعیت پر تسلط پایا جا سکتا ہے؛لیکن آج مغربی مفکرین اس سوال کا سامنا کر رھے ہیں کہ مادی و تجربی علوم کی وسعت اور ٹیکنالوجی کی ترقی کیوں دنیا کو رفاہ وعدالت نھیں دے سکی؟ھر روز غربت کی لکیر کے نیچے ممالک کی تعداد میں اضافہ کیوں ھورھا ہے؟کیوں آج کا انسان مضطرب اور بے سکون ہے؟اسی دسیوں دیگر سوالات اس عالمی استکبار کی عنقریب حتمی شکست کی نشانیاں ہیں ۔
آج کے انسان کی ضرورت:
اب سوال یہ ہے کہ "اس شکستہ حال اور سرگردان انسان جو ناکامیوں اور عمل کے بغیر خالی نعروں اور شکست و سراب کا مشاھدہ کررھا تھا" اسکا کیا بنے گا؟آج کا انسان گذشتہ تجربات کی بدولت دنیا کے لئے ایک نئی نگاہ اور جدید منصوبے کی تشنگی کا احساس کررھا ہے اور کوئی چیز اس کو سیراب نھیں کرسکتی مگر یہ کہ مھدویت کا مدینہ فاضلہ، کیونکہ : "یقوم القائم بامر جدید وکتاب جدید وقضاء جدید...ولایاخذہ فی اللہ لومۃ لائم"۔(۱)
قائم ایک جدید امر(سسٹم) برپا کریں گے اور نئی کتاب نیز نیا قضاوت کا نظام لائیں گے... اور اللہ کی راہ میں کسی کی ملامت پر توجہ نھیں کریں گے۔
مھدویت کا نظریہ ایک محدود علاقے کا نظریہ نھیں بلکہ یہ عالمی نظریہ ہے اور یہ جدیدنظریہ دنیا اور اس کے نظم و نسق کو چلانے کے لئے جامع، بنیادی اور عملی منصوبہ پیش کررھا ہے۔ دنیا بھی اس طرح کے نظام اور فکر کی تشنگی محسوس کرتی ہے اس لئے ھم یہ ایمان رکھتے ہیں کہ عصر حاضر کے انسان کو جو نظام مطمئن کرسکتا ہے اور اس کی مادی و معنوی احتیاجات کو پورا کرسکتا ہے وہ صرف اور صرف نظریہ اور نظام مھدویت ہے چونکہ مھدویت کا نظام سیاسی اور حکومتی پھلو سے اعلی مقاصد اور اقدار کا حامل ہے۔
امام مھدی عجل اللہ فرجہ الشریف کا سیاسی اور حکومتی نظام اپنے سے پھلے نظاموں مثلاً سرمایہ داری اور سوشلسٹ نظام سے کوئی شباھت نھیں رکھتا ۔جب بھی بشریت مھدوی نظام کا مشاھدہ کرے گی بغیر کسی تردید کے اس کی گذشتہ تمام تجربوں اور دعووں پر برتری کا یقین پیدا کرے گی اور یہ ایمان رکھے گی اسے مشکلات اور مصائب کے گرداب سے نجات دینے کے لیے تنھا راہ حل یھی نظام ہے۔
امام مھدی عجل اللہ فرجہ الشریف کی حکومت بشریت کی تمام دیرینہ آرزؤں کی تجلّی گاہ ہے۔شیعہ احادیث میں اس موضوع پرواضح اشارے موجود ہیں: "ان دولتنا آخر الدول و لم يبق اهل بيت لهم دوله الا ملكوا قبلنا، لئلا يقولوا اذا راوا سيرتنا: لو ملكنا سرنا مثل سيره هولاء، و هو قول الله عز و جل و العاقبه للمتقين"(۲)
بلا شبہ ھماری حکومت آخری حکومت ہے اور حکومت کرنے والا کوئی خاندان نھیں بچے گا مگر یہ کہ ھم سے پھلے حکومت کرے گا، تاکہ جب ھمارا طرز حکومت دیکھیں تو یہ نہ کھیں اگر ھم حکومت تک پھنچیں، ان کی مانند عمل کریں گے ۔اللہ تعالی فرماتا ہے کہ اچھا انجام متقین کے لیے ہے۔
یا وہ روایت جو ھشام بن سالم ،امام صادق علیہ السلام سے نقل کرتے ہیں ،اس میں آیا ہے:
"مایکون ھذا الامر حتی لایبقی صنف من الناس الا وقد ولوا من الناس لا یعنی باشروا الحکم فیھم حتی لایقول قائل:انا لو ولّینا لعدلنا"(۳)
امام مھدی عجل اللہ فرجہ الشریف کی حکومت برپا نھیں ھوگی مگر یہ کہ سب گروہ حکومت تک پھنچ جائیں،تاکہ کوئی یہ نہ کھے اگر ھم حکومت کرتے تو عدالت برپا کرتے ۔
ان روایات میں حکومت وعدالت کے سب دعویداروں کے لیے پیغام ہے کہ تم سب کو دنیا میں حکومت کا موقعہ ملا ،لیکن تم لوگوں نے بھی دوسروں جیسا راستہ اختیار کیا اور عدل الھی سے دور ھوگئے۔پس امام مھدی عجل اللہ فرجہ الشریف حکومتی مسائل میں کسی سابقہ نظام کو اپنا ماڈل قرار نھیں دیں گے بلکہ قران وحدیث کی رو سے حق وعدالت محور اورالھی رضایت کا حامل ایک مکمل اور جامع نظام پیش کریں گے کہ دیگر تمام قسم کے سیاسی وحکومتی نظاموں کلی طور پر بےنیاز ھوجائیں گے۔
امام باقر علیہ السلام اس بارے میں فرماتے ہیں: "...لئلا یقولوا اذا راو سیرتنا،اذا ملکنا ،سیرتنا مثل سیرۃ ھولاء"(۴)
یعنی جب ھماری سیرت وطرزعمل دیکھیں تو یہ نہ کھیں کہ اگر ھم حاکم ھوتے تو ھمارا طرز عمل بھی ان کی مانند ھوتا۔
لھذا حضرت عجل اللہ فرجہ الشریف کی آخر الزمان میں حکومت کی ایک حکمت بشریت کا امتحان جانی جاسکتی ہے ،کیونکہ عدالت کے اجراء کے دعویداروں کو ان کی حکومت کی تشکیل میں آزمایا گیا تاکہ وہ عدالت کے اجراء میں اپنی ناتوانی اور عجز سے واقف ھوسکیں۔
ایک اور مقام پر امام باقر علیہ السلام اسی موضوع کی طرف اشارہ کرتے ھوئے فرماتے ہیں:
"... ولم یبق اھل بیت لھم دولۃ الّا ملکواقبلنا "(۵)
کوئی ایسا خاندان نھیں رھے گا جو حکومت کا دعویدار ھو اور ھم سے پھلے حکومت تک نہ پھنچا ھو۔
بھرحال یہ نکتہ پیش نظر رھے کہ عصر غیبت میں جو تحریکیں اور انقلابات حضرت عجل اللہ فرجہ الشریف کے ظھور کی راہ ھموار کرنے کے لیے برپا ھوں ،وہ ان روایات کی مصادیق اور موضوع بحث نھیں ہیں ،کیونکہ یہ انقلابات ،تحریکیں ،قیام اور اقدامات اس عظیم عالم گیر انقلاب اور اس کے ضمن میں الھی وعدہ کولباس حقیقت پھنانے میں نصرت شمار ھوتے ہیں اور یہ چیز بذات خود منتظرین کے وظائف میں سے بھی ہے۔
یہ بات واضح ہے کہ امام زمانہ عجل اللہ فرجہ الشریف کی حکومت کے مقاصد ممکن ہیں کہ وسیع و بلند اور دینی حکومت کے اسٹریٹیجک کےطور پر بیان ھوں، لھذا جو لوگ بھی اس زمانے میں دینی حکومت کے نظام کے دعوے دار ہیں انھیں چاھئے کہ اپنے تمام حکومتی نظام کو امام زمانہ عج اللہ فرجہ الشریف کے مقاصد اور اھداف سے نزدیک کریں اور ان کی سیرت کو اپنے نظام میں سیاسی، اجتماعی ، ثقافتی اور عدالتی لحاظ سے مدنظر رکھیں۔ اگرعقیدہ مھدویت اچھے انداز سے بیان کیا جائے، تو دنیا بھر کی اصلاحی تحریکوں میں بھترین انداز سے روح و حیات پیدا ھوجائے گی جس طرح سے ایران کا اسلامی انقلاب امام مھدی عجل اللہ فرجہ الشریف کے عظیم انقلاب کا پیش خیمہ بن گیا ہے۔
حوالہ جات:
۱۔ الغیبۃ نعمانی،محمد بن ابراھیم ،ص۱۲۲۔
۲۔ الارشاد فی معرفۃ حجج اللہ علی العباد ،شیخ مفید ،ص۳۴۴ ،اعلام الوری ،احمد بن علی طبرسی ،ص۴۳۲۔
۳۔ تاریخ الغیبۃ الکبری ،سید محمد باقر ،ص۳۸۹۔
۴۔ اصول کافی،ج۱،ص۴۰۷۔
۵۔ الغیبۃ ،طوسی،ص۴۷۲۔
 

Add comment


Security code
Refresh