www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

معرفت کا لازمه محبت هے یه اس معنی میں که جب تک انسان کسی چیز کو نه پهچانتا هو اور اسکی خاصیت کو نه جانتا هو اسکی عظمت وفضائل اسکے مقام و منزلت سے بے خبر هو

 اس سے محبت نهيں کر سکتا لیکن اس کے بر عکس انسان جس قدر کسی کی عظمت اور فضائل سے واقف هو جاۓ تو خود بخود اسکی محبت اسکے دل میں آجاتی هے ،اور اس کی ظرف توجه بڑھتی چلی جاتی هے -

اور خدا ورسول(ص) اور ائمه اطهار(ع) کی محبت وه شمع هے جو انسان کے تاریک دلوں کو پاک منور کر دیتا هے ، اور انسانوں کو گناهوں وبرائیوں سے نجات دیتا هے کیونکه معرفت محبت کا ستون هے اور محبت گناهوں سے بچنے کا عظیم ذریعه اورتهذیب وتزکیه نفس کی شاهراه هے ۔
اور روایات معصومین میں امام عصر ارواحنا له الفدء کی محبت پر خاص طور پر توجه دی گئی هے –چناچه رسول اکرم(ص) فرماتے هیں :"خداوند متعال نے شب معراج مجھ پر وحی کیا اےمحمد ! زمین پر کس کو اپنے امت پر اپنا جانشین بنایا هے ؟ جبکه خالق کائنات خود بهتر جانتا تھا ،میں نے کها پروردگارا اپنے بھائی علی ابن ابی طالب کو ........ اچانک میں نے علی ابی طالب اور ....... حجت قائم کو ایک درخشان ستارے کے مانند انکے درمیان تھے دیکھا عرض کیا پروردگارا یه کون لوگ هیں ؟ فرمایا یه تمھارے بعد ائمه هیں اور یه قائم هے جو میرے حلال کو حلال اور حرام کو حرام کر دے گا اورمیرے دشمنون سے إنتقام لے گا .اے محمد ! اسے دوستی کرو کیونکه میں انکو اور ان سے دوستی رکھنے والوں کو دوست رکھتا هوں ۔ پس اگر چه تمام معصومین کی محبت واجب هے لیکن اس روایت سے معلوم هوتا هے که حضرت حجت(عج) کی محبت خاص اهمیت اور خصوصیت کے حامل هے ۔ اسیلۓ آٹھویں امام نے اپنے آباء و اجداد کے واسطے امام علی علیه السلام سے نقل کیا هے ، آپ نے فرمایا :"قال لي أخي رسول اللّه ..........ومن أحبّ ان يلقي اللّه وقد كمل ايمانه وحسي اسلامه فليتولّ الحجة صاحب الزّمان المنتظر ......"(۱) مجھ سے میرے بھائی رسول (ص)خدا نے فرمایا: جو شخص اﷲ تعالی سے اپنے مکمل ایمان اور نیک اسلام کے ساتھ ملاقات کا خوهاں هے تو اسے چاهئے که حضرت حجت صاحب الزمان(عج) کی ولایت کے پرچم تلے آجاۓ اور انھیں دوست رکھے۔۔۔۔
لهذا منتظرین کی دوسری سب سے بڑی ذمہ داری إمام عصر ارواحنا له فداء کی محبت کو اپنے اندر بڑھنا هے اور همیشه انکی طرف متوجه رهنا هے ، اور اسکے لیے مختلف ذریعے بیان هوۓ هیں ۔
حوالہ:
۱۔الصراط المستقيم، ج ۲، ص۱۴۹۔
 

Add comment


Security code
Refresh