www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

حضرت فاطمہ زھرا سلام اللہ علیھا کی زندگی بھت مختصر لیکن عظیم اخلاقی اور معنوی دروس و فضائل کی حامل تھی۔ یہ عظیم الشان خاتون اسلام کے ابتدائی دور میں مختلف مراحل میں

رسول اکرم (ص) اور حضرت علی (ع) کے ساتھ رھیں۔ آپ نے حضرت امام حسن (ع) اور حضرت امام حسین (ع) جیسے صالح فرزندوں کی تربیت کی کہ جو رسول اکرم (ص) کے قول کے مطابق جوانان جنت کے سردار ہیں۔
  حضرت فاطمہ زھرا (س) کی عظیم شخصیت کے بارے میں دنیا کے بھت سے دانشوروں نے اظھار خیال کیا ہے اور آپ کو ایک مسلمان عورت کا جامع اور مکمل نمونہ قرار دیا ہے۔
 خود رسول اکرم (ص) نے آپ کو "سیدۃ نساء العالمین" قرار دیا ہے۔ متاسفانہ جب ھم تاریخ کا مطالعہ کرتے ہیں تو بی بی دو عالم کے بارے ھمیں اتنی معلومات نھیں ملتیں جتنی ملنی چاھئیں تھیں، کیونکہ آپ نے اپنی زندگی رسول خدا (ص) اور ان کے ولی علی مرتضٰی (ع) کے ساتھ گزاری ہے، آپ علم کا سمندر تھیں، گو کہ اس سمندر کے چند قطرے ھمیں نصیب ھوئے ہیں لیکن اگر ان قطرات پر بھی غور کیا جائے اور انھیں اپنے لئے اسوہ بنا لیا جائے تو ھر قطرہ اپنی ذات میں ایک سمندر نظر آتا ہے۔
 جناب سیدہ سلام اللہ علیھا سے متعلق چند روایات آپ کی خدمت میں پیش کی جارھی ہیں:
1۔ عبادت ميں خلوص کے فوائد
قالت فاطمة الزهراء سلام الله عليها:" من أصعد إلی الله خالص عبادته، أهبط الله عزوجل إليه أفضل مصلحته."
حضرت فاطمہ زھرا سلام اللہ نے فرمايا: جو شخص اپنی خالص عبادت خداوند متعال کی بارگاہ ميں پيش کرتا ہے (اور صرف اس کی رضا کے لئے عمل کرتا ہے) خدا بھی اپنی بھترين مصلحتيں اس پر نازل فرما کر اس کے حق ميں قرار ديتا ہے۔ (تحف العقول)
2۔ حب اھلبیت علیھم السلام میں مرنا شھادت ہے:
عَنْ فَاطِمَةُ بِنْتَ موسَى بْن جَعْفَر (ع)... عَنْ فَاطِمَةَ بِنْت ِرَسُول ِاللّهِ صَلَّى اللّه عَلَيه ِوَ آلِهِ وِ سَلَّمَ ، قالَتْ (سلام الله عليها): قَالَ رَسُولُ اللّه ِصَلَّى اللّه ِعَلَيه ِوَ آلِه ِوَ سَلَّمَ : "ألا مَنْ ماتَ عَلى حُبِّ آل ِمُحَمَّد ماتَ شَهِيداً."
حضرت فاطمہ معصومہ (س) حضرت امام موسی کاظم (ع) کی بيٹی ايک روايت نقل کرتی ہيں جس کا سلسلہ سند حضرت فاطمہ زھرا (س) تک پھنچتا ہے۔ حضرت زھراء (س) فرماتی ہيں کہ حضرت رسول اکرم (ص) نے فرمايا: "آگاه رھو ! جو شخص آل محمّد کی محبت کے ساتھ مرے وہ شھيد مرا ہے۔ (عوالم العلوم، ج 21، ص 353)
3۔ علی (ع) کا محب سعادتمند و خوشبخت ہے:
قالَتْ فاطمہ سلام الله عليها:" ان السعيد، کل السعيد، حق السعيد من أحب عليا فی حياته و بعد موته"۔
حضرت فاطمہ زھرا سلام اللہ علیھا نے فرمايا: بے شک حقيقتا خوشبخت ہے اور مکمل سعادتمند شخص وہ ہے جو امام علي عليہ السلام سے آپ (ع) کی حيات ميں اور بعد از حيات، محبت رکھے۔ (شرح نهج البلاغه ج 2، ص 449 مجمع الزّوائد، ج 9، ص 132)

4۔ آل محمد (ص) كا تعارف:
قالَتْ فاطمۃ سلام الله عليها: نحن وسيلته في خلقه و نحن خاصته و محل قدسه و نحن حجته في غيبه و نحن ورثه أنبيائه"۔
حضرت فاطمہ زھرا سلام اللہ علیھا نےفرمايا: ھم اھل بيت رسول خدا (ص) خدا كے ساتھ مخلوقات كے ارتباط كا وسيلہ ہيں؛ ھم خدا كی برگزيدہ ھستياں ہيں اور نيكيوں كا مقام اعلٰی ہيں، ھم خدا كی روشن دليليں ہيں اور انبياءاللہ كے وارث ہيں۔ (شرح‌ نھج‌ البلاغه‌، ج‌ 16 ،ص‌ 211)۔
5۔ قرآنی سورتوں کی تلاوت کا ثواب:
قالَتْ فاطمۃ سلام الله عليها: "قاریءُ الحديد، و اذا وقعت، و الرحمن، يدعی فی السموات و الارض، ساکن الفردوس"۔
حضرت فاطمہ زھرا سلام اللہ علیھا نےفرمايا: سورة الحديد، سورة الواقعه اور سورة الرحمن كی تلاوت كرنے والے لوگ آسمانوں اور روئے زمين پر جنتی كھلاتے ہيں۔ (کنزالعمال، ج‌ 1، ص582)۔
6۔ بھترين و اور قابل قدرترين افراد:
قالَتْ فاطمۃ سلام الله عليها:" خيارکم الينکم مناکبة و اکرمهم لنسائهم"۔
حضرت فاطمہ زھرا سلام اللہ علیھا نےفرمايا: تم ميں سے بھترين وہ ہے جو لوگوں کا سامنا کرتے وقت زياده نرم اور زياده مھربان ھو اور تم ميں سے بھترين مرد وہ ہيں جو اپنی بيويوں کے ساتھ زيادہ مھربان اور زياده بخشنے والے ھوں۔ (دلال الامامه، ص76 و کنزالعمال ، ج‌ 7، ص225)
7۔ مؤمنين کے لئے پسنديدہ چيزيں:
قالَتْ فاطمۃ سلام الله عليها:" حبب الی من دنياکم ثلاث، تلاوة کتاب الله و النظر في وجه رسول و الانفاق في سبيل الله"۔
حضرت فاطمہ زھرا سلام اللہ علیھا نےفرمايا: تمھاری دنيا ميں ميری پسنديدہ چيزيں تين ہيں، تلاوت قرآن ، رسول خدا (ص) کے چھرہ مبارک کی طرف ديکھنا اور خدا کی راہ ميں انفاق و خيرات کرنا۔ (وقايع الايام خيابانی، جلد صيام، ص295)
8۔ اھلبيت (ع) ک اطاعت و امامت کے فوائد:
قالَتْ فاطمۃسلام الله عليها:" فجعل الله...اطاعتنا نظاما للملة و امامتنا أمانا للفرقة"۔
فرمايا، خدا نے ھم اھلبيت کی اطاعت و پيروی امت اسلامی کو سماجی نظم کا سبب قرار ديا ہے اور ھماری امامت و رھبری کو اتحاد و يکجھتی کا سبب اور تفرقے سے امان قرار ديا ہے۔ (بحار الانوار، ج 43، ص 158)
9۔ ايمان اور نماز کے فوائد:
قالَتْ فاطمۃسلام الله عليها:" فجعل الله الايمان تطهيرا لكم من الشرك ، و الصلاة تنزيها لكم عن الكبر"۔
حضرت فاطمہ زھرا سلام اللہ علیھا نےفرمايا: خدائے تعالي نے ايمان کو تمھارے لئے شرک سے پاکيزگي کا سبب قرار ديا اور نماز کو تکبر اور خودخواھي اور خودپرستي سے دوري کا عامل۔ (احتجاج طبرسي،ج1،ص258)
10۔ امام کي مثال کعبہ کي مثال ہے:
قالَتْ فاطمۃسلام الله عليها:" مَثَلُ الإمام مَثل الكَعبة إذ تُؤتي وَ لا تَأتي"۔
حضرت فاطمہ زھرا سلام اللہ عليھا نے روايت کی ہے کہ رسول اللہ (ص) نے فرمايا: امام، کعبہ کي مانند ہے لوگوں کو امام کي جانب جانا اور رجوع کرنا پڑتا ہے جبکہ امام کسي کے پاس نھيں جاتا (لوگوں کو امام کي خدمت ميں حاضر ھونا پڑتا ہے، چنانچہ امام کے اپنے پاس آنے کي توقع نھيں کرني چاھیئے۔ (بحار الانوار، ج 36، ص 353)
11۔ صبر و جھاد کي ثمرات:
قالَتْ فاطمۃ سلام الله عليها: "جعل الله ... الجهاد عز للإسلام، و الصبر معونة علي استيجاب الأجر"۔
حضرت فاطمہ زھرا سلام اللہ علیھا نےفرمايا: خداوند متعال نے جھاد کو اسلام کي عزت و ھيبت کا سبب اور صبر و استقامت کو حق تعالي کے انعام و جزا کے استحقاق کا باعث قرار ديا ہے۔ (احتجاج طبرسي، ج 1، ص 258)
12۔ ايمان و عدل کے ثمرات:
قالَتْ فاطمۃ سلام الله عليها:" فَفَرَضَ اللّه‏ُ الايمانَ تَطهيرا مِنَ الشِّركِ... وَ العَدلَ تَسكينا لِلقُلوبِ"۔
حضرت فاطمہ زھرا سلام اللہ علیھا نےفرمايا: خداوند متعال نے ايمان کو شرک سے پاکيزگي کے لئے واجب کيا اور ... عدل و انصاف کو قلوب کي تسکين کے لئے۔ (من لايحضره الفقيه، ج 3، ص 568)۔
13۔ علي (ع) فرشتوں كے بھي قاضي:
عن عَبْدُ اللّهِ بْنِ مَسْعُود، قالَ: أتَيْتُ فاطِمَةَ صَلَواتُ اللّهِ عَلَيْها، فَقُلْتُ: أيْنَ بَعْلُكِ؟ فَقالَتْ (عليها السلام): عَرَجَ بِهِ جِبْرئيلُ إلَى السَّماءِ، فَقُلْتُ: فيما ذا؟ فَقالَتْ: إنَّ نَفَراً مِنَ الْمَلائِكَةِ تَشاجَرُوا فى شَيْىء، فَسَألُوا حَكَماً مِنَ الاْدَمِيّينَ، فَأَوْحىَ اللّهُ إلَيْهِمْ أنْ تَتَخَيَّرُوا، فَاخْتارُوا عَليِّ بْنِ أبي طالِب (عليه السلام)"۔
عبداللّہ بن مسعود کھتے ہيں، ايک روز ميں حضرت فاطمہ زھراء (س) کي خدمت ميں حاضر ھوا اور پوچھا، آپ کے خاوند (علي عليہ السلام) کھاں ہيں؟ فرمايا: جبرئيل کے ھمراہ آسمانوں کي جانب عروج کرکے گئے ہيں۔ ميں عرض کيا: کس مقصد کي لئے؟ فرمايا: ملائکة اللہ کے درميان نزاع واقع ھوا ہے اور انھوں نے اللہ سے التجا کي ہے کہ انسانوں ميں سے ايک فرد ان کے درميان فيصلہ اور قضاوت کرے؛ چنانچہ خداوند متعال نے فرشتوں کو وحي بھيجي اور ان کو قاضي کے انتخاب کا اختيار ديا اور انھوں نے حضرت علىّ بن ابى طالب (عليہ السلام) کا انتخاب کيا۔ (اختصاص شيخ مفيد: ص 213، س 7، بحارالأنوار: ج 37، ص 150، ح 15)
14.امام علي عليہ السلام کا تعارف
قالَتْ فاطمۃ عليها السلام:" وَهُوَ الإمامُ الرَبّانى، وَالْهَيْكَلُ النُّورانى، قُطْبُ الأقْطابِ، وَسُلالَةُ الاْطْيابِ، النّاطِقُ بِالصَّوابِ، نُقْطَةُ دائِرَةِ الإمامَةِ"۔
حضرت فاطمہ زھرا سلام اللہ علیھا نےفرمايا: علي ابن ابي طالب عليہ السلام الھي پيشوا، نور اور روشني کا پيکر، تمام موجودات اور عارفين کا مرکز توجہ اور طاھرين و طيبين کے خاندان کے پاک و طيب فرزند ہيں؛ حق بولنے والے متکلم ہيں (بولتے ہيں تو حق بولتے ہيں)، اور ھدايت دينے والے راھنما ہيں؛ وہ امامت و قيادت کا مرکز و محور ہيں۔ (رياحين الشّريعة: ج 1، ص 93)
15۔ محمد و علي امت کے باپ:
قالَتْ فاطمۃ سلام اللہ علیھا:" أبَوا هِذِهِ الاْمَّةِ مُحَمَّدٌ وَ عَلىٌّ، يُقْيمانِ أَودَّهُمْ، وَ يُنْقِذانِ مِنَ الْعَذابِ الدّائِمِ إنْ أطاعُوهُما، وَ يُبيحانِهِمُ النَّعيمَ الدّائم إنْ واقَفُوهُما"۔
حضرت فاطمہ زھرا سلام اللہ علیھا نےفرمايا: حضرت محمّد صلى الله عليہ وآلہ و سلم اور علىّ عليہ السلام دونوں، اس امت کے باپ ہيں اور اگر اھل امّت ان کي پيروي کريں تو وہ (دو باپ) ھرگز انھيں دنياوي انحرافات کا شکار نھيں ھونے ديں گے اور انھيں آخرت کے دائمي عذاب سے نجات ديں گے اور انھيں جنت کي فراوان نعمتوں سے بھر مند کرديں گے۔ (تفسير الإمام العسکرى (عليه السلام): ص 330، ح 191، بحارالأنوار: ج 23، ص 259، ح 8)
16۔ شيعيان اھلبيت کے حق ميں سيدہ کي دعا:
قالَتْ فاطمۃ سلام الله عليها:" إلهى وَ سَيِّدى، أسْئَلُكَ بِالَّذينَ اصْطَفَيْتَهُمْ، وَ بِبُكاءِ وَلَدَيَّ فى مُفارِقَتى أَنْ تَغْفِرَ لِعُصاةِ شيعَتى، وَشيعَةِ ذُرّيتَى"۔
حضرت فاطمہ زھرا سلام اللہ علیھا نےفرمايا: خداوندا! تيرے برگزيدہ (منتخب) اولياء اور مقربين کے صدقے اور تجھے ميري شھادت کے بعد ميري جدائي ميں ميرے بچوں کے گريہ و بکاء کے واسطے، التجاء کرتي ھوں کہ تو ميرے اور ميري اولاد کے گنھگار شيعوں کے گناہ بخش دے۔ (کوکب الدّرىّ: ج 1، ص 254)۔
17۔ شيعہ کون ہے؟
قالَتْ فاطمۃ سلام الله عليها:" شيعَتُنا مِنْ خِيارِ أهْلِ الْجَنَّةِ وَكُلُّ مُحِبّينا وَ مَوالى اَوْليائِنا وَ مُعادى أعْدائِنا وَ الْمُسْلِمُ بِقَلْبِهِ وَ لِسانِهِ لَنا"۔
حضرت فاطمہ زھرا سلام اللہ علیھا نےفرمايا: ھمارے شيعہ اور پيروکار اور اسي طرح ھمارے محبين اور ھمارے دوستوں کے دوست اور ھمارے دشمنوں کے دشمن اور قلب و زبان کے ذريعے ھمارے سامنے سرتسليم خم کرنے والے لوگ جنتيوں ميں بھترين افراد ھونگے۔ (بحارالأنوار: ج 68، ص 155، س 20، ضمن ح 11)۔
18۔ اگر بیگناه مبتلا نہ ھوتے بددعا ديتي
قالَتْ فاطمۃ سلام الله عليها: "وَاللّهِ يَابْنَ الْخَطّابِ لَوْلا أنّى أكْرَهُ أنْ يُصيبَ الْبَلاءُ مَنْ لا ذَنْبَ لَهُ، لَعَلِمْتَ أنّى سَأُقْسِمُ عَلَى اللّهِ ثُمَّ أجِدُهُ سَريعَ الاْجابَةِ"۔
حضرت فاطمہ زھرا سلام اللہ علیھا نےفرمايا: اے خطّاب کے بيٹے! قسم خدا کي، اگر ميں ناپسند نہ کرتي که خدا کا عذاب کسي بے گناه پر نازل ھو جائے خداوند عالم کو قسم ديتي اور بددعا ديتي اور تم ديکھ ليتے کہ ميري دعا کتني جلد قبول ھوتي ہے۔ 1۔ (اصول کافى: ج 1، ص 460، بيت الأحزان: ص 104، بحارالأنوار: ج 28، ص 250، ح 30)
19۔ ميں ھرگز تم سے نہ بولوں گي:
قالَتْ فاطمۃ سلام الله عليها:" وَاللّهِ! لا كَلَّمْتُكَ أبَداً، وَاللّهِ! لاَدْعُوَنَّ اللّهَ عَلَيْكَ فى كُلِّ صَلوة"۔
سيدہ کے گھر پر حملہ ھوا تو آپ نے خليفہ اول سے مخاطب ھوکر فرمايا: خدا کي قسم! ابد تک تم سے نہ بولوں گی؛ خدا کی قسم ھر نماز ميں تمھيں بددعا ديتی رھوں گی۔2 ۔ (صحیح مسلم: ج 2، ص 72، صحيح بخارى: ج 6، ص 176)۔

20۔ تم نےمجھے ناراض و غضبناک کيا ہے:
قالَتْ فاطمۃ سلام الله عليها:" إنّى أُشْهِدُ اللّهَ وَ مَلائِكَتَهُ، أنَّكُما اَسْخَطْتُمانى، وَ ما رَضيتُمانى، وَ لَئِنْ لَقيتُ النَبِيَّ لأشْكُوَنَّكُما إلَيْهِ"۔
حضرت فاطمہ زھرا سلام اللہ علیھا نے (جب خليفہ اول و دوم سيدہ (س) کي عيادت کے لئے آئے تو آپ (س) نے حديث نبوي "من اسخط فاطمة فقد اسخطني... " کي صحت کا اقرار لينے کے بعد) فرمايا :ميں خدا اور اس کے فرشتوں کو گواہ بناتي ھوں کہ تم نے مجھے غضبناک کيا اور تم نے مجھے خوشنود نہ کيا اور جب ميں رسول اللہ (ص) سے ملوں گي آپ (ص) سے تم دونوں کي شکايت کروں گي. (بحارالأنوار: ج 28، ص 303، صحيح مسلم: ج 2، ص 72، بخارى: ج 5، ص 5)۔
حوالہ:
2۔1۔ ايک طرف سے سيدہ (س) نے ابن خطاب سے مخاطب ھوکر فرمايا ہے که ميں اگر بےگناھوں پر آفت نازل ھونے کو ناپسند نہ کرتي تو بددعا ديتي اور آپ نے کسي ضمير کا استعمال نھيں کيا ہے جس کا مطلب يہ ہے کہ بي بي سارے ظالمين و غاصبين کے لئے اجتماعي بددعا نھيں دينا چاھتي تھيں ورنہ اس کے نتيجے ميں خشک و تر جل کر راکھ ھو جاتا جبکہ بعد کي حديث ميں خليفہ اول سے مخاطب ھوکر فرماتي ہيں کہ خدا کي قسم ميں ھر نماز ميں تمھيں بددعا ديتي ھوں اور اس بددعا سے مراد انفرادي بددعا ہے اور بزرگان دين اور انبياء و اوصياء کي انفرادي بددعا کا تعلق عام طور پر آخرت سے ھوتا ہے واضح ہے کہ انکي دعا کبھي رد نھيں ھوتي)۔
تحریر و ترتیب: ایم صادقی
 

Add comment


Security code
Refresh