www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

نام و نسب

اسم گرامی : علی ابن الحسین علیھما السلام
لقب : زین العابدین 

کنیت : ابو محمد
والد کا نام : حسین (ع)
والدہ کانام : شھر بانو شاہ زنان
تاریخ ولادت : ۵ شعبان دوسری روایت کے مطابق ۷ شعبان ۳۸ھ
جائے ولادت : مدینہ منورہ
مدت امامت : ۳۵سال
عمر : ۵۷ سال
تاریخ شھادت : ۲۵محرم ۹۵ھ
شھادت کا سبب: ھشام ابن عبد الملک نے زھر دیکر شھید کیا
مزار مقدس : مدینہ منورہ ،جنت البقیع
اولاد کی تعداد : ۱۱ بیٹے اور ۴ بیٹیاں
بیٹوں کے نام :
(۱) محمد باقر(ع) (۲) عبد اللہ (۳) حسن (۴) حسین (۵) زید (۶) عمرو(۷) حسین اصغر (۸) عبد الرحمن (۹) سلیمان (۱۰) علی (۱۱) محمد اصغر
بیٹیوں کے نام :
(۱) خدیجہ (۲) فاطمہ (۳) علیا (۴) ام کلثوم
بیویاں : ۲ھمسر اور چند کنیز یں
انگوٹھی کے نگینے کا نقش : "حسبی اللہ لکلّ ھمٍ"
ولادت
حضرت علی بن ابی طالب علیہ السّلام کوفہ میں مسند خلافت پر متمکن تھے جب۱۵جمادی الثانی ۳۸ھ میں سید سجاد علیہ السّلام کی ولادت ھوئی. آپ کے دادا حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السّلام اور سارے خاندان کے لوگ اس مولود کو دیکھ کر بھت خوش ھوئے اور شاید علی علیہ السّلام ھی نے پوتے میں اپنے خدوخال دیکھ کر اس کانام اپنے نام پر علی رکھاتھا .
تربیت
حضرت امام زین العابدین علیہ السّلام کا ابھی دوبرس کاسن تھا جب آپ کے دادا حضرت امیر علیہ السّلام کاسایہ سر سے اٹھ گیا. امام زین العابدین علیہ السّلام اپنے چچا حضرت امام حسن علیہ السّلام اور والد امام حسین علیہ السّلام کی تربیت کے سایہ میں پروان چڑھے . بارہ برس کی عمر تھی جب امام حسن علیہ السّلام کی شھادت ھوئی . اب امامت کی ذمہ داریاں آپ کے والد حضرت امام حسین علیہ السّلام سے متعلق تھیں .شام کی حکومت پر بنی امیہ کا قبضہ تھا اور واقعات کربلا کے اسباب حسینی جھاد کی منزل کو قریب سے قریب ترلارھے تھے . یہ وہ زمانہ تھا جب حضرت زین العابدین علیہ السّلام بلوغ کی منزلوں پر پھنچ کر جوانی کی حدوں میں قدم رکھ رھےتھے ۔
شادی
اسی زمانہ میں جب کہ امام حسین علیہ السّلام مدینہ میں خاموشی کی زندگی بسر کررھے تھے حضرت نے اپنے فرزند سید سجاد علیہ السّلام کی شادی اپنی بھتیجی یعنی حضرت امام حسن علیہ السّلام کی صاحبزادی کے ساتھ کردی جن کے بطن سے امام محمدباقرعلیہ السّلام کی ولادت ھوئی اور اس طرح امام حسین علیہ السّلام نے اپنے بعد کے لئے سلسلۂ امامت کے باقی رھنے کاسامان خود اپنی زندگی میں فراھم کردیا .
واقعہ کربلا
۶۰ھ میں سید سجاد علیہ السّلام کی عمر ۲۲ سال کی تھی جب حضرت امام حسین علیہ السّلام کو عراق کا سفر درپیش ھوا اور سید سجاد علیہ السّلام بھی ساتھ تھے۔ نھیں کھا جاسکتاکہ راستہ ھی میں یاکربلا پھنچنے کے بعد کھاں بیمار ھوئے اور دس محرم ۶۱ھ کوامام حسین علیہ السّلام کی شھادت کے موقع پر اس قدر بیمار تھے کہ اٹھنا بیٹھنا مشکل تھا . اور یقین ھے کہ ساتویں سے پانی بند ھونے کے بعد پھر سیدسجاد علیہ السّلام کے لئے بھی پانی کاایک قطرہ ملنا ناممکن ھوگیاتھا . ایک ایسے بیمار کے لئے یہ تکلیف برداشت سے باھر تھی . عاشور کے دن کے اکثر حصے میں آپ غشی کے عالم میں رھے اسی لئے کربلا کے جھاد میں اس طرح شریک نہ ھوسکے جس طرح ان کے بھائی شریک ھوئے. قدرت کو سیّد سجاد کاامتحان دوسری طرح لینا تھا . وہ حسین علیہ السّلام کے بعد لٹے ھوئے قیدیوں کے قافلہ کے سالار بننے والے تھے .ادھر امام حسین علیہ السّلام شھید ھوئے ادھر ظالم دشمنوں نے خیام اھلیبیت کی طرف رخ کردیا اور لوٹنا شروع کردیا . اس وقت کااھل حرم کااضطراب، خیام میں تھلکہ اور پھران ھی خیموں میں آگ کے بھڑکتے ھوئے شعلے! اس وقت سیّد سجاد علیہ السّلام کاکیا عالم تھا ، اس کے اظھار کے لئے کسی زبان یاقلم کو الفاظ ملنا غیر ممکن ھیں مگر کیا کھنا زین العابدین علیہ السّلام کی عبادت کا،کہ انھوں نے اس بیماری، اس مصیبت اور اس آفت میں بھی عبادت کی شان میں فرق نہ آنے دیا .آپ نے گیارھویں محرم کی شب کو نماز فریضہ کے بعد سجدۂ معبود میں خاک پر سررکھ دیا اور پوری رات سجدۂشکر میں گزار دی۔ سجدہ میں یہ کلمات زبان پر تھے:"لاالٰہ الاَّ اللهُ حقّاًحقاً لاَالٰهَ الا اللہ ایماناً وَّصِدقًالاالھٰ الاّ الله تعبدًاورقاً"(یعنی کوئی معبود نھیں سوائے الله کے جو حق ھے یقیناً حق ھے , کوئی معبود نھیں سوائے ایک الله کے .ایمان اور سچائی کی روسے کوئی معبود نھیں سوائے ایک الله کے . خدا کے سوا کوئی معبود نھیں ھے،میں اسکی گواھی دیتا ھوں بندگی اور نیاز مندی کے ساتھ ۔
گیارہ محرم کو فوج دشمن کے سالار ابن سعد نے ا پنے کشتوں کوجمع کیااور ان پر نماز پڑھ کر دفن کیا مگر حسین علیہ السّلام اور ان کے ساتھیوں کی لاشوں کواسی طرح بے گوروکفن زمین گرمِ کربلا پر دھوپ میں چھوڑدیا , یہ موقع سید سجاد علیہ السّلام کے لئے انتھائی تکلیف کا تھا، وہ اس مقتل سے گزر رھے تھے تو یہ حالت تھی کہ قریب تھا کہ روح جسم سے جدا ھوجائے . انھیں اس کا صدمہ تھا کہ وہ اپنے باپ اور دوسرے عزیزوں کو دفن نہ کرسکے وہ تو دشمنوں کے اسیر تھے اور کربلا سے کوفہ لے جائے جارھےتھے .
پھر کتنا دل کو بے چین کرنے والا تھا وہ منظر جب خاندانِ رسول کالُٹا ھوا قافلہ دربار ابنِ زیاد میں پھنچا . سید سجاد علیہ السّلام محسوس کررھے تھے کہ یہ وھی کوفہ ھے جھاں ایک وقت علی ابن ابی طالب علیہ السّلام حاکم تھے اور زینب وامِ کلثوم شاھزادیاں۔ آج اسی کوفہ میں ظالم ابن زیاد تختِ حکومت پر بیٹھا ھے اور رسول کاخاندان مقیّد کھڑا ھے . سید سجاد علیہ السّلام ایک بلند انسان کی طرح انتھائی صدمہ اور تکلیف کے باوجود بھی ایک کوهِ وقار بنے ھوئے خاموش کھڑے تھے . ابن زیاد نے اس خاموشی کو توڑا یہ پوچھ کر کہ تمھارا نام کیا ھے ؟ امام علیہ السّلام نے جواب دیاکہ علی بن الحسین ." وہ کھنے لگا:کیا الله نے علی ابن الحسین کو قتل نھیں کیا؟(۱)" امام نے جواب دیا . وہ میرے ایک بھائی علی تھے جنھیں لوگوں نے قتل کردیا.,, وہ سرکش جاھل کھنے لگا .''نھیں! بلکہ الله نے قتل کیا"
امام نے یہ آیت پڑھی کہ "اَللهُ يَتَوَفیّ الانفُسَ حِینَ مَوتِھَا" یعنی الله ھی موت کے وقت قبضِ روح کرتا ھے اور الله کاقبض روح کرنا یہ الگ بات ھے جو سب کے لئے ھے.اس پر ابن زیاد کو غصہ آگیا اور کھا. تم میں اب بھی مجھ کو جواب دینے اور میری بات رد کرنے کی جراَت ھے اور فوراً قتل کا حکم دیا . یہ سننا تھا کہ حضرت زینب دوڑ کر اپنے بھتیجے سے لپٹ گئیں اور کھا کہ مجھ کو بھی اس کے ساتھ قتل کیاجائے . سیّد سجاد علیہ السّلام نے کھا کہ پھوپھی رہنے دیجئے اور مجھے ابن زیاد کا جواب دینے دیجئے . ابن زیاد تو یہ سمجھا تھا کہ کربلا میں ال محمد کے بھتے ھوئے خون کودیکھ کرسیّد سجاد علیہ السّلام کے دل میں موت کاڈر سما گیا ھوگا اور وہ قتل کی دھمکی سے سھم جائیں گے مگر بھادر حسین علیہ السّلام کے بھادر فرزند نے تیور بدل کر کھاکہ ابن زیاد تو مجھے موت سے ڈراتا ھے؟ کیا ابھی تک تجھے نھیں معلوم کہ قتل ھونا ھماری عادت ھے اور شھادت ھمای فضیلت ھے ۔ یہ وہ پر زور الفاظ تھے جنھوں نے ظالم کے سر کو جھکادیا , حکم قتل ختم ھوگیا او رثابت ھوگیا کہ حسین علیہ السّلام کی شھادت سے ان کی اولاد و اھل حرم پر کوئی خوف نھیںچھایا بلکہ قاتل اس خاندان کے صبر واستقلال کو دیکھ کر خوفزدہ ھوچکے ھیں . کوفہ کے بعد یہ قافلہ دمشق کی طرف روانہ ھوا جس دن دمشق میں داخلہ تھا اس دن وھاں کے بازارخاص اھتمام سے سجائے گئے تھے ، تمام شھر میں ائینہ بندی کی گئی تھی اور لوگ آپس میں عید مل رھے تھے . اس وقت حسین علیہ السّلام کے اھل حرم جو تکلیف محسوس کررھے تھے اس کا کون اندازہ کرسکتا ھے , ایسے وقت انسان کے ھوش وحواس بجانھیںرھتے مگر وہ سید سجاد علیہ السّلام تھے جو ھر موقع پر ھدایت واصلاح او رحسینی مشن کی تبلیغ کرتے جاتے تھے , جس وقت یہ قافلہ بازارسے گزر رھا تھا اموی حکومت کے ایک ھوا خواہ نے حضرت سجاد سے طنزیہ پوچھا . اے فرزندِ حسین کس کی فتح ھوئی؟ آپ نے جواب میں فرمایا . تم کو اگر معلوم کرنا ھے کہ کس کی فتح ھوئی تو جب نماز کا وقت آئے اور اذان و اقامت کھی جائے اس وقت سمجھ لینا کہ کس کی فتح ھوئی ۔ ا سی طرح اس وقت جب یہ قافلہ مسجدِ دمش کے دروازے پر پھنچا تو ایک بوڑھا سامنے آیا اور اس نے قیدیوں کودیکھ کر کھا کہ شکر ھے اس خدا کا جس نے تم کو تباہ وبرباد کیااو رملک کو تمھارے مردوں سے خالی اور پر امن بنایا . اور خلیفہ وقت یزید کا تم پر غلبہ فرمایا . ان اسیروں کے قافلہ سالار حضرت سجاد علیہ السّلام سمجھ گئے کہ یہ ھم لوگوں سے واقف نھیں.» فرمایا کہ اے شیخ کیا تم نے یہ آیت قرآن پڑھی ھے"قل لااسئلکم علیہ اجرالاالمودةفی القربیٰ "کھہ دو اے رسول! کہ میں سوائے اپنے اھلبیت کی محبت کے تم سے اس تبلیغ رسالت پر کوئی معاوضہ نھیں مانگتا . بوڑھے نے کھا ھاں یہ آیت میں نے پڑھی ھے , فرمایا وہ رسول کے اھل بیت ھم ھی ھیں جن کی محبت تم پر فرض ھے . یوں ھی خمس والی آیت میں جو ذوی القربیٰ کالفظ ھے اور آیہ تطھیر میں اھلبیت کالفظ ھے یہ سب آپ نے اس کو یاد دلایا . بوڑھا یہ سن کر تھوڑی دیر حیرت سے خاموش رھا پھر کھا کہ خد اکی قسم تم لوگ وھی ھو ؟ سیّد سجاد علیہ السّلام نے فرمایا . ھاں قسم بخدا ھم وھی اھلبیت اور قرابتداررسول ھیں. یہ سُن کر بوڑھا شیخ رونے لگا. عمامہ سر سے پھینک دیا . سر آسمان کی طرف بلند کیا اور کھا .خداونداگواہ رھنا کہ میں آل محمدکے ھر دشمن سے بیزار ھوں . پھر امام علیہ السّلام سے عرض کیا.,, کیا میری توبہ قبول ھوسکتی ھے ؟ فرمایا, اگر توبہ کرو تو قبول ھوگی اور ھمارے ساتھ ھوگے . اس نے عرض کیا کہ میں اس جرم سے توبہ کرتا ھوں جو میں نے واقف نہ ھونے کی وجہ سے آپ کی شان میں گستاخی کی .

کوفہ میں دربار ابن زیاد میں اور پھر بازارِ کوفہ میں اور پھر دمشق میں یزید کے سامنے سید سجاد علیہ السّلام اور دیگر اھلِ حرم کی دلیرانہ گفتگو، خطبے اور احتجاج وہ تھے جنھوںنے دنیا کو شھادت حسین علیہ السّلام کامقصد بتایا اور اس طرح امام زین العابدین علیہ السّلام نے اس مشن کوپورا کیا جسے امام حسین علیہ السّلام انجام دے رھے تھے .
رھائی کے بعد
قید شام سے رھائی کے بعد امام زین العابدین علیہ السّلام مع اھل حرم مدینہ گئے اور خاموش زندگی گزارنا شروع کی مگر مدینہ میں اب یزید کے خلاف جذبات بھڑک چکے تھے , ان لوگوں نے کوشش کی کہ امام زین العابدین علیہ السّلام کو اپنے ساتھ شریک کریں مگر امام علیہ السّلام ان کی نیت اور ان کے ارادوں کی حالت کو خوب جانتے تھے , آپ نے ان کا ساتھ دینا منظور نھیں فرمایا . اس لئے مدینہ پر جب یزید کی فوج نے چڑھائی کی تو امام زین العابدین علیہ السّلام کوبلاوجہ کوئی نقصان پھنچانے کی کوشش نھیں کی گئی مگر آپ کے روحانی صدمہ کے لئے یہ کافی تھا کہ رسول الله کی مسجد میں تین روز تک گھوڑے بندھے رھے سینکڑوں مسلمان شھید ھوئے اور سینکڑوں شریف عورتوں کی فوج یزید کے ھاتھوں عصمت دری ھوئی , یہ مصیبت آپ کے لئے نھایت ناگوار تھی مگر آپ نے صبرواستقلال کو ھاتہ سے جانے نہ دیا , ایسے موقع پر جب کہ شھادتِ حسین علیہ السّلام سے ھر طرف انقلاب برپا تھا اور مختلف جماعتیں خون حسین علیہ السّلام کابدلہ لینے کے لئے کھڑی ھوئی تھیں , حضرت امام زین العابدین علیہ السّلام کااس ھنگامہ سے الگ رہ کر صرف عبادت اور تعلیماتِ الٰھی کی اشاعت میں مصروف رھنا ایک بڑا حیرت ناک ضبطِ نفس کا نمونہ تھا .
اس میں کوئی شک نھیں کہ سلیمان ابن صرد خزاعی یامختار ابن ابی عبیدہ ثقفی جنھوں نے قاتلانِ حسین علیہ السّلام سے انتقام لیا, امام زین العابدین علیہ السّلام کے دل میں ان کے ساتھ ھمدردی کاجذبہ موجود تھا . آپ نے مختار کے لئے دعائے خیر فرمائی ھے اور آپ نے برابر لوگوں سے دریافت فرمایا ھے کہ کون کون قاتل حسین علیہ السّلام قتل کیئےگئے۔ مختار نے ان قاتلوں کو ان کے جرائم کی سزا دے کر سید سجاد علیہ السّلام کے زخمی دل پرا یک بڑا مرھم لگا دیا مگر آپ کا طرزِ عمل اتنا غیر متعلق اور محتاط رھا کہ آپ پر حکومت وقت کی طرف سے ان اقدامات کی کوئی ذمہ داری کبھی عائد نہ ھوسکی آپ کی پوری زندگی کادور الِ محمد اور ان کے شیعوں کے لئے پر اشوب رھا. یزیدکے تھوڑے ھی زمانہ کے بعد حجاج ابن یوسف ثقفی کے ذریعہ حکومت کاچُن چُن کر الِ رسول کے دوستوں کو قتل کرنا، حکومت کی طرف سے ھر ایک نقل وحرکت بلکہ گفتگو پر بھی خفیہ افراد کامقرر ھونا، اس صورت میں کھاں ممکن تھا کہ آپ ھدایت خلق کے فرائض کو آزادی کے ساتھ انجام دے سکتے مگر آپ اپنی خاموش زندگی سے دنیا کو رسول الله کی سیرت سے روشناس کر رھے تھے .
مشاغل زندگی
واقعہ کربلا کے بعد 43برس امام العابدین علیہ السّلام نے انتھائی ناگوار حالات میں بڑے صبروضبط اور استقلال سے گزارے۔ اس تمام مدت میں آپ دنیا کے شور وشر سے علٰیحدہ صرف دومشغلوں میں رات دن بسر کرتے تھے . ایک عبادت خدا دوسرے اپنے باپ پر گریہ , یھی آپ کی مجلسیں تھیں جو زندگی بھر جاری رھیں . آپ جتنا اپنے والد بزرگوار کے مصائب کو یاد کرکے روئے ھیں دنیا میں اتنا کسی نے گریہ نھیں کیا , ھر ھر وقت پر آپ کو حسین علیہ السّلام کی مصیبتیں یاد آتی تھیں . جب کھانا سامنے آتا تھا تب روتے تھے . جب پانی سامنے آتا تھا تب روتے تھے , حسین علیہ السّلام کی بھوک وپیاس یاد آجاتی تھی تو اکثر اس شدت سے گریہ وزاری فرماتے تھے اور اتنی دیر تک رونے میں مصروف رھتے تھے کہ گھر کے دوسرے لوگ گھبراجاتے تھے . اور انھیں آپ کی زندگی کے لئے خطرہ محسوس ھونے لگتا تھا .ایک مرتبہ کسی نے پوچھا کہ آخر کب تک رویئے گا تو آپ نے فرمایا کہ یعقوب نبی کے بارہ بیٹے تھے . ا یک فرزند غائب ھوگیا تو وہ اس قدر روئے کہ آنکھیں جاتی رھیں . میرے سامنے تو اٹھارہ عزیزواقارب جن کے مثل ونظیر دنیا میں موجود نھیں، قتل ھوگئے ھیں . میں کیسے نہ روؤں .
یوں تو یہ رونا بالکل فطری تاثرات کی تحریک سے تھا مگر اس کے ضمن میں نھایت پر امن طریقہ سے حسین علیہ السّلام کی مظلومیت اور شھادت کاتذکرہ زندہ رھا اور امام زین العابدین علیہ السّلام کے غیر معمولی گریہ کے چرچے کے ساتھ شھادت حسین علیہ السّلام کے واقعات کاتذکرہ فطری طور سے لوگوں کی زبانوں پر آتا رھا جو دوسری صورت میں اس وقت حکومت ُ وقت کے مصالح کے خلاف ھونے کی بنا پر ممنوع قرار پاجاتا .
دوسری مرتبہ گرفتاری
اتنی پر امن زندگی کے باوجود حکومت شام کو اپنے مقاصد میں حضرت علیہ السّلام کی ذات سے نقصان پھنچنے کااندیشہ ھوا ابن مروان نے اپنی حکومت کے زمانے میں آپ کو گرفتار کراکے مدینہ سے شام کی طرف بلوایا . اور دوتین دن آپ دمشق میں قید رھے مگر خدا کی قدرت تھی اور آپ کی روحانیت کااعجاز جس سے عبدالملک خود پشیمان ھوا اور مجبوراً حضرت زین العابدین علیہ السلام کو مدینہ واپس ھوجانے دیا .
اخلاق وکمالات
پیغمبر خدا کی مبارک نسل کی یہ خصوصیت تھی کہ بارہ افرد لگاتار ایک ھی طرح کے انسانی کمالات اور بھترین اخلاق واوصاف کے حامل ھوتے رھے جن میں سے ھر ایک اپنے وقت میں نوعِ انسانی کے لئے بھتر ین نمونہ تھا، چنانچہ اس سلسلہ کی چوتھی کڑی سیّد سجاد علیہ السّلام تھے جو اخلاق واوصاف میں اپنے بزرگوں کی یاد گار تھے . اگر ایک طرف صبر وبرداشت کا جو ھر وہ تھا جو کربلا کے آئینہ میں نظر ایا تو دوسری طرف حلم اور عفو کی صفت آپ کی انتھا درجہ پر تھی . آپ نے ان موقعوں پر اپنے خلاف سخت کلامی کرنے والوں سے جس طرح گفتگو فرمائی ھے اس سے صاف ظاھر ھے کہ آپ کاحلم اس طرح نہ تھا جیسے کوئی کمزور نفس والا انسان ڈر کر اپنے کو مجبور سمجھ کر تحمل سے کام لے بلکہ آپ عفو اور درگزر کی فضیلت پر زور دیتے ھوئے اپنے عمل سے اس کی مثال پیش کرتے تھے . ایک شخص نے بڑی سخت کلامی کی اور بھت سے غلط الفاظ آپ کے لیئے استعمال کیے . حضرت علیہ السّلام نے فرمایا , جو کچہ تم نے کھا اگر وہ صحیح ھے تو خدا مجھے معاف کرے اور اگر غلط ھے تو خدا تمھیں معاف کر دے . اس بلند اخلاقی کے مظاھرے کاایسا اثر پڑا کہ مخالف نے سر جھکا دیا اور کھا حقیقت یہ ھے کہ جو کچہ میں نے کھا وہ غلط ھی تھا۔ ایسے ھی دوسرے موقع پرا یک شخص نے آپ کی شان میں بھت ھی نازیبا لفظ استعمال کیا . حضرت نے اس طرح بے توجھی فرمائی کہ جیسے سنا ھی نھیں، اس نے پکار کے کھا کہ میں آپ کو کھہ رھا ھوں . یہ اشارہ تھا اس حکم قران کی طرف کہ "خذالعفووامربالمعروف واعرض عن الجاھلین" یعنی عفو کو اختیار کرو اچھے کاموں کی ھدایت کرو اور جاھلوں سے بے توجھی اختیار کرو .
ھشام ابن اسماعیل ایک شخص تھا جس سے حضرت علیہ السّلام کی نسبت کچھ ناگوار باتیں سرزد ھوئیں تھیں، یہ خبر بنی امیہ کےنیک بادشاہ عمر بن عبدالعزیز تک پھنچی . اسنے حضرت کو لکھا کہ میں اس شخص کو سزا دوں گا .آپ نے فرمایا کہ میں نھیں چاھتا کہ میری وجہ سے اس کو کوئی نقصان پھنچے .
آپ کی فیاضی اور خدمت خلق کاجذبہ ایسا تھا کہ راتوں کو غلہ اور روٹیاں اپنی پشت پر رکہ کر غریبوں کے گھروں پر لے جاتے تھے اور تقسیم کرتے تھے . بھت سے لوگوں کو خبر بھی نہ ھوتی کہ وہ کھاں سے پاتے ھیں اور کون ان تک پھنچاتا ھے جب حضرت کی وفات ھوئی اس وقت انھیں پتہ چلا کہ یہ امام زین العابدین علیہ السّلام تھے . عمل کی ان خوبیوں کے ساتھ علمی کمال بھی آپ کاایسا تھا جو دشمنوں کو بھی سرجھکانے پر مجبور کرتا تھا اور ان کو اقرار تھا کہ آپ کے زمانے میں فقہ اور علم دین کا کوئی عالم آپ سے بڑھ کر نھیں . ان تمام ذاتی بلندیوں کے ساتھ آپ دنیا کو یہ سبق بھی دیتے تھے کہ بلند خاندان سے ھونے پر ناز نھیں کرنا چاھیے . یھاں تک کہ آپ جب کبھی مدینہ سے باھر تشریف لے جاتے تھے تو آپ نام ونسب لوگوں کو نھیں بتاتے تھے . کسی نے اس کاسبب پوچھا تو فرمایا , مجھے یہ اچھا نھیں معلوم ھوتا کہ میں اپنے نسب کاسلسلہ تو پیغمبر خدا(ص) تک ملاؤں اور ان کے صفات مجھ میں نہ پائے جائیں .
عبادت
آپ کی مخصوص صفت جس سے آپ زین العابدین اور سیدالساجدین مشھور ھوئے وہ عبادت ھے .باوجود یہ کہ آپ کربلا کے ایسے بڑے حادثے کو اپنی انکھوں سے دیکھ چکے تھے . باپ بھائیوں اور عزیزوں کے دردناک قتل کے مناظر برابر آپ کی آنکھوں میں پھرا کرتے تھے اس حالت میں کسی دوسرے خیال کاذھن پرغالب آنا عام انسانی فطرت کے لحاظ سے بھت مشکل ھے مگر باپ کے اس غم وصدمہ پر جس نے عمر بھر سید سجاد علیہ السّلام کو رلایا اگر کوئی چیز غالب آئی تو وہ خوف خدا اور عبادت میں محویت تھی . یھاں تک کہ اس وقت آپ کے تصورات کی دنیا بدل جاتی تھی ، چھرہ کارنگ متغیر ھوجاتا تھا اور جسم میں لرزہ پڑجاتا تھا کوئی سبب پوچھتا تو فرماتے تھے کہ خیال کرو , مجھے کس حقیقی سلطان کی خدمت میں حاضر ھونا ھے .
اس دور میں کہ جب دنیا کے دل پر دنیوی بادشاھوں کی عظمت کااثر تھا اور خالق کو بالکل بھول چکی تھی، سیّد سجاد علیہ السّلام ھی تھے جن کی زندگی خالق کی عظمت کااحسا س پیدا کرتی تھی .
صحیفئہ سجّادیہ یازبور آلِ محمد علیہ السّلام۔
حضرت امام زین العابدین علیہ السّلام کو زمانہ اس کی اجازت نھیں دے سکتا تھا کہ وہ اپنے داداعلی ابن ابی طالب(ع) کی طرح خطبوں (تقریروں ) کے ذریعہ سے دُنیا کوعلوم ومعارف اور الٰھیات وغیرہ کی تعلیم دییں، نہ ان کے لئے اس کاموقع تھا کہ وہ اپنے بیٹے امام محمد باقر یااپنے پوتے جعفر صادق کی طرح شاگردوں کے مجمع میں علمی ودینی مسائل حل کریں اور دنیا کو اچھی باتوں کی تعلیم دیں . یہ سب باتیں وہ تھیں جو اس وقت کی فضا کے لحاظ سے غیر ممکن تھیں .
اس لئے امام زین العابدین علیہ السّلام نے ایک تیسرا طریقہ اختیار کیا جو بالکل پر امن تھا اور جسے روکنے کادنیا کی کسی طاقت کو کوئی بھانہ نھیں مل سکتا تھا۔ وہ طریقہ یہ تھا کہ تمام دنیا والوں سے منہ موڑ کر وہ اپنے خالق سے مناجات کرتے اور دعائیں پڑھتے تھے . مگر یہ مناجاتیں اور دعائیں کیا تھیں ? الٰھیات کاخزانہ , معارف وحقائق کاگنجینہ، خالق اور مخلوق کے باھمی تعلق کاصحیح آئینہ۔ ان دعاؤں کا مجموعہ صحیفہ کاملہ , صحیفہ سجادیہ اور زبور آلِ محمد کے ناموں سے اس وقت تک موجود ھے .
شھادت
افسوس ھے کہ حضرت امام زین العابدین علیہ السّلام کی یہ خاموش زندگی بھی ظالم حکومت کوناگوار ھوئی اور اموی بادشاہ ولید بن عبدالملک نے آپ کو زھردلوا دیا اور اس طرح۲۵محرم ۹۵ھ شھر مدینہ میں شھادت ھوئی . امام محمد باقر علیہ السّلام نے اپنے مقدسّ باپ کی تجھیز وتکفین کاانتظام کیااور جنت البقیع میں حضرت امام حسن علیہ السّلام کے پھلو میں دفن کیا.
حوالہ:
۱۔ابن زیاد کامقصد اس جملے سے "کیاالله نے علی ابن الحسین علیہ السّلام کو قتل نھیں کیا؟ یہ تھا کہ علی ابن احسین علیہ السّلام (علی اکبر) معاذالله بحکمِ خدا قتل ھوئے ۔ امام علیہ السّلام نے اس کی تردید کرتے ھوئے فرمایا اس کا مطلب یہ ھے کہ ان کا قتل ھر گز حکم خدا سے نھیں بلکہ ان کو فوج یزید نے ظلم سے قتل کیا ھے , یہ دوسری بات ھے کہ مرنے والا اپنی موت سے مرے یا قتل کیا جائے ھر صورت میں قبض روح کرنے والا خدا ھے ۔
 

Add comment


Security code
Refresh