www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

 ائمہ معصومین علیھم السلام کا شیوہ تھا کہ مخالفین ولایت اور غرض و مرض لے کر شکوک و شبھات کی ترویج کرنے والوں کو اپنے کلام سے قائل کیا کرتے تھے

اور ان کا جواب لاجواب ھوتا تھا؛ کیونکہ ایسے افراد عام طور پر بادشاھوں کے درباروں سے حکم لے کر بداندیشی اور کج اندیشی کی ترویج کے بدلے انعام پاتے تھے۔ ان ھی کج فکر دانشوروں اور دربار کے وظیفہ خواروں میں سے ایک "نفیع انصاری" تھا۔
 مروی ہے کہ ایک دن ھارون نے امام علیہ السلام کو بلوایا اور امام دربارھارون میں تشریف لے گئے۔ نفیع دروازے پر بیٹھا اندر جانے کا اذن پانے کا منتظر تھا کہ امام (ع) اس کے سامنے سے وقار و عظمت کے ساتھ دربار میں داخل ھوئے۔
 نفیع نے اپنے قریب کھڑے عبدالعزیز بن عمر سے پوچھا: یہ باوقار شخص کون تھا؟
عبدالعزیز نے کھا: یہ علی بن ابیطالب علیہ السلام کے بزرگوار فرزند اورآل محمد (ص) میں سے ہیں۔ وہ امام موسی بن جعفر علیھما السلام ہیں۔ نفیع جو آل رسول (ص) کے ساتھ بنوعباس کی دشمنی سے آگاہ تھا، اور خود بھی آل محمد (ص) کے ساتھ بغض و عداوت رکھتا تھا، کھنے لگا: میں نے بنو عباس سے زيادہ بدبخت کوئی گروہ نھيں دیکھا، کہ وہ ایسے فرد کے لئے اتنے احترام کے قائل ہیں کہ اگر طاقت پائے تو انھيں سرنگون کرے گا۔ میں یھیں رکتا ھوں اور جب وہ باھر آئیں تو ان کے ساتھ ایسا سلوک کروں گا کہ ان کی شخصیت ٹوٹ جائے۔
عبدالعزيز نے نفیع کی عداوت بھری باتیں سن کر کھا: جان لو کہ یہ ایسے خاندان سے تعلق رکھتے ہيں کہ اگر کوئی کلام کے گھوڑے پر سوار ھو کر ان پر حملہ کرے تو وہ خود پشیمان ھوتا ہے اور خجالت و ندامت کا دھبہ تا حیات ان کے ماتھے پر باقی رھتا ہے۔
 تھوڑی دیر بعد امام علیہ السلام دربار سے باھر آئے اور اپنی سواری پر بیٹھ گئے۔ نفیع پر عزم چھرے کے ساتھ امام علیہ السلام کے سامنے آیا اور امام علیہ السلام کے گھوڑے کی لگام پکڑ لی اور غرور آمیز لھجے میں پوچھا: تم کون ھو؟
 امام علیہ السلام نے اطمینان کے ساتھ جواب دیا: اگر تم میرا نسب پوچھ رھے ھو تو میں محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور ابراھیم خلیل اللہ اور اسماعیل ذبیح اللہ علیھما السلام کا فرزند ھوں اور اگر میرا وطن پوچھنا چاھتے ھو تو میں اسی سرزمین کا رھنے والا ھوں جس کے حج و زيارت کو خداوند متعال تم پر اور تمام مسلمانوں پر فرض کردیا ہے؛ اگر میری شھرت جاننا چاھتے ھو تو میں اس خاندان سے ھوں جس پر صلوات و درود بھیجنا، ھر نماز میں، خداوند متعال نے تم پر واجب کردیا ہے اور اگر تم نے فخر فروشی کی رو سے مجھ سے میرا تعارف پوچھا ہے تو خدا کی قسم! میرے قبیلے کے مشرکین نے تیرے خاندان کے مسلمانوں تک کو اپنے برابر نھيں سمجھا اور انھوں نے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے عرض کیا کہ ان لوگوں کو ھماری طرف بھیجیں جو قبیلے کے لحاظ سے ھمارے ھم شان و ھم مرتبہ ھوں۔ اب تم میرے گھوڑے کے سامنے سے ھٹ جاؤ اور اس کی لگام کو چھوڑ دو۔
 نفیع نے اپنی پوری شخصیت و حیثیت کو برباد دیکھا اور اپنے غرور کو کلام امام علیہ السلام کے بھاری طوفان میں ضائع ھوا تھا تو ایسے حال میں کہ اس کا ھاتھ کانپ رھا تھا اور اس کا چھرہ شدت شرمندگی سے سرخ ھورھا تھا، امام علیہ السلام کے گھوڑے کی لگام چھوڑ کر سامنے سے ھٹ گیا۔
 عبدالعزیز بن عمر نے ھاتھ نفیع کے کندھے پر رکھا اور طنزیہ مسکراھٹ کے ساتھ کھا: اے نفیع میں کھہ رھا تھا کہ تم ان کا مقابلہ نھيں کرسکو گے۔

ایک اھم سبق
 امام علیہ السلام کی اخلاقی خصوصیات میں ایک ان کی خصوصیت غیرمعمولی عفو اور درگذر ہے۔ ایک نمونہ:
 مروی ہے کہ جس شھر میں امام کاظم علیہ السلام کی رھائش تھی وھاں خلفاء کا ایک ایک عقیدتمند رھتا تھا جو امام علیہ السلام سے عجیب عداوت رکھتا تھا اور جب بھی امام علیہ السلام کو دیکھتا دشنام طرازی کرتا اور حتی بعض اوقات امیرالمؤمنین علیہ السلام کو بھی اپنی بدزبانی کا نشانہ بناتا تھا۔ ایک روز امام علیہ السلام اپنے اصحاب کے ھمراہ اس شخص کی کھیتی کے قریب سے گذرے تو اس شخص نے معمول کے مطابق دشنام طرازی کی۔
 امام علیہ السلام کے اصحاب غضبناک ھوئے اور امام علیہ السلام سے درخواست کی اس شخص کو سزا دینے کی اجازت دیں لیکن امام (ع) نے اس اقدام کی شدت سے مخالفت کی۔
 ایک دن امام علیہ السلام اس شخص کی طرف گئے اور اس سے ملاقات کرنا چاھی لیکن وہ شخص اپنے بھونڈے کردار سے باز نہ آیا اور امام علیہ السلام کو دیکھتے ھی زبان دشنام طرازی کے لئے کھول دی۔
 امام علیہ السلام گھوڑے سے اترے اور اس شخص کو سلام کیا تو اس نے اپنی دشنام طرازی کو شدت بخشی۔
 امام علیہ السلام نے کشادہ روئی کے ساتھ فرمایا: اس کھیتی میں زراعت کا خرچہ کتنا ہے؟
 اس نے جواب دیا: 100 دینار؛
 امام علیہ السلام نے پوچـھا: کتنا منافع کمانے کی امید رکھتے ھو؟
 اس شخص نے گستاخی اور طعنہ زنی کے انداز میں کھا: میں علم غیب نھيں رکھتا کہ میں اس کھیت سے کتنا منافع کماؤں گا لیکن میرا خیال ہے کہ اس کھیتی میں میں 200 دینا کماؤں گا۔
 امام علیہ السلام نے تین سو سونے کے دینار کی ایک تھیلی اس شخص کو عطا کرتے ھوئے فرمایا: یہ لے لو اور کھیتی اور زراعت کا ماحصل بھی تمھارا، مجھے امید ہے کہ خداوند وہ منافع بھی تمھیں عطا فرمائے جس کی تمھیں امید ہے۔
 اس شخص نے شرمندہ اور حیرت زدہ ھوکر امام علیہ السلام سے تھیلی وصول کی امام علیہ السلام کا ماتھا چھوما اور اپنے بھونڈے رویئے کی معافی مانگی اور امام علیہ السلام بزرگواری سے اس شخص کی غلطیاں بخش دیں۔
 ایک دن وہ مرد مسجد میں حاضر ھوا اور جب اس کی نظر امام موسی کاظم علیہ السلام پر پڑی تو کھا: خدا خود ھی بھتر جانتا ہے کہ اپنی رسالت کو کھاں اور کس کے دوش پر قرار دے۔
 اس شخص کی بات اصحاب امام (ع) کی حیرت کا سبب ھوئی؛ وہ جاننا چاھتے تھے کہ کونسی چیز اس کے رویئے میں تبدیلی کا موجب ھوئی ہے؟
 اصحاب نے پوچھا: کیا ھوا؟ اس سے پھلے تو تم کچھ اور کھتے رھے ھو!
 مرد عرب نے سر جھکا کر کھا: تم نے صحیح سنا ہے اور بات وھی ہے جو تم نے اب تھوڑی دیر پھلے سنی ہے اور میں اس کے سوا ھرگز کچھ اور نھيں کھوں گا۔ اس کے بعد اس شخص نے ھاتھ اٹھائے اور امام علیہ السلام کے لئے دعا کی۔
 وہ مرد مسجد سے نکل گیا اور امام علیہ السلام بھی اپنے گھر کی طرف روانہ ھوئے اور راستے میں اپنے اصحاب سے مخاطب ھوکر فرمایا: "اب بتاؤ کہ ان دو راستوں میں‎ سے کون سا راستہ بھتر تھا؛ وہ جو تم اپنانا چاھتے تھے یا وہ جو میں نے اپنایا؟ میں نے اس کا مسئلہ اسی رقم سے حل کیا جو تم جانتے ھو اور اپنے آپ کو اس کے شر سے آسائش بخشی۔

آراستگی اور پیراستگی
 امام علیہ السلام کی ایک پسندیدہ خصوصیت ـ جو لوگوں کو آپ (ع) کی طرف جذب کرتی تھی ـ آپ کی صفائی ستھرائی اور آراستگی تھی۔ ان لوگوں کے برعکس جو اسلام کی بعض تعلیمات و احکام میں افراط اور زیادہ روی میں مبتلا ھوجایا کرتے تھے اور بعض دیگر احکام و تعلیمات کو سرے سے ترک کیا کرتے تھے اور آج بھی ان لوگوں کی زندہ مثالیں پانا زیادہ مشکل نھيں ہے اور ایسے کئی لوگ آج بھی ملتے ہيں جو صفائی اور حفظان صحت کے اصولوں کو عبادت کے بھانے ترک کردیتے ہیں اور بعض معاشروں میں ان ھی لوگوں کو انتھائي قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے اور انھيں معاذاللہ اولیاء اللہ کا یا مجذوب وغیرہ جیسے القاب سے نوازا جاتا ہے!۔
 امام کاظم علیہ السلام کا ایک محب آپ (ع) کی خدمت میں حاضر ھوا اور سلام کیا اور آپ (ع) کا حال پوچھا اور امام علیہ السلام کے چھرہ مبارک کی طرف غور سے دیکھا کہ آپ (ع) نے بڑی عمر کے باوجود داڑھی کو خضاب لگایا ہے اور آپ (ع) چھرہ نوجوانوں جیسا ہے۔
 اس شخص نے عرض کیا: ميری جان آپ پر فدا ھو، کیا آپ نے داڑھی کو خضاب لگایا ہے؟
 امام علیہ السلام نے فرمایا: ھاں! کیونکہ آراستگی کے خداوند متعال کی بارگاہ میں پاداش و ثواب ہے۔ اور پھر داڑھی کو خضاب لگانا، خواتین کی پاکدامنی اور ازواج کی عفت کا سبب بنتا ہے۔ تھیں ایسی عورتیں جو اپنے شوھروں کی عدم آراستگی کی وجہ سے فساد اور گناہ میں مبتلا ھوگئی ہيں۔

صلہ رحمی کی اھمیت
امام موسی کاظم علیہ السلام اپنے آباء و اجداد کی طرح صلہ رحمی کو بھت اھمیت دیا کرتے تھے اور قرابت داروں کو بدترین حالات میں بھی عزت و احترام دیتے اور ان کی مدد کرتے تھے اور دوسروں سے ان کی رعایت حال کی تلقین فرمایا کرتے تھے۔
 مروی ہے کہ امام صادق علیہ السلام کو سانس لینے میں دشواری ھورھی تھی اور بستر شھادت پر آرام فرما رھے تھے۔ عباسی بادشاہ منصور نے آپ (ع) کومسموم کروایا تھا اور آپ (ع) اپنی حیات طیبہ کے آخری لمحات سے گذر رھے تھے۔ بعض اصحاب اور شاگرد، قرابتدار اور دوست آپ (ع) کے ارد گرد موجود تھے اور سب اپنے عالم و دانشمند پیشوا کے فراق میں آبدیدہ تھے۔
 امام علیہ السلام نے اسی حال میں اپنے بیٹے امام کاظم علیہ السلام سے نھایت دشواری کے ساتھ، وصیت فرمائی: حسن افطس کو ستر دینار دے دیں اور فلان شخص کو اتنی رقم دیں اور فلان کو اتنی ۔۔۔ اور پھر اپنے فرزند کو وصیت فرمائی۔
 ساعد نامی خادم نے روتے ھوئے امام علیہ السلام سے عرض کیا: کیا آپ ایسے شخص کو رقم دیں گے جس نے آپ کے خلاف تلوار اٹھائی اور آپ کو قتل کرنے کا ارادہ رکھتا تھا؟
 امام علیہ السلام نے ساعد کی طرف نظر گھمائی اور فرمایا: کیا تم نھيں چاھوگے کہ میں ان لوگوں میں سے ھوجاؤں جن کے بارے میں خداوند متعال نے فرمایا:
"وَ الَّذین یَصِلُونَ ما أمَرَ اللّهُ بِهِ اَنْ یُوصَلَ وَ یَخْشَوْنَ رَبَّهُمْ وَ یَخافُونَ سُوءَ الْحِسابِ"۔ (سورہ رعد آیت 21)۔
 وہ (مؤمنین) ایسے لوگ ہیں کہ ان رشتوں کو قائم کرتے ہيں جن کا خداوند متعال نے حکم دیا ہے اور اپنے پروردگار سے ڈرتے ہیں اور یوم الحساب کی دشواریوں سے فکرمند ہیں۔
 ھاں اے ساعد! خداوند متعال نے جنت کو خلق فرمایا اور اس کو اچھی طرح خوشبو عطا فرمائی اور جنت کی دل انگیز خوشبو ایک ھزار سال کے فاصلے سے آتی اور محسوس ھوتی ہے لیکن دو قسم کے لوگ اس کو محسوس نھيں کرسکتے ایک وہ جو عاق والدین اور ماں باپ کے نافرمان ہیں اور ایک وہ لوگ جو صلہ رحمی کو منقطع کرتے ہيں (اور اپنے رشتہ داروں سے رشتہ کاٹ دیتے ہیں)۔
 شیخ مفید اپنی کتاب الارشاد کے صفحہ 575 پر رقمطراز ہیں کہ امام موسی کاظم علیہ السلام خوف خدا سے اس قدر روتے تھے کہ آپ کی داڑھی آنسؤوں سے تر ھوجاتی تھی اور سب سے زیادہ صلہ رحمی اور قرابتداروں سے میل ملاقات کو اھمیت دیتے اور اس کا اھتمام فرمایا کرتے تھے۔ راتوں کو مدینہ منورہ کے بے نواؤں کی ضروریات پوری کرتے اور ان کی دلجوئی کرتے تھے اور ان کے لئے نقد رقم اور آٹے اور کھجوروں کے زنبیل لے جایا کرتے تھے اور انھیں معلوم نھیں تھا کہ یہ عطیات کس بزرگ کی طرف سے ان کے لئے ارسال کئے جارھے ہیں۔

مظلوموں اور محروموں کی مدد گناھوں کا کفارہ
 معاشرے کے محرومین، محتاجوں اور ظلم و ستم کا شکار ھونے والے افراد کی مدد ائمہ طاھرین علیھم السلام کی زندگی کے اٹل اصولوں میں سے تھی اور امام کاظم علیہ السلام اسی بنا پر ان کی مادی، اخلاقی اور روحانی مدد فرمایا کرتے تھے اور اپنے دوستوں، جاننے والوں اور قرابتداروں کے احوال سے آگاہ رھنے کے لئے کوشاں تھے اور ان سے ملنے اور ان کے مسائل حل کرنے کی کوشش فرمایا کرتے تھے تا کہ ان کے حالات سے پوری طرح آگاہ رھیں اور حتی الوسع ان کے معاشی مسائل حل کریں جیسا کہ امام کاظم علیہ السلام سمیت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور ائمہ ھدایت علیھم السلام کی حدیثوں میں بھی یہ رجحان بڑی وضاحت کے ساتھ بیان مورد تاکید قرار پایا ہے۔ امام علیہ السلام ھر موقع و مناسبت سے مسلمانوں کو مدد پھنچانے کے سلسلے میں استفادہ کیا کرتے تھے اور عباسی گھٹن کے دور میں آپ (ع) کی اھم ترین سفارش یہ تھی کہ مؤمنین اور مظلومین کی مدد گناھوں کا کفارہ ہے۔

زیاد بن ابی سلمہ کا ماجرا
 مروی ہے کہ امام کاظم علیہ السلام کے محبین میں سے "زیاد بن ابی سلمہ" کے ھارون عباسی کی مشینری سے بھی قریبی تعلقات تھے۔
 ایک دن امام علیہ السلام نے زیاد سے فرمایا: اے زياد بن ابی سلمہ! میں نے سنا ہے کہ تم ھارون الرشید کے لئے کام کرتے ھو اور اس کی حکومت کے ساتھ تعاون کرتے ھو؟!
 زیاد نے عرض کیا: ھاں! میرے سید و سرور۔
 امام علیہ السلام نے فرمایا: کیوں؟
 زیاد نے کھا: میرے مولا! میں ایک آبرومند انسان ھوں لیکن تھی دست اور محتاج ھوں اور اپنے خاندان کی ضروریات پوری کرنے کے لئے کام کرنا میری مجبوری ہے۔
 امام علیہ السلام نے ناراضگی کا اظھار کرتے ھوئے فرمایا: اگر میں اونچائی سے گر جاؤں اور میرے بدن کے ٹکڑے ٹکڑے ھوجائیں تو یہ میرے لئے اس سے کھیں بھتر ہے کہ ظالموں کے امور انجام دوں یا ان کے بچھونوں پر ایک قدم رکھوں؛ سوائے ایک صورت کے! کیا جانتے ھو کہ وہ کون سی صورت ہیں؟
 زیاد نے عرض کیا: نھیں میری جان آپ پر فدا ھو۔
 فرمایا: میں ھرگز ان کے ساتھ تعاون نھيں کرتا مگر یہ کہ ایسا کرکے کسی مؤمن کے دل سے غم کا بوجھ ھلکا کروں یا اس کی کوئی مشکل حل کروں یا اس کا قرض ادا کرکے پریشانی کے آثار اس کے چھرے سے مٹا دوں۔
 اے زياد! خداوند متعال ظالموں کے مددگاروں کے ساتھ جو کم از کم سلوک روا رکھتا ہے وہ یہ ہے کہ انھیں آگ کے تابوت میں بند کردیتا ہے حتی کہ روز حساب آن پھنچے اور قیامت بپا ھوجائے۔
 اے زیاد! جب بھی ان ظالموں کے کسی کام کو اپنے ذمے لیتے ھو اپنے بھائیوں سے نیکی کرو اور ان کی مدد کرو تا کہ یہ تمھارے کاموں کا کفارہ ھو۔ جب تم قوت و طاقت حاصل کرو تو جان لو کہ تمھارا خدا بھی قیامت کے دن صاحب قوت و اقتدار ہے اور جان لو کہ تیری نیکیاں گذرجاتی ہیں اور ممکن ہے کہ لوگ تمھاری نیکیوں کو بھول جائیں لیکن خدا کے ھاں وار تمھاری قیامت کے لئے محفوظ اور باقی رھیں گی۔

علی بن یقطین کا ماجرا
 ھارون عباسی کے دربار میں امام موسی کاظم علیہ السلام کے دوسرے صحابی "علی بن یقطین" تھے۔ وہ کئی بار امام علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ھوئے تھے تا کہ عباسی بادشاہ کے دربار سے اپنا تعلق منقطع کریں لیکن امام علیہ السلام انھیں اجازت نہیں دے رھے تھے؛ کیونکہ امام علیہ السلام جانتے تھے کہ وہ اھل بیت رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے حقیقی حبدار ہيں۔ ایک بار وہ اسی نیت سے امام علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ھوئے اور ھارون کے دربار سے اسعتفا دینے کی اجازت مانگی تو امام علیہ السلام نے شفقت کے ساتھ فرمایا: ایسا مت کرو۔ ھم آپ کو پسند کرتے ہيں اور آپ کو دوست رکھتے ہیں؛ ھارون کے دربار میں تمھاری ملازمت تمھارے بھائیوں کی آسودگی کا سبب ہے؛ امید ہے کہ خداوند متعال تمھاری وجہ سے پریشانیاں برطرف فرمائے اور ان کی دشمنیوں اور سازشوں کی آگ کو ٹھنڈا کردے۔
علی بن یقطین جو امام علیہ السلام کا کلام قطع نھيں کرنا چاھتے گویا سراپا توجہ بن کر سن رھے تھے۔
 امام علیہ السلام نے فرمایا: اے علی بن یقطین! جان لو کہ ظالموں کے دربار میں ملازمت کا کفارہ محرمین کا حق لینا ہے۔ تم مجھے ایک چیز کی ضمانت دو میں تمھیں تین چیزوں کی ضمانت دوں گا؛ تم وعدہ کرو کہ جب بھی کوئی مؤمن تم سے رجوع کرے اس کی ھر حاجت اور ھر ضرورت پوری کرو گے؛ اس کا حق اس کو دلاؤگے اور اس کے ساتھ احترام کے ساتھ پیش آؤگے میں بھی ضمانت دیتا ھوں کہ تم کبھی بھی گرفتار نہ ھوگے، ھرگز دشمن کی تلوار سے قتل نہ کئے جاؤگے اور کبھی بھی تنگدستی اور غربت کا سے شکار نہ ھوگے۔
 جان لو کہ جو بھی مظلوم کا حق اس کو دلا دے اور اس کو دل کو خوش کرے سب سے پھلے خداوند متعال اور پھر رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور پھر ائمہ علیھم السلام سے اس سے راضی اور خوشنود ھونگے۔


 علم و دانش کا خورشید جھان تاب
 امام موسی کاظم علیہ السلام دوسرے ائمہ معصومین (ع) کی طرح آسمان دانش پر خورشید عالمتاب کی مانند پرتو افگن تھے۔ تمام علمی مسائل کا احاطہ اور کامل و شامل جواب، آپ (ع) کے علمی مقام و منزلت کے ھزاروں نکتوں میں سے ایک تھا۔
 "بریھہ" نامی عیسائی عالم اس زمانے کے عیسائیوں کے لئے فخر و اعزاز کا سرمایہ سمجھے جاتے تھے؛ وہ کچھ عرصے سے اپنے عقائد میں تردد کا شکار ھوئے تھے اور حقیقت کی تلاش میں مصروف تھے اور اس سلسلے میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نھیں کیا کرتے تھے۔
 کبھی کبھی مسلمانوں کے ساتھ اپنے ذھنی سوالات کے بارے میں بحث بھی کرنے لگتے تھے لیکن پھر بھی محسوس کرتے تھے کہ گویا انھیں ان کے سوالات کا جواب نھيں مل سکا ہے اور جو کچھ وہ چاھتے ہيں اس کو کھیں اور تلاش کرنا چاھئے۔
 ایک دن بریھہ کچھ شیعہ افراد سے ملے تو انھوں نے انھیں امام صادق علیہ السلام کے شاگر ھشام بن حَکَم کا پتہ دیا جو علم عقائد کے زبردست استاد تھے۔ ھشام کی کوفہ میں دکان تھی اور بریھہ بعض عیسائی دوستوں کے ھمراہ ان کی دکان پر پھنچے جھاں ھشام چند افراد کو قرآن سکھا رھے تھے۔ دکان میں داخل ھوئے اور آنے کا مقصد بیان کیا۔
 بریھہ نے کھا: میں نے بہت سے مسلمان دانشوروں کے ساتھ مناظرے اور مباحثے کئے ہیں لیکن کسی نتیجے پر نھيں پھنچ سکا ھوں! اب میں آیا ھوں کہ آپ کے ساتھ اعتقادی مسائل کے بارے میں بات چیت کروں۔
 ھشام نے کشادہ روئی کے ساتھ کھا: اگر آپ مجھ سے حضرت عیسی علیہ السلام کے معجزات کی توقع رکھتے ہیں تو میرے پاس وہ طاقت نھیں ہے۔
 ھشام نے مزاحیہ انداز میں بات کا آغاز کیا تو اس کا اثر مثبت ثابت ھو اور بریھہ نے ابتداء میں اسلام کی حقانیت کے بارے میں بعض سوالات پوچھے اور ھشام نے اپنی قوت اور علم و دانش کی حد تک صبر اور حوصلے کے ساتھ جواب دیا اور اس کے بعد ھشام کی باری آئی تو انھوں نے بھی چند سوالات اٹھائے لیکن بریھہ بے بس ھوگئے اور اطمینان بخش جواب نہ دے سکے۔
 بریھہ کو گویا وہ آدمی مل چکا تھا جس کی انھیں ضرورت تھی چنانچہ دوسرے دن بھی ھشام کی دکان پر گئے، لیکن اس بار وہ تنھا تھے اور ھشام سے پوچھا: اتنی قابلیت اور دانائی کے باوجود بھی کیا آپ کے استاد بھی ہیں؟
 ھشام نے کھا: بے شک میرے استاد ہيں۔
 بریھہ نے کہا: وہ کون ہیں اور کھاں رھتے ہیں اور ان کا پیشہ کیا ہے؟
 ھشام نے ان کا ھاتھ پکڑ لیا اور انھیں اپنے برابر میں بٹھایا اور امام صادق علیہ السلام کی منفرد اخلاقی خصوصیات ان کے لئے بیان کیں۔ انھوں نے امام جعفر صادق علیہ السلام کے نسب، بخشش، علم و دانش، شجاعت اور عصمت کے بارے میں تفصیل سے بات کی اور پھر بریھہ کے قریب ھوکر کھا: "اے بریھہ! خدا نے اپنی جو بھی حجت گذشتہ لوگوں کے لئے آشکار فرمائی ہے، ان لوگوں کے لئے بھی آشکار فرماتا ہے جو ان کے بعد آنے والے ہیں اور خدا کی زمین کبھی بھی حجت خدا سے خالی نھيں ھوتی۔ ھشام نے انھیں بتایا کہ ان کے استاد حضرت امام صادق علیہ السلام مدینہ منورہ میں سکونت پذیر ہیں۔
 بریھہ اس روز سراپا سماعت تھے اور ھمہ تن گوش؛ ان کو آج تک اتنی ساری دلچسپ باتیں سننے کو نھيں ملی تھیں چنانچہ سن رھے تھے اور ذھن نشین کررھے تھے۔ بریھہ گھر لوٹے تو بھت خوش تھے اور نھایت خندہ پیشانی کے ساتھ اپنی بیوی کو آواز دی کہ جلدی سے مدینہ کے سفر کے لئے تیار ھوجاؤ؛ ھشام بن حکم نے بھی اس سفر میں ان کا ساتھ دیا۔ سفر بھت دشوار اور مشکل تھا لیکن امام کے دیدار کی امید سختیوں کو آسان کررھی تھی۔ آخر کار سب مل کر مدینہ منورہ میں داخل ھوئے اور فوری طور پر امام صادق علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ھوئے۔
 امام علیہ السلام سے ملاقات کا شرف حاصل کرنے سے قبل، انھیں امام موسی کاظم علیہ السلام کی زیارت نصیب ھوئی۔ ھشام نے بریھہ کے ساتھ اپنی شناسائی کا ماجرا کھہ سنایا تو امام موسی کاظم علیہ السلام نے فرمایا: تم اپنے دین کی کتاب (انجیل) سے کس قدر واقف ھو؟
 بریھہ نے کھا: انجیل سے آگاہ ھوں۔
 امام کاظم (ع) نے فرمایا: آپ کس قدر مطمئن ہیں کہ تم نے اس کے معانی کو صحیح طرح سے سمجھ لیا ہے؟
 بریھہ نے کھا: میں بھت زيادہ مطمئن ھوں کہ میں نے اس کے معانی کو درست سمجھ لیا ہے۔
 امام کاظم علیہ السلام نے انجیل کے بعض کلمات بریھہ کے لئے بیان کئے۔ بریھہ یہ دیکھ کر کلام امام (ع) کے شیدائی ھوگئے اور زمان و مکان کو بھول گئے اور یہ بھی بھول گئے کہ انھوں نے اتنا لمبا راستہ طے کیا ہے۔ امام علیہ السلام کے کلام مبارک سے اس قدر متأثر ھوئے اور اسلام کی عظمت اور حقانیت اس قدر ان کے لئے آشکار ھوئی کہ بحث کو جاری رکھنے اور مزید سوالات پوچھنے اور جوابات میں لیت و لعل کرنے کی بجائے اپنے باطل عقائد کو ترک کرکے مسلمان ھوگئے۔ بریھہ کے اسلام لانے کی خاص بات یہ تھی کہ ابھی اس زمانے کے امام حضرت جعفر بن محمد صادق علیہ السلام کی خدمت میں نھيں پھنچے تھے کہ آپ ( ع) کے نوجوان فرزند امام ھفتم حضرت امام موسی بن جعفر علیہ السلام کے ھاتھوں مسلمان ھوگئے۔
 بریھہ نے اسلام قبول کرنے کا اعلان کرنے کے بعد کھا: میں پچاس برسوں سے آپ کی طرح کے آگاہ فرد، حقیقی عالم اور دانشمند استاد کی تلاش میں ھوں۔
حوالہ جات:
 1۔ بحارالانوار، ج48، ص143؛ مناقب آل ابی طالب، ج3، ص431۔
 2۔ شیخ مفید، محمد بن محمد بن النعمان، الارشاد فی معرفة الحجج الله علی العباد، برگردان: سیّد هاشم رسولی محلاتی، تهران، دفتر نشر فرهنگ اسلامی، چاپ چهارم، 1378 ش، ج 2، ص 327۔
 3۔ بحارالانوار، ج 72، ص 100۔
 4۔ بحار، ج 71، ص 96۔
 5۔ بحار، ج 48، ص 172۔
 6۔ بحار، ج 48، ص 136؛ ج 75، ص 379 (با اندک تفاوت)۔
 7۔ الاصول من الکافی، ج 1، ص 227، ح 1۔

Add comment


Security code
Refresh