www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

تاریخ پر باریک بینانہ نظر نہ رکھنے والوں نے دعوی کیا ہے کہ طلوع اسلام کے زمانے میں مکہ و مدینہ کے گھروں کے موجودہ زمانے کی طرح کے لکڑی کے بنے ھوئے دروازے نھیں تھے

 اور لوگ گھروں کو اغیار کی نظروں سے بچانے کے لئے پردے لگایا کرتے تھے.. ان حضرات نے اس مفروضے کی بنیاد پر نتیجہ اخذ کیا ہے کہ سیدہ فاطمہ سلام اللہ علیھا کے گھر کے دروازے کو آگ لگانے اور آنحضرت سلام اللہ علیھا کو زخمی کرنے کا قصہ درست نھیں ہے!!
یہ شبھہ "ڈاکٹر سھیل زکار" سے منسوب کیا گیا ہے البتہ کوئی ثبوت موجود نھیں ہے کہ واقعی انھوں نے یہ رائے دی ہے یا نھیں! لیکن مشھور یھی ہے. بھرحال یہ بات بعض دوسروں نے بھی دھرائی ہے لھذا ضروری ہے کہ اس کا مستند تاریخی جواب دیا جائے.
دیکھتے ہیں کہ "علامہ سید جعفر مرتضی عاملی» نے اپنی کتاب "مأساة الزھرا (ع)" ــ مطبوعہ 1997 - دارالسیرة بیروت ــ میں اس موضوع کے بارے میں کیا لکھا ہے اور ان کے دلائل کیا ہیں:
الف ) مدینہ کے گھروں کے دروازے تھے
 ۱۔ابو فدیک کھتے ہیں: میں نے "محمدبن ہلال" سے ام المؤمنین عائشہ کے کمرے اور حجرے کی خصوصیات کے بارے میں سوال کیا تو انھوں نے کھا:
"اس کا دروازہ شام کی جانب تھا". میں نے کھا: "اس دروازے کا ایک مصراع (پٹ﴾ تھا یا دو پٹ تھے؟". انھوں نے کھا:"ایک پٹ"، میں نے پوچھا: "کس جنس کا تھا؟" انھوں نے کھا: "یا تو وہ عرعر کے درخت کی لکڑی کا تھا یا پھر ساج کے درخت سے بنا تھا".(۱)
۲۔ ابوموسی اشعری کھتا ہے: "ھم رسول اللہ (ص﴾ کے ھمراہ تھے کہ "بئر أدیس" کے علاقے میں وارد ھوئے. پیغمبر (ص) داخل ھوئے اور ھم باھر رہ گئے اور میں "ایک دروازے کے ساتھ بیٹھ گیا جس کی لکڑی جریب نخل کی تھی".(۲)
۳۔ حضرت ابوذر غفاری کھتے ہیں کہ پیغمبر اکرم (ص﴾ نے فرمایا: "اگر کوئی شخص کسی گھر کا سامنے سے گذرے جس کا دروازہ بند نہ ھو اور اس کے اوپر پردہ بھی نہ لٹک رھا ھو اور اس کی نظر گھر کے اندر پڑے تو اس پر کوئی گناہ نھیں ہے بلکہ قصوروار اھل خانہ ھوں گے"۔(۳)
۴۔ حضرت علی علیہ السلام اور حضرت فاطمہ سلام اللہ علیھا کے رشتہ ازدواج کے سلسلے میں وارد ھونے والی حدیث میں آیا ہے کہ نبی اکرم (ص﴾ نے ان دو کو امر فرمایا کہ اپنے گھر میں داخل ھوجائیں؛ پھر آپ (ص﴾ نے دونوں کے لئے دعا کی اور پھر اٹھ کر باھر چلے گئے اور اپنے مبارک ھاتھوں سے گھر کا دروازہ بند کیا "ثم قام فأغلق علیھما الباب بیدہ".(۴)
۵۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے مروی ہے کہ آپ (ص﴾ نے فرمایا: "جو شخص لوگوں کے امور میں سے کسی امر کا عھدہ قبول کرے اور پھر غرباء، حاجتمندوں اور مظلوموں پر اپنے گھر کا دروازہ بند کردے خداوند متعال اس کی غربت اور تنگد ستی کے ایام میں اپنی رحمت کے دروازے اس کے اوپر بند کردے گا"(۵).
۶۔ ابو حمید نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے نقل کرتے ہیں کہ آپ (ص﴾ نے ھمیں حکم دیا کہ ھم رات کے وقت پانی کے برتنوں کو گھر کے ایک کونے میں رکھا کریں اور گھر کا دروازہ بند کیا کریں".(۶)
۷۔ جابر اور ابوھریرہ سے منقول ہے کہ پیغمبر (ص) نے فرمایا: "اپنے گھر کا دروازہ بند کرو اور خدا کا نام لو؛ بتحقیق شیطان بند دروازے نھیں کھولا کرتا".(۷)
۸۔ ابوھریرہ اپنی والدہ کے اسلام لانے اور ان کے رسول اللہ (ص﴾ کی دعا والی حدیث میں کھتے ہیں کہ: "... پس میں دوڑ کر اپنی ماں کی جانب چلا گیا تا کہ انھیں خوشخبری دوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان کے حق میں دعا فرمائی ہے. جب گھر پھنچا تو دیکھا کہ گھر کا دروازہ بند ہے اور میں نے مشک کے اندر پانی کے ہلنے کی آواز سنی اور ساتھ والدہ کی آھٹ بھی سنائی دی..." (۸).
۹۔ وفي حديث لعائشة عن رسول الله ( ص ) : أنه في إحدى الليالي ظن (رسول الله (ص)) أنها رقدت [او ظن أني قد رقدت]، فانتعل رويدا ، وأخذ رداءه رويدا ، ثم فتح الباب رويدا ، ثم خرج وأجافه رويدا . . الخ قالت عائشہ --- ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم --- ظن أنها رقدت فانتعل رویداً و أخذ رداءه رویداً ثم فتح الباب رویداً ثم خرج و أجافه رویداً".(۹)
ایک رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سمجھے کہ گویا میں سورھی ھوں چنانچہ آپ (ص﴾ آھستہ سے اٹھے اور آھستہ سے اپنی رداء اٹھائی؛ آھستہ سے دروازہ کھولا اور پھر آھستہ سے دروازہ بند کیا...".
مذکورہ بالا تمام احادیث میں دروازہ بند کرنے کے لئے مختلف اصطلاحات سے استفادہ کیا گیا ہے جیسی : " اغلاق الباب" ، "ردّ الباب" اور "اجافة الباب" اور ان سب کا مفھوم ایک ھی ہے یعنی دروازہ بند کرنا؛ اور پردے یا دیگر چیزوں کے لئے ان الفاظ سے استفادہ نھیں کیا جاتا.
۱۰۔ متعدد احادیث میں – جن میں سے 21 حدیثیں علامہ جعفر مرتضی عاملی نے نقل کی ہیں – دروازے پر دستک دینے کے لئے "دق الباب" ، "طرق الباب" ، "ضرب الباب" اور "قرع الباب" جیسی عبارتیں استعمال ھوئی ہیں اور اس دروازے پر کوئی دستک نھیں دیتا جو پردے پر مشتمل ھو؛ مثال کے طور پر:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے "ابو الهیثم بن التیهان" کے گھر جانے سے متعلق حدیث میں آیا ہے کہ: "پس ھم نے گھر کے دروازے پر دستک دی. ایک عورت نے کھا: کون دستک دے رھا ہے؟ عمر نی کھا: یہ رسول اللہ (ص﴾ ہیں..."(۱۰)
۱۱۔ علامہ جعفر مرتضی نے اپنی کتاب مأساة الزھرا (ع) میں 43 حدیثیں نقل کی ہیں جن کے عنوانات یوں ہیں: "الاجابة من وراء الباب = دروازے کے اس پار سے جواب" ، "خلف الباب= دروازے کے پشت پر" ، "حرک الباب = دروازے کو حرکت دینا" ، "وضع الید علی الباب فدفعہ = دروازہ کو ھاتھ سے دھکا دینا اور اسے کھول دینا" ، "فتح الباب= دروازہ کھول دینا" ، "الباب المقفل = مقفل دروازہ" اور "کسر الباب = دروازدہ توڑنا". ان ساری تعبیرات کا پردے اور پردے جیسی کسی دوسری چیز سے کوئی تعلق نھیں ہے.
۱۲۔ شیعہ اور سنی تواریخ میں مذکور ہے کہ ھجرت نبی (ص) سے قبل اھل یثرب (یا اھل مدینة النبي) مسلسل خانہ جنگی کا شکار تھے اور ان کے درمیان خونریز جنگیں جاری تھیں؛ یھاں تک کہ مشھور تھا کہ "اھل یثرب راتوں کو بھی ھتھیار اپنے آپ سے دور نھیں کیا کرتے تھے".(۱۱) تا آنکہ خداوند متعال نے پیغمبر رحمت (ص) بھیج کر ان پر احسان کیا اور ان کے درمیان اخوت و برادری کا دور دورہ ھوا اور اسلام ان کے لئے امن و سلامتی کا تحفہ ساتھ لایا. جبکہ اس سے پھلے وہ لوگ جو اپنی پڑوسیوں سے مسلسل خطرہ محسوس کرتے تھے اور ھر وقت جنگ و جدل کی حالت میں تھے حتی کہ نیند کی حالت میں بھی شمشیر ساتھ رکھا کرتے تھے.
 ایسی صورت حال میں کیا عقل و منطق قبول کرسکتی ہے کہ جن گھروں میں وہ رھتے تھے اور اپنے مال و ناموس کو وھاں رکھتے تھے ان کے لئے دروازہ نہ لگائیں اور پردہ لٹکا کر مطمئن ھوجائیں؟ عقل نھیں مانتی۔ یہ امر ھرگز معقول نھیں ہے اور ان گھروں کا دروازہ ھونا چاھئے تھا.
۱۳۔ دیگر احادیث سی ثابت ھوتا ہے کہ مدینہ کے گھروں کے نہ صرف دروازے تھے بلکہ ان دروازوں کے تالے بھی تھے اور چابیاں بھی تھیں اور احادیث میں «مفتاح = چابی» کا لفظ مسلسل دھرایا گیا ہے.
"دکین بن سعید المزني" سے نقل ہے کہ: ایک دفعہ ھم پیغمبر (ص) کی خدمت میں حاضر ھوئے اور آپ (ص) سے کھانا کھلانے کی درخواست کی. آپ (ص) نے فرمایا: "اے عمر! جاؤ انھیں کھانا لادو». فارتقی بنا الی علیة ، فأخذ المفتاح من حجزته ،ففتح ..."(۱۲)
" حین کلّم علی (ع) طلحة في امر عثمان ، انصرف علي (ع) الی بیت المال ، فأمر بفتحه ، فلم یجدوا المفتاح ، فکسر الباب ، و فرق ما فیه علی الناس ، فانصرفوا من عند طلحه حتی بقي وحده ، فسر عثمان بذالک".(۱۳)
۱۴۔ دیگر روایات بھی ہیں جن سے لکڑی کے بنے ھوئے دروازوں کی موجودگی ثابت ھوتی ہے؛ اور "شق الباب = لکڑی کے بنے ھوئے دروازوں کے شگاف" پر دلالت کرتی ہیں. امر مسلم ہے کہ پردے کا کوئی شگاف یا شق یا دراڑ نھیں ھوتی بلکہ لکڑی کے تختوں یا "سعف نخل = کھجور کی شاخوں" سے بنے ھوئے دروازوں میں شگاف ھوتا ہے. ام المؤمنین عائشہ سے مروی ہے کہ: "جب لوگ جعفر بن ابی‌طالب اور عبداللہ بن رواحة کی شھادت کی خبر لائے پیغمبر اکرم(ص) زمین پر بیٹھ گئے اور حزن و غم کے آثار چھرہ مبارک میں ہویدا ھوئے اور میں "شق الباب = دروازے کے شگاف" سے دیکھ رھی تھی..."(۱۴)
نیز امام صادق (ع) امیر المؤمنین علی (ع) سے روایت کرتے ہیں کہ: "... بينا رسول اللہ صلّى اللہ عليہ والہ في بعض حجر نسائہ وبيدہ مدراة، فاطلع رجل من شق الباب، فقال لہ رسول اللہ صلّى اللہ عليہ وآلہ : لو كنت قريباً منك لفقأت بها عينك "... ایک دن رسول اللہ (ص) اپنی ایک زوجہ کے حجرے میں بیٹھے تھے اور ایک "مدرات" (= لکڑی یا دھات کی بنی ھوئی کنگھی) آپ (ص) کی دست مبارک میں تھی اسی وقت ایک مرد نے "شق الباب = دروازے کے شگاف" سے اندر کی طرف نظر ڈالی اور پیغمبر اکرم (ص) نے فرمایا: اگر میں تمھارے قریب ھوتا تو اس کنگھی سے تمھاری آنکھ کو پھوڑ دیتا".(۱۵)
ب) مکہ کے گھروں کے بھی دروازے تھے
گو کہ مذکورہ بالا سندات اور ثبوتوں کے ھوتے ھوئے دیگر سند وثبوت کی ضرورت نھیں ہے مگر مزید اطلاع کے لئے وہ روایات بھی پیش خدمت ہیں جو مکہ کے گھروں میں دروازوں کی موجودگی ثابت کرتی ہیں. یھاں البتہ اختصار کا لحاظ رکھا جائے گا:
۱۔ جب قریش نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو قتل کرنے کا ارادہ کیا تو جناب ابوطالب علیہ السلام نے اپنے فرزند علی علیہ السلام کو حکم دیا کہ: "جان پدر! اپنے چچا ابولھب کے پاس جاؤ اس کے گھر کے دروازے پر دستک دو اور اگر اس نے دروازہ نہ کھولا تو دروازہ توڑ دو اور گھر میں داخل ھوجاؤ اور اس سے کھہ دو کہ: "میرے والد نے تمھیں پیغام دیا ہے کہ: جس آدمی کا چچا زندہ ھو وہ ذلیل نھیں ھوجاتا". پس علی (ع) ابولھب کے گھر گئے؛ دروازہ بند پایا تو دروازے پر دستک دی اور فرمایا: "دروازہ کھولو" مگر کسی نے جواب نھیں دیا تو آپ نے دروازہ توڑ دیا اور ابولھب کے گھر میں داخل ھوئے...(۱۶)
۲۔ "ام ھانی" ابوطالب کی بیٹی سے نقل ھوا ہے: "لما کان یوم فتح مکہ أجرت رجلین من أحمائی، فادخلتھما بیتا و اغلقت علیھما بابا"(۱۷)
۳۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی یہ حدیث بھی بھت معروف و مشھور ہے کہ جب فتح مکہ کے دوران لشکر اسلام مکہ معظمہ میں داخل ھوا تو آپ (ص) نے فرمایا: "من دخل دار ابي‌سفیان فھو آمن ، و من اغلق [علیہ] بابہ فھو آمن" یعنی جو شخص ابوسفیان کے گھر میں داخل ھوگا اس کے لئے امان ہے اور جو شخص اپنے گھر میں داخل ھوجائے اور دروازہ اندر سے بند کردے اس کے لئے امان ہے".(۱۸)
یہ امر قابل ذکر ہے کہ چونکہ مکہ "حرمِ امن تھا لھذا امن وامان کی حوالی سے مدینہ کی نسبت بھت بھتر تھا اور اس میں خانہ جنگی اور خونریزی کا امکان نہ تھا؛ مگر علامہ سید جعفر مرتضی عاملی کی کتاب مأساة الزھراء میں متعدد احادیث – مدینہ تو کیا - مکہ کے گھروں میں بھی دروازوں کی موجودگی پر دلالت کرتی ہیں جن میں سے ھم نے تین احادیث پر اکتفا کیا.
حوالہ جات:
۱۔ وفاء الوفاء ــ ج2، ص459 و 456 و 542۔
۲۔ صحیح مسلم ــ ج7، ص 118و صحیح بخاری ــ ج2ــ ص 187۔
۳۔ مسند احمد ، ج5 ص153۔
۴۔ بحار الانوار ـ ج4 ـ ص122و 142 و مناقب خوارزمی ص243۔
۵۔ مسند احمد ـ ج3 ـ ص 441۔
۶۔ صحیح مسلم ـ ج3ـ ص1593۔
۷۔ سنن ابی داود ـ ج2 ـ ص339 و مسند احمد ـ ج3 ـ ص386 و سنن ابی ماجہ ـ ج2 ـ ص1129۔
۸۔ مسند احمد ـ ج2 ـ ص230 ۔
۹۔ تاريخ المدينة لابن شبة : ج 1 ص 88 و 89 ، وفي هامشه عن : عمدة الأخبار : ص 123 و 124 ، وراجع : وفاء الوفاء : ج 3 ص 883 عن مسلم ، والنسائي.
۱۰۔ کنزالعمال ـ ج7 ـ ص194۔
۱۱۔ اعلام الوری ـ ص55 و بحارالانوار ـ ج19ـ ص 8 تا 10۔
۱۲۔ سنن ابی داود ـ ج4 ـ ص361 و مسند احمد ـ ج4 ـ ص174۔
۱۳۔ تاریخ طبری ـ ج4 ـ ص431۔
۱۴۔کنزالعمال ـ ج15ـ ص732.
۱۵۔ رواه الكليني في الكافي 7: 292|11 والصدوق في الفقيه 4 : 74 | 226، والطوسي في تهذيبه 10 : 207 | 818 ، وأماليه 2: 12 بتفاوت يسير، ونقله المجلسي في بحاره 79 : 278 | 4 . قرب الاسناد ـ ص18 و من لایحضره الفقیه ـ ج 4 ـ ص 74۔
۱۶۔ الکافی ـ ج8 ـ ص276 و 277۔
۱۷۔ مسند احمد ـ ج6ـ ص343۔
۱۸۔ سنن ابی داود ـ ج2ـ ص162 و مسند احمد ج2ـ ص292 و وسائل الشیعه ـ ج15ـ ص27 و تهذيب الاحکام ـ ج4 ـ ص116 و صحیح مسلم ( انتشارات داراحیاء التراث العربی ) ـ ج3 ـ ص1408 و کافی ج5 ـ ص 12 و بحارالانوار ـ ج 75ـ ص 169 ۔

 

 

Add comment


Security code
Refresh