www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

حضرت علی علیہ السلام آپ اپنی جود و سخا ،عدالت، زھد،جھاد اور حیرت انگیز کارناموں میں اس امت کی سب سے عظیم شخصیت ہیں دنیائے اسلام میں رسول اللہ (ص)کے اصحاب میں سے کوئی بھی آپ کے بعض صفات کا مثل نھیں ھوسکتا۔

آپ کے فضائل و کمالات اور آپ کی شخصیت کے اثرات زمین پر بسنے والے تمام مسلمانوں اور غیر مسلمانوں کے زبان زد ہیں، تمام مؤرخین کا اس بات پر اتفاق ہے کہ عرب یا غیرعرب کی تاریخ میں آپ کے بھائی اور ابن عم کے علاوہ آپ کا کوئی ثانی نھیں ہے ۔ ذیل میں آپ کے بعض صفات و خصوصیات کو قلمبند کئے جا رھے ہیں :
کعبہ میں ولادت
تمام مؤرخین اورراویوں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ آپ کی ولادت با سعادت خانۂ کعبہ میں ھوئی۔(۱) آپ کے علاوہ کوئی اور خانۂ کعبہ میں نھیں پیدا ھوا ،اور یہ اللہ کے نزدیک آپ کے بلند مرتبہ اور عظیم شرف کی علامت ہے ،اسی مطلب کی طرف عبد الباقی عمری نے اس شعر میں اشارہ کیا ہے :"اَنْت العلیُّ الذی فوق العُلیٰ رُفِعا ببطن مکۃ عند البیت اِذْوُضِعَا"آپ وہ بلند و بالا شخصیت ہیں جو تمام بلندیوں سے بلند و بالا ہیں اس لئے کہ آپ کی ولادت مکہ میں خانہ کعبہ میں ھوئی ہے ‘۔بیشک نبی کے بھائی اور ان کے باب شھر علم کی ولادت اللہ کے مقدس گھر میں ھوئی تاکہ اس کی چوکھٹ کو جلا بخشے،اس پر پرچم توحید بلند کرے ،اس کو بت پرستی اور بتوں کی پلیدی سے پاک وصاف کرے ، اس بیت عظیم میں ابوالغرباء ،اخو الفقراء ، کمزوروں اور محروموں کے ملجأ و ماویٰ پیدا ھوئے تاکہ ان کی زندگی میں امن ،فراخدلی اور سکون و اطمینان کی روح کوفروغ دیں ، ان کی زندگی سے فقر و فاقہ کا خاتمہ کریں ،آپ کے پدر بزرگوار شیخ بطحاء اور مومن قریش نے آپ کا اسم گرامی علی رکھاجو تمام اسماء میں سب سے بھترین نام ہے۔
اسی لئے آپ اپنی عظیم جود و سخا اور حیرت انگیز کارناموں میں سب سے بلند تھے اور خداوند عالم نے جو آپ کو روشن و منورعلم و فضیلت عطا فرمائی تھی اس کے لحاظ سے آپ اس عظیم بلند مرتبہ پر فائز تھے جس کا تصور بھی نھیں کیا جا سکتا۔امیر بیان اور عدالت اسلامیہ کے قائد و رھبرنبی کی بعثت سے بارہ سال پھلے تیرہ رجب ۳۰ عام الفیل کو جمعہ کے دن پیدا ھوئے۔ (۲)
القاب
امیر حق نے آپ کو متعدد القاب سے نوازا جو آپ کے صفات حسنہ کی حکایت کرتے ہیں ،آپ کے القاب مندرجہ ذیل ہیں :
۱۔ "صدیق"(۳) آپ کو اس لقب سے اس لئے نوازا گیا کہ آپ ھی نے سب سے پھلے رسول اللہ کی مدد کی اور اللہ کی طرف سے نازل ھونے والی چیزوں پر ایمان لائے ، مولائے کائنات خود فرماتے ہیں :"اَناالصدیق الاکبرآمنت قبل ان یومن ابوبکرواسلمتُ قبل ان یسلّم "میں صدیق اکبر ھوں ابوبکر سے پھلے ایمان لایاھوں اور اس سے پھلے اسلام لایاھوں ۔
۲۔ "وصی" آپ کو یہ لقب اس لئے عطا کیا گیا کہ آپ رسول اللہ (ص) کے وصی ہیں اور رسول خدا(ص) نے اس لقب میں اضافہ کرتے ھوئے فرمایا : "اِنَّ وَصِیّي،وَمَوْضِعَ سِرِّی،وَخَیْرُمَنْ اَتْرُکَ بَعْدِیْ،وَیُنْجِزُعِدَتِیْ،وَیَقْضِیْ دَیْنِیْ،عَلِیُّ بْنُ اَبِیْ طَالِبٍ"۔(۴)میرے وصی ،میرے راز داں ،میرے بعد سب سے افضل ،میرا وعدہ پورا کرنے والے اور میرے دین کی تکمیل کرنے والے ہیں ۔
۳۔ "فاروق" امام کو فاروق کے لقب سے اس لئے یاد کیا گیا کہ آپ حق و باطل کے درمیان فرق کرنے والے ہیں۔یہ لقب نبی اکرم (ص) کی احادیث سے اخذ کیا گیا ہے ،ابوذر اور سلمان سے روایت کی گئی ہے کہ نبی نے حضرت علی علیہ السلام کا ھاتھ پکڑ کر فرمایا :"اِنّ ھٰذَااَوَّلُ مَنْ آمَنَ بِیْ،وھٰذَا اَوَّلُ مَنْ یُصَافِحُنِیْ یَوْمَ القِیَامَۃِ،وَھٰذَا الصِّدِّیْقُ الْاَکْبَرُ،وَھٰذَا فَارُوْقُ ھٰذِہِ الاُمَّۃِ یَفْرُقُ بَیْنَ الْحَقِّ وَالْبَاطِلِ"۔(۵)
یہ مجھ پر سب سے پھلے ایمان لائے ،یھی قیامت کے دن سب سے پھلے مجھ سے مصافحہ کریں گے ،یھی صدیق اکبر ہیں ،یہ فاروق ہیں اور امت کے درمیان حق و باطل میں فرق کرنے والے ہیں ۔
۴۔"یعسوب الدین" لغت میں یعسوب الدین شھد کی مکھیوں کے نَر کو کھا جاتا ہے پھر یہ قوم کے صاحب شرف سردار کیلئے بولا جانے لگا،یہ نبی اکرم (ص)کے القاب میں سے ہے ،نبی اکر م (ص)نے حضرت علی علیہ السلام کو یہ لقب دیتے ھوئے فرمایا: "ھٰذَا(واشارَالی الامام )یَعْسُوْبُ المُؤمِنِیْنَ،وَالْمَالُ یَعْسُوْبُ الظَّا لِمِیْنَ"(۶)یہ (امام کی طرف اشارہ کرتے ھوئے فرمایا )مومنین کے یعسوب ہیں اور مال ظالموں کا یعسوب ہے۔
۵۔"امیر المو منین" آپ کا سب سے مشھور لقب امیرالمومنین ہے یہ لقب آپ کو رسول اللہ نے عطا کیا ہے روایت ہے کہ ابو نعیم نے انس سے اور انھوں نے رسول اللہ (ص) سے نقل کیا ہے کہ آپ نے فرمایا ہے :" یاانس، ’’اسْکُبْ لِیْ وَضُوء اً ‘‘اے انس میرے وضو کرنے کے لئے پانی لاؤ۔پھر آپ نے دورکعت نماز پڑھنے کے بعد فرمایا: اے انس اس دروازے سے جو بھی تمھارے پاس سب سے پھلے آئے وہ امیرالمومنین ہے ، مسلمانوں کا سردار ہے ،قیامت کے دن چمکتے ھوئے چھرے والوں کا قائد اور خاتم الوصیین ہے ۔ انس کا کھنا ہے :میں یہ فکر کررھاتھا کہ وہ آنے والا شخص انصار میں سے ھو جس کو میں مخفی رکھوں ، اتنے میں حضرت علی علیہ السلام تشریف لائے تو رسول اللہ نے سوال کیا کہ اے انس کون آیا ؟ میں (انس ) نے عرض کیا : علی ۔ آپ نے مسکراتے ھوئے کھڑے ھوکر علی سے معانقہ کیا ،پھر ان کے چھرے کا پسینہ اپنے چھرے کے پسینہ سے ملایااور علی کے چھرے پر آئے ھوئے پسینہ کو اپنے چھرے پر ملا اس وقت علی نے فرمایا: یارسول اللہ میں نے آپ کو اس سے پھلے کبھی ایسا کرتے نھیں دیکھا؟ آنحضرت نے فرمایا: میں ایسا کیوں نہ کروں جب تم میرے امور کے ذمہ دار،میری آواز دوسروں تک پھنچانے والے اور میرے بعد پیش آنے والے اختلافات میں صحیح رھنما ئی کرنے والے ھو ۔(۷)
۶۔" حجۃ اللہ" آپ کا ایک عظیم لقب حجۃ اللہ ہے، آپ خدا کے بندوں پر اللہ کی حجت تھے اور ان کومضبوط و محکم راستہ کی ھدایت دیتے تھے ،یہ لقب آپ کو پیغمبر اکرم (ص) نے عطا فرمایا تھا ،نبی اکرم (ص)نے فرمایا:"میں اور علی اللہ کے بندوں پر اس کی حجت ہیں"(۸)۔یہ آپ کے بعض القاب تھے ان کے علاوہ ھم نے آپ کے دوسرے چھ القاب امام امیر المومنین کی سوانح حیات کے پھلے حصہ میں بیان کئے ہیں جیسا کہ ھم نے آپ کی کنیت اور صفات کا تذکرہ بھی کیا ہے۔آپ کی پرورش حضرت امیر المو منین نے بچپن میں اپنے والد بزرگوار شیخ البطحاء اورمومنِ قریش حضرت ابوطالب کے زیر سایہ پرورش پائی جو ھر فضیلت ،شرف اور کرامت میں عدیم المثال تھے ،اور آپ کی تربیت جناب فاطمہ بنت اسدنے کی جو عفت ،طھارت اور اخلاق میں اپنے زمانہ کی عورتوں کی سردار تھیں انھوں نے آپ کو بلند و بالا اخلاق ،اچھی عا دتیں اور آداب کریمہ سے آراستہ و پیراستہ کیا۔
پرورش امام کے لئے نبی کی آغوش
حضرت امام علی علیہ السلام کے عھد طفولیت میں نبی نے آپ کی پرورش کرنے کی ذمہ داری اس وقت لے لی تھی جب آپ بالکل بچپن کے دور سے گذر رھے تھے ،جس کا ماجرا یوں بیان کیا جاتا ہے کہ جب آنحضرت کے چچا ابوطالب کے اقتصادی حالات کچھ بھتر نھیں تھے تو نبی اکرم (ص) اپنے چچاعباس اور حمزہ کے پاس گفتگو کرنے کیلئے تشریف لے گئے اور ان سے اپنے چچا ابوطالب کے اقتصادی حالات کے سلسلہ میں گفتگو کی اور ان کا ھاتھ بٹانے کا مشورہ دیاتو انھوں نے آپ کی اس فرمائش کو قبول کرلیا ، چنانچہ جناب عباس نے طالب ، حمزہ نے جعفر اور نبی اکرم (ص) نے حضرت علی علیہ السلام کی پرورش کی ذمہ داری اپنے اوپر لے لی، لھٰذا اس وقت سے آپ (علی) رسول اللہ (ص) کی آغوش تربیت میں آگئے اور آنحضرت ھی کے زیر سایہ اورانھیں کے دامن محبت و عطوفت میں پروان چڑھے ،اسی لئے آپ کی رگ و پئے اور آپ کی روح کی گھرائی میں پیغمبر اکرم (ص)کے کردار اور اخلاق اور تمام صفات کریمہ اسی وقت سے سرایت کر چکے تھے اسی لئے آپ نے زندگی کے آغاز سے ھی ایمان کو سینہ سے لگائے رکھا ،اسلام کو بخوبی سمجھا اور آپ ھی پیغمبر کے سب سے زیادہ نزدیک تھے ، ان کے مزاج و اخلاق نیز آنحضرت کی رسالت کو سب سے بھتر انداز میں سمجھتے تھے ۔
مو لائے کا ئنات حضرت علی علیہ السلام نے پیغمبر اکرم (ص)کی پرورش کے انداز اور آپ سے اپنی گھری قرابت داری کے بارے میں ارشاد فرمایا :"تم جانتے ھی ھو کہ رسول اللہ (ص)سے قریب کی عزیز داری اور مخصوص قدر و منزلت کی وجہ سے میرا مقام اُن کے نزدیک کیا تھا ؟میں بچہ ھی تھا کہ رسول (ص) نے مجھے گود میں لے لیا تھا،آنحضرت مجھے اپنے سینہ سے چمٹائے رکھتے تھے، بستر میں اپنے پھلو میں جگہ دیتے تھے، اپنے جسم مبارک کو مجھ سے مس کر تے تھے اور اپنی خوشبو مجھے سونگھاتے تھے ،پھلے آپ کسی چیز کو چباتے پھر اس کے لقمے بنا کر میرے منھ میں دیتے تھے ،اُنھوں نے نہ تو میری کسی بات میں جھوٹ کا شائبہ پایا نہ میرے کسی کام میں لغزش و کمزوری دیکھی ۔۔۔ میں ان کے پیچھے پیچھے یوں لگا رھتا تھا جیسے اونٹنی کا بچہ اپنی ماں کے پیچھے رھتا ہے، آپ ھر روز میرے لئے اخلاق حسنہ کے پرچم بلند کر تے تھے اور مجھے ان کی پیروی کا حکم دیتے تھے "۔
آپ نے نبی اور امام کے مابین بھروسہ اور قابل اعتماد رابطہ کا مشاھدہ کیااور ملاحظہ کیاکہ کس طرح نبی اکرم(ص) حضرت علی علیہ السلام کی مھربانی اور محبت کے ساتھ تربیت فرماتے اور آپ کو بلند اخلاق سے آراستہ کرتے تھے ؟ اور نبی نے کیسے حضرت علی علیہ السلام کی لطف و مھربانی اور بلند اخلاق کے ذریعہ تربیت پا ئی ؟
نبی اکرم (ص) کی حمایت
جب رسول اسلام (ص) نے اپنے عظیم انقلاب کا آغاز فرمایاجس سے جاھلیت کے افکار ، اور رسم و رواج متزلزل ھوگئے ،تو قریش آپ کی مخالفت کے لئے اٹھ کھڑے ھوئے ،انھوں نے جان بوجھ کرتحریک کو خاموش کرنے کیلئے بھرپور کو شش کی اور اس کیلئے ھرممکنہ طریقۂ کاراختیارکیا ،اپنے بچوں کو نبی پر پتھروں کی بارش کرنے کے لئے بھڑکایا، اس وقت امام ھی ایک ایسے بچے تھے جو نبی کی حمایت کر رھے تھے اور ان بچوں کو ڈانٹتے اور مارتے تھے جب وہ اپنی طرف اس بچہ کو آتے ھوئے دیکھتے تھے تو ڈر کر اپنے گھروں کی طرف بھاگ جاتے تھے ۔
اسلام کی راہ میں سبقت
تمام مورخین اور راوی اس بات پر متفق ہیں کہ امام ھی سب سے پھلے نبی پر ایمان لائے ، آپ ھی نے نبی کی دعوت پر لبیک کھا،اور آپ ھی نے اپنے اس قول کے ذریعہ اعلان فرمایا کہ اس امت میں سب سے پھلے اللہ کی عبادت کرنے والا میں ھو ں :"لَقَدْ عَبَدْتُ اللّٰہَ تَعَالیٰ قَبْلَ اَنْ یَعْبُدَہُ اَحَدُ مِنْ ھٰذِہِ الاُمَّۃِ "۔ ’’میں نے ھی اس امت میں سب سے پھلے اللہ کی عبادت کی ہے (۹)اس بات پر تمام راوی متفق ہیں کہ امیر المو منین علیہ السلام دور جاھلیت کے بتوں کی گندگی سے پاک و پاکیزہ رھے ہیں ،اور اس کی تاریکیوں کا لباس آپ کو ڈھانک نھیں سکا،آپ ھرگز دوسروں کی طرح بتوں کے سامنے سجدہ ریز نھیں ھوئے ۔مقریزی کا کھنا ہے :(علی بن ابی طالب علیہ السلام ھاشمی نے ھر گز شرک نھیں کیا،اللہ نے آپ سے خیر کا ارادہ کیا تو آپ کو اپنے چچازاد بھائی سید المرسلین کی کفالت میں قرار دیدیا)۔(۱۰)
قابل ذکر بات یہ ہے کہ سیدہ ام المو منین خدیجہ آپ کے ساتھ ایمان لا ئیں، حضرت علی علیہ السلام اپنے اور خدیجہ کے اسلام پر ایمان لانے کے سلسلہ میں فرماتے ہیں :"وَلَم یَجْمَعْ بَیْتُ یَومَئذٍ واحدُ فی الاسلام غیرَرسُولِ اللّٰہِ (ص) وَخَدِیْجَۃَ وَاَنَا ثَالِثُھُمَا"۔(۱۱)اس دن رسول اللہ خدیجہ اور میرے علاوہ کوئی بھی مسلمان نھیں ھوا تھا ۔ابن اسحاق کا کھنا ہے :اللہ اور محمد رسول اللہ پر سب سے پھلے علی ایمان لائے ۔(۱۲)حضرت علی علیہ السلام کے اسلام لانے کے وقت آپ کی عمر سات سال یا دوسرے قول کے مطابق نو سال تھی۔(۱۳)
مسلمانوں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ آپ سب سے پھلے اسلام لائے ،جو آپ کیلئے بڑے ھی شرف اور فخر کی بات ہے ۔ آپ کی نبی سے محبت آپ رسول اللہ (ص) سے سب سے زیادہ اخلاص سے پیش آتے تھے ایک شخص نے امام سے رسول اللہ (ص) سے محبت کے متعلق سوال کیا تو آپ نے اس سے فرمایا:"کَانَ وَاللّٰہِ احبَّ الینامِن مالناواولادِناوَامَّھَاتِنَاومِن الماءِ الباردِعلیَ الظّمْأ"۔(۱۴) خدا کی قسم وہ مجھے میرے مال ،اولاد ،ماں اور پیاس کے وقت ٹھنڈے گوارا پانی سے بھی زیادہ محبوب تھے ۔
حضرت علی علیہ السلام کی نبی سے محبت کا یہ عالم تھا کہ ایک باغ آپ کے حوالہ کیا گیا ،باغ کے مالک نے آپ سے کھا :کیا آپ میرے باغ کی سینچائی کردیں گے میں آپ کو ھر ڈول کے عوض ایک مٹھی خرما دوں گا؟ آپ نے جلدی سے اس باغ کی سینچا ئی کر دی تو باغ کے مالک نے آپ کو خرمے دئے یھاں تک کہ آپ کی مٹھی بھرگئی آپ فوراً ان کو نبی کے پاس لیکر آئے اور انھیں کھلادئے ۔
نبی سے آپ کی محبت کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ آپ خود ان کی خدمت کرتے ، ان کی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لئے آمادہ رھتے تھے اور ھم اس سلسلہ کے چند نمونے کتاب" حیاۃ الامام امیر المومنین علیہ السلام "میں ملاحظہ فرما سکتے ہیں۔(۱۵)
حوالہ جات:
۱۔ مروج الذہب ،جلد ۲ صفحہ ۳،فصول مہمہ مؤلف ابن صبّاغ، صفحہ ۲۴۔مطالب السؤل، صفحہ ۲۲۔تذکرۃ الخواص، صفحہ ۷۔کفایۃ الطالب، صفحہ ۳۷۔ نور الابصار ،صفحہ ۷۶۔نزھۃ المجالس ،جلد۲،صفحہ ۲۰۴۔شرح الشفا ،جلد ۲،صفحہ ۲۱۵۔غایۃ الاختصار ،صفحہ ۹۷۔عبقریۃ الامام (العقاد )، صفحہ ۳۸۔مستدرک حاکم، جلد ۳،صفحہ ۴۸۳۔اور اس میں وارد ھوا ہے کہ :’’متواتر احادیث میں آیا ہے کہ امیر المومنین علی بن ابی طالب علیہ السلام فاطمہ بنت اسدسلام اللہ علیھا کے بطن سے کعبہ میں پیدا ھوئے ۔
۲۔ حیاۃالامام امیر المو منین علیہ السلام ،جلد ۱،صفحہ ۳۲۔منقول از مناقب آل ابوطالب ،جلد۳،صفحہ۹۰۔
۳۔ تاریخ خمیس ،جلد ۲،صفحہ ۲۷۵۔ ۳۔معارف ،صفحہ ۷۳۔ذخائر ،صفحہ ۵۸۔ریاض النضرہ ،جلد ۲،صفحہ ۲۵۷۔
۴۔ کنز العمال، جلد ۶،صفحہ ۱۵۴۔
۵۔ مجمع الزوائد، جلد ۹، صفحہ ۱۰۲،فیض القدیر،جلد ۴، صفحہ ۳۵۸۔کنز العمال ،جلد ۶ ،صفحہ ۱۵۶۔فضائل الصحابۃ، جلد ۱، صفحہ ۲۹۶۔
۶۔ مجمع الزوائد، جلد ۹،صفحہ ۱۰۲۔
۷۔ حلیۃ الاولیاء، جلد ۱،صفحہ ۶۳۔
۸۔ کنوز الحقائق "المناوی"،صفحہ ۴۳۔
۹۔ صفوۃ الصفوہ، جلد ۱،صفحہ ۱۶۲۔
۱۰۔ امتاع الاسماء، جلد ۱،صفحہ ۱۶۔
۱۱۔ حیاۃالامام امیر المومنین علیہ السلام ،جلد ۱،صفحہ ۵۴۔
۱۲۔ شرح نھج البلاغہ ابن ابی الحدید ،جلد ۴،صفحہ ۱۱۶۔
۱۳۔ صحیح ترمذی، جلد ۲،صفحہ ۳۰۱۔طبقات ابن سعد ،جلد ۳،صفحہ ۲۱۔کنز العمال، جلد ۶،صفحہ ۴۰۰۔تاریخ طبری ،جلد ۲، صفحہ۵۵۔
۱۴۔ خزانۃ الادب، جلد ۳،صفحہ ۲۱۳۔
۱۵۔تاریخ طبری ،جلد ۲،صفحہ ۶۳۔تاریخ ابن اثیر، جلد ،صفحہ ۲۴۔مسند احمد بن حنبل، صفحہ ۲۶۳۔
 

Add comment


Security code
Refresh