www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

 جبرائیل کی بشارت:

"حضرت فاطمہ زھرا (س) کی ولادت کے وقت رسول خدا (ص) نے جناب خدیجہ(س) سے فرمایا : جبرائیل نے مجھے بشارت دی ہے کہ

ھمارا یہ پیدا ھونے والا فرزند لڑکی ہے ، اور تمام آئمہ معصومین(ع) اسی کی نسل سے ھوں گے"

ولادت:
مکہ میں جب قریش خانہ کعبہ کی تعمیر میں مصروف تھے تو بروز جمعہ ۲۰ جمادی الثانی بعثت کے پانچویں سال شھزادی کونین فاطمہ زھرا (س) تشریف لائیں۔
پرورش :
جناب فاطمہ زھرا (س) نے نبوت و رسالت کے گھرانے میں پرورش پائی اور رسول اسلام (ص) کے علم و دانش سے بھرور ھوئیں رسول اکرم (ص) سے زبانی قرآن سنا اور اسے حفظ کیا اور خود سازی و حقیقی انسان بننے کی فکر میں مشغول ھو گئیں اپنے والد محترم اور قرآن سے بے حد محبت فرماتیں ، اپنے والد ماجد کے فیض بخش وجود سے استفادہ فرماتیں تھیں یھی وہ کمالات تھے جن کی بنا پر پیغمبر اسلام (ص) آپ کو بے حد چاھتے تھے ایک روز آپ کی زوجہ "عائشہ " نے آپ سے سوال کیا ، کیا آپ (ص) فاطمہ زھرا (س) کو اتنا چاھتے ہیں کہ جب وہ آتی ہیں تو آپ تعظیم کے لئے کھڑے ھو جاتے ہیں اور ان کے ھاتھوں کو بوسہ دیتے ھوئے اپنے برابر میں جگہ دیتے ہیں ؟ آپ نے جواب میں ارشاد فرمایا : اے "عائشہ "اگر تمھیں یہ معلوم ھو جائے کہ میں فاطمہ (س) کو کیوں دوست رکھتا ھوں تو تم بھی انھیں محبوب رکھو ۔ آپ فاطمہ (س) کو اپنا ٹکڑا سمجھتے تھے اور برابر ارشاد فرمایا کرتے تھے کہ " فاطمہ میرا ٹکڑا ہے جس نے اسے اذیت دی اس نے مجھے ستایا اور جس نے اسے راضی کیا اس نے مجھے خوش کیا " ایک روز پیغمبر اسلام(ص) ارشاد فرماتے ہیں "فاطمہ خدا تیری خوشنودی پر خوش ہھوتا ہے اور تیری ناراضگی پر غضبناک ھوتا ہے "
 شباھت:
فاطمہ زھرا (ص) صورت ، سیرت ، رفتار ، اور گفتار میں سب سے زیادہ اپنے پدر محترم سے مشابہ تھیں ، پیغمبر اسلام (ص) کی زوجہ ام سلمی فرماتی ہیں فاطمہ زھرا (س) سب سے زیادہ رسول (ص) سے مشابہ تھیں۔
باپ بیٹی کا رشتہ :
باپ بیٹی کے درمیان یک طرفہ محبت نھیں تھی بلکہ حضرت فاطمہ زھرا (س) رسول اکرم (ص) کی طرح اپنے والد ماجد سے محبت کرتی تھیں جناب خدیجہ(س)کی وفات کے وقت آپ کی عمر چھ سال سے زیادہ نہ تھی ماں کے بعد گھر میں اپنے والد کے آرام و آسائش کو ھمیشہ مد نظر رکھتی تھیں فاطمہ وہ بیٹی تھیں کہ جو ھمیشہ اپنے باپ کے نقش قدم پر ثابت قدم رھیں شھر مکہ کی گلی کوچہ اور مسجد الحرام سب رسول (ص) کی توھین کرنے اور اذیت پھونچانے والوں سے بھرے ھوئے تھے جب بھی آپ کے پدر محترم زخمی ھو کر واپس آتے تو آپ ھی چھرہ اقدس سے خون صاف کرکے زخموں پر مرھم رکھتیں اور اپنی پیاری باتوں سے رسول کا حوصلہ بڑھاتی تھیں جب باپ اپنے وطن میں رہ کر مسافر ، اور اپنے میں بیگانہ ، اپنوں کے ھوتے ھوئے تنھا ، اپنی زبان بولنے والوں میں بے زبان ، ھر وقت جھل وبت پرستی سے بر سر پیکار ، تبلیغ کا سنگین بار اٹھانے میں یک و تنھا تھا تو فاطمہ (س) ھی تو تھیں جو اپنی بے لوث محبت سے باپ کے دل کو شاد کرتی تھیں ، اور والد کی رسالت کو تسلیم کرکے ان کی امیدوں کو تقویت بخشتی تھیں یھی تو وجہ کہ پیغمبر(ص) فرماتے تھے " تمھارا باپ تم پر قربان ھو " یا یہ کہ " اپنے باپ کی ماں " کے لقب سے پکارتے تھے چونکہ آپ اپنے باپ کے لئے مثل ماں کے تھیں ۔
زندگي نامہ حضرت فاطمہ زھرا سلام الله عليھا
نام، القاب:
نام فاطمہ اور مشھور لقب زھرا، سیدۃ النساء العلمین، راضیۃ، مرضیۃ، شافعۃ، صدیقہ، طاھرہ، زکیہ، خیر النساء اور بتول ہیں۔
کنیت:
آپ کی مشھور کنیت ام الآئمۃ، ام الحسنین، ام السبطین اور امِ ابیھا ہے۔ ان تمام کنیتوں میں سب سے زیادہ حیرت انگیز ام ابیھا ھے، یعنی اپنے باپ کی ماں، یہ لقب اس بات کا ترجمان ھے کہ آپ اپنے والد بزرگوار کو بے حد چاھتی تھیں اور کمسنی کے باوجود اپنے بابا کی روحی اور معنوی پناہ گاہ تھیں ۔
پیغمبر اسلام(ص) نے آپ کو ام ابیھا کا لقب اس لئے دیا . کیونکہ عربی میں اس لفظ کے معنی، ماں کے علاوہ اصل اور مبداء کے بھی ھیں یعنی جڑ اور بنیاد ۔ لھذا اس لقب( ام ابیھا) کا ایک مطلب نبوت اور ولایت کی بنیاد اور مبدا بھی ہے۔ کیونکر یہ آپ ھی کا وجود تھا، جس کی برکت سے شجرہ ٴ امامت اور ولایت نے رشد پایا، جس نے نبوت کو نابودی اور نبی خدا کو ابتریت کے طعنہ سے بچایا ۔
والدین :
آپ کےوالد ماجد ختمی مرتبت حضرت محمد مصطفی(ص) اور والدہ ماجدہ حضرت خدیجہ(س) بنت خولد ہیں۔ ھم اس باپ کی تعریف میں کیا کھیں جو ختم المرسلین، حبیب خدا اور منجی بشریت ھو ؟ کیا لکھیں اس باپ کی تعریف میں جسکے تمام اوصاف و کمالات لکھنے سے قلم عاجز ھو؟ فصحاء و بلغاء عالم، جس کے محاسن کی توصیف سے ششدر ھوں؟ اور آپ کی والدہ ماجدہ، جناب خدیجہ(س) بنت خویلد جو قبل از اسلام قریش کی سب سے زیادہ باعفت اور نیک خاتون تھیں ۔ وہ عالم اسلام کی سب سے پھلی خاتون تھیں جو خورشید اسلام کے طلوع کے بعد حضرت محمد مصطفی(ص) پر ایمان لائیں اور اپنا تمام مال دنیا اسلام کو پروان چڑھانے کےلئے اپنے شوھر کے اختیار میں دے دیا ۔ تاریخ اسلام، حضرت خدیجہ(س) کی پیغمبر اسلام(ص) کے ساتھ وفاداری اور جان و مال کی فداکاری کو ھرگز نھیں بھلا سکتی۔ جیسا کہ خود پیغمبر اسلام (ص) کے کردار سے ظاھر ھوتا ھے کہ جب تک آپ زندہ تھیں کوئی دوسری شادی نھیں کی اور ھمیشہ آپ کی عظمت کا قصیدہ پڑھا، عائشہ زوجہ پیغمبر(ص) فرماتی ھیں :
" ازواج رسول(ص) میں کوئی بھی حضرت خدیجہ(س) کے مقام و احترام تک نھیں پھنچ پائی ۔ پیغمبر اسلام(ص) ھمیشہ انکا ذکر خیر کیا کرتے تھے اور اتنا احترام کہ گویا ازواج میں سے کوئی بھی ان جیسی نھیں تھی ۔"پھر عائشہ کھتی ھیں : میں نےایک دن پیغمبر اسلام(ص) سے کہا :
" وہ محض ایک بیوہ عورت تھیں" تو یہ سن کر پیغمبر اسلام(ص) اس قدر ناراض ھوئے کہ آپ کی پیشانی پر بل پڑ گئے اور پھر فرمایا :
"خدا کی قسم میرے لئے خدیجہ سے بھتر کوئی نھیں تھا ۔ جب سب لوگ کافر تھے تو وہ مجھ پر ایمان لائیں، جب سب لوگ مجھ سے رخ پھیر چکے تھے تو انھوں نے اپنی ساری دولت میرے حوالے کر دی ۔ خدا نے مجھے اس سے ایک ایسی بیٹی عطا کی کہ جو تقویٰ، عفت و طھارت کا نمونہ ھے ۔ "پھر عائشہ کھتی ھیں : میں یہ بات کھہ کر بھت شرمندہ ھوئی اور میں نے پیغمبر اسلام(ص) سے عرض کیا : اس بات سے میرا کوئی غلط مقصد نھیں تھا ۔
حضرت فاطمہ زھراء(س) ایسی والدہ اور والد کی آغوش پروردہ ھیں ۔
ولادت:
حضرت فاطمہ زھرا(ع) کی تاریخ ولادت کے سلسلہ میں علماء اسلام کے درمیان اختیاف ہے۔ لیکن اھل بیت عصمت و طھارت کی روایات کی بنیاد پر آپ کی ولادت بعثت کے پانچویں سال ۲۰ جمادی الثانی، بروز جمعہ مکہ معظمہ میں ھوئی۔
بچپن اور تربیت :
حضرت فاطمہ زھرا سلام اللہ علیھا پانچ برس تک اپنی والدہ ماجدہ حضرت خدیجۃ الکبری کے زیر سایہ رھیں اور جب بعثت کے دسویں برس خدیجۃ الکبریٰ علیھا السّلام کا انتقال ھو گیا ماں کی اغوش سے جدائی کے بعد ان کا گھوارہ تربیت صرف باپ کا سایہ رحمت تھا اور پیغمبر اسلام(ص) کی اخلاقی تربیت کا آفتاب تھا جس کی شعاعیں براه راست اس بے نظیر گوھر کی آب وتاب میں اضافہ کر رھی تھیں .
جناب سیّدہ سلام اللہ علیھا کو اپنے بچپن میں بھت سے ناگوار حالات کا سامنا کرنا پڑا۔ پانچ سال کی عمر میں سر سے ماں کا سایہ اٹھ گیا ۔ اب باپ کے زیر سایہ زندگی شروع ھوئی تو اسلام کے دشمنوں کی طرف سے رسول کو دی جانے والی اذیتیں سامنے تھیں ۔ کبھی اپنے بابا کے جسم مبارک کو پتھروں سے لھو لھان دیکھتیں تو کبھی سنتی کے مشرکوں نے بابا کے سر پر کوڑا ڈال دیا۔ کبھی سنتیں کہ دشمن بابا کے قتل کا منصوبہ بنا رھے ہیں ۔ مگر اس کم سنی کے عالم میں بھی سیّدہ عالم (س)نہ ڈریں نہ سھمیں نہ گھبرائیں بلکہ اس ننھی سی عمر میں اپنے بزرگ مرتبہ باپ کی مددگار بنی رھیں۔
حضرت فاطمہ(س) کی شادی:
یہ بات شروع سے ھی سب پر عیاں تھی کہ علی(ع) کے علاوہ کوئی دوسرا دختر رسول(ص) کا کفو و ھمتا نھیں ہے ۔ اس کے باوجود بھی بھت سے ایسے لوگ، جو اپنے آپ کو پیغمبر(ص) کے نزدیک سمجھتے تھے اپنے دلوں میں دختر رسول(ص) سے شادی کی امید لگائے بیٹھے تھے ۔
مورخین نے لکھا ھے : جب سب لوگوں نے قسمت آزمائی کر لی تو حضرت علی(ع) سے کھنا شروع کر دیا : اے علی(ع) آپ دختر پیغمبر(ص) سے شادی کے لئے نسبت کیوں نھیں دیتے ۔ حضرت علی(ع) فرماتے تھے : میرے پاس ایسا کچھ بھی نھیں ھے جس کی بنا پر میں اس راہ میں قدم بڑھاؤں ۔ وہ لوگ کھتے تھے : پیغمبر(ص) تم سے کچھ نھیں مانگیں گے ۔
آخرکار حضرت علی(ع) نے اس پیغام کے لئے اپنے آپ کو آمادہ کیا اور ایک دن رسول اکرم(ص) کے بیت الشرف میں تشریف لے گئے لیکن شرم و حیا کی وجہ سے آپ اپنا مقصد ظاھر نھیں کر پا رھے تھے ۔
مورخین لکھتے ھیں کہ : آپ اسی طرح دو تین مرتبہ رسول اکرم(ص) کے گھر گئے لیکن اپنی بات نہ کھہ سکے۔ آخر کار تیسری مرتبہ پیغمبر اکرم(ص) نے پوچھ ھی لیا : اے علی کیا کوئی کام ھے ؟
حضرت امیر(ع) نے جواب دیا : جی، رسول اکرم(ص) نے فرمایا : شاید زھراء سے شادی کی نسبت لے کر آئے ھو ؟ حضرت علی(ع) نے جواب دیا، جی ۔ چونکہ مشیت الٰھی بھی یھی چاہ رھی تھی کہ یہ عظیم رشتہ برقرار ھو لھذا حضرت علی(ع) کے آنے سے پھلے ھی رسول اکرم(ص) کو وحی کے ذریعہ اس بات سے آگاہ کیا جا چکا تھا ۔ بھتر تھا کہ پیغمبر(ص) اس نسبت کا تذکرہ زھراء سے بھی کرتے لھذا آپ نے اپنی صاحب زادی سے فرمایا : آپ، علی(ع) کو بھت اچھی طرح جانتیں ھیں ۔ وہ سب سے زیادہ میرے نزدیک ھیں ۔ علی(ع) اسلام کے سابق خدمت گذاروں اور با فضیلت افراد میں سے ھیں، میں نے خدا سے یہ چاھا تھا کہ وہ تمھارے لئے بھترین شوھر کا انتخاب کرے ۔
اور خدا نے مجھے یہ حکم دیا کہ میں آپ کی شادی علی(ع) سے کر دوں آپ کی کیا رائے ھے ؟
حضرت زھراء(س) خاموش رھیں، پیغمبر اسلام(ص) نے آپ کی خاموشی کو آپ کی رضا مندی سمجھا اور خوشی کے ساتھ تکبیر کھتے ھوئے وھاں سے اٹھ کھڑے ھوئے ۔ پھر حضرت امیر(ع) کو شادی کی بشارت دی ۔ حضرت فاطمہ زھرا(س) کا مھر ۴۰ مثقال چاندی قرار پایا اور اصحاب کے ایک مجمع میں خطبہ نکاح پڑھا دیا گیا ۔ قابل غور بات یہ ھے کہ شادی کے وقت حضرت علی(ع) کے پاس ایک تلوار، ایک ذرہ اور پانی بھرنے کے لئے ایک اونٹ کے علاوہ کچہ بھی نھیں تھا، پیغمبر اسلام(ص) نے فرمایا : تلوار کو جھاد کے لئے رکھو، اونٹ کو سفر اور پانی بھرنے کے لئے رکھو لیکن اپنی ذرہ کو بیچ ڈالو تاکہ شادی کے وسائل خرید سکو ۔ رسول اکرم(ص) نے جناب سلمان فارسی سے کھا : اس ذرہ کو بیچ دو ۔ جناب سلمان نے اس ذرہ کو پانچ سو درھم میں بیچا ۔ پھر ایک بھیڑ ذبح کی گئ اور اس شادی کا ولیمہ ھوا ۔ جھیز کا وہ سامان جو دختر رسول اکرم(ص) کے گھر لایا گیا تھا،اس میں چودہ چیزیں تھی ۔
شھزادی عالم، زوجہ علی(ع)، فاطمہ زھراء(س) کا بس یھی مختصر سا جھیز تھا ۔ رسول اکرم(ص) اپنے چند با وفا مھاجر اور انصار اصحاب کے ساتھ اس شادی کے جشن میں شریک تھے ۔ تکبیروں کی آوازوں سے مدینہ کی گلیوں اور کوچوں میں ایک خاص روحانیت پیدا ھو گئی تھی اور دلوں میں سرور و مسرت کی لھریں موج زن تھیں ۔ پیغمبر اسلام(ص) اپنی صاحبزادی کا ھاتھ حضرت علی(ع) کے ھاتھوں میں دے کر اس مبارک جوڑے کے حق میں دعا کی اور انھیں خدا کے حوالے کر دیا ۔ اس طرح کائنات کے سب سے بھتر جوڑے کی شادی کے مراسم نھایت سادگی سے انجام پائے ۔
حضرت فاطمہ زھراسلام اللہ علیھا کا اخلاق و کردار:
حضرت فاطمہ زھرا(س) اپنی والدہ گرامی حضرت خدیجہ(س) کی والا صفات کا واضح نمونہ تھیں جود و سخا، اعلیٰ فکری اور نیکی میں اپنی والدہ کی وارث اور ملکوتی صفات و اخلاق میں اپنے پدر بزرگوار کی جانشین تھیں۔ وہ اپنے شوھر حضرت علی(ع) کے لئے ایک دلسوز، مھربان اور فدا کار زوجہ تھیں ۔ آپ کے قلب مبارک میں اللہ کی عبادت اور پیغمبر(ص) کی محبت کے علاوہ اور کوئی تیسرا نقش نہ تھا۔ زمانہ جاھلیت کی بت پرستی سے آپ کوسوں دور تھیں ۔ آپ نےشادی سے پہلے کی ۹ سال کی زندگی کے پانچ سال اپنی والدہ اور والد بزرگوار کے ساتھ اور ۴ سال اپنے بابا کے زیر سایہ بسر کئے اور شادی کے بعد کے دوسرے نو سال اپنے شوھر بزرگوار علی مرتضیٰ(ع) کے شانہ بہ شانہ اسلامی تعلیمات کی نشرواشاعت، اجتماعی خدمات اور خانہ داری میں گزارے ۔ آپ کا وقت بچوں کی تربیت گھر کی صفائی اور ذکر و عبادت خدا میں گزرتا تھا ۔ فاطمہ(س) اس خاتون کا نام ھے جس نے اسلام کے مکتب تربیت میں پرورش پائی تھی اور ایمان و تقویٰ آپ کے وجود کے ذرات میں گھل مل چکا تھا ۔
فاطمہ زھرا(س) نے اپنے ماں باپ کی آغوش میں تربیت پائی اور معارف و علوم الھٰی کو، سر چشمہ نبوت سے کسب کیا۔ انھوں نے جو کچہ بھی ازدواجی زندگی سے پھلے سیکھا تھا اسے شادی کے بعد اپنے شوھر کے گھر میں عملی جامہ پھنایا ۔ وہ ایک ایسی مسن وسمجھدار خاتون کی طرح جس نے زندگی کے تمام مراحل طے کر لئے ھوں اپنے گھر کے امور اور تربیت اولاد سے متعلق مسائل پر توجہ دیتی تھیں اور جو کچھ گھر سے باھر ھوتا تھا اس سے بھی باخبر رھتی تھیں اور اپنے اور اپنے شوھر کے حق کا دفاع کرتی تھیں ۔
حضرت فاطمہ زھرا سلام اللہ علیھا کا نظام عمل :
حضرت فاطمہ زھرا(س) نے شادی کے بعد جس نطام زندگی کا نمونہ پیش کیا وہ طبقہ نسواں کے لئے ایک مثالی حیثیت رکھتا ہے۔ آپ گھر کا تمام کام اپنے ھاتھ سے کرتی تھیں ۔ جھاڑو دینا، کھانا پکانا، چرخہ چلانا، چکی پیسنا اور بچوں کی تربیت کرنا ۔ یہ سب کام اور ایک اکیلی سیدہ لیکن نہ تو کبھی تیوریوں پر بل پڑے اور نہ کبھی اپنے شوھر حضرت علی علیہ السّلام سے اپنے لیے کسی مددگار یا خادمہ کے انتظام کی فرمائش کی۔ ایک مرتبہ اپنے پدر بزرگوار حضرت رسولِ خدا(ص) سے ایک کنیز عطا کرنے کی خواھش کی تو رسول نے بجائے کنیز عطا کرنے کے وہ تسبیح تعلیم فرمائی جو تسبیح فاطمہ زھرا (س)کے نام سے مشھور ہے ۳۴ مرتبہ الله اکبر، ۳۳ مرتبہ الحمد الله اور ۳۳ مرتبہ سبحان الله ۔ حضرت فاطمہ(س) اس تسبیح کی تعلیم سے اتنی خوش ھوئیں کہ کنیز کی خواھش ترک کردی ۔ بعد میں رسول نے بلا طلب ایک کنیز عطا فرمائی جو فضہ کے نام سے مشھور ہے۔ جناب سیّدہ اپنی کنیز فضہ کے ساتھ کنیز جیسا برتاؤ نھیں کرتی تھیں بلکہ اس سے ایک برابر کے دوست جیسا سلوک کرتی تھیں. وہ ایک دن گھر کا کام خود کرتیں اور ایک دن فضہ سے کراتیں۔ اسلام کی تعلیم یقیناً یہ ہے کہ مرد اور عورت دونوں زندگی کے جھاد میں مشترک طور پر حصہ لیں اور کام کریں . بیکار نہ بیٹھیں مگر ان دونوں میں صنف کے اختلاف کے لحاظ سے تقسیم عمل ہے . اس تقسیم کار کو علی علیہ السّلام اور فاطمہ (س)نے مکمل طریقہ پر دُنیا کے سامنے پیش کر دیا۔ گھر سے باھر کے تمام کام اور اپنی قوت بازو سے اپنے اور اپنے گھر والوں کی زندگی کے خرچ کا سامان مھیا کرنا علی علیہ السّلام کے ذمہ تھا اور گھر کے اندر کے تمام کام حضرت فاطمہ زھرا (س)انجام دیتی تھیں۔
حضرت فاطمہ زھرا سلام اللہ کا پردہ :
سیدہ عالم نہ صرف اپنی سیرت زندگی بلکہ اقوال سے بھی خواتین کے لیے پردہ کی اھمیت پر بھت زور دیتی تھیں. آپ کا مکان مسجدِ رسولِ سے بالکل متصل تھا۔ لیکن آپ کبھی برقع وچارد میں نھاں ھو کر بھی اپنے والدِ بزرگوار کے پیچھے نماز جماعت پڑھنے یا اپ کا وعظ سننے کے لیے مسجد میں تشریف نھیں لائیں بلکہ اپنے فرزند امام حسن علیہ السّلام سے جب وہ مسجد سے واپس آتے تھے اکثر رسول کے خطبے کے مضامین سن لیا کرتی تھیں . ایک مرتبہ پیغمبر نے منبر پر یہ سوال پیش کر دیا کہ عورت کے لیے سب سے بھتر کیا چیز ہے یہ بات سیدہ کو معلوم ھوئی تو آپ نے جواب دیا عورت کے لئے سب سے بھتر بات یہ ہے کہ نہ اس کی نظر کسی غیر مرد پر پڑے اور نہ کسی غیر مرد کی نظر اس پر پڑے ۔ رسول(ص) کے سامنے یہ جواب پیش ھوا تو حضرت نے فرمایا .
"کیوں نہ ھو فاطمہ میرا ھی ایک ٹکڑا ہے۔"

فضائل حضرت فاطمہ زھراسلام اللہ علیھا:
پیغمبر اکرم(ص)نے فرمایا کہ عالم اسلام میں چار عورتیں سب سے بھتر ہیں:
۱۔ جناب مریم(س) بنت عمران (ع)
۲۔ جناب فاطمہ(س)بنت حضرت محمد(ص)
۳ ۔ جناب خدیجہ(س) بنت خویلد
۴ ۔ جناب آسیہ زوجہ فرعون (کشف الغمہ ج ۲ ص ۷۶)
" پیغمبر اکرم(ص)نے فرمایا کہ حضرت فاطمہ(س)جنت کی بھترین عورتوں میں ہیں ۔ "(کشف الغمہ ج ۲ ص ۷۶) پیغمبر اکرم(ص)نے فرمایا کہ جس وقت قیامت برپا ھوگی منادی حق عرش سے ندا کرے گا کہ اے لوگوں اپنی آنکھوں کو بند کرلو تاکہ فاطمہ پل صراط سے گزر جائیں ۔(کشف الغمہ ج ۲ ص ۸۳ ۔ ذخائر العقبی ص ۴۸)پیغمبر اکرم(ص)نے حضرت فاطمہ(س)سے فرمایا کہ خدا تمھاری ناراضگی سے ناراض ھوتا ہے اور تمھاری خوشی سے خوش ھوتا ہے ۔(کشف الغمہ ج ۲ ص ۸۴ ۔ اسد الغابہ ج ۵ ص ۵۲۲ )
حضرت عایشہ کھتی ہیں کہ رسول خدا(ص)کے بعد میں نے حضرت فاطمہ(س)سے زیادہ کسی کو سچا نھیں پایا ۔(کشف الغمہ ج ۲ ص ۸۹)
امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا کہ خدا کی قسم ! پروردگار عالم نے حضرت فاطمہ زھرا(س)کو علم کے ذریعہ فساد اور برائی سے دور رکھا ۔(کشف الغمہ ج ۲ ص ۸۹)
امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا کہ پروردگار عالم کے پاس حضرت فاطمہ(س)کے ۹ نام ہیں:
فاطمہ، صدیقہ، مبارکہ، طاھرہ، زکیہ، رضیہ، مرضیہ، محدثہ، زھرا ۔ اسکی علت یہ ہے کہ حضرت فاطمہ(س)تمام شر اور برائیوں سے محفوظ ہیں ۔ اگر حضرت علی علیہ السلام نہ ھوتے تو کوئی حضرت فاطمہ(س)کا شوھر نہ ھوتا ۔(کشف الغمہ ج ۲ ص ۸۹)
پیغمبر اسلام حضرت محمد(ص)کی رحلت کے بعد مصیبتوں نے حضرت زھرا(س)کے دل کو سخت رنجیدہ، ان کی زندگی کو تلخ اور ناقابل تحمل بنا دیا تھا ۔ ایک طرف تو پدر بزرگوار سے اتنی محبت تھی کہ ان کی جدائی اور دوری برداشت کرنا ان کے لئے بھت سخت تھا ۔ دوسری طرف خلافت کے نام پر اٹھنےوالے فتنوں نے حضرت علی علیہ السلام کے حق خلافت کو غصب کرکے وجود مطھر حضرت زھرا(س)کو سخت روحانی و جسمانی اذیت پھونچائی ۔ یہ رنج وغم اور دوسری مصیبتیں باعث ھوئیں کہ حضرت زھرا(س)پیامبراسلام(ص)کے بعد گریہ و زاری کرتی رھتی تھیں کبھی اپنے بابا رسول خدا(ص)کی قبر مبارک پر زیارت کی غرض سے جاتی تھیں تو وھاں گریہ کرتی تھیں اور کبھی شھداء کی قبروں پر جاتیں تو وھاں گریہ کرتی تھیں اور گھر میں بھی گریہ و زاری برابر رھتا تھا ۔ چونکہ آپ(س)کا گریہ مدینہ کے لوگوں کو ناگوار گزرتا تھا اس لئے انھوں نے اعتراض کیا تو حضرت علی علیہ السلام نے قبرستان بقیع میں ایک چھوٹا سا حجرہ بنا دیا جسکو" بیت الحزن"کے نام سے یاد کیا جاتا ہے ۔ حضرت زھرا(س)حسنین علیھم السلام کو لیکروھاں چلی جاتی تھیں اور رات دیر تک وھاں گریہ کرتی تھیں ۔ جب شب ھوجاتی تھی تو حضرت علی علیہ السلام جاتے اور حضرت زھرا(س)کو گھر لاتے ۔ یھاں تک کہ آپ مریض ھوگئیں ۔ پیامبر اسلام(ص)کے فراق میں حضرت زھرا(س)کا رنج و غم اتنا زیادہ تھا کہ جب بھی پیغمبر اسلام(ص)کی کوئی نشانی دیکھتی گریہ کرنےلگتی تھیں اور بے حال ھوجاتی تھیں ۔
بلال جو رسول(ص)کے زمانے میں مؤذن تھے انھوں ‎نے یہ ارادہ کرلیا تھا کہ اب کسی کے لۓ اذان نھيں کھوں گا ۔ ایک دن حضرت زھرا(س)نے کھا کہ میں پدر بزرگوار کے مؤذن کی آواز سننا چاھتی ھوں ۔ یہ خبر بلال تک پھونچی اور ‌حضرت زھرا(س)کے احترام میں اذان کھنے کے لۓ کھڑے ھوگۓ ۔ جیسے ھی بلال نے اللہ اکبر کھا حضرت زھرا(ص)گريہ نہ روک سکیں اور جیسے ھی بلال نے کھا اشھد ان محمدا رسول اللہ حضرت زھرا(س)نے ایک فریاد بلند کی اور بیھوش ھوگئیں ۔ لوگوں نے بلال سے کھا کہ اذان روک دو۔ رسول(ص)کی بیٹی دنیا سے چلی گئی۔ بلال نے آذان روک دی جب حضرت زھرا(س)کو ھوش آیا تو کھا بلال آذان کو تمام کرو ۔ بلال نے انکار کیا اور کھا کہ اس آذان نے مجھے ڈرا دیا ہے ۔ آپ کی وفات کا وقت قریب آ پھنچا تو آپ نے کنیز کو پانی لانے کا حکم دیا تاکہ غسل کرکے نیا لباس پھن لیں کیونکہ بابا سے ملاقات کا وقت بھت قریب تھا، کنیز نے حکم کی تعمیل کی اور آپ نے غسل کرکے نیا لباس زیب تن فرمایا اور اپنے بستر پر جا کر قبلہ کی طرف منہ کرکے لیٹ گئیں ۔ تھوڑی دیر کے بعد آنکھیں بند اورلب خاموش ھوگۓ اور آپ جنت میں چلی گئیں ۔ انا للہ و انا الیہ راجعون ۔ علی علیہ السلام نے وصیت کے مطابق غسل و کفن دیکر شب کی تاریکی میں آپکے جسد اطھر کو سپرد خاک کردیا لیکن آپ کی قبر کو پوشیدہ رکھا اور اب تک پوشیدہ ہے اس لۓ کہ کوئی یہ نہ جان سکے کہ آپ کی قبر کھاں ہے کیونکہ اس وقت کے سیاسی افراد فاطمہ(س)کی قبر کھود کر دوبارہ نماز جنازہ پڑھنے پر کمر بستہ تھے۔ فاطمہ(س)کی وصیت سے اس وقت اور بعد میں آنے والی تمام نسلوں پر یہ واضح ھوگیا کہ رسول(ص)کی بیٹی فاطمہ(س)پر ظلم ھوا ہےاور فاطمہ(س)ان ظالم افراد سے مرتے دم تک ناراض رھیں ۔ حضرت فاطمہ(س )کی وفات کے بعد علی علیہ السلام تن تنھا رہ گۓ ۔ علی علیہ السلام نے فاطمہ(ص)کی قبر پر بیٹھ کر دھیمی آواز میں کچھ کلمات زبان سے دھرائے ۔ اور پھر پیغمبر اسلام(ص)کی قبر کی طرف رخ کرکے ارشاد فرمایا۔ اے رسول خدا(ص)آپ نے جو امانت میرے سپرد کی تھی میں آپ کو واپس کررھا ھوں، آقا جوکچھ ھم پہ گزر گئی فاطمہ(س)سے دریافت کرلیجۓ گا، وہ آپ کو سب کچھ بتا دیں گی ۔ با الآخر انھیں صدمات کی بنا پر ۱۳ جمادی الاول یا ۳ جمادی الثانی ۱۱ ھجری کو یعنی رحلت پیغمبر(ص)کے ۷۵ یا ۹۰ دن کے بعد آپ کی شھادت واقع ھوئی اور اپنے شیعوں کو ھمیشہ کے لۓ غم زدہ کردیا ۔
حضرت فاطمہ زھرا سلام اللہ علیھا کی چند احادیث:
حدیث ۱
قالت فاطمہ سلام اللہ علیھا :" ما یصنع الصائم بصیامہ اذا لم یصن لسانہ و سمعہ و بصرہ و جوارحہ "
حضرت فاطمہ زھرا (س) فرماتی ھیں:" اگر روزہ دار حالت روزہ میں اپنی زبان ، کان و آنکہ اور دیگر اعضاء کی حفاظت نہ کرے تو اس کا روزہ اس کے لئے فائدہ مند نھیں ھے "۔
حدیث ۲
قالت فاطمہ سلام اللہ علیھا :" یا ابا الحسن انی لا مستحیی من الٰھی ان اکلف نفسک ما لا تقدر علیہ"
حضرت فاطمہ زھرا (س) فرماتی ھیں :" اے علی مجھے خدا سے شرم آتی ھے کہ آپ سے ایسی چیز کی فرمائش کروں جو آپ کی قدرت سے باھر ھے"۔
حدیث ۳
قالت فاطمہ سلام اللہ علیھا :" الزم عجلھا فان الجنة تحت اقدامھا"“
حضرت فاطمہ زھرا (س) فرماتی ھیں :" ماں کے پیروں سے لپٹے رھو اس لئے کہ جنت انھیں کے پیروں کے نیچے ھے "۔
حدیث ۴
قالت فاطمہ سلام اللہ علیھا :" خیر للنسا ان لا یرین الرجال و لا یراھن الرجال "
حضرت فاطمہ زھرا (س) فرماتی ھیں :" عورتوں کے لئے خیر و صلاح اس میں ھے کہ نہ تو وہ نا محرم مردوں کو دیکھیں اور نہ نامحرم مرد ان کو دیکھیں "۔
حدیث ۵
قالت فاطمہ سلام اللہ علیھا:"حبب الٰھی من دنیاکم ثلاث : تلاوة کتاب اللہ و المنظر فی وجہ رسول اللہ و الانفاق فی سبیل اللہ "
حضرت فاطمہ زھرا (س) فرماتی ھیں :" میرے نزدیک تمھاری اس دنیا میں تین چیزیں محبوب ھیں: تلاوت قرآن مجید ، زیارت چھرہ رسول خدا ، اور راہ خدا میں انفاق "۔
حدیث ۶
قالت فاطمہ سلام اللہ علیھا : " من اصعد الی اللہ خالص عبادتہ اھبط اللہ عزو جل الیہ افضل مصلحتہ "
حضرت فاطمہ زھرا (س) فرماتی ھیں :" ھر وہ شخص جو اپنے خالصانہ عمل کو خداوند عالم کی بارگاہ میں پیش کرتا ھے خدا بھی اپنی بھترین مصلحت اس کے حق میں قرار دیتا ھے "۔
حدیث ۷
قالت فاطمہ سلام اللہ علیھا :" فی المائدة اثنتا عشرة خصلة یجب علی کل مسلم ان یعرفھا اربع فیھا فرض و اربع فیھا سُنَّة و اربع فیھا تاٴدیب:فامّا الفرض فالمعرفة و الرضا والتسمیة و الشکر ، فاما السنةفالوضو ء قبل الطعام و الجلوس علی الجانب الایسر و الاکل بثلاث اصابع و لعق الاصابع، فامّا التاٴدیب فاکل بما یلیک و تصغیر اللقمہ و المضغ الشدید وقلة النظر فی وجوہ الناس"
حضرت فاطمہ زھرا (س) فرماتی ھیں :"آداب دسترخوان میں بارہ چیزیں لازم ھیں ،جن کا علم ھر مسلمان کو ھونا چاھئے۔ ان میں سے چار چیزیں واجب ،چار مستحب اور چار رعایت ِادب کے لئے ھیں۔ وہ چار چیزیں جو لازم ھیں وہ یہ ھیں: معرفت ، خوشنودی، شکر اور بسم اللہ الرحمن الرحیم کھنا ۔ وہ چار چیزیں جو مستحب ھیں وہ یہ ھیں : کھانے سے پھلے وضو کرنا ،بائیں جانب بیٹھنا ،تین انگلیوں سے کھانا اور کھانے کو انگلیوں سے ملانا۔ اور وہ چار چیزیں جو رعایت ِ ادب میں شامل ھیں وہ یہ ھیں: جو بھی سامنے آئے اسے کھانا ، لقمہ چھوٹا ھونا، خوب چبا کر کھانا اور لوگوں کے چھرہ پر زیادہ نگاہ نہ کرنا "۔ 

Add comment


Security code
Refresh