www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

 صحاح اور سنن جیسے مصادر امام کے متعلق نبی سے مروی روایات سے پُر ہیں جو اسلامی عدالت کے قائد و رھبر امام کے فضائل کا قصیدہ پڑھتی ہیں اور اسلامی معاشرہ میں ان کے مقام کو بلند کرتی ہیں ۔

احادیث کی کثرت اور راویوں کے درمیان اُن کی شھرت میں غور کرنے والا پیغمبر اسلام (ص) کے اس بلند مقصد سے آگاہ ھو سکتا ہے جو امام کی مرکزیت اور ان کے خلیفہ ھونے کی نشاندھی کرتا ہے تاکہ اس کے ذریعہ نبوت ھمیشہ کے لئے باقی رھے اور وہ امت کی مشکلات حل کر سکے ،اُن کے امور کی اصلاح کر سکے اور اُن کو ایسے راستہ پر چلائے جس میں کسی طرح کی گمراھی کا امکان نہ ھو نیز امت مسلمہ پوری دنیا کے لئے نمونۂ عمل بن سکے ۔
بھر حال جب ھم امام کی فضیلت کے سلسلہ میں روایات پر نظر ڈالتے ہیں تو ھم یہ دیکھتے ہیں کہ روایات کا ایک گروہ آپ کی ذات سے مخصوص ہے ،روایات کا دوسرا طائفہ اھل بیت کے فضائل پر مشتمل ہے جس میں لازمی طور آپ بھی شامل ہیں چونکہ آپ عترت کے سید و آقا ہیں اور ان کے علم کے منارے ہیں ھم اس سلسلہ میں ذیل میں چند روایات پیش کرتے ہیں :
پھلا دستہ یہ روایات تعظیم و تکریم کی متعددصورتوں پر مشتمل ہیں اور امام فضائل کا قصیدہ پڑھتی ھوئی نظر آتی ہیں،ملاحظہ کیجئے:نبی کے نزدیک آپ کا مقام و مرتبہ امام لوگوں میں سب سے زیادہ رسول (ص) کے نزدیک تھے ،ان میں سب سے زیادہ رسول سے قربت رکھتے تھے ،آپ ابو سبطین ،رسول (ص) کے شھر علم کا دروازہ ،آپ رسول سے سب سے زیادہ اخلاص رکھتے تھے ،احادیث کی ایک بڑی تعداد رسول اسلام (ص)سے نقل کی گئی ہے جو آپ کی محبت و مودت کی گھرا ئی پر دلالت کرتی ہے اس میں سے کچھ احادیث مندرجہ ذیل ہیں :
۱۔امام نفس نبی (ص)آیۂ مباھلہ میں صاف طور پر یہ بات واضح ہے کہ بیشک امام نفس نبی ہیں ،ھم گذشتہ بحثوں میں اس بات کی طرف اشارہ کر چکے ہیں اور یہ بھی بیان کر چکے ہیں کہ نبی اکرم (ص) نے خود یہ اعلان فرمادیا تھا کہ امام ان کے نفس ہیں منجملہ ذیل میں چند احادیث ملاحظہ کیجئے :
عثمان کے سوتیلے بھائی ولید بن عقبہ نے نبی اکرم (ص) کو خبر دی کہ بنی ولیعہ اسلام سے مرتد ھو گیا ہے ،تو نبی اکرم (ص) نے غضبناک ھو کر فرمایا :"لَیَنْتَھِیَنَّ بَنُوْوَلِیْعَۃَ اَوْلَاَبْعَثَنَّ اِلَیْھِمْ رَجُلاً کَنَفْسِیْ،یَقْتُلُ مَقَاتِلَھُمْ وَیَسْبِیْ ذَرَارِیْھِمْ وَھُوَ ھٰذا"،’’بنو ولیعہ میرے پاس آتے یا میں ان کی طرف اپنے جیسا ایک شخص بھیجوں جو ان کے جنگجوؤں کوقتل کرے اور ان کے اسراء کولے کر آئے اور وہ یہ ہے"،اس کے بعد امام کے کندھے پر اپنا دست مبارک رکھا ۔(۱)عمرو بن عاص سے روایت ہے :جب میں غزوۂ ذات سلاسل سے واپس آیا تو میں یہ گمان کر تا تھا کہ رسول مجھ سے سب سے زیادہ محبت کرتے ہیں ،میں نے عرض کیا :یارسول اللہ (ص) آپ کے نزدیک سب سے زیادہ محبوب کو ن ہے ؟ آپ نے چندلوگوں کاتذکرہ کیا۔میں نے عرض کیا: یارسول اللہ (ص) علی کھاں ہیں ؟تو رسول اللہ (ص)نے اپنے اصحاب سے مخاطب ھو کر فرمایا :"اِنَّ ھٰذایَسْأَلُنِيْ عن النفسِ"،(۲)"بیشک یہ میرے نفس کے بارے میں سوال کر رھے ہیں "۔
۲۔امام علی علیہ السلام نبی (ص) کے بھائی نبی اکرم (ص) نے اصحاب کے سامنے اعلان فرمایا کہ امام علی علیہ السلام آپ کے بھا ئی ہیں ،اس سلسلہ میں متعدد روایات نقل ھوئی ہیں ان میں سے ذیل میں چند روایات پیش کر تے ہیں : ترمذی نے ابن عمر سے روایت کی ہے :رسول اسلام (ص) نے اصحاب کے ما بین صیغۂ اخوّت پڑھا ،تو علی کی آنکھوں میں آنسو آگئے اور آپ نے عرض کیا :یارسو ل اللہ آپ نے اصحاب کے درمیان صیغۂ اخوت پڑھاہے لیکن میرے اور کسی اور شخص کے درمیان صیغۂ اخوت نیں پڑھا ہے؟تورسول اللہ نےحضرت علی علیہ السلام سے فرمایا:"اَنْتَ اَخِيْ فَيْ الدَّنْیَاوَالآخِرَۃِ "۔(۳)آپ میرے دنیا اور آخرت میں بھا ئی ہیں ۔امام کے لئے نبی کا صرف اس دنیامیں بھا ئی ونا کا فی نیں ہے بلکہ اس کا تسلسل تو آخرت تک ہے جس کی کوئی حد نھیں ہے ۔
انس بن مالک سے روایت ہے : رسول اسلا م (ص) منبر پر تشریف لے گئے اور خطبہ دینے کے بعد ارشاد فرمایا :’’علی بن ابی طالب کھاں ہیں ؟‘‘،تو فوراً علی یوں گویا ھوئے :میں یھاں ھوں یارسول اللہ ، رسول اللہ نے علی کو اپنے سینہ سے لگایا اور آپ کی دونوں آنکھوں کے درمیان کی جگہ کا بوسہ لیا اور بلند آواز میں فرمایا :’’اے مسلمانو!یہ میرے بھا ئی ،چچا زاد بھائی اور میرے داماد ہیں ،یہ میرا گوشت اور خون ہیں ،یہ ابوسبطین حسن اور حسین جوانان جنت کے سردار ہیں"(۴)
ابن عمر سے روایت ہے :میں نے حجۃ الوداع میں اس وقت رسول اللہ (ص) کو یہ فرماتے سنا ہے: جب آپ ناقہ پر سوار تھے ،تو آپ نے علی کے کاندھے پر ھاتھ رکھ کر یہ فرمایا :" خدایا گواہ رھنا ۔ خدایا میں نے پھنچادیا کہ یہ میرے بھا ئی ،چچا زاد بھا ئی ،میرے داماد اورمیرے دونوں فرزندوں کے باپ ہیں۔خدایا ! جو ان سے دشمنی کرے اس کواوندھے منھ جھنم میں ڈال دے "۔(۵)
نبی اور علی ایک شجرۂ طیبہ سے ہیں نبی اکرم (ص) نے یہ اعلان فرمایا کہ میں اور علی ایک شجرہ سے ہیں، اس سلسلہ میں متعدد احادیث بیان ھوئی ہیں ھم ذیل میں بعض احادیث پیش کرتے ہیں :جابر بن عبداللہ سے روایت ہے :میں نے رسول اللہ (ص) کو علی سے یہ فرماتے سنا ہے : "اے علی لوگ مختلف شجروں سے ہیں اور میں اور تم ایک ھی شجرہ سے ہیں اس کے بعد رسول اللہ نے اس آیت کی تلاوت فرما ئی :"وَجَنَّاتٌ مِنْ أَعْنَابٍ وَزَرْعٌ وَنَخِیلٌ صِنْوَانٌ وَغَیْرُصِنْوَانٍ یُسْقَی بِمَاءٍ وَاحِد"۔(۶)اور انگور کے باغات ہیں اور زراعت ہے اور کھجوریں ہیں جن میں بعض دو شاخ کی ہیں اور بعض ایک شاخ کی ہیں اور سب ایک ھی پا نی سے سینچے جاتے ہیں۔
رسول اللہ کا فرمان ہے : "میں اور علی ایک ھی شجرہ سے ہیں اور لوگ مختلف شجروں سے ہیں "(۷)۔یہ شجرہ کتنا بلند و بالا ہے اس درخت کا کیا کھنا جس سے سرور کا ئنات انسانی تھذیب کے قائد نبی اکرم (ص)اور آپ کے شھر علم کا دروازہ امام امیر المو منین وجود میں آئے یہ وہ مبارک شجرہ ہے جس کی جڑ زمین میں ہے اور اس کی شاخ آسمان میں ہے یہ وہ درخت ہے جس کی ھر نسل نے ھر دور میں لوگوں کو فائدہ پھنچایا ہے۔
۴۔امام نبی (ص) کے وزیر نبی اکرم (ص) نے متعدد احادیث میں اس بات کی تاکید فرمائی ہے کہ امام میرے وزیر ہیں ۔
اسماء بنت عمیس سے روایت ہے کہ میں نے نبی کو یہ فرماتے سنا ہے :خدایا ! میں وھی کھہ رھا ھوں جو میرے بھا ئی موسیٰ نے کھا تھا : "خدایا ! میرے اھل میں سے میرا وزیر قرار دے ،علی کو جو میرا بھائی بھی ہے اس سے میری پشت کو مضبوط کردے اسے میرے کام میں شریک کردے ،تاکہ ھم تیری بھت زیادہ تسبیح کرسکیں ،تیرا بھت زیادہ ذکر کرسکیں ، یقیناتوھمارے حالات سے بھتر با خبر ہے "۔(۸)
۵۔امام نبی (ص) کے خلیفہ نبی اکرم (ص) نے دعوت اسلام کے آغاز ھی میں یہ اعلان فرمادیا تھا کہ میرے بعد حضرت علی علیہ السلام میرے خلیفہ ہیں ،یہ اعلان اس وقت کیا تھا جب قریش کے خاندان اسلام سے سختی سے پیش آرھے تھے ،اور آپ نے اپنی دعوت کے اختتام میں قریش سے فرمایا:"اب یہ (یعنی علی ) تمھارے درمیان میرے بھا ئی ،وصی اور خلیفہ ہیں ،ان کی باتیں سنو اور ان کی اطاعت کرو "۔(۹)
رسول اللہ(ص) نے اپنے بعد امام کی خلافت کو اسلام کی دعوت سے متصل فرمایا ،اس کے بعد بت پرستی اور شرک کے بارے میں پر رو شنی ڈالی ،مزید یہ کہ اس مطلب کے سلسلہ میں متعدد اخبار و روایات ہیں جن میں نبی اکرم (ص) نے اپنے بعد امام کی خلافت کا اعلان فرمایاان میں سے یھاں پرکچھ احادیث ذیل میں پیش کی جا رھی ہیں :
رسول اللہ (ص) کا فرمان ہے :"اے علی !تم میرے بعد اس امت کے خلیفہ ھو "(۱۰)
رسول اللہ (ص) کا فرمان ہے :"علی بن ابی طالب تم میں سب سے پھلے اسلام لائے ،تم میں سب سے زیادہ عالم ہیں اور میرے بعد امام اور خلیفہ ہیں "۔(۱۱)
۶۔ امام کی نبی سے نسبت، ھارون کی موسیٰ سے نسبت کے مانند ہےنبی اکرم (ص) سے ایک ھی مضمون اور ایک ھی نتیجہ کی متعدد احادیث نقل ھوئی ہیں کہ آپ نے علی سے فرمایا :"تمھاری مجھ سے وھی نسبت ہے جو ھارون کی موسیٰ سے تھی ۔
اس سلسلہ میں کچھ احادیث ملاحظہ فرما ئیں :آنحضرت (ص) نے حضرت علی علیہ السلام کیلئے فرمایا ہے : "کیا تم اس بات پر راضی نھیں ھو کہ تمھاری مجھ سے وھی نسبت ہے جو ھارون کی موسیٰ سے تھی مگر یہ کہ میرے بعد کوئی نبی نھیں آئے گا "۔(۱۲)
سعید بن مسیب نے عامر بن سعد بن ابی وقاص سے انھوں نے اپنے والد سعد سے نقل کیا ہے : رسول اللہ (ص) نے علی کیلئے فرمایا ہے :"تمھاری مجھ سے وھی نسبت ہے جو ھارون کی موسیٰ سے نسبت تھی مگر یہ کہ میرے بعد کوئی نبی نھیں آئے گا "،سعید کا کھنا ہے :میں نے بذات خود یہ حدیث بیان کر نا چاھی اور میں نے ان سے ملاقات کی اور وہ حدیث بیان کی جو مجھ سے عامر نے بیان کی تھی اس نے کھا :میں نے سنا ہے ۔میں نے پوچھا :کیا تم نے سنا ہے ؟!اس نے اپنے دونوں کانوں میں انگلیاں دے کر کھا :ھاں ،اگر میں نے یہ بات نہ سنی ھو تو میرے دونوں کان بھرے ھوجائیں "۔(۱۳)
۷۔امام شھرعلم نبی (ص)کا دروازہ نبی اکر م (ص)نے امام کی عظمت و منزلت کا قصیدہ پڑھتے ھوئے ان کو اپنے شھر علم کا دروازہ قرار دیا ،یہ حدیث متعدد طریقوں سے بیان ھوئی ہے ،قطعی السند ہے اور نبی اکرم (ص)سے متعدد مو قعوں پر نقل کی گئی ہے :
جابر بن عبد اللہ سے روایت ہے :میں نے حضرت رسول خدا (ص) کو حدیبیہ کے دن علی کے دست مبارک کو اپنے ھاتھ میں لئے ھوئے یہ فرماتے سنا ہے :"یہ نیک و صالح افراد کے امیر، فاسق و فاجر کو قتل کرنے والے ہیں ،جو ان کی مدد کرے اس کی مدد کرنے والے ،جو ان کو رسوا کرے اس کو ذلیل کرنے والے ہیں "۔آپ نے آواز کھینچ کر فرمایا : میں شھر علم ھوں اور علی اس شھر کا دروازہ ہیں جو گھر میں آنا چاھے اس کو چاھئے کہ وہ دروازے سے آئے ۔(۱۴)
ابن عباس سے روایت ہے کہ رسول اللہ (ص) کافرمان ہے :" میں شھر علم ھوں اور علی اس شھر کا دروازہ ہیں جو شھرمیں آنا چاھے اس کو چا ھئے کہ وہ دروازے سے آئے "۔(۱۵)
رسول اللہ (ص) کا ،فرمان ہے :"علی میرے علم کا دروازہ ہیں ،میں جو کچھ امت کیلئے لیکر آیا ھوں اس کو میرے بعد امت تک پھنچانے والے ہیں ،اُن کی محبت ایمان ہے ،ان سے بغض رکھنا نفاق ہے اور اُن کے چھرے پر نظر کرنا رافت "مھربانی " ہے ۔(۱۶)
بیشک امام شھر علم نبی کا دروازہ ہیں ، امام سے جو دینی باتیں،احکام شریعت ،محاسن اخلاق اور آداب حسنہ نقل ھوئے ہیں ان کو امام نے نبی سے اکرم (ص) سے حاصل کیا ہے ۔نبی اکرم (ص) نے اپنے بعد علم کے ایسے سر چشمے چھوڑے ہیں جن کے ذریعہ زندگی حکمت اور رونق کے ساتھ آگے بڑھتی ہے ،پیغمبر نے ان کو امام کے سپرد فرمایا تاکہ آپ کی امت اُن سے سیراب ھوتی رھے لیکن بڑے افسوس کی بات ہے کہ قریش کے امام سے بغض و کینہ رکھنے والوں نے اِن نور کے دروازوں کو بند کر دیا ،امت کو ان سے فیضیاب ھونے سے محروم کردیا اور زندگی کی گم گشتہ راھوں میں تنھا چھوڑدیا ۔
۸۔امام ،انبیاء کے مشابہ نبی اکرم (ص) نے اپنے اصحاب کے معاشرہ میں فرمایا :"اگر تم آدم کو ان کے علم ،نوح کو ان کے ھم و غم ،ابراھیم کو اُن کے خُلق ،موسیٰ کو اُن کی مناجات ،عیسیٰ کو ان کی سنت اور محمد کو ان کے اعتدال اور حلم میں دیکھنا چا ھوتو اِن کو دیکھو "جب لوگوں نے ٹکٹکی باندھ کر دیکھا تو وہ امیر المو منین علیہ السلام تھے ۔ شاعر کبیر ابو عبد اللہ مفجع نے اپنے قصیدہ میں امام کے ماثورہ مناقب کو یوں نظم کیا ہے :"ایّھا اللَّا ئمی لِحُبِّی علِیّاًقُم ذَمیماً الیٰ الجَحِیْمِ خَزِیّاًأّ بِخَیْرِ الاَنَام عَرَّضْتَ لَازِلْتَ مَذُوداً عَنِ الھُدیٰ وَ غَوِیّاأشبِہ الانبیاء طِفلاً وزولا ًوَفطِیماًورَاضِعاً وَغَذِیّاً کَانَ فِیْ علمہِ کَآدَمَ اِذْ عُلِّمَ شَر حَ الاسْمَاءِ والمکنِیّا وَکَنُوحٍ نَجَامِنَ الھُلْکِ یَوماً فِیْ مَسِیْرٍاِذِ اعتَلَاالجودِیّاً"(۱۷)حُبِّ علی کی خاطر میری ملامت کرنے والے جا ذلت و خواری کے ساتھ دوزخ میں جل جا۔کیا تونے اپنے عمل کے ذریعہ بھترین انسان یعنی علی پر تشنیع کرنا چاھی ہے ،خدا کرے کہ تو ھمیشہ ھدایت سے دور رھے ۔علی بچپن ،جوانی ،شیرخوارگی غرض ھر حال میں انبیاء سے مشابہ تھے ۔علی علم میں آدم کے مانند تھے چنانچہ آپ نے اسماء نیزمخفی امورکی تعلیم دی ۔آپ نوح کی طرح تھے جو کوہ جودی پر پھنچنے سے غرق ھونے سے محفوظ رھے ۔
۹۔ علی کی محبت ایمان اور ان سے بغض رکھنا نفاق ہے نبی اکرم (ص) نے ارشاد فرمایا ہے کہ علی کی محبت ایمان اور تقویٰ ہے اوراُن سے بغض رکھنا نفاق اور معصیت ہے، اس سلسلہ میں بعض ماثورہ اقوال درج ذیل ہیں :
حضرت علی علیہ السلام سے روایت ہے : "اس خدا کی قسم جس نے دانہ کو شگافتہ کیا اور ذی روح کو پیدا کیا میرے سلسلہ میں نبی امی نے یہ عھد لیا ہے کہ مجھ سے مومن کے علاوہ اور کوئی محبت نھیں کرے گا اور منافق کے علاوہ اور کوئی بغض نھیں رکھے گا ۔(۱۸)
مساور حمیری نے اپنی ماں سے روایت کی ہے :وہ ام سلمہ کے پاس گئی تو اُن کو یہ کھتے سنا: رسول اللہ (ص) کا ، فرمان ہے :علی سے منافق محبت نھیں کرے گا اور مومن بغض نھیں رکھے گا۔ (۱۹)
ابن عباس سے روایت ہے : رسول اللہ (ص) نے حضرت علی علیہ السلام کے چھرہ کی طرف رُخ کرتے ھوئے فرمایا : مو من کے علاوہ تجھ سے کوئی محبت نھیں کرے گا ،اور منافق کے علاوہ اور کوئی بغض نھیں کرے گا ، جس نے تجھ سے محبت کی اس نے مجھ سے محبت کی ،جس نے تجھ سے بغض رکھا اُس نے مجھ سے بغض کیا ،میرا دوست اللہ کا دوست ہے ،میرا دشمن اللہ کا دشمن ہے اور اس پر وائے ھو جو تجھے میرے بعد غضبناک کرے ۔(۲۰)
ابو سعید خدری سے روایت ہے کہ رسول اللہ (ص) نے حضرت علی علیہ السلام کے لئے فرمایا :آپ کی محبت ایمان ہے ،آپ سے بغض رکھنا نفاق ہے ،جنت میں سب سے پھلے آپ سے محبت کرنے والا داخل ھوگا اور دوزخ میں سب سے پھلے آپ سے بغض رکھنے والا داخل ھو گا ۔(۲۱)
یہ حدیث اصحاب میں مشھور ھو گئی ،اور وہ اسی حدیث کے معیار پر جو علی سے محبت کرتا تھا اس کو مومن اور جو علی سے بغض رکھتا تھا اسے منافق کھتے تھے ،جلیل القدر صحابی ابوذر غفاری کھتے ہیں : ھم منافقین کواللہ اوراس کے رسول کی تکذیب ،نماز سے رو گردانی اور علی بن ابی طالب سے بغض و نفاق رکھنے سے پھچان لیا کرتے تھے ۔(۲۲)
صحابی کبیر جابر بن عبد اللہ انصاری سے روایت ہے :ھم منافقین کو علی سے بغض رکھنے کے علاوہ کسی اور چیز سے نھیں پھچانتے تھے۔ (۲۳)
حوالہ جات:
۱۔ مجمع الزوائد، جلد ۷،صفحہ ۱۱۰،ولید اپنی بات کے ذریعہ بنی ولیعہ کی تردید کر رہا تھا اس وقت یہ آیت نازل ھو ئی :( یَاأَیُّھَا الَّذِینَ آمَنُوا إِنْ جَاءَکُمْ فَاسِقٌ بِنَبَإٍ فَتَبَیَّنُوا أَنْ تُصِیبُوا قَوْمًا بِجَھالَۃٍ۔)سورۂ حجرات، آیت ۶۔’’ایمان والو اگر کو ئی فاسق کو ئی خبر لے کر آئے تو اس کی تحقیق کرو ایسا نہ ہو کہ کسی قوم تک نا واقفیت میں پہنچ جاؤ ۔
۲۔ کنز العمال، جلد ۶،صفحہ ۴۰۰۔
۳۔ صحیح ترمذی، جلد ۲،صفحہ ۲۹۹۔مستدرک حاکم، جلد ۳،صفحہ ۱۴۔
۴۔ ذخائر العقبیٰ ،صفحہ ۹۲۔
۵۔ کنز العمال ،جلد ۳،صفحہ ۶۱۔
۶۔ سورۂ رعد ،آیت ۴۔
۷۔ کنز العمال، جلد ۶،صفحہ ۱۵۴۔
۸۔ الریاض النضرہ ،جلد ۲،صفحہ ۱۶۳۔
۹۔ تاریخ طبری، جلد ۲،صفحہ ۱۲۷۔تاریخ ابن اثیر، جلد ۲،صفحہ ۲۲۔تاریخ ابو الفدا،جلد ۱،صفحہ ۱۱۶۔مسند احمد، جلد ۱،صفحہ ۳۳۱۔ کنزالعمال، جلد ۶،صفحہ ۳۹۹۔
۱۰۔ مراجعات، صفحہ ۲۰۸۔
۱۱۔ مراجعات، صفحہ۲۰۹۔
۱۲۔مسند ابو داؤد، جلد ۱ ،صفحہ ۲۹۔حلیۃ الاولیاء، جلد ۷،صفحہ ۱۹۵۔مشکل الآثار، جلد ۲،صفحہ ۳۰۹۔مسند احمد بن حنبل، جلد ۱، صفحہ ۱۸۲۔تاریخ بغداد، جلد ۱۱،صفحہ ۴۳۲۔خصائص النسائی ،صفحہ ۱۶۔
۱۳۔ اسد الغابہ ،جلد ۴،صفحہ ۲۶،خصائص النسائی ،صفحہ ۱۵۔ صحیح مسلم ،کتاب فضائل الاصحاب، جلد ۷صفحہ ۱۲۰۔ سکَکَ(دونوں کاف پر فتحہ) الصمم واستکّت مسامعہ :اذا صمّ۔
۱۴۔ تاریخ بغداد، جلد ۲،صفحہ ۳۷۷۔
۱۵۔ کنز العمال ،جلد ۶،صفحہ ۴۰۱۔
۱۶۔ کنز العمال ،جلد ۶،صفحہ ۱۵۶۔صواعق المحرقہ، صفحہ ۷۳۔
۱۷۔ الزول :یعنی جوان۔
۱۸۔ معجم الادباء، جلد ۱۷،صفحہ ۲۰۰۔
۱۹۔ صحیح ترمذی، جلد ۲، صفحہ ۳۰۱۔صحیح ابن ماجہ ، صفحہ ۱۲۔تاریخ بغداد، جلد ۲، صفحہ ۲۵۵۔حلیۃ الاولیاء ، جلد ۴، صفحہ ۱۸۵۔
۲۰۔ صحیح ترمذی ، جلد ۲، صفحہ ۲۹۹۔
۲۱۔ مجمع الزوائد ، جلد ۹، صفحہ ۱۳۳۔
۲۲۔ نور الابصار شبلنجی ، صفحہ ۷۲۔
۲۳۔ مستدرک حاکم، جلد ۳، صفحہ ۱۲۹۔
۲۴۔ استیعاب، جلد ۲، صفحہ ۴۶۴۔
 

Add comment


Security code
Refresh